عالمی ادارہ صحت (WHO) اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (UNICEF) کے مطابق دنیا بھر میں 10 تا 19 سال کے ہر سات میں سے ایک بچہ ذہنی مسائل کا شکار ہے ۔ان مسائلمیں اعصابی خلل اور ذہنی دباؤ نمایاں ہیں۔ان بچوں میں ایک تہائی ذہنی مسائل 14 سال کی عمر سے پہلے اور نصف مسائل 18 سال کی عمر سے قبل ظاہر ہوتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ان اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں اور نوعمر افراد کو فراہم کی جانے والی ذہنی صحت کی خدمات میں بہتری کے لیے تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کو اس معاملے میں ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔رپورٹ کے مطابق بچوں اور نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں سے پوری طرح کام لینے کے قابل بنانے کے لیے ان اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں بچوں کو ذہنی صحت کے علاج معالجے کی سہولیات تک خاطر خواہ رسائی حاصل نہیں۔ ذہنی صحت سے متعلق تشویشناک علامات کا سامنا کرنے والے بیشتر بچوں کو طبی سہولیات کی عدم دستیابی، مہنگے علاج اور ایسے امراض سے جڑی بدنامی کے باعث طبی مدد نہیں مل پاتی۔ عالمی ادارہ صحت میں ذہنی و دماغی صحت اور منشیات کے استعمال کی روک تھام کے شعبے کی ڈائریکٹر Dévora Kestel کا کہنا ہے کہ تمام بچوں کو ان کی عمر کے اعتبار سے مستند علاج کی فراہمی یقینی بنانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔رپورٹ میں دنیا بھر کے ایسے لاکھوں بچوں کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے جو ذہنی مسائل کا شکار ہونے کے باعث اپنے خاندانوں کی موجودگی کے باوجود الگ تھلگ کر دیے جاتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کے انسانی حقوق کی پامالی ہے اور طبی و سماجی حوالے سے اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذہنی مسائل میں مبتلا بچوں اور نوعمر افراد کو ان کے خاندانوں اور معاشروں میں ہی رکھ کر ان کی پرورش کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ان کی تعلیم، سماجی تعلقات اور مجموعی ترقی و بہبود کو بھی جاری رہنا چاہیے۔عالمی ادارہ صحت نے2022ء میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ دنیا میں تقریباً ایک ارب افراد ذہنی امراض کی کسی نہ کسی قسم میں مبتلا ہیں۔اور اس ایک ارب میں ہر ساتواں فرد نو عمر ہے۔ ذہنی صحت کے مریضوں کی علاج کی سہولت تک رسائی میں یہ بات بہت اہم ہے کہ اس مریض کا تعلق کسی امیر ملک سے ہے یا غریب ملک سے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق زیادہ آمدنی والے ممالک میں نفسیاتی بیماری کے شکار ہر 10 میں سے 7 افراد علاج کروا لیتے ہیں لیکن کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح 100 میں12 افراد کی ہے۔ڈپریشن کے کیسز میں صورتحال زیادہ ڈرامائی ہے کیونکہ زیادہ آمدنی والے ممالک ڈپریشن کے23 فیصد کیسز میں مناسب علاج فراہم کرتے ہیں لیکن کم اور کم درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہ صرف تین فیصد ہے۔ذہنی عوارضYears lived with disability (YLDs) کی ایک بنیادی وجہ ہے۔یہ پیمانہ کسی بیماری یا معذوری کی وجہ سے مکمل صحت کے بغیر گزارے ہوئے زندگی کے عرصے کی پیمائش کرتا ہے۔شیزوفرینیاجو کہ 200 میں سے تقریباً ایک بالغ شخص میں ہوتا ہے،ذہنی صحت کاایک بنیادی مسئلہ ہے۔شیزوفرینیا یا دیگر ذہنی عارضوں میں مبتلا افراد دیگر قابل علاج بیماریوں میں مبتلا افراد کی نسبت اوسطاً 10 سے 20 سال پہلے مر جاتے ہیں۔ذہنی صحت کے مسائل اور پاکستانذہنی صحت کے مسائل پاکستان میں صحت کے پیچیدہ مسائل دنیا کی اوسط سے زیادہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً پانچ کروڑ افراد مختلف اقسام کے ذہنی مسائل کا شکار ہے۔یہاں بھی ان میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اڑھائی کروڑ افراد کو نفسیاتی امداد کی ضرورت ہے، تاہم ذہنی صحت کے امراض کی سکریننگ اور علاج کے لیے مختص وسائل بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ WHO کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ افراد کے لیے صرف 0.19 ماہر نفسیات دستیاب ہیں، یہ تعداد ڈبلیو ایچ او کے مشرقی بحیرہ روم کے علاقے اور پوری دنیا میں سب سے کم تعداد میں سے ایک ہے۔پھیلاؤعالمی ادارہ صحت کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً پانچ کروڑ افراد ذہنی عارضوں کا شکار ہیں۔ علاجپاکستان میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد میں سے صرف 10 فیصد ہی علاج کرواتے ہیں۔ ماہر نفسیاتپاکستان میں دنیا میں سب سے کم تعداد میں ماہر نفسیات ہیں، یہاں ایک لاکھ افراد پر صرف 0.19 ماہر نفسیات ہیں۔ جنسخواتین میں دماغی صحت کا مسئلہ زیادہ ہے۔ عام ذہنی امراض شہری علاقوں میں 25 فیصد ، دیہی علاقوں میں 72 فیصد تک ہیں۔