موبائل سکرین، خاموش قاتل

 موبائل سکرین، خاموش قاتل

اسپیشل فیچر

تحریر : نادیہ سلیم


موبائل فون آج کی تیز رفتار زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگرچہ سائنسدان اور طبی محققین اب تک اس کے استعمال سے صحت پر پڑنے والے مختلف منفی اثرات کی جانب کئی سالوں سے اشارہ کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موبائل فون کم عمر بچوں کے ہاتھوں میں تھما دینا ان بچوں کی صحت کیلئے سنگین اور پیچیدہ مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔ ان انکشافات نے یہ سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ ان سنگین مسائل سے بچنے کیلئے والدین کو کس طرح کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ تاہم ابھی تک ان حفاظتی اقدامات کے بارے میں واضح تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔واضح رہے کہ نہ صرف مغرب بلکہ خود ہمارے معاشرے میں بھی ایسے والدین موجود ہیں جو ویڈیو لگاکر موبائل بچے کو پکڑا دیتے ہیں تاکہ بچہ اس سے کھیلتا رہے اور وہ سکون سے اپنا کام کرتے رہیں۔صورتحال کو اس طرح سمجھنا زیادہ آسان ہے کہ سکول جانے والے پانچ سے نو سال کی عمر کے ہر نو بچوں میں سے ایک کے ہاتھ میں موبائل سیٹ ہے۔ گزشتہ دو سال کے مقابلے میں یہ اعداد و شمار دو گنا زائد ہیں اور آئندہ دو تین سالوں میں اور زیادہ ہو سکتے ہیں۔
حکومت برطانیہ اس تحقیق کے نتائج کی روشنی میں ایسے حفاظتی اقدامات پر غور کر رہی ہے جس سے نوجوانوں خصوصاً بچوں کو موبائل فون کے استعمال سے پیدا ہونے والی ریڈیائی لہروں کے مضر اثرات سے جہاں تک ممکن ہو سکے بچایا جا سکے۔ محققین کا کہنا ہے کہ موبائل فون کے استعمال کے دوران خارج ہونے والی ریڈیائی لہریں ان کے نشوونما پاتے ہوئے جسمانی اعضا پر مضر اثرات ڈال سکتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان میں متعدد بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ 16 سال سے کم عمر کے سکول کے بچوں میں موبائل فون کی دلچسپی کا ایک سبب فون کمپنیوں کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا جانا بھی ہے۔ دلچسپ گیمز سے بچے ان کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کی ضد سے مجبور ہو کر انہیں یہ سہولت فراہم کر دیتے ہیں لیکن افسوس کہ وہ جسے سہولت سمجھ رہے ہیں وہ ان کے بچے کے لئے طویل المیعاد جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی خرابی کی بنیاد ہے۔ پرائمری سکول میں زیر تعلیم ایک 9 سالہ ایسے بچے کی ماں جس کے پاس موبائل فون ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے فون بچے کو اس لئے خرید کر دیا ہے کہ میں اس کے تحفظ کے بارے میں پریشان رہتی ہوں اور موبائل کے ذریعے میں ہر وقت اس سے رابطے میں رہتی ہوں۔ اس کے علاوہ وہ بھی مجھ سے فون اور پیغام کے ذریعے گھر سے دور ہونے کے بعد بھی رابطہ رکھتا ہے۔
تحقیق میں والدین کو متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تاکید کریں کہ نہایت ضروری کال کے سوا موبائل فون استعمال کرنے سے گریز کریں۔ اس طرح والدین اپنے بچوں کو ممکنہ حد تک ریڈیائی لہروں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔والدین کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بچوں کا جسمانی نظام اور ان کی ہڈیوں کا ڈھانچہ اس عمر میں نشوونما پانے کے عمل میں ہوتا ہے اور اس دوران ریڈیائی لہریں بآسانی ان کے دماغ اور کھوپڑی کی ہڈی کو متاثر کر سکتی ہیں۔ماہرین کم عمر بچوں کو موبائل فون سیٹ دلانے کے شدید مخالف ہیں اور والدین کے اس عذر کو مسترد کر دیتے ہیں کہ انہوں نے بچوں کو موبائل فون تحفظ کے تحت لے کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کا خیال خود رکھیں نہ کہ یہ ذمہ داری موبائل فون کو سونپ دیں۔ بچے گھر کے باہر کیا کرتے ہیں یہ بات جاننا والدین کی ذمہ داری ہے۔ بچے کے سکول جانے اور آنے کے اوقات متعین ہوتے ہیں۔ انہیں سکول چھوڑ کر اور چھٹی کے بعد واپس لے کر آیا کریں۔ معالجین کہتے ہیں کہ اب والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحت اور ان کے صحت مند مستقبل کیلئے اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔ انہیں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ موبائل فون کے استعمال سے خارج ہونے والی شعاعیں اور دماغ پر ان کے اثرات مستقبل میں ان کے بچے کیلئے ایسے کئی عوارض لاحق ہونے کا سبب بن سکتے ہیں جن کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عوارض کس قسم کے ہوں گے۔
کم عمر بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون کا ایک اور بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ بچے سارا سارا دن فون پر ٹیکسٹ میسجز پر مصروف رہتے ہیں اب وہ کس کے ساتھ اور کس قسم کی چیٹنگ میں مصروف ہیں اس کا علم والدین کو نہیں ہوتا اور آج کل کے والدین تو اس بات کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ ان کا بچہ کس قسم کی سرگرمیوں میں مصروف ہے بلکہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب فون پر گفتگو یا میسجنگ کو ماڈرن ازم کا نام دیا جاتا ہے۔ والدین کی یہ لاپروائی بچوں کو غلط راہوں پر لے جاتی ہے اور نتیجہ پھر ایک ناقابل تلافی نقصان کی صورت میں سامنے آتا ہے، مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔موبائل فون کا ایسا استعمال نہ صرف بچوں کے معصوم ذہنوں کو تباہ کر رہا ہے بلکہ اخلاقی اور نفسیاتی طور پر بھی ان کی شخصیت کو مسخ کر دیتا ہے۔ والدین اور بچوں میں بڑھتی ہوئی دوری اور اختلافات کا ایک بڑا سبب موبائل فون بھی ہیں کیونکہ جتنا ٹائم بچے ان موبائل فونز پر بے مقصد ٹیکسٹ کرتے ہوئے گزارتے ہیں وہ ٹائم اگر مل جل کر گزاریں، آپس میں ایک دوسرے کو ٹائم دیں تو گھر سکون اور جنت کا گہوارہ بن جائے۔پانچ سے نو سال کی عمر کے بچے تو الگ اکثر والدین شیر خوار بچوں کو بہلانے کی خاطر ان کے ہاتھوں میں موبائل فون آن کر کے تھما دیتے ہیں یا اس کی رنگ ٹون آن کرکے اُن کے کانوں کو لگاتے ہیں۔ یہ عمل ان شیر خواروں کی صحت سے کھیلنے کے مترادف ہے اور پوری دنیا میں بچوں کو موبائل فون کے ذریعے پیدا ہونے والے طویل المیعاد مضر اثرات اور ان کے جسم میں اس کے استعمال سے رونما ہونے والے سست عوارض سے بچنے کیلئے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی اشد ضرورت ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
عباس ابن فرناس دنیا کا پہلا ہواباز

عباس ابن فرناس دنیا کا پہلا ہواباز

852ھ، خلیفہ عبدالرحمان دوئم کا دور تھا۔ جب خلیفہ عبدالرحمان نے اپنی سلطنت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے باصلاحیت اور ہنر مند افراد کو اپنی سلطنت میں بہترین جوہر دکھانے کی دعوت دی۔ ان گراں قدر افراد میں عباس ابن فرناس بھی شامل تھے۔ اسی مجمعے میں ایک شخص ارمن فرمن کا بڑا ذکر تھا جس نے دعویٰ کر رکھا تھا کہ اس نے پرندوں کی مانند اڑنے کی صلاحیت حاصل کررکھی ہے۔ارمن نے اپنے دعوے کی تصدیق کیلئے ایک بھرے مجمعے کے سامنے اڑنے کا دعویٰ کیا اور یوں ایک دن کپڑے سے بنے چیل کے پروں سے مشابہ پروں کے ساتھ اس نے ایک بلند عمارت سے اڑنے کی کوشش کی۔ وہ بہت پراعتماد تھا لیکن پہلی ہی کوشش کے دوران وہ زمین پر آن گرا۔ابتدائی طور پر اسے زخم آئے لیکن کچھ عرصہ بعد یہ کم از کم چلنے پھرنے کے لائق ہو گیا۔ حاضرین محفل میں ایک شخص عباس ابن فرناس بھی تھے جو بڑے انہماک سے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ ان کے اندر پرندوں کی مانند اڑان بھرنے کی ایک نئی خواہش نے جنم لیا تو انہوں نے اٹھتے بیٹھتے پرندوں کا مشاہدہ کرنا شروع کر دیا۔کوئی لمحہ ایسا نہ ہوتا جب یہ پرندوں کی حرکات و سکنات پر نظریں جمائے نہ ہوتے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ عباس ابن فرناس کی یہ تحقیق 23 برس تک جاری رہی۔ اس دوران انہوں نے پرندوں کی پرواز کی تکنیک یعنی ''ایرو ڈائنا میکس‘‘ کا بغور مطالعہ کیا۔ عباس ابن فرناس کون تھے ؟عباس ابن فرناس، اندلس (مسلم سپین) کے شہر اذن رند اوندا میں 810 ء میں پیدا ہوئے۔ بنیادی طور یہ بربر نژاد تھے اور ان کا تعلق جنوبی سپین کے ضلع رونڈا سے تھاجبکہ بعدازاں یہ قرطبہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے عمر کا زیادہ حصہ بسر کیا۔ یوں تو ابن فرناس کی شناخت ایک موجد ، مہندس، طبیب، ماہر فلکیات، ماہر طبیعیات، کیمیا دان، ریاضی دان اور ایک شاعر کے طور پر ہوتی ہے لیکن یہ علم ریاضی ، طبیعیات ، پراسرار علوم اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں یکتا تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں ان سے ایک واقعہ منقول ہے۔ ایک دفعہ ایک تاجر بلاد مشرق سے واپسی پر مشہور مسلمان عالم خلیل ابن احمد کی ایک کتاب ہمراہ لایا۔ یاد رہے کہ خلیل ابن احمد ، بغداد میں آٹھویں صدی عیسوی میں ایک عالم ، شاعر اور ماہر لسانیات ہو گزرے ہیں جن کے کارہائے نمایاں میں عربی زبان کی پہلی لغت تیار کرنا بھی شامل تھا۔یہ کتاب سپین میں بالکل نئی تھی اور لوگوں کی سمجھ سے بالاتر تھی۔چنانچہ لوگوں نے اسے ابن فرناس کے سپرد کیا۔ ابن فرناس اسے لے کر ایک کونے میں بیٹھ گئے اور چند ساعتوں میں اس کی ریاضیاتی ترکیب اور مطالب انتہائی مہارت سے حاضرین کو بیان کئے، جسے سن کر لوگ ان کی ذہانت اور قابلیت پر ششدر رہ گئے۔انہوں نے پانی کی گھڑی ایجاد کی ،کرسٹل بنانے کا فارمولا انہی کی ایجاد ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی تجربہ گاہ میں شیشے اور مشینوں کی مدد سے ایک ایسا پلانیٹیریم بنا ڈالا جس میں لوگ بیٹھ کر ستاروں اور بادلوں کی حرکات اوران کی گرج چمک کا مظاہرہ بھی دیکھ سکتے تھے۔علم ہئیت اور فلکیات کے حوالے سے اندلسی مسلمان سائنس دانوں میں علی بن خلاق اندلسی اور مظفر الدین طوسی کی خدمات لائق تحسین ہیں لیکن مورخین کے مطابق ان کامیابیوں میں عباس ابن فرناس کا حصہ کلیدی حیثیت یوں رکھتا ہے کہ فرناس نے اپنے گھر میں ایک کمرہ علم ہئیت اور فلکیات کی تجربہ گاہ کے طور پر وقف کر رکھا تھا جو دور جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium ) کی بنیاد بنا۔انہوں نے اپنی ساری زندگی سائنس کی ترویج اور ترقی کیلئے وقف کئے رکھی۔اسی لئے انہیں اپنے دور کا عظیم ترین عالم اور سائنسدان کہا جاتا تھا ۔ ا ن کی ایجادات اور اختراعات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ابن فرناس ایک ذہین اور ذرخیز ذہن کے مالک انجینئر تھے۔ اگرچہ قدیم یونانیوں اور مصریوں نے بھی بہت پہلے اڑنے والی مشین بنانے کی بارہا کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔اس لحاظ سے ابن فرناس دنیا کے وہ پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اڑایا۔بعض ازاں البیرونی اور ازر قوئیل وغیرہ نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ابن فرناس کی اڑان بھرنے کی کوشش کن کن مراحل سے گزر کر بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ابن فرناس نے اپنی ہر اڑان کے بعد کچھ نیا سیکھا اور ہر بار وہ اس میں تبدیلیاں کر کے اپنی غلطیاں دور کرتے رہے۔ تاریخی کتابوں میں پندھرویں صدی کے ، لیو نارڈو ڈاونچی کے طیارے کو عام طور پر دنیا کا پہلا طیارہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ابن فرناس نویں صدی عیسوی میں اپنے طیاروں کے ساتھ کامیاب پرواز کر چکے تھے۔ البتہ لیو نارڈو دا ونچی کے طیاروں کو دور جدید کے طیاروں کی ابتدائی شکل قرار دیا جا سکتا ہے۔ہوا بازی کی شروعات عباس ابن فرناس نے اپنی زندگی کی پہلی باقاعدہ اڑان کا آغاز 852 عیسوی میں ایک بھرے مجمعے کے سامنے کیا تھا۔اپنی پہلی پرواز میں انہوں نے خود کو ایک لمبے کوٹ میں لپیٹ کر لکڑی سے بنائے گئے ایک تابوت نما ڈھانچے میں بند کر لیا۔ باہر کی جانب دونوں بازوں کو پھیلا کر اس نے ان سے پروں کا کام لیا کیونکہ اس کے مشاہدے کے مطابق پرندے بھی ایسے ہی اڑان بھرا کرتے ہیں۔یہ بہت پر اعتماد اور پر امید تھے۔ انہوں نے قرطبہ کی سب سے بڑی مسجد کے مینار پر چڑھ کر ہوا میں اڑنے کیلئے چھلانگ لگائی۔ اپنے پہلے تجربے میں وہ ناکام رہے لیکن خوش قسمتی سے چونکہ وہ نچلی سطح پر پرواز کر رہے تھے جس کی وجہ سے انہیں معمولی چوٹیں آئیں ۔کچھ عرصہ بعد اپنے پہلے تجربے کی روشنی میں انہوں نے ایک نئے طیارے کی تیاری شروع کر دی۔ اس بار انہوں نے ریشم اور عقاب کے پروں کو استعمال کیا۔پرواز کیلئے اس مرتبہ ان کا انتخاب جبل العروس پہاڑ تھا جہاں ایک جم غفیر ان کی اڑان کا منظر دیکھنے کا منتظر تھا۔اس مرتبہ ابن فرناس نے اڑان بھرنے سے پہلے پروں کو اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ چند ہی لمحوں بعد وہ نیچے کی جانب کودگئے۔ انہوں نے دس منٹ تک فضا میں رہ کر اڑنے کا مظاہرہ کیا اور باآسانی ایک کھلے میدان میں اپنے طیارے کو اتار لیا۔ لیکن اس مرتبہ نیچے اترنے کی کوشش میں وہ کمر کے بل نیچے گر گئے ، جس سے ان کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ کچھ عرصہ تک صاحب فراش رہے۔ اس وقت ان کی عمر ایک اندازے کے مطابق68 سال تھی اور یوں ابن فرناس اس تجربے کے بعد باقاعدہ طور پر دنیا کے پہلے ہوا باز بن گئے۔ اس مرتبہ غور و خوض کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ پرندے نیچے اترتے وقت اپنی دم کی جڑ کا سہارا لے کر اترتے ہیں اس لئے انہیں اپنے طیارے میں دم کا اضافہ کرکے اسے محفوظ بنانا ہو گا۔ ن کی اگلی کاوش اپنے گھر تیار کردہ طیارے میں دم کا اضافہ تھا جسے سالوں بعد داونچی نے من وعن نقل کر کے طیاروں میں باقاعدہ دم کو شامل کرکے مستقبل کی لینڈ نگ کو محفوظ کر لیا۔

کیلے کے حیرت انگیز فوائد

کیلے کے حیرت انگیز فوائد

صحت کیلئے کیلے کے فوائد میں موٹاپے میں کمی، پیٹ کے خلل میں بہتری اور قبض سے آرام شامل ہیں۔ کیلے کے استعمال سے خون کی کمی، ٹی بی، ارتھرائٹس، گردے اور پیشاب کے مسائل میں فائدہ ہوتا ہے۔ حیض کے مسائل میں بھی یہ مفید ہے۔ اس سے فشار خون کم ہوتا ہے اور دل صحتمند رہتا ہے۔ یہ نظام انہضام اور السر کیلئے مفید ہے۔ اس سے آنکھوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔ یہ جسم میں فاسد مادوں کو کم کرتا ہے۔کیلے کے 126گرام میں 110 حرارے اور 30 گرام کاربوہائیڈریٹس ہوتے ہیں۔ اس میں پروٹین، پوٹاشیم اور غذائی ریشے (فائبر) کی خاصی مقدار پائی جاتی ہے۔ اس میں چکنائی اور کولیسٹرل نہیں ہوتا، نیز سوڈیم کی مقدار معمولی ہوتی ہے۔ اس لیے پھلوں میں یہ ایک شاندار انتخاب ہے۔ کیلے میں موجود وٹامنز میں وٹامن سی، بی 6، ریبوفلاون، فولیٹ، پینٹوتھینک ایسڈ اور نیاسین و دیگر شامل ہیں۔ کیلے میں فاسفورس، کیلشیم، میگنیز، میگنیشیم اور تانبا ہوتا ہے۔ اس کے فوائد کی تفصیل درج ذیل ہے۔فشارِ خون میں کمی:پوٹاشیم کی اچھی خاصی مقدار ہونے کے باعث اس کے استعمال سے فشار خون (بلڈپریشر) کم ہوتا ہے۔ اس سے شریانوں پر دباؤ کم ہوتا ہے اور پورے جسم میں خون کا بہاؤ ہموار رہتا ہے جس سے جسم کے اعضا کو آکسیجن پوری طرح میسر آتی ہے اور ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ یوں دل کے دورے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ کیلے میں موجود غذائی ریشہ کولیسٹرل کی مقدار کو کم کرتا ہے جس سے شریانوں اور دل کی صحت اچھی رہتی ہے۔دمہ:کیلے کے استعمال سے دمہ دور رہتا ہے۔ جو بچے روزانہ ایک کیلا کھاتے ہیں ان میں دمے کا خطرہ 34 فیصد کم ہو جاتا ہے۔قبض:غذائی ریشے کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے کھانے سے قبض نہیں ہوتی اور آنتوں کے مسائل بھی کم ہوتے ہیں۔ اس سے کولوریکٹر کینسر کا خدشہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ذیابیطس: ایک کیلے میں تقریباً تین گرام غذائی ریشہ ہوتا ہے اس لیے ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو دونوں قسم کی ذیابیطس کیلئے یہ مفید ہے۔حافظے اور موڈ میں بہتری: کیلے میں پایا جانے والا امینو ایسڈ ٹرائی ٹوفان موڈ کو بہتر کرنے اور حافظہ تیز کرنے میں بہت مفید ہے۔ نیز میگنیشیم سے پٹھے کا کھچاؤ کم ہوتا ہے اور وٹامن بی 6 اچھی نیند کیلئے مفید ہے۔انیمیا: کیلے میں فولاد کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہ انیمیا یا خون کی کمی میں بہت مفید ہے۔ فولاد خون کے سرخ خلیوں کا اہم حصہ ہے۔ اس میں موجود تانبا بھی سرخ خلیوں کے لیے مفید ہے۔ سرخ خلیوں میں اضافے سے جسم کے حصوں کو آکسیجن ملنے کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے جسمانی اعضا کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔وزن میں کمی: وزن کم کرنے کیلئے کیلا مفید ہے کیونکہ ایک کیلے میں صرف 90 کے قریب حرارے ہوتے ہیں۔ غذائی ریشے کی زیادتی اور چکنائی نہ ہونے کی وجہ سے موٹاپے کے شکار افراد کیلئے یہ مفید ہے۔وزن میں اضافہ:اگر کیلے کو دودھ کے ساتھ کھایا جائے تو اس سے وزن بڑھتا ہے۔ دودھ کی پروٹین اور کیلاکی شکر مل کر یہ کام کرتے ہیں۔ چونکہ کیلے آسانی سے ہضم ہو جاتے ہیں اس لیے روزمرہ کے کھانے کے ساتھ پانچ چھ کیلے بآسانی کھائے جا سکتے ہیں اور یوں پانچ سے چھ سو حراروں کا اضافہ وزن بڑھا دیتا ہے۔ہڈیوں کی مضبوطی: کیلے کے استعمال سے جسم میں کیلشیم جذب کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ کیلشیم ہڈیوں کیلئے انتہائی اہم عنصر ہے۔نظر کی بہتری :کیلے میں اینٹی آکسیڈنٹ اور کیروٹینائیڈ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی معدنیات ہوتی ہیں جو آنکھوں کی صحت کیلئے مفید ہیں۔ یہ آنکھوں کے پٹھوں کی کمزوری، رات کا اندھا پن اور موتیا سے بچاؤ میں مدد گار ہے۔بواسیر :کیلے بواسیر کا فطری علاج سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے رفع حاجت کی تکلیف میں کمی آتی ہے۔السر : معدے کو راحت پہنچانے اور تیزابیت کم کرنے کیلئے کیلے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کیلوں میں ایک ایسا عنصر پایا جاتا ہے جس سے وہ نقصان دہ بیکٹیریا جو السر کا سبب بنتے ہیں، کا خاتمہ ہوتا ہے۔گردے :کیلے میں پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹ اور پوٹاشیم گردوں پر دباؤ کم کرتے ہیں اور پیشاب آور ہیں۔ذیلی اثرات:کیلے کے کچھ ذیلی اثرات یا سائیڈ افیکٹ بھی ہیں۔ دل کے امراض اور بلند فشار خون کی کچھ ادویات ایسی ہیں جن سے جسم میں پوٹاشیم کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ ایسی ادویات استعمال کرنے والوں کو کیلے خوراک کا حصہ بنانے سے پہلے ڈاکٹر سے رجوع کر لینا چاہیے۔ جس افراد کو دردشقیقہ کی زیادہ شکایت رہتی ہے، انہیں زیادہ سے زیادہ روزانہ آدھا کیلا کھانا چاہیے۔کچھ لوگوں کو کیلوں سے الرجی بھی ہوتی ہے جس سے انہیں چبھن اور سوجن جیسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ غذائی ریشے کی زیادہ مقدار کے سبب یہ پیٹ کے لیے مفید ہے لیکن بہت زیادہ کھانے سے معدے میں درد اور پیٹ میں گیس وغیرہ کی شکایت ہو سکتی ہے ۔٭...٭...٭ 

آج کا دن

آج کا دن

''لڈ لو‘‘ قتل عاملڈلو قتل عام کولوراڈو کول فیلڈ جنگ کے دوران اینٹی اسٹرائیکر ملیشیا کے ذریعہ کیا گیا۔ یہ اجتماعی قتل عام تھا۔ کولوراڈو نیشنل گارڈ کے سپاہیوں اور کولوراڈو فیول اینڈ آئرن کمپنی کے گارڈز نے 20 اپریل 1914ء کو کولوراڈو میں تقریباً 1200 سے زائد ہڑتال پر بیٹھے کوئلے کی کان میںکام کرنے والے مزدوروں اور ان کے خاندانوں کی ایک خیمہ کالونی پر حملہ کر دیا۔ تقریباً 21 افراد، بشمول کان کن، عورتیں اور بچے مارے گئے۔ کولوراڈو فیول اینڈ آئرن کمپنی کے ایک حصہ کے مالک جان ڈی راکفیلر جونیئر جو کہ حملوں کے متعلق ریاستہائے متحدہ کی کانگریس کی سماعت میں بھی پیش ہوئے تھے،ان پر بڑے پیمانے پر اس قتل عام کو منظم کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔''ائیر فرانس‘‘ کوحادثہ1998ء میں آج کے دن ''ایئر فرانس‘‘ کی ''فلائٹ 422‘‘ حادثہ کا شکار ہوئی۔ یہ فلائٹ بوگوٹا، کولمبیا سے کوئٹو، ایکواڈور جانے کے لئے شیڈول پرواز تھی۔یہ جہاز ایک نجی کمپنی کے زیر انتظام چلایا جا رہا تھا۔جہاز نے بوگوٹا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے ایل ڈور اڈو سے پرواز بھری موسم خراب تھا او ر دھند کی وجہ سے حد نگاہ بھی بہت محدود تھی ۔ موسم کی وجہ سے ہوائی جہاز بوگوٹا کی مشرقی پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں جہاز میں موجود53افراد ہلاک ہوئے۔اس سانحہ کو فرانس کے بدترین ہوائی حادثات میں شمار کیا جاتا ہے۔سیپٹنسولر جمہوریہ1800ء میں آج کے دن سیپٹنسولر جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ اس وقت ہوا جب روس اور عثمانی سلطنت کے بحری بیڑے نے ان جزائر پر قبضہ کر لیا اور فرانسیسی جمہوریہ کی دو سالہ حکمرانی ختم کر دی گئی۔ اگرچہ جزیرے کے باشندوں نے امید کی تھی کہ انہیں مکمل آزادی حاصل ہو جائے گی لیکن نئی ریاست کو صرف خود مختاری دی گئی اور ساتھ ہی اسے عثمانی سر پرستی میں بھی دے دیا گیا۔ 15ویں صدی کے وسط میں عثمانیوں کی جانب سے بازنطینی سلطنت کی آخری باقیات کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب یونانیوں کو خود مختار حکومت دی گئی تھی۔ 1807 میں، اسے فرانسیسی سلطنت کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ جانسن اسپیس سینٹر ر فائرنگجانسن اسپیس سینٹر میں فائرنگ کا واقعہ20 اپریل 2007ء میں پیش آیا۔ یہ واقعہ ہوسٹن ٹیکساس میں موجود امریکہ کے خلائی تحقیقاتی ادارے کے جانسن اسپیس سینٹر کی کمیونیکیشن اینڈ ٹریکنگ ڈویلپمنٹ لیبارٹری کی عمارت 44 میں پیش آیا۔انجینئرنگ کا ملازم ولیم فلپس بلڈنگ نمبر44میں کام کرتا تھا۔اس نے اپنے ایک ساتھی کو گولی مار کردوسرے کو تیں گھنٹے سے زائد یرغمال بنائے رکھا۔اس کے بعدولیم نے خودکشی کر لی۔ پولیس کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں سامنے آیا کہ ولیم کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ادارہ اس سے خوش نہیں تھا اور اسے نوکری سے نکالے جانے کا ڈر تھا۔  

گیدڑ سنگھی

گیدڑ سنگھی

آخر وہ کون سی 'گیدڑ سنگھی‘ تھی جس کی بدولت کوئٹہ جیت گیا؟یہ ایک ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کی سرخی ہے جومارچ 2021ء کے پاکستان سپر لیگ کے ایک میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے اپنا پہلا میچ جیت لیا، اور وہ بھی ہدف کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے۔ اس واقعے کی حیرت کو دو آتشہ کرنے کے لیے ویب سائٹ نے ''گیدڑ سنگھی‘‘ کی اصطلاح کا تڑکا لگایا۔مگر ہمارے لیے سوال یہ ہے کہ یہ گیدڑ سنگھی کس بلا کا نام ہے اور اس کی طلسماتی خوبیوں کا کیا راز ہے؟ کچھ ہے بھی یا نہیں؟ لوک داستانوں کے مطابق گیدڑ سنگھی یا ''جیکال ہارن‘‘ ایک پراسرار شے ہے اور جنوبی ایشیا میں لوگ اس کے بارے بہت سے ا نوکھے تصورات رکھتے ہیںمثلاً یہ سمجھا جاتا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک طلسماتی قوت ہے اور خوش قسمت لوگوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ ایک خیال جو سائنسی اعتبار سے بے بنیاد ہے، یہ ہے کہ گیدڑ جب سو سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کے سر پر سامنے کی طرف بالوں میں ایک دائرہ سا نمودار ہو جاتا ہے جسے گیدڑ سنگھی کا نام دیا جاتا ہے، جسے حاصل کرنے کے بعد سندور میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔مگرگیدڑ کی سو سالہ زندگی کے اس تصور ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گیدڑ سنگھی کی حقیقت کیا ہو گی، تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا واضح ہونے کے باوجود ہمارے جیسے معاشروں میں اس قسم کے تصورات موجود رہتے ہیں اور لوگوں کے ذہن سے ان کو دور کرنا تقریباً ناممکن ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ سوچنا چاہیے کہ گیدڑ سنگھی میں ایسا کیا راز چھپا ہے کہ یہ ہمارے ہاں کا عام محاورہ بن چکا ہے جو طلسماتی اور کرشماتی قوت کے ہم معنی ہے؟آپ جب کسی کی خلاف توقع کامیابی کو دیکھتے ہیں تو فوراً آپ کے ذہن میں بھی اس قسم کا خیال پیدا ہوتا ہو گا کہ ''اس کے پاس کیا گیڈر سنگھی ہے؟‘‘ہمارا ماننا ہے کہ حقیقت میں گیدڑ سنگھی کی ایسی طلسمی صلاحیت کا کوئی وجود نہیں ، مگر سماجی تصور اور محاورے نے اسے باقی رکھا ہے اور لوگ واقعی گیدڑ سنگھی کو کوئی حقیقت سمجھنے لگ جاتے ہیں اور جب کوئی کسی شے کو حقیقت سمجھ بیٹھے تو پھر اس کی تلاش بھی شروع ہو جاتی ہے ، یہیں سے شعبدے بازوں کا کام آسان ہوجاتا ہے ۔چونکہ گیدڑ سنگھی کے ساتھ ایسا طلسماتی تصور باندھ دیا گیا ہے کہ جس کے ہاتھ یہ آ جائے اسے پھر کچھ کام کرنے کی ضرورت نہیں،جو چاہے گا بیٹھے بٹھائے حاصل کر لے گا؛چنانچہ کام چوراور راتوں رات چھپڑ پھاڑ دولت کے خواہاں گیدڑ سنگھی کے چکر میں پڑ جاتے ہیں کہ بس ایک بار کہیں سے گیدڑ سنگھی ہاتھ لگ جائے تو وارے نیارے ہو جائیں۔ اس لالچ میں اکثر لوگ ایسے شعبدہ بازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا کر انہیں بھاری قیمت پر ''گیدڑ سنگھی ‘‘فروخت کر دیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ان شاطروں نے گیدڑ سنگھیاں بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے ہوئے ہیں۔ کہیں گیدڑ کا سر کاٹ کر اس کے سر کی کچھ کھال اتار کر اس کے ماتھے کی ہڈی میں نقلی چھوٹے سینگ جیسا ابھار بنا کر کھال کو دوبارہ سر کے ساتھ چپکا دیا جاتا ہے اور اب اس کھال سے ابھرا ہوا نقلی سینگ بالکل اصلی معلوم ہوتا ہے اور لالچی نظروں کو گیڈر سنگھی دکھائی دیتا ہے۔ کہیں بالوں کے گچھے کی گیند سی بنا کر گیدڑ سنگھی کے نام پر فروخت کی جاتی ہے۔اگر کسی نے اصلی گیدڑ سنگھی دیکھی ہو تو چلو اس سے مقابلہ کر کے اصل نقل کی پہچان کر لے، جب ایک تصور ہے ہی بے بنیاد اور کوئی اس کے اصل سے واقف نہیں تو پہچان کیسے ہو؟ اس لئے لالچی لوگ با آسانی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کبھی کبھار جوگی اور سپیروں نے بھی لوگوں کو گیدڑ سنگھی کے نام پر چونا لگا جاتے ہیں۔ حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر اُن کے پاس'' گیدڑ سنگھی‘‘ ہوتی تو وہ خود ہی خوشحال نہ ہوجاتے؟اس طرح عوام میں گیدڑ سنگھی سے متعلق بے شمار غلط تصورات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کو گیدڑ کی ناف سمجھتے ہیں، کچھ لوگ اسے سرکے بالوں کا گچھا سمجھتے ہیں، کچھ جوگی اس کو گیدڑ کے سر پر نکلنے والا سینگ بتاتے ہیں جو کہ گلہری کے برابر ہوتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے جس کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔یہ بھی سنا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک گلٹی سی ہوتی ہے جیسے گھنے بال اُگے ہوئے ہوں۔ یہ گلٹی گیدڑ کی ایک خاص نسل کی گردن پر حلقوم کے قریب کھال میں بنتی ہے اور پھر ایک خاص موسم میں جھڑ جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ چیز جادو ٹونے وغیرہ کیلئے استعمال ہوتی تھی یا ہوتی ہے۔ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ جنگلوں کے باسیوں نے جعلی گیدڑ سنگھی بنانے کا فن بھی جان لیا تھا اور یہ گیدڑ سنگھیاں جو بھکاری لوگ لئے پھرتے ہیں یہ جعل سازی ہے۔مگرگیدڑ سنگھی اور اس جیسی دیگر طلسمی چیزوں کو عقلِ سلیم نہیں مانتی اور اسلام میں بھی ایسی چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، لہٰذاعلما ء کرام کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں اختراعی عقائد رکھنا یعنی رزق میں برکت اور اپنی خوش قسمتی کا ذریعہ سمجھ کر اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ ضعیف العقیدہ ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ 

بل گیٹس کی جھوٹی پیشگوئیاں

بل گیٹس کی جھوٹی پیشگوئیاں

بل گیٹس مائیکروسافٹ کمپنی کے چیئر مین اور دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ان کا پورا نام ولیم ہنری گیٹس ہے۔ بل گیٹس 1955ء میں واشنگٹن،امریکہ کے ایک مضافاتی علاقے سیایٹل کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن سے ہی کمپیوٹر چلانے اور اس کی معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا۔اس دور میں آج کی طرح کمپیوٹر نہ اتنے ترقی یافتہ تھے اور نہ ہی کمپیوٹروں کی دنیا۔ محض 13برس کی عمر میں وہ پروگرامنگ کا ہنر سیکھ چکے تھے۔ آج بل گیٹس کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں سننا لوگ پسند کرتے ہیں اور جن کی کہی باتیں دنیا پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ اس وقت دنیا کے امیر ترین انسان ہونے کا اعزاز مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے پاس ہے۔ عام طور پر انہیں بہت ذہین، زیرک اور دانشمند سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اربوں ڈالرز بھی آپ کی بات کو غلط ثابت کرنے سے نہیں روک سکتے۔ آپ نے گیٹس کے اقوال زریں تو بہت پڑھے ہوں گے، آئیے آپ کو ان کی وہ باتیں بھی بتاتے ہیں، جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں اور ظاہر کیا کہ دنیا کا امیر ترین شخص بھی غلط بات کر سکتا ہے۔بل گیٹس نے 1994ء میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مبینہ طور پر ایک بات کہی تھی کہ ''مجھے اگلے 10 سالوں تک انٹرنیٹ میں کوئی کمرشل صلاحیت نظر نہیں آتی‘‘۔ اس کا ذکر 2005ء کی ایک کتاب میں کیا گیا ہے۔آج دیکھ لیں انٹرنیٹ کیا اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ کوئی بھی شخص اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کمرشل کے ساتھ ساتھ گھریلو طور پر بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔''جدید سافٹ ویئر میکنٹوش پر آئیں گے، آئی بی ایم پی سی پر نہیں‘‘ بل گیٹس نے یہ بات 1984ء میں بزنس ویک کیلئے ایک مضمون میں لکھی تھی۔اس وقت بل گیٹس اور ایپل کے اسٹیو جابز کے درمیان بڑی یاری تھی، لیکن جیسے ہی مائیکروسافٹ نے آئی بی ایم پی سی کیلئے ونڈوز جاری کی، اس تعلق کا خاتمہ ہو گیا۔ونڈوز کے مشہور ہونے سے پہلے مائیکرو سافٹ نے آئی بی ایم کے ساتھ مل کر ایک آپریٹنگ سسٹم او ایس2 تخلیق کیا تھا۔ اس وقت، یعنی 1987ء میں، گیٹس نے کہا تھا کہ ‘‘میرے خیال میں او ایس2 سب سے اہم آپریٹنگ سسٹم ہوگا اور تاریخ کا سب سے شاندار پروگرام بھی‘‘۔لیکن یہ آپریٹنگ سسٹم نہ چلا۔ جب 1990ء میں ونڈوز 3.0 نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تو مائیکروسافٹ کو آئی بی ایم کی ضرورت بھی نہیں رہی اور وہ او ایس2 کو یتیم چھوڑ گیا۔ آئی بی ایم اس آپریٹنگ سسٹم کو استعمال کرتا رہا یہاں تک کہ 2006ء میں اس کی باضابطہ ''موت‘‘ کا اعلان کردیا گیا۔''ہمارے جاری کردہ سافٹ ویئر میں کوئی بگز نہیں، کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد کو انہیں فکس کرنے کی ضرورت پڑے‘‘۔ گیٹس نے یہ بات 1995ء میں فوکس میگزین میں کہی تھی۔اپنی 1995ء کی کتاب ''دی روڈ اہیڈ‘‘ میں بل گیٹس نے اپنی سب سے مشہور غلطیاں کیں: انہوں نے لکھا انٹرنیٹ ایک انوکھی چیز تھا جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ بہتر سے بہترین کی جانب ہماری رہنمائی کرے گا ''آج کا انٹرنیٹ میرے تصور والی انفارمیشن ہائی وے نہیں ہے، البتہ آپ اسے کسی ہائی وے کا آغاز سمجھتے رہیں‘‘۔ کچھ ہی عرصے میں گیٹس کواندازہ ہوگیا کہ یہ بات غلط ثابت ہو رہی ہے، اس لیے انہوں نے مائیکرو سافٹ کی مشہور ''دی انٹرنیٹ ٹائیڈل ویو‘‘ یادداشت جاری کیے اور ادارے کو اس سمت میں چلایا۔ 1996ء میں انہوں نے اپنی کتاب کا نظرثانی شدہ ایڈیشن جاری کیا جس میں انٹرنیٹ کے بارے میں کافی باتیں شامل کی گئیں۔2004ء میں گیٹس نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ''ای میل سپیم دو سالوں میں ماضی کی چیز بن جائے گی‘‘۔آج 20 سال بعد بھی ایسا نہیں ہو سکا۔ سکیورٹی کمپنی سیمنٹیک کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں بھیجی گئی تمام ای میلز کی نصف سپیم پر مشتمل تھی۔گیٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1981ء میں کہا تھاکہ ''640 کے کمپیوٹر میموری کسی بھی شخص کیلئے کافی ہوگی‘‘۔ اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر یہ بات واقعی وہ چھپانا چاہتے ہوں گے کیونکہ اب عام صارف سینکڑوں گیگابائٹس تک پہنچ گیا ہے۔ 1996ء میں ایک انٹرویو میں گیٹس نے کہا تھا کہ میں نے بہت ساری بے وقوفانہ اور غلط باتیں کی ہوں گی لیکن یہ بات مکمل طور پر غلط منسوب کی گئی ہے، کمپیوٹر کے شعبے سے وابستہ کبھی کوئی شخص یہ بات نہیں کہے گا کہ ایک مخصوص میموری مقدار ہمیشہ کیلئے کافی ہوگی‘‘۔

آج کا دن

آج کا دن

فرٹیلائزر کمپنی میں دھماکہ17 اپریل، 2013 کو امریکہ کی ریاست ویسٹ، ٹیکساس میں ویسٹ فرٹیلائزر کمپنی کے اسٹوریج اور ڈسٹری بیوشن کی سہولت میں ایک امونیم نائٹریٹ دھماکہ ہوا ۔دھماکے کے فوراً بعدریسکیو کیلئے اقدامات شروع کر دئیے گے لیکن اسی دوران پندرہ افراد ہلاک، 160 سے زائد زخمی اور 150 سے زائد عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔حادثے کے بعد تحقیقاتی ٹیموں نے اس بات کی تصدیق کی کہ دھماکہ اسٹوریج میں موجود امونیم نائٹریٹ کہ وجہ سے ہی ہوا۔ اس کے بعد 11 مئی 2016 کو، بیورو آف الکحل، ٹوبیکو، آتشیں اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد نے کہا کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔کمبوڈیا میں خانہ جنگیکمبوڈیا کی خانہ جنگی کمیونسٹ اور حمیر روج کے درمیان ہونے والی جنگ تھی۔اس جنگ کو محققین نے کمبوڈین قتل عام بھی کہا ہے،اکثر مورخین کا ماننا ہے کہ یہ ہٹلر کے کئے گئے قتل عام سے زیادہ بھیانک اور خطرناک تھا۔ خمیر روج کو شمالی ویتنام اور ویت کانگ کی بھی حمایت حاصل تھی۔یہ جنگ دونوں گروہوں کے درمیان لڑی گئی جس میں لاکھوں بے گناہ افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے۔ اکتوبر 1970ء کے بعد اس میں شدت آتی گئی اور بہت بڑے قتل عام کے بعد آخر کا ر آ ج کے دن 1975ء میں اس خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔لینا قتل عاملینا قتل عام یا لینا پھانسی سے مراد 17 اپریل 1912ء میں شمالی سائبیریا میں دریائے لینا کے قریب ہڑتال پر بیٹھے گولڈ فیلڈ کے کارکنوں پر فائرنگ ہے۔گولڈ فیلڈ کے کارکنان اپنے حقوق کیلئے سراپا احتجاج تھے جب حکومتی حکام کی جانب سے ان پر گولیوں کی برسات کر دی گئی۔اس کے قبل ہڑتالی کارکنان کو کہا گیا کہ وہ ہڑتال ختم کر دیں لیکن ہڑتالی کمیٹی نے حکام کی بات ماننے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں ہڑتالی کمیٹی کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کی وجہ سے بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا،حالات کو بے قابو ہوتا دیکھ کر امپیریل روسی فوج کے سپاہیوں نے ہجوم پر فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں سیکٹروں افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقع نے روس میں انقلابی آگ کو بہت ہوا دی۔فرانسیسی افواج کاشام سے انخلاء17اپریل کو شام میں بطور قومی دن منایا جاتا ہے۔اسے انخلا کا دن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ 1941ء میں شام کی مکمل آزادی کے بعد17اپریل1946ء کو شام سے آخری فرانسیسی فوجی کے انخلاء اور فرانسیسی مینڈیت کے خاتمے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد، سلطنت عثمانیہ کو کئی نئی قوموں میں تقسیم کیا گیا، جس سے جدید عرب دنیا اور جمہوریہ ترکی وجود میں آئے۔ 1916 میں فرانس، برطانیہ اور روس کے درمیان سائیکس پیکوٹ معاہدے کے بعد، لیگ آف نیشنز نے 1923 میں فرانس کو موجودہ شام اور لبنان پر مینڈیٹ دیا۔