سلطنت برطانیہ کی تاریخ

اسپیشل فیچر
براعظم یورپ کا سب سے بڑا جزیرہ برطانیہ ہے، جسے تاریخ میں تاج برطانیہ اور سلطنت برطانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے یہ انتہائی وسیع سلطنت تھی جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس سلطنت کے عروج اور زوال کی کہانی انتہائی دلچسپ اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس سلطنت کا مرکز انگلینڈ، ویلز اور اسکاٹ لینڈ کے علاوہ شمالی آئرلینڈ اور اس کے متعدد جزائر پر مشتمل تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح سے کچھ عرصہ پہلے وسطی یورپ کے کچھ قبائل برطانیہ آ کر آباد ہو گئے۔ تاریخ دانوں کے مطابق یہی قبائل اور جزیرہ ابتدائی آباد کار ہیں۔ 54 قبل مسیح سلطنت روم کے مشہور جرنیل جولس سیزر کی مہمات نے برطانیہ پر رومن سلطنت کی راہ ہموار کی لیکن سو سال کے بعد رومن شہنشاہ کلاڈیس نے برطانیہ پر حملہ کر دیا اور اسے اپنی سلطنت کا ایک صوبہ بنانے کی کوشش کی۔
رومن دور میں برطانیہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ جنوبی حصہ جس پر رومن حکومت کرتے تھے اور دوسرا شمالی حصہ جو اسکاٹ لینڈ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اگر چہ آٹھ رومن بادشاہوں نے تقریبا 400 سال حکومت کی تاہم متعدد مشکلات کی بنا پر رومن برطانیہ کو چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ 1019ء میں ڈنمارک کے قبائل اور 1028ء میں ناروے نے طویل جدوجہد کے بعد برطانیہ کو فتح کر لیا اور ایک عظیم ریاست برٹش کی بنیاد رکھی۔ 40 سال کی عمر میں برطانوی شہنشاہ کینیورڈ وفات پا گئے، جن کی جزیرے کے شمالی حصے یعنی اسکاٹ لینڈ میں مضبوط حکومت تھی۔ 1066ء میں ولیم ڈیوک آف نارمن نے جو بعد میں فاتح ولیم کے نام سے مشہور ہوا نے انگلستان پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔ ولیم جب انگلستان کے ساحل پر اترا تو نرم ریت کی وجہ سے اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور آگے کی طرف گرپڑا۔ یہ واقعہ اس کیلئے اور اس کے لشکر کیلئے اچھا شگون نہیں تھا۔ گرنے کی وجہ سے لشکر کے اندر انتشارپیدا ہو سکتا تھا تاہم اس نے اپنے حواس قائم رکھے اور ریت کوہاتھ میں اٹھا کر وہ اپنی فوج سے مخاطب ہوا کہ دیکھو انگلستان کی زمین میرے ہاتھوں میں ہے۔
1215ء میں برطانیہ میں پارلیمانی حکومت قائم کی گئی کیونکہ اس وقت کے بادشاہ جون کو اپنے امراء کی جانب سے بغاوت کا خطرہ تھا، جس کی وجہ سے مجبوراً اسے 63 شقوں پر مشتمل ایک اہم دستاویز پر دستخط کرنا پڑے جسے ''میگنا کارٹا‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں سلطنت پر قانون کی بالادستی قائم ہوئی اور خاص طور پر لگان، مذہب، انصاف اور غیر ملکی حکمت عملی کے معاملات میں بادشاہ کے اختیارات بہت محدود ہو گئے۔
1509ء میں ہینری ہفتم کا بیٹا ہینری ہشتم انگلستان کا بادشاہ بنا اور اس کے 38 سالہ دورحکومت میں بہت سے تاریخی انقلاب ظہور پزیر ہوئے۔ ہینری ہشتم اپنی پہلی بیوی کیتھرین کو طلاق دینا چاہتا تھا لیکن رومن پاپ کی جانب سے اسے اجازت نہ ملی اور اسی وجہ سے اس نے کلیساء روم سے برطانیہ کو الگ کردیا اور بعدازاں چرچ آف انگلینڈ کی بنیاد رکھی گئی۔1553ء میں ہینری ہشتم کی بیٹی میری تخت نشین ہوئی جو انگلستان کی پہلی عورت حکمران تھی۔
1557ء میں ہینری ہشتم کی بیٹی الزبتھ اوّل انگلستان کی ملکہ بنی۔ یہ پروٹسٹنٹ عقیدے کی پیروکار تھی اس کے آنے سے روم کا اقتدار انگلستان سے ایک بار پھر ختم ہو گیا۔ متعدد وجوہات کی بنا پر اسے جیمز ششم کے حق میں دستبردار ہونا پڑا اور 24 مارچ 1603ء کو الزبتھ انتقال کر گئی۔ اس نے ساری عمر شادی نہیں کی اس لیے اس کی وفات کے بعد ٹیوڈر خاندان کا عہد ختم ہو گیا۔ اس کے بعد میری کوئین آف اسکاٹ لینڈکا بیٹا جیمز ششم جو اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ تھا الزبتھ اوّل کی وصیت کے مطابق انگلستان کا بادشاہ قرار پایا اور اس طرح کئی دفعہ حکومت ایک بادشاہ سے دوسرے تک منتقل ہوتی رہی۔ یکم جولائی 1999ء کو اسکاٹ لینڈ کی عوام کی بھرپور جدوجہد کے بعد ان کی رائے کے احترام میں اسکاٹ لینڈ کو علیحدہ ملک بنا دیا گیا۔ اسکاٹ لینڈ علیحدہ پارلیمنٹ کا نظام منظور کیا گیا اور متحدہ جھنڈے یعنی یونین فلیگ میں بھی کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔
ویلز جب علیحدہ تھا تو وہاں کا حکمران پرنس آف ویلز کہلاتا تھا لیکن دونوں ممالک کے یکجا ہونے کے بعد یہ لقب انگلستان کے شاہی خاندان کے ولی عہد کیلئے مختص ہو گیا۔ یکم جنوری 1801ء کو برطانیہ عظمی اور ایک ہمسایہ ملک آئرلینڈ کے درمیان ایک سیاسی اتحاد عمل میں آیا، جس کے نتیجہ میں سلطنت متحدہ برطانیہ کے ساتھ آئر لینڈ کا نام بھی شامل کر لیا گیا اور مجموعی طور پر سلطنت کا نام یو نائٹڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن اور آئرلینڈ قرار پایا اور یونین فلیگ کے اندر آئرلینڈ کا جھنڈا بھی شامل کر لیا گیا۔ 1921ء میں جنوبی آئرلینڈ نے اس سے علیحدہ ہو کر ایک جمہوری آئرلینڈ کی حیثیت سے اپنی الگ حکومت قائم کر لی لیکن آئرلینڈ کا شمالی حصہ بدستور برطانیہ کے ساتھ رہا سلطنت کا نام یونائٹڈ کنگڈم اف گریٹ بریٹن اینڈ ناردرن آئرلینڈ رکھا گیا جو آج تک زیر استعمال ہے۔