سوشل میڈیا انسانی ذہن کیلئے مضر؟
اسپیشل فیچر
دورِ مابعد جدیدیت کے علم و دانش نے انسان کیلئے بہت سی دلچسپ چیزیں پیدا کیں، جن میںسے ایک سوشل میڈیا ہے۔ اگردیکھا جائے تو یہ کسی نعمت سے کم نہیں کیوںکہ سوشل میڈیا تمام معاشروں کو آپس میں مکمل طور پر جوڑ چکا ہے۔ اس کی بدولت انسان نہ صرف ایک لمحے میں اپنا پیغام دنیا کے کسی بھی کونے تک پہنچا سکتا ہے بلکہ کاروبار، سیاست اور تعلیم و تفریح کے معاملات بھی سرحدوں سے ماورا ہوچکے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذہنی صحت پرمنفی اثرات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے والے ماہرین جین ٹوینگے (Jean Twenge) اور شیری ٹرکل (Sherry Trukle)نے سوشل میڈیا کے بے جا استعمال کو انسانی دماغ کیلئے انتہائی مضر قرار دیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا کا مسلسل استعمال بالخصوص نوجوان نسل میں ذہنی صحت کے مسائل (بے چینی، ڈپریشن و دیگر)کا باعث بنتا ہے۔ مثال کے طور پر لوگ فیس بک یا انسٹاگرام پرزندگی کی ایک غیر حقیقی تصویر کشی کرتے ہوئے اپنی زندگی کے بہترین حصوں کی نمائش کرتے ہیں۔جو لوگ سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان میں قناعت پسندی، خود اعتمادی اور اطمینان کی کمی پائی جاتی ہے۔
برطانیہ میں رائل سوسائٹی فار پبلک ہیلتھ کی جانب سے کیے گئے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ انسٹاگرام نوجوانوں کی ذہنی صحت کیلئے سب سے زیادہ نقصان دہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے۔ جس کے جسمانی و ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔
سوشل میڈیا صارفین میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے اور اپ ٹو ڈیٹ رہنے کی عادت پیدا کرتا ہے۔ یہ صارفین کے ذہن کو اس طرح متاثر کرتا ہے کہ وہ زندگی کے حقیقی مسائل کی بجائے غیر ضروری مسائل میں الجھے رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال انسانوں میںسماجی تنہائی، ادھورے پن کا احساس اور کھو جانے کا خوف پیدا کرتا ہے۔
جرنل آف ایڈولیسنٹ ہیلتھ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا کے کثرت سے استعمال کی وجہ سے لوگوں کی آپس میں بات چیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، جس کی وجہ سے انسان کی سماجی مہارتوں اور جذباتی نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اسی طرح ٹرکل کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال بامعنی تعلقات اور روابط کو نقصان پہنچاتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا صارفین زیادہ سطحی تعلقات رکھتے ہیں اور گہری بات چیت میں مشغول نہیں ہوپاتے تاہم اس کے باعث مجموعی طور پرانسانوں میں تنہائی کا اضافہ ہو رہا ہے۔ پیو (PEW)ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکہ میں 69 فیصد بالغ افراد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے 74 فیصد صارفین کا ماننا ہے کہ اس کے استعمال سے ان کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ٹوینگے اور ٹرکل دونوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال ایک نشے کی مانند ہے۔اس کی لت انسان کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ سوشل میڈیا کی لت لوگوں کو ان کی حقیقی زندگی پر اپنی آن لائن زندگی کو ترجیح دینے کا سبب بن رہی ہے۔ ''جرنل آف سوشل اینڈ کلینکل سائیکالوجی‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کو روزانہ 30 منٹ تک محدود رکھنے سے ذہنی صحت میں نمایاں بہتری آسکتی ہے جبکہ یہ عمل زندگی میں تنہائی اور افسردگی کے احساسات کی کمی کا باعث بھی بنے گا۔سوشل میڈیاکا استعمال دماغی صحت کو متاثر کرنے والی کئی حیاتیاتی اور اعصابی تبدیلیوں سے منسلک ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا کا استعمال دماغ میںایک ہارمون ''ڈوپامائن‘‘ کے اخراج میں ایک مسلسل تحریک پیدا کرتا ہے، جس سے انسان کو حد سے زیادہ خوشی کا احساس ہوتا رہتا ہے۔اگر سوشل میڈیا کے ذریعے بار بار اور ضرورت سے زیادہ ڈوپامائن ملتا رہے تو ڈوپامائن ریسیپٹرز کی غیر حساسیت کا باعث بن سکتا ہے۔اگر مختصر وقت کیلئے انسان کو یہ ڈوپامائن نہ مل سکے تواس کی وجہ سے انسان بے سبب بے چینی میں مبتلا رہتا ہے۔ایسی صورتحال میں وہ لوگ جو بہت زیادہ متاثر ہوں ان سے خوشی اور حیرت کا احساس چھن جاتا ہے۔ موبائل سکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنی نیند کو منظم کرنے والے ہارمون میلاٹونن کی پیداوار کو روک دیتی ہے۔ جس کے باعث انسان نیند میں خلل اور بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے۔
ذہنی صحت پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات کے بارے میں ٹوینگے اور ٹرکل کے نظریات سے بعض ماہرین نے اختلاف کیا ہے۔ جن میں سے کچھ کا ماننا ہے کہ وہ ایسے نظریات کے حامی ہیں جو سوشل میڈیا کے استعمال کے مثبت پہلوؤں، جیسے کہ سماجی تعاون، کمیونٹی کی تعمیر، اور ایکٹیوزم کو مدنظرنہیں رکھتے۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ ذہنی صحت پر سوشل میڈیا کا اثر فرداً فرداً مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ سماجی تناظر اور ثقافتی پس منظرکی وجہ سے عین ممکن ہے سوشل میڈیا ان کیلئے با لکل مختلف حقیقت رکھتا ہو۔ تاہم ایسے نظریات کو ہر کسی کیلئے لازم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سوشل میڈیا اگر ضرورت کے مطابق کاروبار، تعلیم و تربیت یا تفریح کیلئے محدود وقت میں استعمال کیا جائے تو بلاشبہ یہ بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر بہت سے لوگ اس کے استعمال کے دوران اپنی شخصیت پر قابو نہیں رکھ پاتے اور اپنے وقت کا ایک اہم حصہ اس پر ضائع کر دیتے ہیں جو ان کیلئے انتہائی نقصاندہ ثابت ہوتاہے۔