موبائل سکرین، خاموش قاتل

اسپیشل فیچر
موبائل فون آج کی تیز رفتار زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگرچہ سائنسدان اور طبی محققین اب تک اس کے استعمال سے صحت پر پڑنے والے مختلف منفی اثرات کی جانب کئی سالوں سے اشارہ کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موبائل فون کم عمر بچوں کے ہاتھوں میں تھما دینا ان بچوں کی صحت کیلئے سنگین اور پیچیدہ مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔ ان انکشافات نے یہ سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ ان سنگین مسائل سے بچنے کیلئے والدین کو کس طرح کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ تاہم ابھی تک ان حفاظتی اقدامات کے بارے میں واضح تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔واضح رہے کہ نہ صرف مغرب بلکہ خود ہمارے معاشرے میں بھی ایسے والدین موجود ہیں جو ویڈیو لگاکر موبائل بچے کو پکڑا دیتے ہیں تاکہ بچہ اس سے کھیلتا رہے اور وہ سکون سے اپنا کام کرتے رہیں۔صورتحال کو اس طرح سمجھنا زیادہ آسان ہے کہ سکول جانے والے پانچ سے نو سال کی عمر کے ہر نو بچوں میں سے ایک کے ہاتھ میں موبائل سیٹ ہے۔ گزشتہ دو سال کے مقابلے میں یہ اعداد و شمار دو گنا زائد ہیں اور آئندہ دو تین سالوں میں اور زیادہ ہو سکتے ہیں۔
حکومت برطانیہ اس تحقیق کے نتائج کی روشنی میں ایسے حفاظتی اقدامات پر غور کر رہی ہے جس سے نوجوانوں خصوصاً بچوں کو موبائل فون کے استعمال سے پیدا ہونے والی ریڈیائی لہروں کے مضر اثرات سے جہاں تک ممکن ہو سکے بچایا جا سکے۔ محققین کا کہنا ہے کہ موبائل فون کے استعمال کے دوران خارج ہونے والی ریڈیائی لہریں ان کے نشوونما پاتے ہوئے جسمانی اعضا پر مضر اثرات ڈال سکتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان میں متعدد بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ 16 سال سے کم عمر کے سکول کے بچوں میں موبائل فون کی دلچسپی کا ایک سبب فون کمپنیوں کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا جانا بھی ہے۔ دلچسپ گیمز سے بچے ان کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کی ضد سے مجبور ہو کر انہیں یہ سہولت فراہم کر دیتے ہیں لیکن افسوس کہ وہ جسے سہولت سمجھ رہے ہیں وہ ان کے بچے کے لئے طویل المیعاد جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی خرابی کی بنیاد ہے۔ پرائمری سکول میں زیر تعلیم ایک 9 سالہ ایسے بچے کی ماں جس کے پاس موبائل فون ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے فون بچے کو اس لئے خرید کر دیا ہے کہ میں اس کے تحفظ کے بارے میں پریشان رہتی ہوں اور موبائل کے ذریعے میں ہر وقت اس سے رابطے میں رہتی ہوں۔ اس کے علاوہ وہ بھی مجھ سے فون اور پیغام کے ذریعے گھر سے دور ہونے کے بعد بھی رابطہ رکھتا ہے۔
تحقیق میں والدین کو متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تاکید کریں کہ نہایت ضروری کال کے سوا موبائل فون استعمال کرنے سے گریز کریں۔ اس طرح والدین اپنے بچوں کو ممکنہ حد تک ریڈیائی لہروں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔والدین کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بچوں کا جسمانی نظام اور ان کی ہڈیوں کا ڈھانچہ اس عمر میں نشوونما پانے کے عمل میں ہوتا ہے اور اس دوران ریڈیائی لہریں بآسانی ان کے دماغ اور کھوپڑی کی ہڈی کو متاثر کر سکتی ہیں۔ماہرین کم عمر بچوں کو موبائل فون سیٹ دلانے کے شدید مخالف ہیں اور والدین کے اس عذر کو مسترد کر دیتے ہیں کہ انہوں نے بچوں کو موبائل فون تحفظ کے تحت لے کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کا خیال خود رکھیں نہ کہ یہ ذمہ داری موبائل فون کو سونپ دیں۔ بچے گھر کے باہر کیا کرتے ہیں یہ بات جاننا والدین کی ذمہ داری ہے۔ بچے کے سکول جانے اور آنے کے اوقات متعین ہوتے ہیں۔ انہیں سکول چھوڑ کر اور چھٹی کے بعد واپس لے کر آیا کریں۔ معالجین کہتے ہیں کہ اب والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحت اور ان کے صحت مند مستقبل کیلئے اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔ انہیں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ موبائل فون کے استعمال سے خارج ہونے والی شعاعیں اور دماغ پر ان کے اثرات مستقبل میں ان کے بچے کیلئے ایسے کئی عوارض لاحق ہونے کا سبب بن سکتے ہیں جن کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عوارض کس قسم کے ہوں گے۔
کم عمر بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون کا ایک اور بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ بچے سارا سارا دن فون پر ٹیکسٹ میسجز پر مصروف رہتے ہیں اب وہ کس کے ساتھ اور کس قسم کی چیٹنگ میں مصروف ہیں اس کا علم والدین کو نہیں ہوتا اور آج کل کے والدین تو اس بات کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ ان کا بچہ کس قسم کی سرگرمیوں میں مصروف ہے بلکہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب فون پر گفتگو یا میسجنگ کو ماڈرن ازم کا نام دیا جاتا ہے۔ والدین کی یہ لاپروائی بچوں کو غلط راہوں پر لے جاتی ہے اور نتیجہ پھر ایک ناقابل تلافی نقصان کی صورت میں سامنے آتا ہے، مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔موبائل فون کا ایسا استعمال نہ صرف بچوں کے معصوم ذہنوں کو تباہ کر رہا ہے بلکہ اخلاقی اور نفسیاتی طور پر بھی ان کی شخصیت کو مسخ کر دیتا ہے۔ والدین اور بچوں میں بڑھتی ہوئی دوری اور اختلافات کا ایک بڑا سبب موبائل فون بھی ہیں کیونکہ جتنا ٹائم بچے ان موبائل فونز پر بے مقصد ٹیکسٹ کرتے ہوئے گزارتے ہیں وہ ٹائم اگر مل جل کر گزاریں، آپس میں ایک دوسرے کو ٹائم دیں تو گھر سکون اور جنت کا گہوارہ بن جائے۔پانچ سے نو سال کی عمر کے بچے تو الگ اکثر والدین شیر خوار بچوں کو بہلانے کی خاطر ان کے ہاتھوں میں موبائل فون آن کر کے تھما دیتے ہیں یا اس کی رنگ ٹون آن کرکے اُن کے کانوں کو لگاتے ہیں۔ یہ عمل ان شیر خواروں کی صحت سے کھیلنے کے مترادف ہے اور پوری دنیا میں بچوں کو موبائل فون کے ذریعے پیدا ہونے والے طویل المیعاد مضر اثرات اور ان کے جسم میں اس کے استعمال سے رونما ہونے والے سست عوارض سے بچنے کیلئے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی اشد ضرورت ہے۔