موبائل سکرین، خاموش قاتل

 موبائل سکرین، خاموش قاتل

اسپیشل فیچر

تحریر : نادیہ سلیم


موبائل فون آج کی تیز رفتار زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگرچہ سائنسدان اور طبی محققین اب تک اس کے استعمال سے صحت پر پڑنے والے مختلف منفی اثرات کی جانب کئی سالوں سے اشارہ کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موبائل فون کم عمر بچوں کے ہاتھوں میں تھما دینا ان بچوں کی صحت کیلئے سنگین اور پیچیدہ مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔ ان انکشافات نے یہ سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ ان سنگین مسائل سے بچنے کیلئے والدین کو کس طرح کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ تاہم ابھی تک ان حفاظتی اقدامات کے بارے میں واضح تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔واضح رہے کہ نہ صرف مغرب بلکہ خود ہمارے معاشرے میں بھی ایسے والدین موجود ہیں جو ویڈیو لگاکر موبائل بچے کو پکڑا دیتے ہیں تاکہ بچہ اس سے کھیلتا رہے اور وہ سکون سے اپنا کام کرتے رہیں۔صورتحال کو اس طرح سمجھنا زیادہ آسان ہے کہ سکول جانے والے پانچ سے نو سال کی عمر کے ہر نو بچوں میں سے ایک کے ہاتھ میں موبائل سیٹ ہے۔ گزشتہ دو سال کے مقابلے میں یہ اعداد و شمار دو گنا زائد ہیں اور آئندہ دو تین سالوں میں اور زیادہ ہو سکتے ہیں۔
حکومت برطانیہ اس تحقیق کے نتائج کی روشنی میں ایسے حفاظتی اقدامات پر غور کر رہی ہے جس سے نوجوانوں خصوصاً بچوں کو موبائل فون کے استعمال سے پیدا ہونے والی ریڈیائی لہروں کے مضر اثرات سے جہاں تک ممکن ہو سکے بچایا جا سکے۔ محققین کا کہنا ہے کہ موبائل فون کے استعمال کے دوران خارج ہونے والی ریڈیائی لہریں ان کے نشوونما پاتے ہوئے جسمانی اعضا پر مضر اثرات ڈال سکتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان میں متعدد بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ 16 سال سے کم عمر کے سکول کے بچوں میں موبائل فون کی دلچسپی کا ایک سبب فون کمپنیوں کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا جانا بھی ہے۔ دلچسپ گیمز سے بچے ان کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کی ضد سے مجبور ہو کر انہیں یہ سہولت فراہم کر دیتے ہیں لیکن افسوس کہ وہ جسے سہولت سمجھ رہے ہیں وہ ان کے بچے کے لئے طویل المیعاد جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی خرابی کی بنیاد ہے۔ پرائمری سکول میں زیر تعلیم ایک 9 سالہ ایسے بچے کی ماں جس کے پاس موبائل فون ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے فون بچے کو اس لئے خرید کر دیا ہے کہ میں اس کے تحفظ کے بارے میں پریشان رہتی ہوں اور موبائل کے ذریعے میں ہر وقت اس سے رابطے میں رہتی ہوں۔ اس کے علاوہ وہ بھی مجھ سے فون اور پیغام کے ذریعے گھر سے دور ہونے کے بعد بھی رابطہ رکھتا ہے۔
تحقیق میں والدین کو متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تاکید کریں کہ نہایت ضروری کال کے سوا موبائل فون استعمال کرنے سے گریز کریں۔ اس طرح والدین اپنے بچوں کو ممکنہ حد تک ریڈیائی لہروں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔والدین کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بچوں کا جسمانی نظام اور ان کی ہڈیوں کا ڈھانچہ اس عمر میں نشوونما پانے کے عمل میں ہوتا ہے اور اس دوران ریڈیائی لہریں بآسانی ان کے دماغ اور کھوپڑی کی ہڈی کو متاثر کر سکتی ہیں۔ماہرین کم عمر بچوں کو موبائل فون سیٹ دلانے کے شدید مخالف ہیں اور والدین کے اس عذر کو مسترد کر دیتے ہیں کہ انہوں نے بچوں کو موبائل فون تحفظ کے تحت لے کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کا خیال خود رکھیں نہ کہ یہ ذمہ داری موبائل فون کو سونپ دیں۔ بچے گھر کے باہر کیا کرتے ہیں یہ بات جاننا والدین کی ذمہ داری ہے۔ بچے کے سکول جانے اور آنے کے اوقات متعین ہوتے ہیں۔ انہیں سکول چھوڑ کر اور چھٹی کے بعد واپس لے کر آیا کریں۔ معالجین کہتے ہیں کہ اب والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحت اور ان کے صحت مند مستقبل کیلئے اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔ انہیں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ موبائل فون کے استعمال سے خارج ہونے والی شعاعیں اور دماغ پر ان کے اثرات مستقبل میں ان کے بچے کیلئے ایسے کئی عوارض لاحق ہونے کا سبب بن سکتے ہیں جن کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عوارض کس قسم کے ہوں گے۔
کم عمر بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون کا ایک اور بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ بچے سارا سارا دن فون پر ٹیکسٹ میسجز پر مصروف رہتے ہیں اب وہ کس کے ساتھ اور کس قسم کی چیٹنگ میں مصروف ہیں اس کا علم والدین کو نہیں ہوتا اور آج کل کے والدین تو اس بات کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ ان کا بچہ کس قسم کی سرگرمیوں میں مصروف ہے بلکہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب فون پر گفتگو یا میسجنگ کو ماڈرن ازم کا نام دیا جاتا ہے۔ والدین کی یہ لاپروائی بچوں کو غلط راہوں پر لے جاتی ہے اور نتیجہ پھر ایک ناقابل تلافی نقصان کی صورت میں سامنے آتا ہے، مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔موبائل فون کا ایسا استعمال نہ صرف بچوں کے معصوم ذہنوں کو تباہ کر رہا ہے بلکہ اخلاقی اور نفسیاتی طور پر بھی ان کی شخصیت کو مسخ کر دیتا ہے۔ والدین اور بچوں میں بڑھتی ہوئی دوری اور اختلافات کا ایک بڑا سبب موبائل فون بھی ہیں کیونکہ جتنا ٹائم بچے ان موبائل فونز پر بے مقصد ٹیکسٹ کرتے ہوئے گزارتے ہیں وہ ٹائم اگر مل جل کر گزاریں، آپس میں ایک دوسرے کو ٹائم دیں تو گھر سکون اور جنت کا گہوارہ بن جائے۔پانچ سے نو سال کی عمر کے بچے تو الگ اکثر والدین شیر خوار بچوں کو بہلانے کی خاطر ان کے ہاتھوں میں موبائل فون آن کر کے تھما دیتے ہیں یا اس کی رنگ ٹون آن کرکے اُن کے کانوں کو لگاتے ہیں۔ یہ عمل ان شیر خواروں کی صحت سے کھیلنے کے مترادف ہے اور پوری دنیا میں بچوں کو موبائل فون کے ذریعے پیدا ہونے والے طویل المیعاد مضر اثرات اور ان کے جسم میں اس کے استعمال سے رونما ہونے والے سست عوارض سے بچنے کیلئے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی اشد ضرورت ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
موسمیاتی تبدیلی سے معیشت کو اربوں کا نقصان

موسمیاتی تبدیلی سے معیشت کو اربوں کا نقصان

دنیاکے کئی ممالک کو گزشتہ برسوں کے دوران شدید موسمی حالات اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اربوں ڈالر کے معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔ ''Christian Aid‘‘ کی ایک رپورٹ میں 2022ء کی 20 سب سے تباہ کن موسمیاتی آفات کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان میں سے دس سب سے زیادہ مالی طور پر تباہ کن موسمیاتی آفات کا معاشی اثر اربوں ڈالر میں تھا۔ ان میں سے زیادہ تر معاشی تباہی کے تخمینے صرف بیمہ شدہ نقصانات پر مبنی ہیں، یعنی حقیقی مالی نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے، جبکہ انسانی نوعیت کے نقصانات اکثر معاشی اثرات سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ ان میں سمندری طوفان ''آیان‘‘ بھی ہے جو گزشتہ برس ستمبر میں امریکہ اور کیوبا سے ٹکرایا تھا جس کی تباہی کے اثرات کا معاشی حجم 100 ارب ڈالر تھا اور 40ہزار افراد اس میں بے گھر ہوئے تھے۔ یورپ میں خشک سالی سے ہیٹ ویو سے 20 ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ پاکستان میں گزشتہ برس کے سیلاب سے 1700 سے زائد افراد جاں بحق اور 70 لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے۔ عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق ان سیلابوں سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا تھا۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف ڈیلاوئیر کی رپورٹ ''Loss and Damage Today: How climate change is impacting output and capital‘‘ کے مطابق ''آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے دنیا کے 1.5 ٹریلین ڈالر سے زیادہ غریب ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے‘‘۔ رپورٹ کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 2.1 ٹریلین ڈالر کے سرمائے کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی افریقہ کے ممالک خاص طور پر متاثرہوئے ،جن میں سے اکثر کو جی ڈی پی کے 8.3 فیصد سے زیادہ کا نقصان اٹھاناپڑا جبکہ بعض ممالک کو اپنی جی ڈی پی کے 14.1 فیصد اور 11.2 فیصد کے برابر نقصان ہوا۔ اگرچہ رپورٹ میں مالی اخراجات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جو عام طور پر امیر ممالک میں زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کی جائیداد کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور وہ انشورنس کے متحمل بھی ہوسکتے ہیں،تاہم 2022ء میں کچھ انتہائی تباہ کن موسمی تغیرات نے غریب ممالک کو شدید متاثر کیا۔ جنہوں نے موسمیاتی بحران کو جنم دینے میں بہت کم کردار ادا کیا ہے اور ان تبدیلیوں کے اثرات کے جھٹکے برداشت کرنے کے بھی کم متحمل ہیں۔ رپورٹ میں 10 موسمیاتی آفات کی فہرست 2022 ء کے ان موسمیاتی واقعات میں سے کچھ کو نمایاں کرتی ہے جو کمیونٹیز کیلئے شدید نقصان دہ تھے۔ رپورٹ کے مطابق یہ انتہائی واقعات آب و ہوا کے حوالے سے مزید اور فوری کارروائی کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ رپورٹ میں نقصان کے ازالے کیلئے ایک عالمی فنڈ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک میں ایسے لوگوں کو مالی مدد فراہم کی جا سکے جنہیں موسمیاتی بحران کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ گزشتہ سال مصر میں ہونے والے ''COP27‘‘ کے مذاکرات میں تمام ممالک نے موسمیاتی آفات کے نقصان سے نمٹنے کے لیے غریب ممالک کی مدد کے لیے ایک فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا اور اس بار 30 نومبر سے دبئی میں شروع ہونے والے ''COP28‘‘ میں مرکزی اہمیت کا موضوع یہی ہے کہ اس فنڈ میں کونسا ملک کتنی رقم دینے پر آمادہ ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ ''COP28‘‘ کے پہلے دن ہی دنیا کے غریب ترین اور سب سے زیادہ کمزور ممالک کو موسمیاتی تباہی کے ناقابل تلافی نقصانات سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر اتفاق ہو گیا۔ میزبان ملک متحدہ عرب امارات اور جرمنی دونوں نے اس کے لیے سٹارٹ اپ فنڈ کے طور پر 100 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیاجبکہ ابتدائی فنڈنگ کا مجموعی حجم 429 ملین ڈالر کے قریب ہے۔ اس میں سے 225 ملین ڈالر یورپین یونین دے گا اور برطانیہ نے 75 ملین ڈالر کے برابر رقم کا وعدہ کیا ہے۔ اب دیگر امیر ممالک پر بھی دباؤ ڈالا جانا چاہیے کہ وہ بھی اس فنڈ میں کھلے دل سے حصہ ڈالیں۔ یاد رہے کہ ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی نقصان کا تخمینہ کچھ مطالعات کے مطابق 400 بلین ڈالرسالانہ سے زیادہ ہے ،اور اس میں اضافہ متوقع ہے،اس لیے وقت کی اہمیت ہے۔ بڑھتے ہوئے موسمیاتی نقصانات اور نقصان کے معاشی اثرات کا انحصار موسمیاتی تخفیف اور موافقت کی کوششوں پر ہے۔ نئے معاہدے کے تحت عالمی بینک کی سرپرستی میں ایک فنڈ قائم کرنا مقصود ہے ، جو امیر صنعتی ممالک، ابھرتی ہوئی معیشتوں اور فوسل فیول پیدا کرنے اور زیادہ صرف کرنے والے ممالک، جیسا چین، خلیجی ریاستیں سے فنڈز کی وصولی اور ترقی پذیر ممالک کورقوم کی فراہمی کا ذمہ دار ہو گا۔

استاد دامن:عوامی شاعر

استاد دامن:عوامی شاعر

اری سرسری نظر جہان اْتےتے ورق زندگی دا تھلیا میںدامن رفیق نہ ملیا جہان اندر۔۔ماری کفن دی بْکل تے چلیا میں !یہ کلام ہے پنجابی کے مشہور شاعر استاد دامن کا۔ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ دامن تخلص تھا جبکہ اہل علم و فن افراد نے استاد کا خطاب دیا۔ اس لیے استاد دامن کے نام سے معروف ہوئے۔ استاد دامن ایک عجیب و غریب شخصیت تھے۔ وہ تھے تو پنجابی کے عوامی شاعر لیکن ایسے شاعر جن کا ان کی زندگی میں کبھی کوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہوا، جب کبھی ان سے استفسار کیا جاتا کہ وہ شعری مجموعہ کیوں نہیں شائع کراتے تو ان کا جواب ہوتا'' جب میرا کلام عوام کو زبانی یاد ہے تو پھر مجھے شعری مجموعہ چھپوانے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔ 4 ستمبر 1911ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے استاد دامن کا اصل نام چراغ دین تھا۔1947ء میں تقسیم ہند کے وقت وہ پنجابی کے سب سے مشہور شاعر تھے۔ انہوں نے کیا شعر کہا تھا:ایہہ دنیا منڈی پیسے دی، ہر چیز وکندی بھاسجنا ایتھے روندے چہرے وکدے نئیں، ہسنے دی عادت پا سجنااستاد دامن پیشے کے اعتبار سے درزی تھے۔ 1930ء میں انہوں نے میاں افتخار الدین کا ایک سوٹ تیار کیا جو ان کی شاعری سن کر بڑے متاثر ہوئے۔ انہوں نے استاد دامن کو دعوت دی کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے زیر اہتمام جلسے میں اپنی نظم پڑھیں۔ جب استاد دامن نے نظم پڑھ کر سنائی تو ان کے نام کا ڈنکا ہر طرف بجنے لگا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اس جلسے میں موجود تھے۔ انہوں نے استاد دامن کی انقلابی اور سامراج کے خلاف نظم سن کر انہیں''شاعر آزادی‘‘ قرار دیا۔1947ء کے افسادات میں استاد دامن کی دکان اور گھر کو فسادیوں نے نذر آتش کردیا۔ ان کی اہلیہ اور جوان بیٹی کو بھی موت کی نیند سلا دیا۔ تاہم استاد دامن نے لاہور میں ہی قیام پذیر ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ تمام زندگی آمریت، منافقت اور کرپشن سے نفرت کرتے رہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے مداحین نے ان کا شعری مجموعہ ''دامن دے موتی‘‘ شائع کیا۔ ان کی نظموں کا آج بھی پنجاب کے مختلف علاقوں میں حوالہ دیا جاتا ہے۔ وہ پہلے ''ہمدم‘‘ کے قلمی نام سے لکھتے رہے۔ یہ قلمی نام بعد ازاں ''دامن‘‘ ہو گیا۔ استاد کا خطاب انہیں مقامی لوگوں نے دیا۔اس کے بعد استاد دامن سیاسی اور عوامی جلسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگے۔ وہ اکثر اس رائے کا اظہار کرتے رہتے تھے کہ جدوجہد آزادی اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی جب تک ہندو،مسلمان اور سکھوں میں اتحاد نہیں ہو جاتا۔استاد دامن کی شاعری میں لوک رنگ، تصوف، سیاسی موضوعات، روایتی موضوعات کے علاوہ روز مرہ زندگی کا ہر رنگ ملتا ہے۔ ان کی شاعری حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کی خوبیوں سے مالامال ہے اور انسانی زندگی کی خوبصوت عکاس ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں انہوں نے ایک نظم لکھی جس پر انہیں گرفتار کر لیا گیا، ان کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ عوام کے جذبات انہی کی زبان میں بیان کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ عوامی شاعر کہلائے۔ اس کے علاوہ وہ رجائیت پسند تھے اور انہوں نے اپنے مداحین کو کبھی یاسیت اور قنوطیت کی دلدل میں نہیں دھکیلا۔ ذرا ان کی یہ شاعری ملاحظہ کیجئے:ساڈے ہتھاں دیاں ریکھاں پیراں نال مٹین والیواوئے موئیاں ہویا دیاں صفاں ولیٹن والیوکرلو کوٹھیاں وچ چانناکھو کے ساڈیاں اکھیاں دا نورایتھے انقلاب آئے گا ضرورسانوں کوئی شکست نہیں دے سکدابھانویں کوئی کڈ ادم خم نکلےاستاد دامن دے گھر ویکھیا جےدو ریوالور تے تن دستی بم نکلےاستاد دامن نے پنجاب اور پنجابی زبان سے اپنی محبت کا اظہار بھی بڑے واضح انداز میں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں! میں پنجابی پنجاب دے رہن والا سدا خیر پنجابی دی منگ داہاںموتی کسے سہاگن دی نتھ داہاں ٹکڑا کسے پنجابن دی ونگ داہاں اس کے بعد وہ اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ وہ اردو اور انگریزی کے دشمن نہیں لیکن ان کی منہ بولی زبان پنجابی کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں !زندگی کیہ اے پتن سیاپیاں دیر وندے آئے ساں پیٹ دے گزر چلے خون جگر دا تلی تے رکھ کے تے دھرتی پوچدے پوچدے گزر چلے ایتھے کیوں گزاریئے زندگی نوںایہو سوچدے سوچدے گزر چلےاب ذرا ان ا شعار کو دیکھیں، جہاں وہ دلیل سے کہتے ہیں کہ کم عقلوں اور نادانوں کو اشعار سنانا بے سود ہے۔ کم عقلی تے تیری کوئی شک نہیں دانش مورکھاں توں پیا وارناں ایںدامن شعر سنائونا ایں مور کھاں نوں موتی پتھراں تے پیا مارناں ایں استاد دامن حبیب جالب کو اپنا '' اردو ایڈیشن‘‘ کہتے تھے۔ وہ کہتے تھے وہ اردو کا عوامی شاعر ہے اور میں پنجابی کا عوامی شاعر ہوں۔ اگرچہ بعض نقاد حبیب جالب اور استاد دامن کو نعرے بازکہتے ہیں لیکن یہ ایک رائے ہے۔ ویسے تو ڈاکٹر وزیر آغا جیسے جید نقاد نے فیض احمد فیض کو بھی نعرے باز کہا تھا۔ ان نقادوں کے نزدیک معروضی صداقتوں اور عصری کرب کو عوام کی زبان میں بیان کرنا نعرے بازی ہے اور ایسا کلام شعری طرز احساس سے خالی ہوتا ہے۔ بقول حسن عسکری یہ نفس کی نہیں آفاق کی شاعری ہے۔''وقت کی راگنی‘‘ میں انہوں نے بڑی صرافت سے ایسی شاعر کو رد کیا ہے لیکن کیا یہی حرف آخر ہے؟ اس پر بحث کے دروازے کھل سکتے ہیں۔1984ء ایک ایسا سال تھا جب بڑی معروف ہستیاں عالم جاوداں کو سدھار گئیں۔ ان میں راجندر سنگھ بیدی، خواجہ خورشید انور اور فیض احمد فیض شامل ہیں۔ اسی سال کے آخر میں (تین دسمبر1984ء کو) استاد دامن بھی یہ جہاں چھوڑ گئے۔

آج کا دن

آج کا دن

بھارت کا بد ترین صنعتی حادثہ3 دسمبر 1984ء کو بھارت کے ضلع بھوپال میں کیڑے مار دوا بنانے والی فیکٹری میں حادثے کے سبب زہریلی گیس آبادی میں پھیل گئی ۔جس کے نتیجے میں8 ہزار لوگ ہلاک اور ساڑھے 5 لاکھ کے قریب متاثرہوئے۔اس سانحہ کا شمار بھارت کے بد ترین صنعتی سانحات میں کیا جاتا ہے۔''ہایا بوسا 2‘‘ ''ہایا بوسا 2‘‘ جاپانی ریاستی خلائی ایجنسی کی جانب سے چلایا جانے والا ایک مشن تھا جسے 3دسمبر2014ء کو لانچ کیا گیا اور اس نے ڈیڑھ سال تک ایسٹرائڈز کے نمونے اکٹھے کئے۔ ''ہایا بوسا 2‘‘ نومبر 2019ء میں ایسٹرائڈ سے الگ ہوا اور 5دسمبر 2020ء کو اس کے جمع کئے جانے والے نمونے زمین تک پہنچائے۔ اس مشن کو اب2031ء تک بڑھا دیا گیا ہے۔''ہایا بوساٹو‘‘ میں ریموٹ سینسنگ اور سیمپلنگ کیلئے متعدد سائنس پے لوڈز شامل تھے۔ ''ہو کنسرٹ حادثہ‘‘''ہو کنسرٹ حادثہ‘‘ ہجوم کی وجہ سے پیش آیا۔ 3دسمبر1979ء کو راک بینڈ ''دی ہو‘‘ نے سنسناٹی (امریکہ) میں پرفارم کیا۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد کنسرٹ کے احاطے میں داخل ہونے کیلئے انتظار کر رہی تھی۔اندر داخل ہونے کی کوشش میں ہجوم میں بھگدڑ مچ گئی جس کے نتیجے میں 11افراد ہلاک ہوئے۔''مالٹا سمٹ‘‘''مالٹا سمٹ‘‘ امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش اور سوویت جنرل سیکریٹری میخائل گوربا چوف کے درمیان ایک ملاقات تھی جو 3 دسمبر 1989ء کو ہوئی۔ دسمبر 1988ء میں نیویارک میں ہونے والی ملاقات کے بعد یہ ان کی دوسری ملاقات تھی۔ سربراہی اجلاس کے دوران، بش اور گورباچوف نے سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا۔ مالٹا سمٹ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے اہم قرار دیاجاتا ہے۔ جب برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ نے یورپ کیلئے جنگ کے بعد کے منصوبے پر اتفاق کیا۔ ''مارس پولر لینڈر‘‘''مارس پولر لینڈر‘‘ 3جنوری1999ء کو امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے مریخ کی مٹی اور آب و ہوا کا مطالعہ کرنے کیلئے لانچ کیا گیا تھا۔ اس روبوٹ کا وزن تقریباً290کلو گرام تھا۔3دسمبر1999ء کواسے مارس پر لینڈ کرنا تھا لیکن لینڈ نگ سے کچھدیر قبل ہی ناسا کے ساتھ اس کا رابطہ منقطع ہو گیا۔مریخ پولر لینڈر کی کل لاگت ساڑھے سولہ کروڑ امریکی ڈالر تھی۔

’’پیکو دا نیب لینا‘‘: انتہائی پُر خطر چوٹی

’’پیکو دا نیب لینا‘‘: انتہائی پُر خطر چوٹی

برازیل کے شمالی حصے میں واقع ''ایمزوناس‘‘ نامی ریاست ایما زون کے گھنے جنگلات کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔ اس ریاست کا ایک شہر ''میٹو راکا‘‘ ہے جس کی آبادی تقریباً تین ہزار افراد پر مشتمل ہے۔یہ شہر دنیا بھر میں برازیل کی بلند ترین اور دنیا کی مشکل ترین چوٹیوں میں سے ایک خطرناک چوٹی ''پیکو دا نیب لینا‘‘ (Pico Da Neblina)کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ ''میٹو راکا‘‘ تک پہنچنا ہی ایک دشوار سفر کی شروعات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔2995 میٹر بلند دنیا کی اس خطرناک اور مشکل ترین چوٹی ''پیکو دا نیب لینا‘‘ بارے آپ کو بتاتے چلیں کہ ''پیکو دا نیب لینا‘‘ پرتگالی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ''غضب ناک چوٹی‘‘ کے ہیں۔ 1950ء میں کچھ غیر ملکی مہم جوؤں نے اسے دریافت کر کے یہ نام دے ڈالا تھا جبکہ یہاں ایک ہزار سال سے زیادہ قدیم آباد یانومامی قبائل کے مطابق اس کا قدیمی نام ''یاریپو‘‘ ہے، جس کے یانومامی زبان میں معنی ''ہواؤں کا گھر‘‘ کے ہیں۔''ایمیزوناس‘‘ ریاست کے دارالحکومت ''ماناؤس‘‘ میں ہوائی جہاز پر اترنے کے بعد آپ اپنی منزل ''میٹو راکا‘‘ پہلے بذریعہ کار اور پھر ایک سپیڈ بوٹ کے ذریعے پہنچتے ہیں۔ گویا اس سفر کے دوران یہ آپ کی منزل کا پہلا پڑاؤ ہوتا ہے، جہاں آپ کو ''پیکو دا نیب لینا‘‘ روانگی سے پہلے متعدد مقامی نوعیت کی رسومات سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں روایتی طور پر اس پہاڑ کی ایک مخصوص روحانی حیثیت ہے، جسے صدیوں سے مقدس سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ پہاڑ اچھی اور بری روحوں کا مسکن ہے۔ اس لئے مقامی طور پر یانومامی لوگوں نے باقاعدہ ''اے وائی آر سی اے‘‘ نامی ایک تنظیم بنا رکھی ہے جو روحانی معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہے اور باقاعدہ طور پر اس کا ایک صدر نامزد کیا جاتا ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد پہاڑ کی اس مشکل ترین چوٹی پر چڑھنے والے کوہ پیماؤں کی حفاظت کرنا اور انہیں اس سفر کے دوران پیش آنے والے ممکنہ مسائل سے آگاہ کرنا اور ان کا حل بتانا ہوتا ہے۔یہاں ایک بات ذہن نشیں کرنا ہو گی کہ یہاں کی عملی زندگی میں عاملوں کا عمل دخل کلیدی کردار ادا کرتا ہے، باالفاظ دیگر ان عاملوں کی اجازت کے بغیر آپ برازیل کی اس بلند ترین چوٹی کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکتے۔ یہ دنیا کی واحد پہاڑی چوٹی ہے جہاں جانے سے پہلے آپ کو ایک دلچسپ رسم سے گزرنا پڑتا ہے۔کوہ پیما عام طور پریہاں روانگی سے پہلے اپنے پورٹرز اور گائیڈز کے ساتھ گروپ کی شکل میں روانہ ہوتے ہیں۔روانگی سے پہلے انہیں مقامی عاملوں کی ایک روایتی رسم سے گزرنا ہوتا ہے جس کا مقصد اس پہاڑ کی چوٹی پر بدروحوں سے کوہ پیماؤں کی حفاظت ہوتا ہے۔ یہاں کے مقامی افراد اور ان عاملوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہاں روحیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک نیک روح اور دوسری بد روح۔ نیک روح سے وہاں جانے والوں کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا جبکہ بدروح کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کی جان بھی لے سکتی ہیں۔ اس لئے عازم سفر ہونے والے افراد کو جن کا عمومی پڑاؤ آٹھ روز کا ہوتا ہے، ان کو بغیر دعائیہ رسومات شرکت کے چوٹی پر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ ''دعائیہ تقریب‘‘ جہاں ان بدروحوں سے بچنے کی دعا ہوتی ہے وہیں یہ نیک روحوں سے وہاں داخل ہونے کی اجازت بھی ہوتی ہے۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہاں پر روحوں کا راج ہے جن کی اجازت اچھا شگون تصور کیا جاتا ہے۔ بد روحوں کو بھگانے والے عاملوں کو مقامی زبان میں ''ہیکورا‘‘ کہا جاتا ہے۔ دعائیہ تقریب کے دوران مختصر سے لباس میں ملبوس یہ عامل اپنے بازؤں پر پروں سے بنے بیلٹ نما پٹے باندھے سر جھکائے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہے ہوتے ہیں جبکہ پہاڑوں پر چڑھنے والے کوہ پیما اپنے پورٹرز اور گائیڈوں سمیت خاموشی سے اس رسم کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اتنے میں سب سے بڑے عامل کو ایمازون کے مقامی جنگل کی چند مخصوص جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ''پریکا‘‘ نامی ایک سفوف پیش کیا جاتا ہے جسے یہ عامل زور کا سانس لے کر سونگھتا ہے۔ جسے سونگھتے ہی اس کی قے والی کیفیت ہوجاتی ہے جس سے اس کے گلے سے عجیب و غریب آوازیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں، آنکھیں چمک اٹھتی ہیں اور اپنے بازؤں کو زور زور سے حرکت دینا شروع کر دیتا ہے اور اپنے منہ کا رخ آسمان کی طرف کرتے ہوئے وہ زور زور سے کسی ان دیکھی مخلوق سے ہم کلام ہو جاتا ہے۔ اس کی اس ہیجانی کیفیت کے باعث تھوڑی دیر کیلئے مجمع پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے جس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ہیکورا کا بلندی پر روحوں سے رابطہ ہو چکا ہے۔ چنانچہ اس دعائیہ تقریب میں شرکت کے بعد مہم جوؤں کو ''پیکو دانیب لینا‘‘ کی جانب جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ جانے سے پہلے انہیں ایک فارم پر دستخط کرنے ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کٹھن سفر کے دوران پیش آنے والے تمام نشیب و فراز اور اتفاقی حادثات کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ جن سے نمٹنے کیلئے ان کو سانپوں سے بچنے کیلئے چمڑے کی مضبوط جرابیں اورلمبے جوتے، مچھروں، خطرناک کیڑوں اور نوکیلے درختوں سے بچنے کیلئے دستانے، مچھروں سے بچنے کیلئے مچھر دانی کے ساتھ ساتھ گھٹنوں پر چڑھانے کیلئے ٹی کیپ ساتھ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ دوران چڑھائی ممکنہ خطرات''پیکو دا نیب لینا‘‘ کا راستہ دلدلوں، دشوار گزار ندیوں، درختوں اور جھاڑیوں کی بے ربط جڑوں، غیر ہموار پھسلتے چٹانی راستوں پر مشتمل ہے، جہاں پر ایک ایک قدم پھونک پھونک کر ہی نہیں بلکہ آنکھیں کھول کر رکھنا ہوتا ہے۔ یہ پہاڑ دراصل ایسے مضبوط اعصاب اور مضبوط ارادے والے مہم جوؤں کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں جو ہر قدم پر نت نئے خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت رکھتے ہوں۔اگرچہ چڑھائی کی طرف آپ کا یہ فاصلہ 36 کلومیٹر ہے لیکن اسے طے کرنے میں پانچ دن لگ جاتے ہیں، جس سے یہ اندازہ کرنے میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہئے کہ یہ خطہ کتنا خطرناک ہے۔ پہلے تین دن تک آپ کا گزر شہرت یافتہ گرم اور مرطوب بارشی جنگل ''برومیلیڈس‘‘ سے ہوتا ہے جو اپنی دلدلی زمین کی وجہ سے مشہورہے۔ جوں جوں آپ بلندی کی جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں رفتہ رفتہ درخت اور سبزہ کم ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کے ساتھ درجہ حرارت منفی کی طرف جانا شروع ہو جاتا ہے۔ پانچ دن کی مسلسل مسافت کے بعد جب آپ اپنی منزل کا تین چوتھائی فاصلہ مکمل کر چکے ہوتے ہیں تو آپ اپنے ارد گرد نوکیلی چٹانوں کو دیکھتے ہیں جن پر جا بجا دھاتی کنڈے ٹھونکے گئے ہیں، جنہیں پکڑتے پکڑتے آپ آہستہ آہستہ چل رہے ہوتے ہیں۔ جوں جوں آپ آگے بلندی کی طرف بڑھتے جاتے ہیں آپ کا راستہ مزید مشکل اور پُرخطر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی اس سفر کا نقطہ عروج ہے جہاں بہت سارے مہم جوؤں کے حوصلے جواب دے جاتے ہیں۔ چند ایک کو ہی کامیابی ملتی ہے جبکہ کئی تو وہاں پہنچے بغیر ہی لوٹ آتے ہیں۔   

غیر ارادی جسمانی افعال

غیر ارادی جسمانی افعال

ہمارے جسم میں کچھ ایسی چیزیں رونما ہوتی ہیں جو انتہائی پیچیدہ ہوتی ہیں اور ان کو اچھی طرح سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمارا جسم اس قسم کی اچانک پڑنے والی اُفتاد سے بچانے کیلئے بھی کچھ دفاعی اقدام کرتا ہے اور ہمارا یہ ''ڈیفنس میکنزم‘‘ ہفتے میں سات دن اور دن بھر میں 24 گھنٹے میں مختلف مشکلات سے بچاتا ہے۔ ذیل میں ان عجیب و غریب جسمانی افعا ل پر روشنی ڈالی جا رہی ہے جن کے بارے میں پہلے شاید آپ نے کبھی غور نہ کیا ہو کہ ان میں ہمارے لئے کیا بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے۔جمائی لینا: جمائی لینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دماغ سے اگر بہت زیادہ کام لیا جا چکا ہے جس کی وجہ سے یہ گرم ہو چکا ہے یا اس میں بہت ساری معلومات بھر دی گئی ہیں تو اب اسے ٹھنڈا کرنے یا تازہ دم کرنے کیلئے ایک جمائی لے لی جائے۔چھینکنا: عام طور پر چھینک ہمیں اس وقت آتی ہے جب ہماری ناک کی اندرونی گزر گاہ میں الرجی پیدا کرنے والی چیزیں مثلاً خوردبینی اجسام، گردیا دیگر خراش پیدا کرنے والی اشیاء جمع ہو جائیں۔ چھینک کے ذریعہ دراصل جسم اس قسم کے ''کچرے‘‘ سے نجات حاصل کرتا ہے۔انگڑائی لینا: جبلی طور پر ہم اپنے بازو بلند کرکے اس وقت انگڑائی لیتے ہیں جب ہمیں دن بھر کے کاموں کیلئے اپنے جسم کو تیار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ انگڑائی لینے سے ہمارے پٹھے کھینچ کر مضبوط ہوتے ہیں، خون کا بہائو بحال ہوتا ہے اور موڈ میں بہتری بھی آتی ہے۔ہچکی لینا: جب ہم بہت جلدی جلدی کھانا کھاتے ہیں یا بڑے نوالے اچھی طرح چبائے بغیر نگلنا چاہتے ہیں یا بہت زیادہ کھانے کے خواہشمند ہوتے ہیں تو پھیپھڑے اور معدے سے متعلق عصبے دبائو میں آ جاتا ہے۔ یہ عصبہ چونکہ معدے اور پیٹ کی جھلی کے بہت قریب ہوتا ہے اس لئے تیز کھانے کے نتیجے میں یہ پریشانی میں مبتلا ہو کر ہچکی کے دورے کی صورت میں اس کا اظہار کرتا ہے۔نیند سے پہلے جھٹکے: نیند کی آغوش میں جانے کیلئے جب آپ بستر پر لیٹ جاتے ہیں اور آپ پر نیند طاری ہونے لگتی ہے تو اسی دوران ایک لمحے کیلئے آپ کا پورا وجود ہل جاتا ہے ۔ اس لمحے آپ کے تمام پٹھے اتنی سختی سے اینٹھتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ آپ بستر سے نیچے گر جائیں گے اور آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ یہ Myclonic Jerks اس وقت محسوس ہوتے ہیں جب آپ سونے کی کوشش کرتے ہیں اور اس وقت آپ کے سانس لینے کی رفتار تیزی سے کم ہونے لگتی ہے، جبکہ نبض بھی قدرے سست ہو جاتی ہے اور عضلات پر سکون ہو جاتے ہیں۔ حیران کن طور پر جسم میں ہونے والی ان تبدیلیوں کے بارے میں دماغ یہ تاثر دیتا ہے کہ شاید موت قریب ہے۔ اسی لئے جسم آپ کو جھٹکا دے کر یہ بتاتا ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا اور آپ موت سے زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔پوروں پر جھریاں: ہتھیلی اور انگلی کے پوروں پر نمودار ہونے والی جھریاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت زیادہ دیر تک اگر پانی میں کام کیا جائے یا انتہائی سرد موسم میں دستانے کے بغیر باہر نکلا جائے تو ہوا میں بہت زیادہ نمی سے جسم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ماحول بہت زیادہ پھسلن والا ہو گیا ہے۔ یوں ہتھیلی کی جلد فوری طور پر اس طرح تبدیل ہو جاتی ہے کہ آپ چکنی سطح پر گرفت اچھی طرح مضبوط کر سکیں اور آپ کا ہاتھ نہ پھسلے۔رونگٹے کھڑے ہونا: بہت زیادہ سردی یا خوف کی حالت میں ہماری جلد ٹھٹھر سی جاتی ہے اور اس کی سطح پر بہت چھوٹے چھوٹے سے ابھار جیسے نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال کو رونگٹے کھڑے ہونا (Goosebumps) بھی کہتے ہیں۔ اگر ہم کسی چیز سے ڈر جائیں یا باہر بہت زیادہ سردی پڑ رہی ہو تو ہماری جلد اس حالت میں تبدیل ہو کر یہ کوشش کرتی ہے کہ ہمارے جسم کے مساموں سے ہر وقت جو گرمی خارج ہوتی رہتی ہے، اس کی مقدار کچھ کم ہو جائے۔ اس طرح نامہربان لمحات کا مقابلہ کرنے میں جسم کو آسانی ہوتی ہے۔آنسو: ہماری آنکھوں سے آنسو مسلسل نکلتے رہتے ہیں لیکن ان کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ یہ آنسو ہماری آنکھوں کی بیرونی سطح کو خشک ہونے سے بچاتے ہیں ۔اگر کوئی چیز آنکھ میں گھس جائے مثلاً دھواں ، بخارات یا گرد وغیرہ تو آنسو انہیں دھو کر باہر نکالنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ بہت زیادہ خوشی اور بہت زیادہ صدمے میں بھی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ Emotional Tearsکے ذریعے دماغ متعلقہ فرد کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتا ہے۔  

آج کا دن

آج کا دن

بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم پاکستان کا حلف اٹھایا 1988ء میں آج کے روز بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ کسی بھی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ انہوں نے 1988ء سے 1990ء اور پھر 1993ء سے 1996ء تک پاکستان کی 11ویں اور 13ویں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ 1980ء کی دہائی کے اوائل سے لے کر 2007ء میں اپنے قتل تک پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ یا شریک چیئرپرسن رہیں۔نپولین بوناپارٹ کی تاجپوشیدو دسمبر 1804ء کو فرانسیسی شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کی پیرس میں تاج پوشی کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں پوپ نے بھی شرکت کی۔نپولین بوناپارٹ اپنے رجائی نام نپولین سے جانا جاتا تھا، وہ فرانسیسی شہنشاہ ہونے کے ساتھ فوجی کمانڈر بھی تھا جو فرانسیسی انقلاب کے دوران نمایاں ہوا اور اس نے کامیاب مہمات کی قیادت کی۔ انہیں تاریخ کے عظیم ترین فوجی کمانڈروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور ان کی جنگیں اور مہمات اب بھی دنیا بھر کے فوجی اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔متحدہ عرب امارات کا قیام1971ء میں 2 دسمبر کو خلیج فارس میں متحدہ عرب امارات کے نام سے نئی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ ابو ظہبی ، دبئی ، شارجہ ، عجمان ، ام الکوین اور فجیرہ کے حکمرانوں نے 18 جولائی 1971ء کو دبئی میں منعقدہ اجلاس میں متحدہ عرب امارات بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایک آزاد، خودمختار ریاست کی بنیاد 2 دسمبر 1971ء کو باضابطہ طور پر اعلان کیا گیا۔ چند ماہ بعد 10 فروری 1972ء کو راس الخیمہ بھی بالآخر فیڈریشن میں شامل ہو گیا۔ متحدہ عرب امارات 2 دسمبر 1971ء کو عرب لیگ اور 9 دسمبر 1971 کو اقوام متحدہ میں شامل ہوا۔ ملک 1972 میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم (اب اسلامی تعاون کی تنظیم) کا رکن بن گیا اور 1981 میں خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کا قیامگیمورو معاہدہدو دسمبر 1920۔ ترکی اور آرمینیا کے مابین ہونے والے ''گیمورو معاہدے‘‘ پر دستخط کیے گئے۔ اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تاہم اس سے ماسکو اور قارس معاہدے کی بنیاد رکھتے ہوئے ترکی کی مشرقی حدود کو وضع کیا گیا۔متحدہ عرب امارات 2 دسمبر 1971 کو عرب لیگ اور 9 دسمبر 1971 کو اقوام متحدہ میں شامل ہوا۔ ملک 1972 میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم (اب اسلامی تعاون کی تنظیم) کا رکن بن گیا اور 1981 میں خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کا قیام