غگ ایک جاہلانہ اور سفاکانہ رسم

اسپیشل فیچر
یہ غالباً 2019ء کی بات ہے جب لاہور سے وزیرستان اپنے ایک دوست کے گھر گیا۔ ایک محقق جو وزیرستان میں چھپے قدرتی وسائل پر ایک رپورٹ تیار کرنے آئے ہوئے تھے ایک مقامی انگریزی اخبار میں اپنے قیام کی روداد ان الفاظ میں بیان کر رہے تھے ''جنوبی وزیرستان کے ایک چھوٹے سے شہر میں اپنے یونیورسٹی کے دوست کے ہاں میں بطور مہمان قیام پذیر تھا۔ ایک دن علی الصبح گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں گہری نیند سویا میں اس وقت خوفزدہ ہو کر ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا جب گھر کے باہر گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں ایک شخص با آواز بلند پشتو زبان میں کوئی اعلان کر رہا تھا۔ گولیوں کی گونج کے باوجود اہل خانہ پریشان تو نظر آئے لیکن خلاف توقع کسی نے بھی نہ تو فوری مزاحمت کی اور نہ ہی اس صورتحال پر کسی نے کوئی رد عمل ظاہر کیا۔ جس پر میری پریشانی اب حیرت میں بدل چکی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ بند ہوئی اور ایک دم سناٹا چھا گیا۔ مجھے پریشان اور خوفزدہ دیکھ کر میزبان نے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ یہاں کی ایک فرسودہ رسم ''غگ‘‘ ہے جو اگرچہ غیر قانونی ہے لیکن یہاں کی جہالت کے باعث اب بھی کہیں کہیں زندہ ہے‘‘۔
ابھی چند ہفتے پہلے پشاور سے ایک صاحب علم سے برسبیل تذکرہ جب میں نے پوچھا کہ کیا قبائلی علاقہ جات میں ''غگ‘‘ کی رسم اب بھی ہے یا دم توڑ چکی ہے؟۔ موصوف نے میرے سوال کے جواب میں الٹا مجھ سے ایک سوال کر ڈالا کہ کیا وطن عزیز پاکستان میں پولیو ختم کر دیا گیا ہے؟۔ میں نے کہا اور علاقوں میں تو شاید ختم ہو چکا ہو لیکن قبائلی علاقہ جات میں ابھی ختم نہیں ہوا۔ موصوف نے کہا کہ غگ بھی ایک طرح کا پولیو ہی ہے جو ابھی تک بیشتر قبائلی علاقہ جات میں زندہ و جاوید ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے موصوف کہنے لگے پولیو سے تو عمر بھر کیلئے ایک ہی فرد متاثر ہوتا ہے جبکہ غگ سے پورا خاندان متاثر ہوتا ہے۔ اس صاحب علم نے میری درخواست پر اس جاہلانہ رسم کی تاریخ اور روایات بارے کچھ اس طرح روشنی ڈالی۔
غگ کیا ہے؟
غگ بنیادی طور پر پشتو زبان کا ایک لفظ ہے جس کے لفظی معنی اعلان کرنے یا پیغام پہنچانے کے ہیں۔ اس لفظ کا استعمال قبائلی علاقہ جات میں ایک خاص مقصد کیلئے مختص ہو کے رہ گیا ہے جس کے تحت قدیم قبائلی روایات کے مطابق کسی مخصوص گھر میں اپنی شادی کا پیغام پہنچانا یا باآواز بلند اس کا اعلان کرنا ''غگ‘‘ کہلاتا ہے۔
سرعام اعلان کیوں؟
قبائلی علاقہ جات میں یہ رسم صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ اس لئے بعض روایات کے مطابق ماضی میں اکثر گھروں میں جب قبیلے کے لوگ رشتہ بھیجتے تو انہیں معلوم نہیں ہوتا تھا کہ اس بچی کے رشتے پہلے بھی آ چکے ہیں۔ چنانچہ اکثر مواقع پر رشتہ مانگنے والے نوجوانوں کے درمیان بات تلخی، تکرار یا لڑائی جھگڑے تک جا پہنچتی۔ کسی بھی ناپسندیدہ صورتحال سے بچنے کیلئے قبائلی عمائدین نے اس کا حل یہ نکالا کہ کسی بھی گھر میں رشتے کا خواہاں نوجوان اس گھر کے باہر جا کر مطلوبہ لڑکی کا نام لے کر باآواز بلند اعلان کرے گا کہ وہ فلاں لڑکی سے رشتے کا پیغام دے رہا ہے، اس کے بعد اگر کسی اور نے اس لڑکی کے رشتے کا پیغام بھجوایا تو وہ اپنے نقصان کا خود ذمہ دار ہو گا۔
قبائلی رسم و رواج کے مطابق رسم غگ کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچ جائے کہ یہ لڑکی اب اس رشتہ مانگنے والے کیلئے مختص ہو چکی ہے۔
غگ میں قباحتیں کیا؟
اس فرسودہ رسم کا آغاز جنوبی وزیرستان سے ہوا تھا جو رفتہ رفتہ پورے قبائلی علاقہ جات میں پھیلتا چلا گیا۔ اس جاہلانہ رسم کا سب سے زیادہ نقصان رشتہ بھجوانے والی لڑکی کو ہوتا تھا۔ ایک تو وہ چاہتے نہ چاہتے رشتہ مانگنے والے کی وجہ سے پابند ہو جاتی کیونکہ اس اعلان کے بعد اس کے رشتے آنا بند ہو جاتے تھے۔ دوسرا اس روایت کے تحت لڑکی اور اس کے والدین یا اس خاندان کی رضا مندی عملی طور پر ختم ہو جاتی تھی۔ اس فرسودہ رسم میں اکثر یہ بھی دیکھا گیا کہ رشتے مانگنے یا غگ کرنے والوں کا مقصد لڑکی کے والدین یا خاندان کو دباؤ میں لاکر اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کرنا بھی ہوتا تھا۔
شروع شروع میں قبائلی علاقہ جات میں پہلے لڑکی کے گھر رشتہ بھجوایا جاتاتھا جسے جرگہ کہتے تھے۔لڑکی والوں کے انکار کی صورت میں لڑکے والے پھر غگ کی رسم ادا کرتے یعنی لڑکی والوں کے گھرکے باہر لڑکی کا نام لے کر باقاعد پیغام بھجواتے۔اس غگ کا مطلب درپردہ اہل علاقہ کیلئے یہ پیغام ہوتا تھا کہ اب اس لڑکی کا رشتہ کوئی نہ بھجوائے۔ بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آتا کہ اگر اس کے باوجود بھی کوئی اس لڑکی کا رشتہ بھجواتا تو ایک نئی دشمنی کا آغاز ہو جاتا۔ اس صورتحال سے لڑکی اور اس کے گھر والے بری طرح متاثر ہوتے کیونکہ لڑکی کے رشتے آنا بند ہو جاتے اور وہ ساری عمر کیلئے گھر بیٹھ جاتی۔
اب سے کچھ عرصہ پہلے پشاور کے ایک اخبار نے قبائلی رسم غگ پر تبصرہ کچھ ان الفاظ میں کیا تھا ''غگ ایک ایسی جاہلانہ اور سفاک رسم ہے جس نے کئی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ قبائلی علاقوں کی خواتین اکثر اس فرسودہ رسم کا شکار نظر آتی ہیں اور ان کیلئے کوئی بھی کچھ نہیں کر پاتا۔ آپ کو قبائلی علاقوں میں ایسی متعدد لڑکیاں نظر آئیں گی جو غگ کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ بعض حوالوں سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ بنوں، کوہاٹ اور دیگر اضلاع میں ان رسموںسے تنگ لڑکیاں شادی نہ ہونے اور بدنامی کے باعث خودکشی کر لیتی ہیں۔ اکثر شادی کے انتظار میں بوڑھی ہو جاتیں لیکن ان رشتہ مانگنے کوئی نہیں آتا‘‘۔
غگ ایکٹ۔۔تازہ ہوا کا جھونکا
وقت کے ساتھ ساتھ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں اگرچہ اس فرسودہ اور ظالمانہ رسم کے خلاف کہیں نہ کہیں سے کبھی کبھار آوازیں اٹھتی رہیں لیکن عملی طور پر ہر آواز صدائے بصحرا ثابت ہوتی رہی۔ 2013ء میں اس رسم کے خلاف پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے صوبائی اسمبلی سے اس جاہلانہ رسم کے خاتمے کا بل پیش کرکے اسے قانونی شکل دلائی۔ اس قانون کے تحت جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس کی زیادہ سے زیادہ سزا سات سال قید جبکہ کم ازکم سزا تین سال مقرر کی گئی جبکہ پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔
اگرچہ غگ ایکٹ کے نفاذ اور لوگوں میں کسی حد تک اس رسم بارے شعور آجانے سے غگ کے واقعات میں کمی تو آ گئی ہے لیکن ابھی بھی ہر کچھ عرصہ بعد اس نوعیت کے اکا دکا واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔