وادی ٔ سندھ کی تہذیب کیو ں ختم ہوئی؟
اسپیشل فیچر
انسانی معاشرے نے وقت کے ساتھ ساتھ بہت ترقی کی اورآج ایک بہترین سہولیات کے ساتھ ہم ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جسے انسانی ترقی کی معراج کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ آج سے ہزاروں برس قبل بھی کئی ایسے معاشرے اور تہذیبیں گزری ہیں جنہیں بہترین اور جدید انسانی معاشرہ قرار دیا جاتا تھا۔یہ تہذیبیں کیسے ختم ہو گئیں؟اس پر آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ حال ہی میں نئی تحقیق میں اس راز پر سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ پراسرار جنوبی ایشیائی تہذیب تقریباً3ہزار 600 سال قبل کیوں غائب ہو گئی؟۔انڈس سویلائزیشن تقریباً3600 سال قبل صفحہ ہستی سے کیوں غائب ہو گئی۔
نئی تحقیق کے مطابق انتہائی ترقی یافتہ سمجھی جانے والی قدیم تہذیب جنوبی ایشیا کے شمال مغربی علاقوں میں پروان چڑھی۔وادی سندھ کی تہذیب، جسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہا جاتا ہے تقریباً 2600 قبل مسیح سے 1900 قبل مسیح تک کانسی کے دور میں جنوبی ایشیا کے شمال مغربی علاقوں میں پروان چڑھی۔ انتہائی ترقی یافتہ سمجھی جانے والی یہ تہذیب دریائے سندھ کے طاس میں پھیلی ہوئی تھی، جو آج کے دور میں پاکستان، ہندوستان اور افغانستان کے کچھ حصوں کا احاطہ کرتا ہے۔اپنی نمایاں کامیابیوں کے باوجود وادی سندھ کی تہذیب کے بارے میں بہت کچھ ابھی تک ایک معمہ ہی ہے۔ اس تہذیب کے سماجی اور سیاسی ڈھانچے، زبان اور اس کے زوال اور معدوم ہونے کی وجوہات سمیت بہت کچھ ہم ابھی نہیں جانتے۔ اس تہذیب کی تحریری زبان، جسے ابھی سمجھنا باقی ہے نے اس کی تاریخ اور ثقافت کو پوری طرح سمجھنا مشکل بنا دیا ہے۔ متعدد ماہرین نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ وادی سندھ میں تقریباً 4ہزار 200 سال قبل خشک سالی آئی تھی مگر اس کی شدت کا تعین کرنا بھی ابھی باقی ہے۔
وادی سندھ کی تہذیب کے معدوم ہونے کے پیچھے ایک بنیادی نظریہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ تہذیب کا زوال موسمیاتی تبدیلی کے دور کے ساتھ ہوا، جس کی نشاندہی ایک طویل خشک سالی سے ہوئی جو کئی صدیوں تک جاری رہی۔ نتیجتاً دریائے سندھ جو تہذیب کی جان تھی، آہستہ آہستہ سوکھ گیا، جس سے پانی کی کمی اور زرعی پیداوار میں کمی واقع ہوئی۔ وادی سندھ کے لوگ زراعت پر بہت زیادہ انحصار کرتے تھے، اور پانی کی کمی کا ان کے معاشرے پر تباہ کن اثر پڑتا۔ یہ بدلے میں سماجی اور معاشی عدم استحکام کا باعث بن سکتا تھا۔ جس کا نتیجہ بالآخر تہذیب کے خاتمے کی صورت میں نکلتا ہے۔
معروف جریدے ''کمیونیکیشنز ارتھ اینڈ انوائرمنٹ‘‘ کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہمالیہ میں دھرم جلی غار (Dharamjali)کے اندر پایا جانے والا سٹالگمائٹ (stalagmite) قدیم تہذیب میں زندگی کی تفصیلی تصویر کشی کرتا ہے۔ یہ غار بھارت کی ریاست اتراکھنڈ کے ہمالیائی علاقے میں واقع ہے۔ سٹالگمائٹ معدنی ذخائر کا ایک اوپر کی طرف بڑھتا ہوا ٹیلہ ہے جو غار کے فرش پر ٹپکنے والے پانی سے نکلتا ہے۔ زیادہ تر سٹالگمائٹس کے سرے گول یا چپٹے ہوتے ہیں۔ غاروں میں بہت سی دوسری قسم کی معدنی شکلیں پائی جاتی ہیں۔
سائنسدان ''سٹالگمائٹ ‘‘ سے نکالے گئے معدنی مواد کا استعمال کرتے ہوئے 4ہزار 200 سال پہلے کے تاریخی بارش کے نمونوں کو دوبارہ بنانے کے قابل ہو گئے تھے۔ محققین کے مطابق انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک میگا خشکی جو تقریباً 100سے200 سال تک جاری رہی کی بجائے4ہزار 200 سے3ہزار 900 سال پہلے کے درمیان ''تین بڑے خشک ادوار‘‘ آئے تھے جن میں سے ہر دور 25سے90 سال تک جاری رہا۔
سندھ کی بستیوں نے ان طویل خشک ادوار کے دوران پانی تک اہم رسائی کھو دی کیونکہ گرمیوں اور سردیوں دونوں میں بارش میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ اس دوران ضروری فصلوں کیلئے پانی کم د ستیاب ہوا اور ہڑپہ سمیت سندھ کے بڑے شہروں کی آبادی میں کمی واقع ہوگئی کیونکہ لوگ ''چھوٹی اور زیادہ عارضی دیہی بستیوں‘‘ میں چلے گئے۔محققین نے انڈس کے شہری مراکز میں دستکاری کی سرگرمیوں اور اختراعات میں کمی کی طرف بھی اشارہ کیااور طویل فاصلے کے تبادلے اور تجارت کی جانب بھی۔
اس ریسرچ کی سرکردہ مصنفہ ایلینا گیشے جس نے اپنی پی ایچ ڈی کرتے ہوئے کیمبرج یونیورسٹی میں یہ تحقیق کی نے نوٹ کیا کہ آثار قدیمہ کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ 200 سال کے عرصے میں، قدیم باشندوں نے نئے طریقوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کیلئے مختلف اقدامات کیے۔ریسرچ کے مطابق وادی سندھ کی تہذیب تقریباً3ہزار 600 سال پہلے مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی یعنی آخری خشک دور کے تقریباً 300 سال بعد۔
کچھ اسکالرز اور ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کا زوال اس کے اپنے اندرونی مسائل، جیسے زیادہ آبادی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے تھا۔ تہذیب کے شہر گنجان آباد تھے، کچھ اندازوں کے مطابق سب سے بڑے شہر موہنجو داڑو کی آبادی40ہزار تک تھی۔ اتنی بڑی آبادی نے ماحولیات پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا ہوگا، جس سے وسائل کی کمی اور ماحولیاتی توازن خراب ہوا۔ مزید یہ کہ تہذیب کا اپنی آبی ضروریات کیلئے ایک دریا پر انحصار نے اسے پانی کی کمی اور دیگر ماحولیاتی مسائل کا شکار بنا دیا۔