کوہ سلیمان برج:8 سٹیل کے پلوں پر مشتمل بلوچستان اور پنجاب کا سنگم
اسپیشل فیچر
پاکستان کے شمالی علاقوں کی بات کی جائے تو ان علاقوںکو سوئٹزرلینڈ کہا جاتا ہے۔ یہ علاقے دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں۔ شمالی علاقوں میںپہاڑی سلسلے میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں اور برف سے ڈھکے پہاڑ اور سیاچن جیسے گلیشیئرز سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔
اسی طرح پاکستان کے دیگر علاقوں کی بات کی جائے تو وسطی پنجاب کے میدانی علاقے اور جنوبی پنجاب کے بہت سے تاریخی مقامات قابل دید ہیں۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے علاقے کوہ سلیمان بھی ایک دل موہ لینے والا سیاحتی مقام ہے۔
کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے مشرقی کنارے سے لے کر سندھ کے شہر جیکب آباد تک 450 کلومیٹر کے علاقے پر محیط ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ جنوب مغربی پنجاب کے علاقے ضلع ڈیرہ غازی سے بھی گزرتا ہے۔ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلہ بحر ہند سے چلنے والی گرم مرطوب ہوائوں کو بھی روکتا ہے۔ اس علاقے میں بعض اوقات درجہ حرارت نقطہ انجماد تک پہنچ جاتا ہے۔
سی پیک منصوبے کے آغاز کے ساتھ ہی بلوچستان اور جنوبی پنجاب کو ملانے والے زمینی راستے کی تعمیر نو کا کام شروع کیا گیا۔ 19ویں صدی کے آخر میں انگریزوں کی حکومت میں برطانوی انجینئرز نے کوہ سلیمان کے دشوار گزار راستوں پر سڑک بنا کر بلوچستان اور پنجاب کے درمیان آمدورفت کو آسان بنا دیا۔ پہاڑی علاقے میں منرو تک پہنچنے کے لئے گرڈو کے اونچے پہاڑ پر چڑھنے کیلئے سات مشکل موڑ تھے۔ ان دشوار گزار راستوں پر بڑے ٹرالرز اور ٹرک ، مسافر بسیں ،ویگنیں اور پکنک کیلئے آنے والوں کی گاڑیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
پاکستان میں سی پیک جیسے عالمی ترقیاتی کام کے آغاز کے ساتھ ہی ملک کے دیگر علاقوں سے چائنہ پاکستان کوریڈور کو ملانے کیلئے سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔ 2016 ء میں کو ہ سلیمان کے علاقے میں بھی نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے جاپان کی کمپنی کے ساتھ مل کر ایشیا میں اپنی نوعیت کا دوسرا سب سے بڑا اور پاکستان کے پہلے منصوبے کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کے بارے میں جاپانی سفارتخانے کے فرسٹ سیکریٹری اور ڈپٹی ہیڈ برائے اقتصادی و ترقی ٹیروکی ہاناز اوا نے کہا تھاکہ یہ جاپان اور پاکستان دوستی کی بہترین مثال ہے اور جاپان کے عوام کی طرف سے پاکستانیوں کے لئے بہترین تحفہ ہے۔
کوہ سلیمان کے دشوار گزار پہاڑی راستوں پر ڈیڑھ کلومیٹر کے علاقے پر محیط سٹیل کے پلوں کی تعمیر کے بعد سڑک کی چوڑائی 30 میٹر تک پھیل گئی۔ جس کے ایک طرف بلند پہاڑ اور دوسری طرف خوفناک گہری کھائی ہونے کے باوجود ٹریفک کے بہائو کو آسان بنا دیا گیا۔ اس منصوبے پر کل لاگت 1.2 ارب روپے آئی ۔یہ سٹیل سے بنائے گئے آٹھ پل ڈیڑھ کلو میٹر کے علاقے پر محیط ہیں۔ ان پلوں کے ستون 150 فٹ سے زیادہ اونچے ہیں۔
تعمیر کے لحاظ سے حیران کن ان سٹیل کے پلوں کے مکمل ہونے سے بلوچستان اور پنجاب کے درمیان گاڑیوں کے سفر میں فاصلے سمٹ گئے ۔کوہ سلیمان کے پتھریلے اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے کو کاٹتے ہوئے جاپانی فن تعمیر اور انجینئرنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے بنائے گئے یہ سٹیل کے پلوں کے حیرت انگیز امتزاج کے تحت بننے والی سڑک پر بھاری بھرکم ٹریفک 40 کلو میٹر کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے جو کہ صوبوں کے درمیان نقل و حمل کو آسان بنائے گا۔ یہ علاقہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو آپس میں ملاتا ہے۔
کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں ''فورٹ منرو‘‘ جسے '' تمن لغاری‘‘ بھی کہاجاتا ہے ایک پہاڑی جنت ہے جو کہ ایک سر سبز علاقہ ہے۔ کرنل اے اے منرو کے نام سے موسوم اس قصبے کی بنیاد انیسویں صدی میں رابرٹ گروز سنڈیمن نے رکھی تھی جو ایک برطانوی ہندوستانی فوج کا افسر تھا۔ ''فورٹ منرو‘‘ سطح سمندر سے 6470 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ''فورٹ منرو‘‘ خطے کے سرد ترین مقامات میں سے ایک ہے جہاں زیادہ تک سردی رہتی ہے اور بعض اوقات درجہ حرارت نقطہ انجماد تک پہنچ جاتا ہے۔ مقامی لوگ اسے ''منی مری‘ ‘ بھی کہتے ہیں۔ جو لوگ شمالی علاقوں کا سفر نہیں کرسکتے وہ ''فورٹ منرو‘‘ میں ہی ان علاقوں کا مزہ لے سکتے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں کیمپنگ، ہائیکنگ اور ٹریکنگ جیسی سرگرمیاں یہاں سیاحوں میں عام ہیں۔ اس قصبے میں زیادہ تر خانہ بندوست آباد ہیں جنہیں ''لغاری کہا جاتا ہے جو براہ راستے ایک پرانے بلوچی قبیلے سے منسلک ہیں۔