مہندی کے نقش و نگار، طائف کا گلاب، حلب کا صابن ،روانڈا کا اینورے رقص، تھائی لینڈ کا ٹوم یم سُوپ اور جاپان میں چاول کی پھپھوندی سے مشروب بنانے کے فن کو اقوام متحدہ کے غیر مادی عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کر لیا گیا ہے۔یہ فیصلہ غیرمادی ثقافتی ورثے کے تحفظ سے متعلق یونیسکو کی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں کیا گیا ہے جو دو سے سات دسمبر تک جمہوریہ پیراگوئے کے دارالحکومت آسونسیون میں منعقد ہوا ۔غیرمادی ثقافتی ورثے کے تحفظ سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت اب تک دنیا بھر سے700 سے زیادہ منفرد فنون اور علوم کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے۔ اس کا مقصد ان فنون اور علوم کو تحفظ دینے کے لیے مقامی، قومی اور عالمی سطح پر آگاہی پیدا کرنا ہے۔بڑھتی ہوئی عالمگیریت کے نتیجے میں اس غیرمادی ورثے کو درپیش کئی طرح کے چیلنجز سے نمٹنے اور ثقافتی تنوع کو برقرار رکھنے میں یونیسکو کی یہ کمیٹی اہم کردار ادا کررہی ہے۔ جو علوم اور فنون اس فہرست کا حصہ بن جاتے ہیں ان کی حفاظت کے لیے ممالک کو بین الاقوامی سطح پر مدد اور تعاون حاصل ہوتا ہے۔حالیہ دہائیوں میں یونیسکو نے ثقافتی ورثے کی تشکیلِ نو کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر یہ صرف تاریخی یادگاروں اور عمارتوں تک محدود نہیں بلکہ روایات، فنونِ لطیفہ، سماجی رسوم و رواج، میلے ٹھیلے اور روایتی ہنر سے متعلق علوم اور صلاحیتیں بھی ثقافتی ورثہ میں شامل ہیں۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے(Audrey Azoulay) کے مطابق یہ ثقافتی ورثے کے بنیادی تصور کو نیا مفہوم دیتا ہے ، حقیقت میں غیرمادی ورثہ مادی ورثے سے الگ نہیں ہے؛اس لیے غیرمادی ورثے کی حفاظت کرنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ یہ چیزیں محض لوک داستانوں اور ماضی کے قصوں میں باقی نہ رہیں۔ان علوم اور فنون کو زندہ رکھنا اور ان کی ضرورت کو برقرار رکھنا اہم ذمہ داری ہے۔حِنا، رسومات، جمالیات :جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ، میں حِنا (مہندی) کو سنگھار میں ایک خاص مقام ہے۔ اس کے بغیر ہر تہوار اور ہر تقریب کا رنگ پھیکا لگتا ہے۔جدید دور میں مہندی لگانا بھی ایک رسم سی ہو گئی ہے کو جمالیات کا اہم جُز کی حیثیت حاصل ہے۔ مہندی کا پودا سال میں دو مرتبہ اگایا جاتا ہے اور اس کے پتوں کو خشک کر کے انہیں لئی کی شکل دے دی جاتی ہے۔ مہندی سے خواتین اپنے ہاتھوں اور پاؤں پر نقش و نگار بناتی ہیں۔ مہندی خوشی کی علامت ہے جو شادی بیاہ،عیدین، بچے کی پیدائش اور دیگر پُرمسرت مواقع پر اور بعض علاقوں میں روزمرہ زندگی میں بھی استعمال کی جاتی ہے اور صدیوں سے سماجی رسوم و رواج کا حصہ رہی ہے۔طائف کا گلاب:سعودی عرب کے علاقے طائف میں گلاب کا پھول سماجی و مذہبی رسومات کا لازمی حصہ اور مقامی لوگوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ ہے۔مارچ سے شروع ہونے والی گلاب کی فصل کی چنائی کے موسم میں کاشتکار صبح سویرے گلاب کے پھول چنتے اور انہیں فروخت کے لیے منڈیوں میں بھیج دیتے ہیں۔ گھروں میں گلاب کے پھولوں کا عرق بھی نکالا جاتا ہے اور لوگ گلاب کے عرق کو جسمانی آرائشی اشیا، ادویات اور خوراک و مشروبات کی تیاری میں استعمال کرتے ہیں۔حلب کا صابن: شام میں مقامی طور پر پیدا کردہ زیتون اور لارل کے تیل سے صابن ''غار‘‘ تیار کیا جاتا ہے جو بناوٹ اور خاصیت میں اپنی مثال آپ ہے۔اس صابن کے اجزا نسل در نسل چلے آنے والے طریقوں سے اکٹھے کیے اور تیار کیے جاتے ہیں جس کے بعد اس آمیزے کو ٹھنڈا کر کے بڑے ٹکڑوں کی شکل دی جاتی ہے۔ اس کے بعد انہیں مختلف وزن میں کاٹا جاتا ہے۔ تیاری کے بعد ہر ٹکڑے پر صابن بنانے والے خاندان کے لوگوں کے نام کی مہر لگائی جاتی ہے پھر خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔انڈے سجانے کا فن:یوکرین اور ایسٹونیا میں انڈوں پر موم سے کئی طرح کے نقش و نگار اور علامات بنائے جاتے ہیں۔ اس منفرد فن کو'' پسینکا‘‘ کہتے ہیں جس میں موم کے ذریعے انڈے کو سجا کر اسے رنگ دیا جاتا ہے۔ بعدازاں موم سے بنے نقش و نگار کے علاوہ انڈے کے دیگر حصوں پر مختلف رنگ چڑھائے جاتے ہیں اور مطلوبہ نمونہ تیار کرنے کے لیے یہ عمل بار بار دہرایا جاتا ہے۔اگرچہ یہ انڈے اب خاص طور پر ایسٹر کے تہوار سے مخصوص ہیں لیکن یوکرین میں یہ روایت مذہب سے قطع نظر ہر برادری میں مقبول ہے۔جاپانی چاول کا مشروب:جاپان میں چاول اور پانی سے بنائے جانے والے مشروب کو متبرک تحفہ سمجھا جاتا ہے اور یہ تہواروں، شادی بیاہ کی تقریبات اوربچے کی پیدائش جیسی رسومات اور دیگر سماجی و ثقافتی تقریبات کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ اس مشروب کو جاپانی ثقافت میں اہم مقام حاصل ہے۔ ہنرمند لوگ اسے پکائے گئے چاولوں کی پھپھوندی کو سٹارچ میں تبدیل کرنے کے بعد مختلف اشیا ملا کر چینی میں ڈال دیتے ہیں۔ بعدازاں اسے مخصوص وقت تک اور مخصوص نمی میں رکھ کر مشروب میں تبدیل کیا جاتا ہے۔روانڈا کا اینورے رقص:افریقی ملک روانڈا میں ٹولی کی صورت میں کیا جانے والا یہ رقص سماجی تقریبات اور تہواروں کا اہم جزو ہے۔ عام طور پر لوگ فصل کی کٹائی کے موقع پر منعقدہ میلوں اور معزز مہمانوں کے استقبال کے موقع پر اس فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس دوران گیت اور فتح کے ترانے گائے جاتے ہیں اور رقاص قطاروں کی صورت میں ناچ کر میدان جنگ کے بہادروں کی عکاسی کرتے ہیں۔یہ حرکات ایک غیرمرئی دشمن کے خلاف جنگ کو ظاہر کرتی ہیں جن میں رقاص روایتی ڈھول اور باجوں کی آوازوں کے تال میل سے اپنے نیزے اور ڈھالیں لہرا کر طاقت کا اظہار کرتے ہیں۔پرتگال کی گھڑ سواری:یورپی ملک پرتگال میں گھڑسوار خاص لباس پہن کر اور مخصوص انداز میں گھوڑے پر بیٹھ کر کئی طرح کے کرتب دکھاتے ہیں۔ اس دوران سوار اور گھوڑے کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی اور باہمی گہرے ربط سے گھوڑے اور سوار میں تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔اس فن کے لیے خالص نسل کے لوسیتانو گھوڑے تیار کئے جاتے جنہیں سدھانا اور سنبھالنا آسان ہوتا ہے۔ یہ فن اجتماعی شناخت کا ذریعہ ہے اور اس کا مظاہرہ عموماً مذہبی رسومات، سالانہ میلوں اور دیگر سماجی تقریبات میں کیا جاتا ہے۔تھائی لینڈ کا ٹوم یوم کُنگ سُوپ:ٹوم یوم کُنگ تھائی لینڈ میں جھینگے کا روایتی سُوپ ہے۔ اس میں جھینگوں کو گرم پانی میں جڑی بوٹیوں کے ساتھ ابالا جاتا ہے اور پھر اس میں مقامی مصالحے شامل کیے جاتے ہیں۔ اس سوپ کی الگ خوشبو اور رنگ ہوتے ہیں اور یہ میٹھے، کھٹے، لذیذ، مصالحے دار، روغنی اور قدرے تلخ سمیت کئی طرح کے ذائقوں میں ملتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس سوپ سے جسمانی توانائی اور صحت میں اضافہ ہوتا ہے اور بالخصوص مون سون کے موسم میں اس کی افادیت دوچند ہو جاتی ہے۔ یہ سُوپ تھائی لینڈ کے وسطی علاقوں میں دریا کنارے آباد بدھ برادری کی تخلیق سمجھی جاتی ہے جو ماحول اور صحت بخش جڑی بوٹیوں سے متعلق ان کے روایتی علم و دانش کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔بوٹسوانا اور انڈونیشیا کے روایتی رقص: دو مزید روایات بھی اس سال یونیسکو کے غیرمادی عالمی ورثے میں شامل کی گئی ہیں۔ ان میں ایک ''ووسانا ‘‘کی رسم ہے جو افریقی ملک بوٹسوانا کے شمال مشرقی اور وسطی اضلاع میں رہنے والے باکالانگا لوگ مناتے ہیں۔ دوسرا روایت انڈونیشیا کا ''ریوگ پونوروگو‘‘ رقص ہے۔ یہ صدیوں پرانا فن مختلف مواقع جیسا کہ قدرتی آفات یا حوادث کو دور رکھنے کے لیے منائی جانے والی رسومات کے دوران پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں رقاص بادشاہوں اور جنگجوؤں جیسا لباس پہنتے اور اپنی حرکات و سکنات کے ذریعے بانتارنگن سلطنت اور اس کے بادشاہ کی داستان پیش کرتے ہیں۔