اے ٹی ایم اور دنیا کا پہلا آن لائن بنک

اے ٹی ایم اور دنیا کا پہلا آن لائن بنک

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


یہ جولائی 1969ء کی کوئی تاریخ تھی جب نیویارک کی سڑکوں پر کثرت سے لگے اشتہارات نے چلتے لوگوں کے قدم روک لئے۔ یہ اشتہار معروف امریکی بنک ''کیمیکل بنک‘‘ کی طرف سے آویزاں کئے گئے تھے جو دو ماہ تک لوگوں کے تجسس کا سبب بنے رہے۔ ان اشتہارات کی عبارت کچھ یوں تھی ''2 ستمبر 1969ء سے ہمارا بنک صبح نو بجے کھلے گا اور پھر کبھی بند نہیں ہو گا‘‘۔ اس اشتہار نے دوماہ تک لوگوں کو حیرت میں مبتلا کئے رکھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کیمیکل بنک چوبیس گھنٹے کھلا رہے گا۔
یہ اس بنک کی طرف سے ''الیکٹرانک بنکنگ‘‘ کی شروعات تھی۔ اگرچہ اس سے پہلے 1967ء میں برطانیہ کے برکلے بنک کو تاریخ کی پہلی اے ٹی ایم نصب کرنے کا اعزاز ہو چکا تھا جو صرف کیش مہیا کرنے کا ذریعہ تھا۔ 2 ستمبر 1969ء کو کیمیکل بنک کی راک ویل سنٹر، نیویارک برانچ میں نصب کی جانے والی ''ڈاکو ٹیلر‘‘ نامی اے ٹی ایم کے ذریعے کیش کے ساتھ رقم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی اور کچھ دوسری بنکنگ سہولیات بھی متعارف کرائی گئی تھیں۔ یوں امریکہ کے کیمیکل بنک نے الیکٹرانک بنکنگ کو رواج دے کر تاریخ کے پہلے الیکٹرانک اور آن لائن بنک کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔
کیمیکل بنک کی اس سہولت نے بنکاری کی تاریخ میں خود کار بنکنگ اور ''برانچ لیس بنکنگ‘‘ کی ایسی بنیاد رکھی جو آگے چل کر نت نئی سہولتوں کے ساتھ اپنے کھاتہ داروں کیلئے آسانیاں پیدا کرتی چلی گئی۔ آج کل کی ''ون کلک بنکنگ‘‘ یعنی کمپیوٹر یا موبائل ایپ بنکنگ دراصل اسی الیکٹرانک بنکنگ کا تسلسل ہے۔
جدید سہولیات سے لیس کیمیکل بنک کیلئے بنایا جانے والا اے ٹی ایم سسٹم ڈاکیو ٹیل کمپنی کے روح رواں ایم ڈان ویٹزل نے تیار کیا تھا جنہوں نے اگلے پانچ سال کے دوران اے ٹی ایم کی 70فیصد مارکیٹ کو اپنے نام کر لیا تھا۔
اس منفرد اے ٹی ایم کی شروعات کے ساتھ ہی اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی جب انتظامیہ نے محسوس کیا کہ اس جدید بنکاری کے ذریعے اٹھنے والے اخراجات ان کی توقع سے کہیں زیادہ ہیں۔ آج کل کی طرح اس دور میں بھی بنکوں کی ترجیحات کم اخراجات اور زیادہ منافع ہوا کرتا تھا۔ ابھی بنک نے الیکٹرانک بنکنگ کو شروع ہی کیا تھا جب اسے محسوس ہوا کہ لوگ اس نئی طرز بنکاری کے ذریعے مشین سے لین دین کرنے سے کترانے لگے ہیں کیونکہ بیشتر لوگوں کا موقف تھا کہ ہم ایک مشین کے حوالے اپنا کیش کیوں کریں۔
1982ء میں کیمیکل بنک نے پہلی مرتبہ ''پرسنل کمپیوٹر بنکنگ‘‘ سسٹم شروع کیا۔ اس سسٹم کو ''پرونٹو‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس سسٹم کے سافٹ ویئر پر بنک کو 20ملین ڈالر کے اخراجات ادا کرنے پڑے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ''پرونٹو‘‘ ہی کمپیوٹر کا وہ پہلا سسٹم تھا جس نے کیمیکل بنک کے ذریعے آن لائن بنکنگ سسٹم کو آگے بڑھانے اور اس میں بنکاری کی نئی جہتیں متعارف کرانے میں موثر کردار ادا کیا تھا تو بے جا نہ ہو گا۔ یوں پرونٹو ہی کی بدولت کیمیکل بنک آن لائن بنکنگ کو متعارف کرانے والا دنیا کا پہلا بنک بن گیا جس کے ذریعے گھر بیٹھے لوگوں نے اپنے کمپیوٹرز کی مدد سے بنکاری کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کا آغاز کیا تھا۔ یوں کیمیکل بنک کی بدولت اس کا اے ٹی ایم نیٹ ورک دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن کر ابھرا۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سال کے اندر اندراس کے آن لائن کسٹمر کی تعداد ساڑھے گیارہ لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔
دنیا کی پہلی اے ٹی ایم
دنیا کی پہلی اے ٹی ایم کو برطانوی شہری جان شیفرڈ بیرا نے 27 جولائی 1967ء کو لندن کے علاقے این فیلڈ میں بارکلے بنک کی ایک برانچ میں نصب کیا تھا جسے برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں ''کیش پوائنٹ‘‘ یا ''کیش مشین‘‘ جبکہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں ''منی مشین‘‘ کہا جاتا تھا۔
آغاز میں اے ٹی ایم محض کیش کے حصول کی ایک مشین ہوا کرتی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس مشین کا استعمال کاروباری لین دین کے دیگر طریقوں میں بھی بدلتا چلا گیا۔ آج کے دور میں بنک اے ٹی ایم کو ایک ایسی مشین بنانے کی طرف گامزن ہیں جو بنک کے تقریباً سارے کام سرانجام دے سکے۔اے ٹی ایم کے ڈویلپر ''این سی آر‘‘ کا کہنا ہے کہ ایک تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ بنک کے اندر کام کرنے والا عملہ جو فرائض سرانجام دیتا ہے اس میں کیش کے لین دین سمیت 80فیصد کام ایسے ہیں جو اے ٹی ایم سے باآسانی لئے جا سکتے ہیں۔
اس مشین کی ایجاد کا تصور بھی خاصا دلچسپ ہے۔کہتے ہیں ایک دفعہ جان شیفرڈ اپنے بنک سے رقم نکلوانے جب وہاں پہنچا تو ایک منٹ پہلے بنک بند ہو چکا تھا۔ ایک دن جان شیفرڈ کو اچانک خیال آیا کہ سپر سٹورز پر اگر ایک مشین کے ذریعے چاکلیٹ اور مشروب کی بوتل نکل سکتی ہے تو چوبیس گھنٹے کیش کیوں نہیں نکالا جا سکتا۔ یہی خیال بعد میں اے ٹی ایم کی ایجاد کا باعث بنا۔
بہت سارے لوگوں کیلئے یہ بات نئی ہو گی کہ دنیا میں سب سے پہلے اے ٹی ایم سے معروف برطانوی اداکار ریگ ور نے پیسے نکالے تھے۔ تاہم 80ء کی دہائی تک اے ٹی ایم بنکاری کا حصہ بن چکی تھی بلکہ دور حاضر میں تو اے ٹی ایم ہر طبقہ فکر کی ایک ضرورت بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اب گلی گلی، محلے محلے کھلے بنکوں میں اے ٹی ایم نے لوگوں کو گھر کی دہلیز تک بنکاری کی سہولیات مہیا کر دی ہیں۔برسبیل تذکرہ آپ کو بتاتے چلیں کہ دنیا کی سب سے بلندی پر واقع اے ٹی ایم پاکستان میں واقع ہے۔
بادلوں میں ڈھکی اے ٹی ایم
16نومبر 2016ء کا سال بینکاری کی دنیا میں اس لئے اہم ہے کہ اس ماہ پاکستان نے دنیا کے بلند ترین اے ٹی ایم کا اعزاز بھارت سے چھینا۔ بھارتی ریاست سکم کی سرحد پر 14300 فٹ کی بلندی پر اے ٹی ایم نصب تھی، جس کے مقابلے میں نیشنل بنک آف پاکستان نے برف پوش خنجراب پاس میں سطح سمندر سے 15397 فٹ کی بلندی پر اے ٹی ایم لگا کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ بنائی۔
دنیا کے بلند ترین برف پوش پہاڑی سلسلے میں جہاں اکثر اوقات پورا علاقہ سفید بادلوں سے ڈھکا ہوتا ہے کسی بھی بنک کیلئے مشین کی تنصیب اور اسے چالو رکھنا آسان کام نہیں تھا۔ عام بجلی کی بجائے اسے سولر اور ونڈ انرجی کے ذریعہ ہی موزوں قرار دیا گیا تاکہ یہ چوبیس گھنٹے بلا تعطل فعال رہ سکے۔ یہ مشین اگرچہ دن رات فعال رہتی ہے تاہم سردیوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گرنے کے باعث اسے چالو رکھنے کیلئے خصوصی انتظام کرنا ہوتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
’’ٹوبیکو ہارم ریڈکشن‘‘

’’ٹوبیکو ہارم ریڈکشن‘‘

جس طرح ایٹمی ہتھیار اور ماحولیاتی آلودگی پوری دنیا کیلئے بڑے خطرات بن چکے ہیں، اسی طرح سگریٹ نوشی بھی ایک ایسا خاموش قاتل ہے جس سے زیادہ تر لوگ پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریاں ہر سال لاکھوں زندگیاں نگل رہی ہیں اور ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان میں یہ مسئلہ مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ 60 ہزارافراد تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جو کہ ہمارے ملک کے صحت عامہ کے نظام پر ایک بڑا بوجھ ہے۔ پاکستان میں تمباکو کے استعمال کو کم کرنے کیلئے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن یہ اقدامات اس حد تک موثر ثابت نہیں ہو سکے جتنی ہمیں ضرورت ہے۔ تمباکو سے متعلق بیماریوں کی روک تھام کیلئے ایک جامع اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سویڈن کی مثال ہمارے لیے ایک امید کی کرن بن سکتی ہے جہاں تمباکو کے نقصان کو کم کرنے کی حکمت عملی ''Harm Reduction‘‘کے ذریعے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ ''ٹوبیکو ہارم ریڈکشن‘‘(THR)ایک اہم حکمت عملی ہے جس کا مقصد تمباکو نوشی سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنا ہے۔ جہاں سونگھنے والے تمباکوکا استعمال سگریٹ نوشی کے متبادل کے طور پر کیا گیا۔سویڈن کا یہ اقدام ایک انقلابی موڑ ثابت ہوا جس نے تمباکو نوشی کی شرح کو صرف5فیصد تک محدود کر دیا ہے۔ ماہرین نے اس کامیابی کی بڑی وجہ ''سنوس‘‘ نامی بے دھوئیں تمباکو کو قرار دیا جس نے سگریٹ نوشی سے ہونے والے نقصانات میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔ سویڈن کی اس حکمت عملی نے دنیا بھر میں تمباکو کنٹرول کے ماہرین کی توجہ حاصل کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ تمباکو کے مضر اثرات میں کمی کی حکمت عملی زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہے۔پاکستان میں سگریٹ نوشی اور تمباکو کی دیگر مصنوعات کا استعمال بڑے پیمانے پر عام ہے۔ تقریباً23.9ملین (2کروڑ 39لاکھ) افراد باقاعدگی سے سگریٹ نوشی کرتے ہیں، جب کہ15.9ملین افراد دھوئیں کے بغیر تمباکو کا استعمال کرتے ہیں، اور 6.2 فیصد افراد ویپنگ کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے پیش نظر، مضر اثرات میں کمی کی حکمت عملی کو اپنانا پاکستان کیلئے ایک موثر اور اہم قدم ہو سکتا ہے۔نقصان میں کمی کی حکمت عملی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تمباکو کے کم مضر متبادل فراہم کیے جائیں تاکہ صحت کے نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ سویڈن میں اس حکمت عملی نے ثابت کیا ہے کہ ای سگریٹ، نیکوٹین پاچز اور دیگر کم نقصان دہ مصنوعات کا استعمال تمباکو نوشی کے نقصانات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر پاکستان میں بھی اسی طرح کے اقدامات کیے جائیں تو ماہرین کا کہنا ہے کہ 2020 ء سے 2060 ء کے درمیان تقریباً 1.2ملین زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ جس کا عنوان ہے''Lives Saved: Integrating Harm Reduction into Tobacco Control‘‘ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہونے والے نقصان میں کمی کی حکمت عملیوں کو تمباکو کنٹرول کی موجودہ پالیسیوں میں شامل کیا جائے، تو یہ تمباکو سے جڑی اموات میں بڑی حد تک کمی لا سکتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر نقصان میں کمی کے اقدامات کو پھیپھڑوں کے کینسر کی ابتدائی تشخیص اور علاج کے ساتھ ملا کر اپنایا جائے تو ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں تمباکو نوشی سے نقصانات میں کمی کی حکمت عملیوں کو اپنانے کے بعد مختلف ممالک میں لاکھوں زندگیاں بچائی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر، بنگلہ دیش میں اس حکمت عملی کو اپنانے سے 9لاکھ 20 ہزار زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں جبکہ جنوبی افریقہ میں 3لاکھ 20ہزار اور قازقستان میں ایک لاکھ 65ہزار اموات کی روک تھام ممکن ہے۔پاکستان میں تمباکو سے جڑی بیماریوں کو کم کرنے کیلئے ایک مربوط اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ تمباکو کے نقصان دہ اثرات کو کم کرنے والی مصنوعات، جیسے نیکوٹین پاچز، ای سگریٹ، اور دیگر متبادل عوام کو بہتر صحت کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں تمباکو کنٹرول کی موجودہ کوششوں میں نقصان میں کمی کی حکمت عملی کو شامل کرنے سے ہم سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور اموات میں نمایاں کمی دیکھ سکتے ہیں۔وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی تمباکو کنٹرول کی حکمت عملی میں تبدیلی لائے اور عالمی تجربات سے سیکھتے ہوئے نقصان میں کمی کی حکمت عملی کو اپنائے۔ سویڈن کے ماڈل کی کامیابی ہمارے لیے ایک مثال ہے کہ اگر صحیح اقدامات کیے جائیں تو ہم بھی سگریٹ نوشی کی شرح میں نمایاں کمی لا سکتے ہیں اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ پاکستان اس وقت تمباکو نوشی کے خلاف جنگ میں ایک نازک موڑ پر ہے۔ سویڈن کی طرح اگر ہم بھی تمباکو نوشی سے ہونے والے نقصانات میں کمی کی حکمت عملی کو اپنی پالیسیوں کا حصہ بنائیں اور عوام کو کم مضر متبادل فراہم کریں تو ہم لاکھوں زندگیاں بچا سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں مدد دے گا بلکہ ہمارے صحت عامہ کے نظام پر بوجھ کو بھی کم کرے گا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے تمباکو کنٹرول کے اقدامات کو نئے سرے سے ترتیب دیں اور ایک صحت مند، مضبوط اور روشن مستقبل کی جانب بڑھیں۔

سر آئزک نیوٹن

سر آئزک نیوٹن

وہ سائنسدان جس نے نظریہ کشش کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا اور دنیا کو بتایا کہ چاند، زمین اور نظام شمسی کے تمام سیارے کشش کی بدولت ہی سورج کے چاروں طرف گردش کرتے ہیں۔ وہ اعلیٰ درجہ کا ریاضی دان بھی تھا۔ اسے انگلستان کی رائل سوسائٹی کا متواتر پچیس سال تک صدر منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ اسے نائٹ کا خطاب بھی ملا۔7دسمبر 1643ء کو ہانا نیوٹن کے بطن سے ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام آئزک رکھا گیا۔ تین سال بعد مسز نیوٹن نے دوسری شادی کرلی اور آئزک کی پرورش کا بار اس کی نانی پر آن پڑا۔ اس کا بچپن لاڈ چونچلے میں گزرا اور وہ اپنے سکول میں کچھ ترقی نہ کر سکا لیکن ایک دن اس نے اپنے سے زیادہ طاقتور ہم جماعت پر فتح پا لی اور اس دن سے نیوٹن میں گویا نئی جان پڑ گئی۔ چند ہی ہفتوں بعد اس کا شمار چوٹی کے طلباء میں ہونے لگا لیکن یہ صورت زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی کیونکہ 1656ء میں اس کے سوتیلے باپ کا انتقال ہو گیا اور زمین کی دیکھ بھال کا کام اس کی بیوہ ماں پر آن پڑا اس نے اپنی مدد کیلئے آئزک کو سکول سے اٹھا لیا۔ اس وقت ہمارے اس موجد کی عمر چودہ سال تھی۔سر آئزک کا دل کھیتی باڑی میں بالکل نہیں لگا۔ اسے ریاضی کا چسکا لگ چکا تھا۔خوش قسمتی سے اس کے ماموں نے اس کی بات سمجھ لی جو ٹرنٹی کالج کا ممبر تھا، چنانچہ آئزک کو 1661ء میں سکول واس بھیج دیا گیا اور 5جون 1661ء کو اس کا داخلہ کیمرج کے ٹرنٹی کالج میں ہوگیا۔8جولائی 1661ء کو اس نے میٹرک پاس کیا اور جنوری 1665ء میں اس نے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اب اسے رضیات سے بہت زیادہ دلچسپی پیدا ہو چکی تھی۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی اس نے اس مضمون کیلئے کئی نئے اصول دریافت کر لئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن آئزک نیوٹن وولز تھروپ میں اپنے باغ میں گھوم رہا تھا کہ اس نے ایک سیب کو درخت سے نیچے گرتے دیکھا وہ سوچنے لگا ہر چیز زمین کی طرف ہی کیوں گرتی ہے، کسی اور سمت میں کیوں نہیں جاتی! اس معمولی واقعے سے اس نے زمین کی کشش کا نظریہ دریافت کیا اور اسے پوری کائنات تک وسعت دی۔وہ چاند کی گردش پر پہلے بھی غور کیا کرتا تھا لیکن اس نظریے سے بات صاف ہو گئی۔ وہ سمجھ گیا کہ نہ صرف ہماری زمین میں کشش موجود ہے بلکہچاند، سورج اور تمام اجرام فلکی میں یہ صفت پائی جاتی ہے۔ درحقیقت ہر دو مادی اجسام ایک دوسرے کو اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں۔1667ء میں نیوٹن کیمبرج واپس آ گیا اور اسے ٹرنٹی کالج کا فیلو مقرر کیا گیا اس نے آئندہ چند سال روشنی پر تحقیقات کرنے اور دوربین کو بہتر بنانے میں صرف کئے۔ 1668ء میں اس نے پہلی دوربین تیار کی جو روشنی کو منعکس کر سکتی تھی۔ اس کی لمبائی صرف چھ انچ تھی لیکن اس کی مدد سے نیوٹن نے مشتری نامی سیارے کے چاند دیکھ لئے۔ بعد میں آنے والے ہیئت دانوں نے اسی اصول پر بہتر قسم کی دوربینیں بنائیں۔1669ء میں نیوٹن کو ٹرنٹی کالج میں پروفیسر کی جگہ مل گئی اور دو سال بعد وہ رائل سوسائٹی کا ممبر منتخب ہوا۔ نیوٹن نے منشور کی مدد سے روشنی پر مزید تجربات کئے اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ روشنی درحقیقت مختلف رنگوں کی بہت سی شعاعوں کا مجموعہ ہوتی ہے جو منشور سے گزرنے کے بعد مختلف طور پر منعطف ہوتی ہیں۔ اس قسم کے نتائج سے تمام سائنسدانوں کو دلچسپی پیدا ہوئی اور نیوٹن کی شہرت انگلستان کے علاوہ سارے یورپ میں پھیل گئی۔نیوٹن کے نظریات پر بہت کچھ بحث مباحثہ ہوا۔ کسی نے تائید کی اور کسی نے تردید۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نیوٹن کے تجربات بڑھتے رہے اور روشنی پر تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا۔ اس نے جو نظریات قائم کئے وہ 1801ء تک صحیح تسلیم کئے جاتے رہے۔1675ء میں نیوٹن رائل سوسائٹی کا فیلو بنا دیا گیا۔ اس کا سب سے بڑا کام نظریہ کشش کو وسعت دینا ہے۔ نیوٹن ہی نے ہمیں پوری کائنات کے اس اہم راز سے واقف کیا۔ اس کی تصنیف پرنسپیا(Principa)اسی موضوع سے تعلق رکھتی ہے اور آج تک مشہور ہے۔ یہ کتاب 1686ء میں شائع ہوئی تھی۔نیوٹن 1692ء سے 1694ء تک سخت علیل رہا۔ اس رات کو نیند نہیں آتی تھی اور اعصابی ہیجان اس بلا کا تھا کہ سارے یورپ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ نیوٹن پاگل ہو گیا ہے اور اسے پاگل خانے میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ خدا خدا کرکے یہ مصیبت ختم ہوئی۔ اس عرصے میں اس کے دوست اس کے کام کو آگے بڑھاتے رہے۔1695ء میں نیوٹن کو وارڈن آف منٹ یعنی ٹکسال کے افسر کی آسامی پیش کی گئی جو اس نے قبول کر لی۔ چار سال بعد وہ ماسٹر آف منٹ بنا دیا گیا۔ 1701ء میں اسے یونیورسٹی پارلیمنٹ کیلئے منتخب کیا گیا اور اب ان مصروفیات میں اس کا اس قدر وقت صرف ہونے لگا کہ اسے سائنسی تحقیقات کیلئے فرصت نہیں ملتی تھی۔ نیوٹن نے ماسٹر آف منٹ کی خدمات بڑی تن دہی سے انجام دیں۔ وہ اس سے پر آخر دم تک فائز رہا لیکن سائنسی امور میں اس کی دلچسپی بدستور قائم رہی۔1703ء میں وہ رائل سوسائٹی کا صدر منتخب ہوا اور اس کے بعد پورے پچیس سال تک ہر سال یہ اعزاز اسے ملتا رہا۔1705ء میں ملکہ این کیمبرج آئیں اور اس موقع پر نیوٹن کو نائٹ کا گراں قدر خطاب عطا کیا گیا۔1727ء کے شروع میں نیوٹن پھر سخت بیمار ہوا۔ اس کی صحت کچھ عرصے سے مستقل طور پر خراب رہنے لگی تھی چنانچہ 20مارچ 1727ء کو اس نے پتھری کی بیماری میں کنسنگٹن میں انتقال کیا۔28مارچ کو اسے ویسٹ منسٹر ایبے میں دفن کیا۔ گیا اور 1731ء میں اس کے اعزاز میں وہاں ایک یادگار قائم کی گئی۔یہ ہے سوانح عمری ایک ایسے انسان کی جس کی ابتدا ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے ہوئی لیکن خداداد ذہانت، محنت اور استقلال نے اسے زندگی کا ہر اعزاز عطا کیا۔ اب زمانہ بہت آگے بڑھ چکا ہے لیکن نیوٹن نے جو شمع روشن کی تھی اس کی روشنی کبھی کم نہ ہوگی۔

آج کا دن

آج کا دن

جنگ یوم کپورجنگ یوم کپور جسے جنگ رمضان یا چوتھی عرب اسرائیل جنگ بھی کہا جاتا ہے 6 اکتوبر سے 26 اکتوبر 1973ء کے درمیان مصر و شام کے عرب اتحاد اور اسرائیل کے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگ کا آغاز یہودیوں کے تہوار یوم کپور کے موقع پر ہوا تھا جب مصر اور شام نے جزیرہ نما سینا اور جولان کی پہاڑیوں پر حملہ کیا جس پر اسرائیل نے 1967ء میں جنگ شش روزہ کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔ اس جنگ میں اسرائیل کو 1948ء کے بعد سب سے زیادہ نقصان جھیلنا پڑا۔ مجموعی طور پر اس کے 2656 فوجی ہلاک ہوئے، 15ہزار زخمی جبکہ تقریباً ایک ہزار جنگی قیدی بنائے گئے۔مصری صدر انورسادات کا قتل 6 اکتوبر 1981ء کومصر کے سابق صدر انور سادات کا قتل ہوا۔ وہ عین اس وقت قتل کر دئیے گئے جب قاہرہ میں وہ اپنی تمام افواج کے ساتھ فتح سوئز کی تقریب میں شریک تھے۔فیلڈ مارشل انور سادات مصر کے ایک فوجی، سیاست دان تھے۔ وہ 15 اکتوبر، 1970ء سے 6 اکتوبر، 1981ء کو اپنے قتل تک مصر کے تیسرے صدر تھے۔ وہ مصر اور مغرب میں جدید تاریخ کی با اثر ترین مصری اور مشرق وسطیٰ کی شخصیت سمجھے جاتے تھے۔کیوبا کی پرواز میں بم دھماکہ''کیوبانا ڈی ایویشین فلائٹ 455‘‘ بارباڈوس سے جمیکا جانے والی کیوبا کی پرواز تھی، جسے 6 اکتوبر 1976ء کو ایک دہشت گرد بم حملے میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ طیارے میں سوار تمام 73 افراد بم پھٹنے اور طیارہ سمندر میں گرنے کے باعث ہلاک ہو گئے۔ یہ بم کاسترو مخالف عسکریت پسند گروپ نے جہاز میں رکھے تھے۔بم دھماکے کے سلسلے میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا، اور وینزویلا میں مقدمہ چلایا گیا۔ دو ملزمان کو 20 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ایک کو بری کر دیا گیا جبکہ ایک کو آٹھ سال تک قید میں رکھا گیا۔انسٹاگرام کو لانچ کیا گیا2010 ء میں آج کے روز فوٹو شیئرنگ ایپلی کیشن ''انسٹاگرام‘‘ کو لانچ کیا گیا۔ انسٹاگرام ایک تصویر اور ویڈیو شیئرنگ سوشل نیٹ ورکنگ سروس ہے۔ یہ صارفین کو میڈیا اپ لوڈ کرنے کی اجازت دیتا ہے جسے فلٹرز کے ساتھ ایڈٹ کیا جا سکتا ہے، ہیش ٹیگز کے ذریعے منظم کیا جا سکتا ہے۔ پوسٹس کو عوامی طور پر شیئر کیا جا سکتا ہے۔ صارفین دوسرے صارفین کے مواد کو ٹیگز اور مقامات کے ذریعے براؤز کر سکتے ہیں۔

5اکتوبر: استاتذہ کا عالمی دن

5اکتوبر: استاتذہ کا عالمی دن

انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور پھر ماں اپنے جگر کا ٹکڑا استاد کے حوالے کر دیتی ہے اور استاد اس کیلئے پوری دنیا کو ایک درسگاہ بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔ باپ بچے کو زمین پر قدم قدم چلنا سکھاتا ہے، استاد اسے دنیا میں آگے بڑھنا سکھاتاہے۔ استاد کا کردار معاشرے میں بہت اہم ہے۔ ہر سال 5 اکتوبر کو ''استاتذہ کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 1994ء میں یہ دن منانے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ پاکستان میں 2007ء سے یہ دن ''سلام ٹیچرز‘‘ کے عنوان سے منایا جا رہا ہے۔ اس سال استاتذہ کے عالمی دن کی تھیم اساتذہ کی آوازوں کو پہچاننے، ان کی تعریف کرنے اور تعلیم کیلئے ایک نئے سماجی معاہدے کیلئے کام کرنے کے بارے میں ہے۔ استاتذہ کی آواز میں ہی تعلیمی معیار اور اخلاقی تربیت کا راز چھپا ہوتا ہے۔ استاتذہ کرام کو تاریخی طور پر معاشرے کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ ان کی گفتگو کا اثر کلاس روم سے باہر تک پھیلا ہوا ہے، استاد نہ صرف فکری صلاحیتوں کو بلکہ اخلاقی اقدار کو بھی ڈھالتا ہے۔ ایک استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے، کہ طلباء تعلیمی لحاظ سے بھی بہتر ہوں اور طلباء تعلیم کے ساتھ ساتھ معاشرے کیلئے ایک مضبوط اخلاقی بنیاد بھی رکھیں۔ مُعَلّمِی وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام میں نہیں بلکہ ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس، ملائیشیا، اٹلی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں جو عزت اور مرتبہ استاد کو حاصل ہے، وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتا کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ استاد مینار نور ہے، جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے، جو ہمیں بلندی پر پہنچا دیتی ہے۔ ایک انمول تحفہ ہے، جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضورﷺ کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریمﷺ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ''مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپؓ نے فرمایا کہ ''کاش میں ایک معلم ہوتا‘‘۔ استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کہتے ہیں کہ ''استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے‘‘۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔ معلم فروغ علم کا ذریعہ ہے لیکن اس کے علم سے فائدہ وہ نیک بخت اٹھاتے ہیں۔ جن کے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں، کیونکہ ''ادب ایک درخت ہے اور علم اس کا پھل۔ اگر درخت ہی نہ ہو تو پھل کیسے لگے گا؟‘۔‘ میری نظر میں سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزاری ہے۔ خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت علی ؓ نے فرمایا! ''جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اسے استادکا درجہ دیتا ہوں۔ ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں کہ !''عالم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کیلئے کھڑے ہو جاؤ‘‘ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم تشریف لاتے تو بادشاہ ان کی تعظیم کیلئے کھڑا ہو جاتا۔ درباریوں نے کہا کہ اس سے سلطنت کا رُعب جاتا رہتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جائے۔ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو علم و ادب کی تعظیم کیلئے امام اصمعیؒ کے سپرد کر دیا تھا ایک دن ہارون اتفاقاً ان کے پاس جا پہنچا۔ دیکھا کہ اصمعیؒ اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے۔ ہارون الرشید نے برہمی سے کہا میں نے تو اسے آپ کے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ آپ اس کو ادب سکھائیں گے۔ آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوئے۔استاد : عظیم عالمی شخصیات کی نظر میںاستاد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تخلیقی اظہار اور علم میں مسرت جگا دے۔ البرٹ آئن سٹائنتعلیم زندگی میں کامیابی کی بنیادی اکائی ہے اور استاد کا شاگردوں پر اثر آخر تک رہتا ہے۔ سولومن آرٹزمیں زندگی کے لئے اپنے باپ کا مشکور ہوں اور میں اچھی زندگی کے لئے اپنے استاد کا مشکور ہوں۔ سکندر اعظماچھا استاد امید جگاتا ہے اور سیکھنے کی لگن پیدا کرتا ہے۔ براڈ ہنریاچھا استاد جانتا ہے کہ شاگرد کے اندر کی صلاحیت کو باہر کیسے لانا ہے۔ چارلس کورالٹتمام علم کی صرف ایک علامت تدریس کی طاقت ہے۔ ارسطو 

اونٹ رے اونٹ

اونٹ رے اونٹ

انسان اور اونٹ کا ساتھ کئی صدیوں پر محیط ہے۔ مستند شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ انسان نے لگ بھگ تین ہزار سال قبل اونٹ کو سدھارنا اور باربرداری کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ بیسویں صدی کے وسط تک انسانی باربرداری اور سفر کیلئے بڑے پیمانے پر اونٹ ہی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ گئے زمانوں میں تو تجارتی قافلوں میں اونٹ ہی استعمال ہوا کرتے تھے جو شمالی افریقہ کے صحراؤں سے لے کر جزیرہ نما عرب تک سفر کرتے تھے۔اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ قدرت کی کوئی تخلیق بلا جواز نہیں ہوتی۔اونٹ ہی کی مثال لیں جو اپنی مخصوص جسمانی ساخت اور پیروں کی بناوٹ کے اعتبار سے اپنے چوڑے اور چپٹے پاؤں کی بدولت ریگستان میں کئی کئی میل بغیر رکے چلنے کی صلاحیت سے مالا مال جانور ہے۔یہی وجہ ہے کہ اونٹ ریگستانی جانور سمجھا جاتا ہے۔ زمانے بدلے سفر اور باربرداری کا ذمہ ٹیکنالوجی نے لے لیا تو انسان نے اونٹ کو اپنی تفریح طبع کیلئے استعمال میں لانا شروع کر دیا۔ برسبیل تذکرہ آپ کو بتاتے چلیں کہ اونٹ کی بیشتر خصلتیں انسان سے ملتی جلتی ہیں۔ بظاہر اونٹ ایک مسکین جانور ہے۔ یہ ڈھول کی تھاپ پے ناچتا بھی ہے، اگر غصے میں ہو تو دھاڑتا بھی ہے ، اگر اسے مشتعل کیا جائے تو یہ لڑائی پر بھی اتر آتا ہے۔ انسان نے اپنی تفریح طبع کیلئے جہاںاس کے دوڑ کے مقابلے کرانے شروع کر دئیے ہیں، وہیں اس کے لڑانے کے مقابلے بھی ہو رہے ہیں،دنیا کے بیشترممالک میں اونٹوں کا''مقابلہ حسن‘‘ بھی ہر سال باقاعدگی سے منعقد کیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ دور جدید میں اونٹ سے اب کیا کیا کام لئے جا رہے ہیں۔ اونٹوں کی دوڑ قدیم روایات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ''اونٹ دوڑ‘‘کی شروعات سعودی عرب میں قبل از اسلام سے چلی آ رہی ہیں۔ شواہد سے پتہ چلا ہے کہ اس دور میں بھی اونٹ دوڑ کے بڑے بڑے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ سعودی عرب میں اونٹ دوڑ کا تسلسل برقرار رہا اور پھر رفتہ رفتہ متحدہ عرب امارات میں بھی اس کے مقابلے منعقد ہونا شروع ہوئے۔ ان ممالک کے علاوہ اونٹ دوڑ کے مقابلے اب مغربی ایشیا، شمالی افریقہ ، پاکستان، منگولیا، آسٹریلیا اور سال گزشتہ سے اب فرانس بھی اس دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔جزیرہ نما عرب کا خطہ زمانہ قدیم سے ہی اونٹوں کی افزائش کیلئے مشہور ہے۔سعودی عرب میں اس کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے حال ہی میں ایک الیکٹرانک پلیٹ فارم کی شروعات کی ہے جس کا مقصد اونٹوں کی نسلوں کے ریکارڈ کو ڈی این اے کی تفصیلات کی مدد سے محفوظ کرنا ہے۔ وہاں پر اب ہر اونٹ کا شناختی کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اونٹوں کی نسلوں کے ریکارڈ کو محفوظ کرنا اور اس کی نسل کا شجرہ ترتیب دینا ہے۔ ذہن میں رہے کہ سعودیہ اور عرب امارات میں اونٹوں کی قیمت پاکستانی کرنسی میں کروڑوں اور بعض اوقات اربوں روپے تک جاتی ہے۔ سعودی عرب میں زمانہ قدیم سے ایک روایت چلی آرہی ہے کہ ''اونٹ خریدتے وقت اونٹ کی ماں کو ضرور دیکھو‘‘۔ شاید اسی وجہ سے اونٹوں کے شجرے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا ہو گا۔اونٹ ریس چونکہ اشرافیہ کا شوق ہے اس لئے دوڑنے والے اونٹوں کی تربیت اور دیکھ بھال کے کئی کئی ملازم رکھنے پڑتے ہیں۔ ایک عمانی ایک ٹی وی انٹرویو میں بتا رہا تھا کہ دوڑنے والے ایک اونٹ کی صرف خوراک کا ماہانہ خرچ 1000 پاونڈ (تقریباً پونے چار لاکھ پاکستانی روپے) سے زیادہ ہوتا ہے۔ جس میں شہد، بادام ، دودھ ، تازہ کھجوریں اور مختلف وٹامنز شامل ہیں۔ اسی انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں یہی عمانی جو دبئی میں اپنے اونٹ کو ریس میں شرکت کیلئے لایا تھا کہہ رہا تھا ''ریس کیلئے سدھائے اونٹ کی قیمت 50لاکھ ڈالر سے لے کر ایک کروڑ ڈالر (تقریباً پونے تین ارب روپے پاکستانی) تک ہو سکتی ہے۔ گزشتہ سال سعودی عرب میں اونٹوں کی، دنیا کی سب سے بڑی ریس کا انعقاد الائولی صحرا میں کیا گیا تھا۔ جس میں جیتنے والے اونٹوں کے مالکان کو 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر (تقریباً 5 ارب 75 کروڑ پاکستانی روپے) انعامی رقم تقسیم کی گئی۔ اونٹوں کا مقابلہ حسن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین خوبصورت نظر آنے کیلئے میک اپ کا سہارا لینے کے ساتھ ساتھ جدید طریقہ علاج، جس میں بوٹوکس، سرجریاں اور کاسمیٹکس پروسیجرز شامل ہیں، کراتی ہیں۔لیکن سعودی عرب اور متحدہ امارات سمیت بہت سارے ممالک میں اب اونٹوں کے درمیان مقابلہ حسن کا انعقاد بھی ہونے لگ گیا ہے۔ اس سلسلے میں تشویشناک بات تیزی سے بڑھتا اونٹوں کا مصنوعی اور عارضی علاج ہوتا ہے۔ جس کیلئے بوٹوکس کے انجیکشن اونٹوں کے ہونٹوں ، ناک، جبڑے اور سر کے مختلف حصوں پر لگا کر پٹھوں کو نرم کیا جاتا ہے۔ ہونٹوں اور ناک میں کلوجن بھرا جاتا ہے اور پٹھوں کو موٹا کرنے کیلئے ہارمونز کا استعمال کیاجاتاہے۔ ہر سال چالیس سے پچاس اونٹ اس ''حرکت‘‘ کے باعث نہ صرف اس مقابلے سے خارج کردیئے جاتے ہیں بلکہ انہیں بھاری جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے ایک سو کلومیٹر کی دوری پر 32 مربع کلومیٹر پر پھیلے ایک میدان میں اونٹوں کا دنیا کا سب سے بڑا ''شاہ عبدالعزیز کیمل فیسٹیول‘‘ ہر سال منعقد کیا جاتا ہے جو چالیس دن تک جاری رہتا ہے۔ اس سال بھی اس میلے میں ایک لاکھ سے زیادہ شائقین روزانہ شریک ہوتے رہے ہیں۔ اس عالمی میلے میں امریکہ ، فرانس، روس، سمیت دنیا کے چالیس سے زیادہ ممالک کے اونٹوں نے شرکت کی ۔ میلے کے اختتام پر فاتحین کو 66 ملین ڈالر ( 17 ارب 80 کروڑ پاکستانی روپے ) کی خطیر رقم انعام میں دی گئی۔ اونٹوں کی خوبصورتی کا معیار کیا ہے ؟ اونٹوں میں خوبصورتی کا معیار لٹکے ہونٹ، بڑی ناک، خم کھاتی متوازن کوہان تو ہے ہی لیکن یہ بعد کے مراحل ہیں۔سب سے پہلے ایک کمیٹی اونٹوں کی ظاہری شکل اور چلنے کے انداز کا بغور جائزہ لیتی ہے جس کا ایک خاص معیار مقرر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں اونٹوں کی خوبصورتی میں مصنوعی طریقوں سے اضافہ تو نہیں کیا گیا۔اس کیلئے جدید ایکسرے کی مدد سے 3 ڈی الٹرا ساؤنڈ کا استعمال کرتے ہوئے اونٹوں کا سر ، گردن ، دھڑ کے عکس لئے جاتے ہیں اور ان اونٹوں سے حاصل شدہ نمونوں کو جینیاتی معائنے کیلئے لیبارٹری بھیجا جاتا ہے۔اونٹوں کی لڑائیاونٹوں کی لڑائی بنیادی طور پر زمانہ جہالیت سے چلی آ رہی ہے کیونکہ اس دور میں کھیل اور تفریح کے مواقع محدود ہوا کرتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ جب مہذب معاشرے کی شروعات ہوئی تو لوگوں نے اسے ایک ظالمانہ کھیل کا درجہ دے ڈالا اور یوں حکومتوں کو اس کھیل پر پابندی عائد کرنا پڑی۔ پاکستان اور بھارت میں اب بھی دیہی علاقوں میں اس کے باقاعدہ مقابلے منعقد ہوتے ہیں جنہیں دنگل کا نام دیا جاتا ہے۔ اونٹوں کے دنگل کا انعقاد ایک ٹھیکے دار کرتا ہے۔ یہ ایک غیر جانبدار شخص ہوتا ہے۔میدان میں ایک ڈھولک والا ، ریفری اور لڑنے والے اونٹوں کے مالک ہوتے ہیں ۔ریفری کا کام اونٹوں کی لڑائی کو نتیجہ خیز بنانا اور فاتح کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

دریائے میکونگ کا قتل عامدریائے میکونگ کا قتل عام 5 اکتوبر 2011ء کی صبح ہوا، دو مال بردار چینی جہازوں پر لاکھوں ایمفیٹا مائن گولیوں کے ساتھ گولڈن ٹرائی اینگل کے علاقے میں دریائے میکونگ میں حملہ کیا گیا۔دونوں بحری جہازوں پر موجود13افراد کو ہلاک کرنے کے بعد دریا میں پھینک دیا گیا۔یہ بیرون ملک چینی باشندوں پر ہونے والا سب سے مہلک حملہ تھا۔اس حادثے کے بعد چین نے عارضی طور پر دریائے میکونگ میں جہاز رانی کو معطل کر دیا اور میانمار،تھائی لینڈ اور لاؤس کے ساتھ مشترکہ طور پر دریا پر گشت کرنے کا معاہدہ کیا۔اس معاہدے کے بعد سکیورٹی کے حالات کافی حد تک بہتر ہو گئے اور کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ لاڈ بروک ریل حادثہلاڈ بروک گروو ریل حادثہ جسے پیڈنگٹن ریل کریش بھی کہا جاتا ہے، ایک خوفناک حادثہ تھا جو 5 اکتوبر 1999ء کو لندن، انگلینڈ کے لاڈ بروک گروو میں پیش آیا۔دو مسافر ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں جبکہ دونوں میں سے صرف ایک ٹرین نے خطرے کا سگنل پاس کیا۔ اس حادثے میں 31افراد ہلاک اور 417شدید زخمی ہوئے۔یہ برطانیہ میں بیسویں صدی میں ہونے والے بدترین حادثات میں سے ایک ہے۔دو سال کے عرصے میں گریٹ ویسٹرن مین لائن پر ہونے والا یہ دوسرا بڑا حادثہ تھا۔آپریشنل آٹومیٹک ٹرین پروٹیکشن سسٹم کی مدد سے ان دونوں حادثات کو روکا جا سکتا تھا لیکن اس کی وسیع فٹنگ کی لاگت کی وجہ سے اسے نصب کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا۔اس حادثے کے بعد برطانیہ کے نجی ریلوے سسٹم اورانتظامات کے ضابطے پر عوام کے اعتماد کو شدیدٹھیس پہنچی۔ گلڈ فورڈ دھماکے 5 اکتوبر 1974ء کوگلڈ فورڈ پب میںبم دھماکے ہوئے۔پروویژنل آئرش ریپبلکن آرمی نے گلڈ فورڈ، سرے، انگلینڈ میں دو پبوں میں 6 پاؤنڈ کے دو جیلنائٹ بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی۔ پب کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہاں پربرائٹ بیرکوں میں تعینات برطانوی فوجی بہت زیاد ہ تعداد میں آیا کرتے تھے۔ان دھماکوں میں چار فوجی جبکہ ایک عام شہری ہلاک ہوا اور 65افراد زخمی ہوئے۔دھماکوں نے پورے شہر میں خوف و ہراس پھیلا دیا اور پولیس کو عوام کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ آئرش ریپبلکن آرمی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہالی ووڈ ہنگامےہالی ووڈ بلیک فرائیڈے وہ نام ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مزدوروں کی یاد میں 5 اکتوبر 1945ء کو دیا گیا ۔سیٹ ڈیزائنرز کی جانب سے چھ ماہ سے طویل ہڑتال جاری تھی کہ اچانک اس میں شدت اختیار ہونے لگی اور آخر کار یہ ہڑتال 5اکتوبر کو وارنر برادرز سٹوڈیو کے دروازے پر ایک خونی ہنگامے میں تبدیل ہو گئی۔اس حادثے کے بعد 1947ء میں ٹافٹ ہارٹلی نامی ایک ایکٹ منظور ہواجس کے بعدانٹرنیشنل الائنس آف تھیٹر یکل اسٹیج ایمپلائز کی قیادت کی تنظیم نو کی بنیاد رکھی گئی۔