پاکستان کے آثار قدیمہ:جہاں ہزاروں سال پرانی کئی تہذیبیں مدفن ہیں
اسپیشل فیچر
پاکستان آثار قدیمہ کی دولت سے مالا مال ہے، یہ ان علاقوں پر مشتمل ہے جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ رہ چکے ہیں۔ یہاں آدھی درجن کے قریب تہذیبیں پھلی پھولیں اور انہوں نے ملک کی ثقافت پر گہرے نقوش ثبت کئے۔ پاکستان کی سرزمین بلاشبہ قدیم ترین سرزمینوں میں سے ایک ہے، اس کے شہر اس وقت ترقی یافتہ تھے جبکہ ابھی بابل عراق کی تعمیر بھی عمل میں نہ آئی تھی۔ اس کے لوگ رہنے سہنے کے جدیدطریقوں سے آشنا تھے اور تحریک احیائے علوم سے چار ہزار برس پہلے شہری زندگی گزارتے تھے۔ جنوب میں وادی سندھ کی تہذیب تقریباً ساڑھے چار ہزار برس پہلے عروج پر تھی۔ موہنجودڑو، ہڑپہ اور کوٹ ڈیجی کی کھدائیوں نے اس بات کا بین ثبوت بھی فراہم کردیا ہے۔ شمال میں بودھ سٹوپا، خانقاہیں، ٹیکسلا کے مندر، تخت بائی، سوات اور پشاور کے آثار گندھارا تہذیب کی یاد دلاتے ہیں۔ ٹیکسلا کی بودھ یونیورسٹی دور دراز علاقوں تک مشہور تھی۔
712ھ میں جب اس سرزمین پر اسلام کا پرچم لہرایا گیا تو اسلامی روایات کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا تو ایک نئی اور ولولہ انگیز قوت نے اس خطہ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔
آزادی کے وقت محکمہ آثار قدیمہ نے جن قدیم عمارات کو اپنی حفاظت میں لیا تھا ان کی تعداد 243تھی۔ بعد ازاں 133قدیم عمارات کا مزید اضافہ کیا گیا۔ محکمہ نے اب تک شالامار باغ، شاہی قلعہ لاہور، شاہدرہ کی قدیم عمارات، مریم زمانی، مسجد لاہور، مرکزی بارہ دری لاہور، چوبرجی لاہور، ہرن مینار شیخوپورہ، مکلی کا قبرستان (ٹھٹھہ) کی مرمت کی ہے۔
ٹیکسلا( گندھارا تہذیب کا مرکز)
یہ راولپنڈی کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ ایک زمانہ میں بودھ تہذیب کا مرکز تھا۔ یہاں ٹیکسلا کی قدیم بودھ یونیورسٹی قائم تھی جو مذہبی، سائنسی اور طبی تعلیم کیلئے دور دور تک مشہور تھی۔ اسے 327 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے فتح کیا۔چوتھی صدی عیسوی میں چینی سیاح نے بھی یہ علاقہ دیکھا ان دنوں میں اس کا نام ''ناکاشیلا‘‘ تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں ایک اور چینی سیاح ہیون سانگ اس علاقہ کی سیاحت کیلئے آیا۔ اس نے اسے کشمیر کی عملداری میں پایا۔یہاں وقفوں وقفوں کے ساتھ کھدائی کا سلسلہ جاری رہا۔ جس کے نتیجہ میں تین قدیم شہر بھڑمائونڈ سرکپ اور سرسکھ کے علاوہ دو درجن سے زائد بودھ عبادت گاہیں اور خانقاہیں برآمد ہوئیں۔ اسے محکمہ آثار قدیمہ نے 1918ء میں قائم کیا تھا۔
بھڑ ماونڈ
یہ سب سے قدیم شہر ہے۔ اس کی عمارات تین مختلف ادوار یعنی تیسری صدی قبل مسیح، موریہ عہد اور چھٹی تا ساتویں صدی قبل مسیح میں تعمیر کی گئیں یہاں کے مکانات بلاکوں میں بنے ہوئے ہیں جن کے درمیان چوڑی گلیاں ہیں۔ یہاں سے سونے چاندی کے سکے اور زیورات بھی برآمد ہوئے ہیں۔ یہ جنوب مشرق میں واقع عجائب گھر کی زینت ہیں۔
سرکپ
یہ تمرہ ندی کے بالمقابل واقع ہے۔ اس کی بنیاد دوسری صدی قبل مسیح میں باختری یونانیوں نے رکھی تھی۔ اس کے گردا گرد ایک فصیل بنی ہوئی ہے۔ اس میں ایک جین مندر اور خانقاہیں بھی ہیں۔ یہاں سے بھی بہت سی اشیاء دستیاب ہوئی ہیں۔
سرسکھ
یہ لنڈی نالے کے پار واقع ہے اور یہ کشن بادشاہوں کے زیر اثر پانچویں صدی بعد از مسیح تک آباد رہا اور بالآخر سفید ہنوں نے اسے تباہ کیا۔ یہ قلعہ بند تھا اور اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے بسایا گیا تھا۔ اس کی مکمل طور پر کھدائی نہیں کی گئی۔
دھرماراجیکا اسٹوپا
یہ اسٹوپا عجائب گھر سے 3.21کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک بڑی عمارت پر مشتمل ہے جہاں راہب رہتے تھے۔ بودھ دور کی مقدس یادگاریں اس مقام کی قدامت کا ثبوت ہیں یہاں سے سونے اور چاندی کے سکے ہیرے اور جواہرات ، زیورات بھی ملے ہیں جو عجائب گھر میں رکھے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں پتھر و چونے کے بت اور مدھم تحریریں بھی ملی ہیں۔
جولیاں
یہ عجائب گھر سے 6.43کلو میٹر کی دوری پر جانب شمال مشرق واقع ہے یہاں سے ایک بودھ خانقاہ اور اسٹوپا کے آثار ملے ہیں۔ یہ زیادہ آراستہ اور بہتر حالت میں ہیں۔
جنڈیال مندر
یہ مندر سرکپ شہر کے شمال کی طرف واقع ہے اور غالباًاسے یونانیوں نے تعمیر کرایا۔ وہ یہاں آنے سے قبل آگ کی پرستش کرتے تھے۔
آثار کلاواں
(پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک) یہ آثار دھرماراجیکا اسٹوپا سے دو کلو میٹر دور واقع ہے۔ ان کے علاوہ تلمبہ ضلع خانیوال، وادی سواں اور میاں علی فقیراں (شیخو پورہ) سے بھی آثار قدیمہ دریافت ہوئے ہیں۔ یہاں وائسرائے ہند لارڈ چیمس فورڈ نے ٹیکسلا کی اہمیت کے پیش نظر 1918ء میں اس کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا اور اس سال کی مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔1998ء میں ایک نئی گیلری کا اضافہ بھی کیا گیا۔ عجائب گھر تین بڑے ہالوں سے مزین ہے۔ اس کے دو کمروں میں سکے چاندی کے برتن اور زیورات رکھے گئے ہیں جبکہ تیسرا ہال سونے کے زیورات سے سجایاگیا ہے۔
ہڑپہ کے آثار قدیمہ
وادیٔ سندھ کی تہذیب کا دوسرا بڑا مرکز۔ یہ ساہیوال شہر سے جانبِ جنوب مغرب 27.36کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہ موہنجودڑو کے آثار سے جڑے ہوئے ہیں لیکن زمین کی سطح پر پائے جانے والے بہت سے آثار لاہور اور ملتان کے مابین ریلوے پٹڑی بچھانے والے مزدوروں نے تباہ کردیئے۔ تاہم یہاں کے بہت سے قبرستان بچ گئے۔ جو ہڑپہ کی قدیم تہذیب کے شاہد ہیں۔
اس عمارت کی تعمیر میں ہوا کی آزادانہ گردش اور رطوبت سے بچنے کیلئے تمام انتظامات کئے گئے تے یہاں سے جو قبرستان دریافت ہوئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے کے لوگ اپنے مردوں کو انگوٹھیوں، منکوں، بالیوں، چوڑیوں اور پازیبوں سمیت ہی دفن کرتے تھے۔ ان آثار کے قریب ہی ہڑپہ کا عجائب گھر ہے جہاں ان تمام اشیاء کو محفوظ کیا گیا ہے۔