ہلکے پھلکے رومانٹک گانے ہوں یا پھر المیہ دھنیں، مسعود رانا ہر قسم کے گیت یکساں مہارت کے ساتھ گانے کی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے اس عظیم ورسٹائل گلوکار کی آج 28ویں برسی ہے۔ مسعودرانا، پاکستانی فلمی تاریخ کے واحد گلوکار تھے جنھوں نے 600 سے زائد فلموں کے لیے نغمہ سرائی کی تھی۔ انھیں یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ اپنی پہلی فلم ''انقلاب‘‘ (1962ء) سے لے کر اپنی آخری فلم ''سناٹا‘‘ (1995ء) تک فلمی صنعت کی ضرورت بنے رہے۔ اپنے 34برسوں پر محیط کریئر میں کبھی کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں گزرا تھا کہ جب ان کی بطور گلوکار کوئی فلم ریلیز نہ ہوئی ہو۔ وہ اکلوتے گلوکار تھے جنھیں اردو اور پنجابی فلموں میں یکساں کامیابی حاصل ہوئی تھی اور ان کی بے مثل کارکردگی کی وجہ سے انھیں ''پاکستانی رفیع‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ منفرد لہجے کے حامل اس گلوکار نے مشکل طرز کے گانے بھی ریکارڈ کرائے جو سننے والوں کو آج بھی اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔مسعود رانا کی دوسری ہی فلم ''بنجارن‘‘ سے پاکستانی فلموں کو محمد رفیع کا متبادل مل گیا۔ 1964ء کی فلم ''ڈاچی‘‘ نے انہیں پنجابی فلموں کا تاحیات ناقابل شکست گلوکار بنا دیا۔ 1966ء کی فلم ''ہمراہی‘‘ کے 7 امر گیت گا کر مسعود رانا نے گائیکی کی معراج کو چھو لیا۔ 1984ء کی فلم ''عشق نچاوے گلی گلی‘‘ کیلئے گائیکی پر انہیں پہلا قومی ایوارڈ یافتہ گلوکار ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔پاکستان فلم انڈسٹری کے عظیم گلوکار مسعود رانا 9 جون 1938ء کو سندھ کے شہر میرپورخاص میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام مسعود احمد رانا تھا۔ ان کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا جو جالندھر سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ انہوں نے 1955ء میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے گانا شروع کیا۔گزرے وقتوں میں ریڈیو سٹیشن کسی بھی فنکار کی ابتدائی درس گاہ ہوتی تھی۔ریڈیو پاکستان حیدرآباد بھی ایک ایسی ہی درسگاہ تھی، جس نے سندھ کے بہت سے فنکاروں کوپروان چڑھایا، گلوکار مسعود رانا بھی ان فنکاروں میں سے ایک تھے۔ 60ء کے عشرے میں انہوں نے کراچی میں ایک میوزک بینڈ بنایا جس میں ان کے ساتھ نذیر بیگ (اداکار ندیم) اور اخلاق احمد بھی شامل تھے۔1962ء میں ہدایتکار اقبال شہزاد کی فلم ''انقلاب‘‘ سے مسعود رانا کی فلمی گیت گانے کی خواہش پوری ہوئی، مسعود رانا کا پہلا فلمی گیت ایک ترانہ ''مشرق کی تاریک فضا میں نیا سویرا پھوٹا ہے، اب یہ راز کھلے گا سب پر،کس نے کس کو لوٹا ہے‘‘ تھا۔اس گیت یا ترانے میں اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کی مدح سرائی کی گئی تھی جنہیں اس وقت پاکستانی قوم کا نجات دہندہ بھی کہا جاتا تھا۔مسعود رانا ہر قسم کے گیت گانے میں مہارت رکھتے تھے۔ خاص طور پر اونچے سروں میں گائے گئے مشکل ترین گیت گانے میں ایک بے مثل گلوکار تھے۔ان کی آواز فلم میں کہانی اور مکالموں کی طرح لازمی سمجھی جاتی تھی۔رومانوی گیت ہی نہیں طربیہ دھنوں اور غمگین شاعری کو اپنی دل گداز آواز دینے والے مسعود رانا ورسٹائل فنکار تھے اور ان کی اسی خوبی نے انہیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں ممتاز کیا۔ مسعودرانا ہی پاکستان کی فلمی تاریخ کے واحد گلوکار ہیں کہ جنہوں نے اردو اور پنجابی فلموں اور گیتوں کی سینچریاں بلکہ ڈبل سینچریاں بنائی تھیں۔مسعودرانا اپنے فلمی کریئر میں کبھی کسی ایک اداکار کے لیے مخصوص نہیں رہے۔ ان کے سب سے زیادہ گیت پس پردہ تھے۔ مسعودرانا کا فنی کریئر چار عشروں پر محیط تھا لیکن ان کے گیت آٹھ عشروں پر پھیلے ہوئے فنکاروں پر فلمائے گئے تھے جو ایک اور منفرد ریکارڈ ہے۔ 1920ء کے عشرہ میں فلمی کریئر کا آغاز کرنے والے اداکار نور محمد چارلی سے لے کر 1990ء کے عشرہ میں متعارف ہونے والے شان اور جان ریمبو پر بھی مسعودرانا کے گیت فلمائے گئے تھے۔مسعودرانا کے گیت باپ اور بیٹوں پر بھی فلمائے گئے تھے جو ایک اور عجوبہ تھا۔ اکمل، منور ظریف، سلطان راہی، دلجیت مرزا اور ریاض شاہد کے بعد ان کے بیٹوں بالترتیب شہباز اکمل، فیصل منور ظریف، حیدر سلطان، دلاور اور شان پر بھی مسعودرانا کے گیت فلمائے گئے تھے۔مسعودرانا نے موسیقار باپ بیٹوں کے ساتھ بھی نغمہ سرائی کی تھی جن میں رشید عطرے، ماسٹر عنایت حسین، بابا جی اے چشتی اور صفدر حسین کے بعد ان کے بیٹوں بالترتیب وجاہت عطرے، ماسٹر طفیل، تسکین چشتی اور عباس صفدر کے نام بھی آتے تھے۔ انہوں نے تین مختلف موسیقاروں کے ساتھ سو، سو سے زائد گیت بھی گائے تھے، جن میں بابا جی اے چشتی، ایم اشرف اور وجاہت عطرے شامل تھے۔ان کے گیتوں سے سجی فلموں میں آئینہ، دھڑکن، مجاہد، نائلہ، کون کسی کا، بھیّا، سنگ دل، پاک دامن، احساس، دامن اور چنگاری، میرا ماہی، مرزا جٹ، دھی رانی،دل میرا دھڑکن تیری، خواب اور زندگی،چراغ کہاں روشنی کہاں، ہمراہی، بدنام نمایاں ہیں۔دنیائے موسیقی کا یہ روشن ستارہ 4 اکتوبر 1995ء کو غروب ہو گیا لیکن ان کی یادوں کے چراغ شائقین موسیقی کے دلوں میں ہمیشہ روشن رہیں گے۔