خوش رہنا بھی قابلیت ہے!
اسپیشل فیچر
جب آپ اپنی نعمتوں کو شمار کرتے ہیں تو وہ آپ کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہیں۔تمام خوش لوگوں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ وہ اپنی رحمتوں کو شمار کرتے ہیں زحمتوں کو نہیں۔ خوش کن خیالات میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ ہمیں خوش بنا سکیں۔ خوشی کا انحصار ہماری خوش رہنے کی قابلیت میں پوشیدہ ہے نہ کہ کسی چیز پر۔ لوگ ناخوش رہتے ہیں کیونکہ ان کے منفی جذبات ان کے مثبت پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ سورج جتنا زیادہ چمکتا ہے اس کا سایہ اتنا ہی گہرا ہو جاتا ہے۔ تو کیا ہم روشنی کو دیکھیں گے یا سائے کو؟ خوش رہنے کیلئے ہم چاہتے ہیں کہ ہر کام ہماری مرضی کے مطابق ہو۔ ہم بڑی آسانی کے ساتھ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری زندگی میں بیشتر معاملات پہلے ہی درست ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری زندگی میں کیسا عمل ہو؟
عام طور پر ہمارے پاس نوکری، گھر، فیملی، چند مخلص دوست موجود ہوتے ہیں۔ بے شک یہ سب کچھ ہمارے معیار کے مطابق نہیں ہوتے جیسا کہ ہماری خواہش ہوتی ہے۔ ہم اس کا شکر نہیں ادا کرتے جو ہمارے پاس موجود ہو۔ ہم وہ سوچتے رہتے ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہوتا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دنیا کسی ایک کی ملکیت نہیں۔ یہ لوگوں سے بھری پڑی ہے اور اس میں ہر کسی کا اپنا مقام ہے اور دوسری چیزوں سے تعلق ہے۔ہم اس حقیقت کو بھی تسلیم نہیں کرتے کہ ہمیں ہر چیز نہیں مل سکتی۔ یہ سوچ خوش رہنے میں رکاوٹ بنتی ہے اور اسی لیے دنیا میں زیادہ تر لوگ ناخوش رہتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ کی خواہش رکھنا، چیزوں کو بہتر بنانا ایک غلط بات ہے۔ یا گناہ ہے۔ حقیقت میں ترقی کی خواہش ہی دنیا میں ترقی کی ذمہ دار ہے اور یہ ایک مثبت عادت ہے۔ لیکن جو کچھ ہمارے پاس موجود ہے اس کو بہتر بنانا اور زیادہ پانے کی خواہش میں فرق ہے۔ اس سے غیر طمانیت جھلکتی ہے۔ ہمیں یہی سمجھنے کی ضرورت ہے جو کچھ ہمارے پاس موجود ہے۔ اس پر خوش رہنا چاہیے اور ساتھ ہی بہتری کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ ترقی کی خواہش رکھنا اور غیر مطمئن سوچ رکھنے میں ہلکا سا فرق ہے۔
کوئی بھی حقیقی طور پر خوش نہیں رہ سکتا اگر وہ اپنے حال سے مطمئن نہیں۔ ایسی صورتحال میں ہم خوش نہیں رہ سکیں گے پھر جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے وہ چاہے کتنا ہی بہتر ہو۔ اگر گھاس ہمیشہ دوسری طرف سبز ہے تو ہم کبھی خوش نہیں رہ سکیں گے۔ ہم جنگلے کے پاس افسوس ہی کرتے رہیں گے۔ ہم خوش کیسے رہیں گے جب تک ہم یہ نہ دیکھ سکیں کہ ہماری گھاس بھی تازہ اور سرسبز ہے۔ اپنے ہمسائے کی گھاس کو سبز رہنے دیں کیونکہ ہماری گھاس بھی سبز ہے۔ اس سے لطف اٹھائیں۔ کئی دفعہ ہم لطف اٹھانا ملتوی کر دیتے ہیں جو کچھ بھی ہمارے پاس موجود ہوتا ہے اس سے زیادہ حاصل کرنے کی خواہش میں جو کچھ ہمارے پاس ہوتا ہے ہم اسے عام اور بے معنی کر دیتے ہیں۔ ہم اپنی خوشیوں کو اس دن تک کیلئے اٹھا رکھتے ہیں کہ جب تک ہمیں ایک بہتر نوکری، ایک بڑا گھر، بہتر کار یا شادی نہیں ہو جاتی، جب تک بچے بڑے نہیں ہو جاتے، ہماری ریٹائرمنٹ کے بعد اور اس طرح دوسری باتیں۔ ہم مستقبل میں خوش ہونا چاہتے ہیں جب ہمارے پاس کچھ بہتر یا کچھ نیا موجود ہوگا بجائے اس کے اس وقت جوموجود ہے اس پر خوش ہو لیں۔
ہماری زندگی میں بیشتر چیزیں غلط کی بجائے صحیح ہوتی ہیں۔ وہ بہت خوبصورت اور عمدہ بھی ہوتی ہیں۔ لیکن ہماری توجہ ان چیزوں کی طرف مرکوز رہتی ہے جو ہمارے پاس نہیں ہوتیں اور ہم لطف نہیں اٹھا پاتے۔ ناشکر گزاری انسانی دماغ کی بہت خطرناک اور تباہ کن عادت یا سوچ ہے۔ ہم ہمیشہ زیادہ چاہتے ہیں۔ ہم زیادہ پانے کی خواہش میں چوہا دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں اور اس دوڑ کا کوئی انجام نہیں ہوتا۔ یہ ہماری خوشیوں کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ فرانسیسی ادیب Rochefoucauld کا ایک قول ہے '' ایک دانا آدمی چند چیزوں سے ہی خوش رہتا ہے، لیکن ایک بیوقوف کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے زیادہ تر نسل انسانی بری حالت میں ہے‘‘۔ آپ کبھی بھی نہیں، مجھے یہ الفاظ دہرانے دیں کبھی نہیں۔ کسی ایسے خوش انسان سے ملیں جو زندگی کے متعلق منفی خیالات رکھتا ہو۔ جو قنوطی ہو جو ناشکرا ہے۔ زیادہ پانے کی خواہش ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ آپ زیادہ پانے کی خواہش میں اپنی زندگی گزار سکتے ہیں اور ناخوش ہی رہیں گے۔ اس کی بجائے جو کچھ موجود ہے اس پر خوش رہنا سیکھیں۔