اے ٹی ایم اور دنیا کا پہلا آن لائن بنک
یہ جولائی 1969ء کی کوئی تاریخ تھی جب نیویارک کی سڑکوں پر کثرت سے لگے اشتہارات نے چلتے لوگوں کے قدم روک لئے۔ یہ اشتہار معروف امریکی بنک ''کیمیکل بنک‘‘ کی طرف سے آویزاں کئے گئے تھے جو دو ماہ تک لوگوں کے تجسس کا سبب بنے رہے۔ ان اشتہارات کی عبارت کچھ یوں تھی ''2 ستمبر 1969ء سے ہمارا بنک صبح نو بجے کھلے گا اور پھر کبھی بند نہیں ہو گا‘‘۔ اس اشتہار نے دوماہ تک لوگوں کو حیرت میں مبتلا کئے رکھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کیمیکل بنک چوبیس گھنٹے کھلا رہے گا۔
یہ اس بنک کی طرف سے ''الیکٹرانک بنکنگ‘‘ کی شروعات تھی۔ اگرچہ اس سے پہلے 1967ء میں برطانیہ کے برکلے بنک کو تاریخ کی پہلی اے ٹی ایم نصب کرنے کا اعزاز ہو چکا تھا جو صرف کیش مہیا کرنے کا ذریعہ تھا۔ 2 ستمبر 1969ء کو کیمیکل بنک کی راک ویل سنٹر، نیویارک برانچ میں نصب کی جانے والی ''ڈاکو ٹیلر‘‘ نامی اے ٹی ایم کے ذریعے کیش کے ساتھ رقم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی اور کچھ دوسری بنکنگ سہولیات بھی متعارف کرائی گئی تھیں۔ یوں امریکہ کے کیمیکل بنک نے الیکٹرانک بنکنگ کو رواج دے کر تاریخ کے پہلے الیکٹرانک اور آن لائن بنک کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔
کیمیکل بنک کی اس سہولت نے بنکاری کی تاریخ میں خود کار بنکنگ اور ''برانچ لیس بنکنگ‘‘ کی ایسی بنیاد رکھی جو آگے چل کر نت نئی سہولتوں کے ساتھ اپنے کھاتہ داروں کیلئے آسانیاں پیدا کرتی چلی گئی۔ آج کل کی ''ون کلک بنکنگ‘‘ یعنی کمپیوٹر یا موبائل ایپ بنکنگ دراصل اسی الیکٹرانک بنکنگ کا تسلسل ہے۔
جدید سہولیات سے لیس کیمیکل بنک کیلئے بنایا جانے والا اے ٹی ایم سسٹم ڈاکیو ٹیل کمپنی کے روح رواں ایم ڈان ویٹزل نے تیار کیا تھا جنہوں نے اگلے پانچ سال کے دوران اے ٹی ایم کی 70فیصد مارکیٹ کو اپنے نام کر لیا تھا۔
اس منفرد اے ٹی ایم کی شروعات کے ساتھ ہی اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی جب انتظامیہ نے محسوس کیا کہ اس جدید بنکاری کے ذریعے اٹھنے والے اخراجات ان کی توقع سے کہیں زیادہ ہیں۔ آج کل کی طرح اس دور میں بھی بنکوں کی ترجیحات کم اخراجات اور زیادہ منافع ہوا کرتا تھا۔ ابھی بنک نے الیکٹرانک بنکنگ کو شروع ہی کیا تھا جب اسے محسوس ہوا کہ لوگ اس نئی طرز بنکاری کے ذریعے مشین سے لین دین کرنے سے کترانے لگے ہیں کیونکہ بیشتر لوگوں کا موقف تھا کہ ہم ایک مشین کے حوالے اپنا کیش کیوں کریں۔
1982ء میں کیمیکل بنک نے پہلی مرتبہ ''پرسنل کمپیوٹر بنکنگ‘‘ سسٹم شروع کیا۔ اس سسٹم کو ''پرونٹو‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس سسٹم کے سافٹ ویئر پر بنک کو 20ملین ڈالر کے اخراجات ادا کرنے پڑے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ''پرونٹو‘‘ ہی کمپیوٹر کا وہ پہلا سسٹم تھا جس نے کیمیکل بنک کے ذریعے آن لائن بنکنگ سسٹم کو آگے بڑھانے اور اس میں بنکاری کی نئی جہتیں متعارف کرانے میں موثر کردار ادا کیا تھا تو بے جا نہ ہو گا۔ یوں پرونٹو ہی کی بدولت کیمیکل بنک آن لائن بنکنگ کو متعارف کرانے والا دنیا کا پہلا بنک بن گیا جس کے ذریعے گھر بیٹھے لوگوں نے اپنے کمپیوٹرز کی مدد سے بنکاری کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کا آغاز کیا تھا۔ یوں کیمیکل بنک کی بدولت اس کا اے ٹی ایم نیٹ ورک دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن کر ابھرا۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سال کے اندر اندراس کے آن لائن کسٹمر کی تعداد ساڑھے گیارہ لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔
دنیا کی پہلی اے ٹی ایم
دنیا کی پہلی اے ٹی ایم کو برطانوی شہری جان شیفرڈ بیرا نے 27 جولائی 1967ء کو لندن کے علاقے این فیلڈ میں بارکلے بنک کی ایک برانچ میں نصب کیا تھا جسے برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں ''کیش پوائنٹ‘‘ یا ''کیش مشین‘‘ جبکہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں ''منی مشین‘‘ کہا جاتا تھا۔
آغاز میں اے ٹی ایم محض کیش کے حصول کی ایک مشین ہوا کرتی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس مشین کا استعمال کاروباری لین دین کے دیگر طریقوں میں بھی بدلتا چلا گیا۔ آج کے دور میں بنک اے ٹی ایم کو ایک ایسی مشین بنانے کی طرف گامزن ہیں جو بنک کے تقریباً سارے کام سرانجام دے سکے۔اے ٹی ایم کے ڈویلپر ''این سی آر‘‘ کا کہنا ہے کہ ایک تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ بنک کے اندر کام کرنے والا عملہ جو فرائض سرانجام دیتا ہے اس میں کیش کے لین دین سمیت 80فیصد کام ایسے ہیں جو اے ٹی ایم سے باآسانی لئے جا سکتے ہیں۔
اس مشین کی ایجاد کا تصور بھی خاصا دلچسپ ہے۔کہتے ہیں ایک دفعہ جان شیفرڈ اپنے بنک سے رقم نکلوانے جب وہاں پہنچا تو ایک منٹ پہلے بنک بند ہو چکا تھا۔ ایک دن جان شیفرڈ کو اچانک خیال آیا کہ سپر سٹورز پر اگر ایک مشین کے ذریعے چاکلیٹ اور مشروب کی بوتل نکل سکتی ہے تو چوبیس گھنٹے کیش کیوں نہیں نکالا جا سکتا۔ یہی خیال بعد میں اے ٹی ایم کی ایجاد کا باعث بنا۔
بہت سارے لوگوں کیلئے یہ بات نئی ہو گی کہ دنیا میں سب سے پہلے اے ٹی ایم سے معروف برطانوی اداکار ریگ ور نے پیسے نکالے تھے۔ تاہم 80ء کی دہائی تک اے ٹی ایم بنکاری کا حصہ بن چکی تھی بلکہ دور حاضر میں تو اے ٹی ایم ہر طبقہ فکر کی ایک ضرورت بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اب گلی گلی، محلے محلے کھلے بنکوں میں اے ٹی ایم نے لوگوں کو گھر کی دہلیز تک بنکاری کی سہولیات مہیا کر دی ہیں۔برسبیل تذکرہ آپ کو بتاتے چلیں کہ دنیا کی سب سے بلندی پر واقع اے ٹی ایم پاکستان میں واقع ہے۔
بادلوں میں ڈھکی اے ٹی ایم
16نومبر 2016ء کا سال بینکاری کی دنیا میں اس لئے اہم ہے کہ اس ماہ پاکستان نے دنیا کے بلند ترین اے ٹی ایم کا اعزاز بھارت سے چھینا۔ بھارتی ریاست سکم کی سرحد پر 14300 فٹ کی بلندی پر اے ٹی ایم نصب تھی، جس کے مقابلے میں نیشنل بنک آف پاکستان نے برف پوش خنجراب پاس میں سطح سمندر سے 15397 فٹ کی بلندی پر اے ٹی ایم لگا کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ بنائی۔
دنیا کے بلند ترین برف پوش پہاڑی سلسلے میں جہاں اکثر اوقات پورا علاقہ سفید بادلوں سے ڈھکا ہوتا ہے کسی بھی بنک کیلئے مشین کی تنصیب اور اسے چالو رکھنا آسان کام نہیں تھا۔ عام بجلی کی بجائے اسے سولر اور ونڈ انرجی کے ذریعہ ہی موزوں قرار دیا گیا تاکہ یہ چوبیس گھنٹے بلا تعطل فعال رہ سکے۔ یہ مشین اگرچہ دن رات فعال رہتی ہے تاہم سردیوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گرنے کے باعث اسے چالو رکھنے کیلئے خصوصی انتظام کرنا ہوتا ہے۔