یادرفتگاں: کلاسیکل موسیقی کی شان استاد امانت علی خاں

اسپیشل فیچر
برصغیر کی دھرتی نے ایسے بے شمار سپوتوں کو جنم دیا جن کے فن کا اعتراف پورے عالم میں کیا گیا۔ خاص طور پر مشرقی موسیقی کے میدان میں تو ایسے فنکار ملتے ہیں، جن کی گائیکی میں وہ جادو دکھائی دیا جو کبھی تان سین کے سروں کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ انہی بڑے لوگوں میں سے ایک پٹیالہ گھرانے میں جنم لینے والے امانت علی خاں بھی ہیں۔ وہ 1922ء کو پیدا ہوئے۔ باپ کا نام استاد اختر حسین جبکہ دادا کا نام علی بخش تھا۔ استاد علی بخش کے فن کے اعتراف میں انگریز سرکار نے انہیں جرنیل کا خطاب بھی دے رکھا تھا، جو اس عہد میں کسی بھی شعبہ میں منفرد تخلیقی کارناموں پر دیا جانے والا سب سے بڑا سرکاری اعزاز تھا۔
ان کی آواز کا جائزہ لیں تو وہ اپنے ہم عصروں سے نہایت مختلف ہے۔ ہمارے ہاں عموماً کلاسیکل گلوکار اونچے سُروں میں گانے سے گریز کرتے ہیں لیکن امانت علی خاں کی آواز کی خوبی تھی کہ وہ اونچے اور نیچے سُروں میں ایک سا تاثر چھوڑتی، بلکہ ناقدین یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ وہ اونچا سُر اچھا لگاتے یا نیچے سُروں میں آسانی سے گاتے تھے۔ امانت علی خان نے لاتعداد کلاسیکل اور نیم کلاسیکل لازوال گیت گائے جو آج بھی ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔
60ء کی دہائی میں استاد امانت علی خاں اور استاد فتح علی خاں کے مخالفین نے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ پٹیالہ گھرانے والے صرف کلاسیکی گائیکی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ امانت علی خاں کا خیال تھا کہ اصل گا ئیکی ہی کلاسیکل ہے جبکہ غزل اور گیت تو تھوڑا ریاض کرنے والے بھی گا سکتے ہیں۔ مخالفین کو جواب دینے کیلئے انہوں نے غزل گائی تو ''انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘‘ جیسا ''ماسٹر پیس‘‘ سامنے آیا۔ گیت کی طرف آئے تو ''چاند میری زمین پھول میرا وطن‘‘تخلیق ہوا، جس کی دھن آج بھی زبانِ زد عام ہے۔
ان کی حب الوطنی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جب وہ معاشی تنگ دستی کا شکار تھے تو راجا مہندر سنگھ نے کہا کہ اگر آپ لوگ ہندوستان واپس آ جائیں تو آپ کی جاگیریں لوٹا دی جائیںگی لیکن امانت علی خاں نہ مانے۔ یہی وہ جذبہ تھا جو ''اے وطن، پیارے وطن، پاک وطن‘‘ جیسے گیت کی بنیاد بنا۔ سُر اور لے سے ناواقف لوگ بھی یہ نغمہ سنتے ہیں تو ان کی گائیکی کے معترف ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر اس گیت کے انترے نہایت دلکش تھے، اس پر لفظوں کی ادائیگی نے جو غضب ڈھایا اس کی مثال پوری نیم کلاسیکل گائیکی میں ملنا مشکل ہے۔ انہوں نے جس انداز میں یہ مصر ع گایا ''میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جاں ہو نثار‘‘ وہ ان کی فنی بلندیوں کا ثبوت مہیا کرنے کیلئے بڑی مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایک دفعہ ان کی بہن اکرام بیگم نے اپنے ایک انٹرویو کہا تھا کہ اچھا گانا، ریاض کرنا، اچھا اوڑھنا پہننا اور بہترین کھانا ان کے مشاغل میں شامل تھا۔میرا اور بھابھی کے ہاتھ کا بنا کھانا شوق سے کھاتے تھے۔ جب بھی موڈ میں ہوتے دوپیازہ اوربھنی ہوئی مچھلی کوفتے، یاکسی بھی بھنے ہوئے کھانے کی فرمائش کرتے تھے۔
برصغیر کا یہ روشن ستارہ 1974ء کو غروب ہو گیا، دن یہی تھا، مہینہ بھی یہی جب ستمبر کی ستمگری کی صورت برصغیر کی کلاسیکل موسیقی کے سینے پر ایسا داغ آیا، جو کبھی مٹ نہ پائے گا۔
ان کے فن کو استاد فتح علی خاں، استاد حامد علی خاں نے آگے بڑھایا اور بعدازاں ان کے بیٹوں اسد اور شفقت نے ان کی یاد کو تازہ کیے رکھا۔ ان کے بیٹے اسد کا انتقال بھی اسی عمر میں ہوا جب وہ اپنے باپ کی طرح فن کے عروج پر تھے۔اب شفقت کلاسیکل اور جدید گائیکی کے امتزاج سے دل میں اتر جانے والے گیت تخلیق کررہا ہے۔
استاد حامد علی خاں اپنے بھائی استاد امانت علی خاں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کی گائیکی بہت منفرد تھی، اپنے فن میں یکتا اور لاجواب تھے۔ وہ گائیکی کی دنیا کا بہت بڑا نام ہیں۔ غزل کو اپنانے کی جہاں تک بات ہے، تو میرے خیال سے انہوں نے اس کو اپنانے میں تھوڑی تاخیر کی۔ ان کو اپنی گائیکی میں غزل کی ابتدا بہت پہلے کر لیناچاہیے تھی۔ اس تاخیرکی ایک وجہ موسیقی کے بڑے یہ بھی بتاتے ہیں کہ انہوں نے غزل شاید اس لیے دیر سے شروع کی کہ وہ سمجھتے تھے غزل گانے سے وہ کلاسیکی موسیقی کے جس درجے پر فائز تھے، اس سے نیچے آجاتے لیکن پھر بھی انہوں نے دیر سے غزل گائیکی کا آغاز کیاا ور اس میں مقبولیت حاصل کی۔مجھ سے وہ بہت پیار کرتے تھے، کیونکہ میں سب سے چھوٹا بھائی تھا۔ان سے جڑے ہوئے کئی ایک واقعات ہیں جو میری یادوں کا حصہ ہیں مگرایک واقعہ قابل ذکر ہے کہ میں کافی چھوٹا تھا تو مجھ سے ایک بزرگ گائیک نے کچھ سنانے کو کہا، میں نے سنایا تو میری تعریف کی اور کہا کہ میں اچھا گاتا ہوں، پھر اس بزرگ نے استاد امانت علی خاں سے میرے گانے کی تعریف کی۔ ایک مرتبہ مجھے استاد امانت علی خاں نے کہا کہ میں انہیں کچھ سنائوں۔مجھے ان سے ڈر لگتا تھا ،میں نے کہا کہ میں تو ابھی سیکھ رہا ہوں، پھر انہوں نے ٹھمری گائی اور میں نے ان کو وہی سُر گاکے سنایا، انہوں نے جب وہ سُر سنا تو مجھے گلے سے لگا لیا اور کہا کہ یہ مشکل تھا جوتم نے گاکے دکھایا۔