حکایت سعدیؒ : شیطانی وسوسہ
اسپیشل فیچر
ایک نیاز مند کثرت سے ذکر ِ الٰہی کرتا رہتا تھا۔ حتیٰ کہ ایک دن اس پر خلوص ذکر سے اس کے لب شیریں ہو گئے، شیطان نے اسے وسوسے میں مبتلا کر دیا۔ بے فائدہ ذکر کی کثرت کر رہا ہے۔ تو اللہ اللہ کرتا رہتا ہے۔ جبکہ اللہ کی طرف سے آواز ایک بار بھی نہیں آئی اور نہ ہی اللہ کی طرف سے کوئی جواب ملتا ہے، پھر یک طرفہ محبت کی پینگ بڑھانے سے کیا فائدہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیرا ذکر الٰہی اللہ کے ہاں مقبول نہیں، شیطان کی ان پُر فریب باتوں سے صوفی نے ذکر کرنا چھوڑ دیا۔ شکستہ دل اور افسردہ ہو کر سو گیا۔ آنکھ سو گئی اور قسمت جاگ گئی۔
عالم خواب میں دیکھا کہ حضرت خضرعلیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے دریافت کیا کہ ذکر الٰہی سے غفلت کیوں کی۔ اے نیک بخت! تو نے ذکر حق کیوں چھوڑ دیا۔ آخر تو اس ذکر پاک سے پشیمان کیوں ہو گیا ہے؟ اس نے کہا بار گاہ الٰہی سے مجھے کوئی جواب ہی نہیں ملتا۔ اس سے دل میں خیال آیا کہ میرا ذکر قبول ہی نہیں ہو رہا۔
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا تمہارے لئے اللہ عزوجل نے پیغام بھیجا ہے کہ تمہارا اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہونا اور دوسرا تمہارا پہلی دفعہ اللہ کہنا قبول ہوتا ہے تب دوسری بار تجھے اللہ کہنے کی توفیق ملتی ہے اور تمہارے دل میں یہ جوسوزوگداز ہے اور میری چاہت، محبت اور تڑپ ہے یہی تمہارے ذکر کی قبولیت کی نشانی ہے۔ اے بندے! میری محبت میں تیری یہ تدبیریں اور محنتیں سب ہماری طرف سے جزب و کشش کا ہی عکس ہیں۔ اے بندے! تیرا خوف اور میری ذات سے تیرا عشق میرا ہی انعام ہے، اور میری ہی مہربانی محبت کی کشش ہے کہ تیری ہر بار یا اللہ کی پکار میں میرا جواب شامل ہوتا ہے۔
تمہارے ذکر کی قبولیت کی نشانی یہی ہے کہ تمہیں ذکر حق میں مشغول کر دیا ہے۔
جان جاہل زیں دعا جز دور نیست
زانکہ یا رب گفتش دستور نیست
ایک جاہل اور غافل ذکر حق اور دعا مانگنے کی توفیق سے محروم رہتا ہے۔ اللہ عزوجل کے ذکر کا اجر خود اس ذکر میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ذکر کی اور یاد کی توفیق اسی کو عطا کرتے ہیں جس سے خوش ہوتے ہیں اور یہی اس کی قبولیت کی دلیل ہے۔
درس حیات:
٭:نیکی کرنے کی توفیق بھی اللہ ہی دیتا ہے۔
٭: شیطان ہر دم اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے باز آ جائے۔