یادرفتگاں:گائے کی دنیا گیت میرے۔۔۔ رشید عطرے نغموں کو امر کرنے والا موسیقار

یادرفتگاں:گائے کی دنیا گیت میرے۔۔۔ رشید عطرے نغموں کو امر کرنے والا موسیقار

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد ارشد لئیق


پاکستان فلم انڈسٹری کو کئی یادگار گیت دینے والے برصغیر کے نامور موسیقار رشید عطرے کی آج 57ویں برسی ہے۔ 15فروری 1919ء کو امرتسر میں جنم لینے والے رشید عطرے کا پورا نام عبدالرشید عطرے تھا۔ ان کے والد خوشی محمد بھی گلو کاری اور موسیقی کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے رہے۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اشفاق حسین سے حاصل کی۔ رشید عطرے نے جلد ہی موسیقی کے تمام آلات کا درست استعمال سیکھ لیا اور ان میں مہارت حاصل کرلی۔ خاص طور پر انہوں نے طبلہ بجانے میں کمال حاصل کیا۔
رشید عطرے پاکستان کی فلمی تاریخ میں اردو فلموںکے پہلے کامیاب ترین موسیقار تھے، جنھوں نے بہت بڑی تعداد میں سپر ہٹ گیت تخلیق کیے۔ 40 ء کی دہائی کے شروع میں رشید عطرے دنیائے موسیقی میں قدم رکھا۔ انہوں نے ماہی شوریٰ پکچرز لاہور کی فلم ''پگلی‘‘ کے دو گیتوں کی موسیقی دے کر فنی کریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کے باقی نغمات کا میوزک استاد جھنڈے خان نے ترتیب دیا۔ 1947ء میں بمبئے ٹاکیز کی فلم ''نتیجہ‘‘ کی موسیقی رشید عطرے نے مرتب کی۔ اس کی ایک غزل ''کہاں میں اور کہاں دینِ حرم کی کشمکش‘‘بہت مقبول ہوئی۔
ان کی مرتب کردہ موسیقی سے سجی فلم ''وعدہ‘‘ کا کلاسیکی گیت ''بار بار ترسیں مورے نین، مورے نیناں‘‘سن کر دل جھوم اٹھتا ہے۔ اس گیت کو کوثر پروین اور شرافت علی خان نے گایا تھا۔اس کا ایک اور لافانی گیت ملاحظہ کریں:
تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
ڈبلیو زیڈ احمد کی شہرہ آفاق فلم ''وعدہ‘‘ کے سارے نغمات بڑے ہٹ ہوئے اور رشید عطرے نے اپنی فنی عظمت کا لوہا منوایا۔ رشید عطرے نے اس فلم کے علاوہ بھی دیگر کئی فلموں کی شاندار موسیقی دی اور اپنا ایک الگ مقام بنایا۔
رشید عطرے قیام پاکستان سے پہلے بھارت میں بھی اپنے فن کے چراغ روشن کرتے رہے۔ 1948ء میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آ گئے۔ ابتدائی دور میں وہ نور جہاں کی گائیکی سے فائدہ نہ اٹھا سکے کیونکہ ان دنوں نورجہاں صرف اس فلم کیلئے نغمات گاتی تھیں جس میں وہ خود ہیروئن کے طور پر کام کر رہی ہوتیں۔ یہی سبب تھا کہ رشید عطرے نے اپنے کریئر کے ابتدائی برسوں میں زبیدہ خانم اور نسیم بیگم سے گیت گوائے۔ بعد میں جب میڈم نور جہاں نے جب اپنی روایت کی زنجیر توڑی تو پھر رشید عطرے کو موقع ملا کہ وہ میڈم کی آواز کو اپنی دلکش موسیقی کا لباس پہنائیں۔ یہ سلسلہ 1967ء تک جاری رہا۔
رشید عطرے نے ریاض شاہد کی یاد گار فلم ''شہید‘‘ کے گیتوں کی موسیقی دی۔ اس سے پہلے وہ ''شہری بابو‘‘ اور ''چن ماہی‘‘ کی موسیقی دے کر زبردست شہرت حاصل کر چکے تھے۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے گیتوں کا شاندار میوزک دے سکتے ہیں۔
1956-57ء اور پھر 1958ء میں انہوں نے ''سرفروش‘‘، ''وعدہ‘‘ اور'' انارکلی‘‘ کی موسیقی دی۔ ان تینوں فلموں کی موسیقی نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ اس کے بعد مکھڑا، گلفام، فرنگی، سوال، مرزا جٹ، بائو جی اور زرقا کے گیتوں کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ فلم ''قیدی‘‘میں فیض احمد کی نظم ''مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ رشید عطرے کی موسیقی میں میڈم نور جہاں نے گائی۔ اسی طرح ''فرنگی‘‘ کی یہ غزل''گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے‘‘ مہدی حسن نے رشید عطرے کی موسیقی میں گائی۔1962ء میں فلم ''موسیقار‘‘ کے نغمات بھی بہت مقبول ہوئے۔ بھارت میں انہوں نے جن فلموں کی موسیقی دی ان میںممتا، پگلی، پنا، شیریں، فرہاد، کمرہ نمبر9، نتیجہ، پارو اور شکایت شامل ہیں۔ پاکستان میں ان کی مشہور فلموں میں''شہری بابو‘‘، ''چن ماہی‘‘، ''سرفروش‘‘، ''وعدہ‘‘، ''سات لاکھ‘‘، ''مکھڑا‘‘، ''انارکلی‘‘، ''نیند‘‘، ''سلمیٰ‘‘، ''شہید‘‘، ''قیدی‘‘، '' موسیقار‘‘، ''فرنگی‘‘ ، ''جی دار‘‘،'' سوال‘‘، ''بائو جی‘‘ اور'' زرقا‘‘ نمایاں ہیں۔
رشید عطرے نے اپنے17 سالہ فلمی کریئر میں 60 کے قریب فلموں میں گیت کمپوز کیے۔ ان میں سے 50 سے زائد اردو فلموں میں ساڑھے تین سو کے لگ بھگ گیت تھے جبکہ چھ پنجابی فلموں میں پچاس سے زائد گیت تھے۔ گلوکارہ نسیم بیگم نے ان کے سب سے زیادہ گیت گائے، جن کی تعداد 94 ہے جبکہ زبیدہ خانم کے 72 ، میڈم نورجہاں کے 66 ، مالا کے 46 اور آئرن پروین کے 20 گیت تھے۔
1969ء میں رشید عطرے نے ریاض شاہد کی فلم ''زرقا‘‘ کے نغمات کی جو دھنیں بنائیں وہ آج بھی شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اہل موسیقی رشید عطرے کے سنگیت کو پاکستانی فلمی صنعت کا بیش قیمت اثاثہ قرار دیتے ہیں۔18دسمبر 1967ء کو رشید عطرے اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔

 

رشید عطرے کے ناقابل فراموش گیت
1-بھاگاں والیو............ فلم شہری بابو
2-چٹھیے سنجیاں دیئے......... چن ماہی
3-تیری الفت میں صنم......... سرفروش
4-جب ترے شہر سے گزرتا ہوں...وعدہ
5-بار بار ترسیں مورے نین......وعدہ
6-دِلا ٹھہر جا یار دا............ مکھڑا
7- بانوری چکوری کرے...... انارکلی
8-تیرے در پہ صنم چلے آئے...... نیند
9-زندگی ہے یا کسی کا انتظار... ...سلمیٰ
10-اس بے وفا کا شہر ہے...... شہید
11-گائے کی دنیا گیت میرے...موسیقار
12-گلوں میں رنگ بھرے...... فرنگی
13-لٹ الجھی سلجھا جارے بالم......سوال
14-آئے موسم رنگیلے سہانے... سات لاکھ
15-یارو مجھے معاف رکھو...... سات لاکھ
16-سنجے دل والے بوُئے......مرزا جٹ
17-رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے...زرقا
18-ہمیں یقیں ہے ڈھلے گی اک دن...رزقا
19-نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن...شہید

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
لینن گراڈفن تعمیر کی شاہکار عمارتوں والا روس کا اہم ترین شہر

لینن گراڈفن تعمیر کی شاہکار عمارتوں والا روس کا اہم ترین شہر

لینن گراڈ، روس کا ایک اہم شہر ہے جو خلیج فن لینڈ پر دریائے نیوا کے کنارے پر واقع ہے۔ اس کا پرانا نام سینٹ پیٹرز برگ تھا کیونکہ اس کا سنگ بنیاد 1730ء میں زار روس پیٹر اعظم نے رکھا تھا،بعدازاں اس کا نام تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس شہر کا شمار دنیا کے حسین ترین شہروں میں ہوتا ہے۔17ویں صدی عیسوی میں روس کا شمار یورپ کی چند پسماندہ اقوام میں ہوتا تھا۔اس وقت تک یہاں مغربی اثرات آنا شروع ہو چکے تھے جب 1689ء میں پیٹراعظم روس کا حکمران بنا۔ وہ پہلا روسی حکمران تھا جس نے غیر ممالک کا دورہ کیا۔1697ء میں انگلینڈ، فرانس اور ہالینڈ کا دورہ کرکے واپسی پر اس نے مصمم ارادہ کر لیا تھاکہ وہ روس کو جدید ممالک کی صف میں کھڑا کرے گا۔ اس کے پروگرام کا ایک اہم حصہ بندرگاہ بنا کر روسی بحریہ کو مضبوط تر بنانا تھا اور اس کے ساتھ ایک نیا شہر بھی بسانے کا منصوبہ تھا۔بحریہ کی ضروریات کے نقطہ نظر سے خلیج فن لینڈ میں نیواڈیلٹا کا دلدلی علاقہ اس شہر کی تعمیر کیلئے منتخب کیا گیا۔ اس شہر کو دارالحکومت بنانے کا فیصلہ 1712ء میں کیا گیا۔ یہ شہر ادب و فنون کا بہت بڑا مرکز بنا اور اس پر مغربی تہذیب کا گہرا اثر پڑا۔ اس شہر کیلئے جگہ کا انتخاب کرنے کے بعد زار پیٹر کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کس قسم کا شہر تعمیر کروایا جائے۔1725ء میں پیٹراعظم کی موت کے بعد بھی اس شہر کی شاندار عمارات کی تعمیر جاری رہی۔ ان عمارتوں میں قلعہ پیٹرپال، مین شیکو پیلس، سمر پیلس اور ونٹر پیلس شامل ہیں۔ سینٹ پیٹرز برگ اہل روس اور بہت سے غیر ملکیوں کی کوششوں سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ تاجروں اور مختلف ماہر فنون کو مجبور کیا گیا کہ وہ یہاں اپنے گھر تعمیر کریں۔ چونکہ اس علاقہ میں پتھر نہیں تھے اس لئے شہر میں داخل ہونے والی ہر سواری یا گاڑی میں تین پتھر ، ہر کشتی میں پتھر اور ہر بحری جہاز میں کم از کم 30پتھر لدے ہوتے تھے۔سینٹ پیٹرز برگ میں اتنے تعمیراتی سٹائل نظر آتے ہیں کہ یہ شہر فن تعمیر کی سمفنی (symphony)نظر آتا ہے۔ دو سٹائل خاص طور پر چھائے ہوئے ہیں۔ سینٹ پیٹرز برگ کی شاندار عمارتوں کے ساتھ اس شہر کا کشادہ لے آئوٹ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا کی ایک سب سے بڑی سڑک سینٹ پیٹرز برگ کے درمیان سے گزرتی ہے۔ یہ سڑک دریائے نیوا کے کنارے واقع ایڈمائی رہائی سے شروع ہوتی ہے۔ اس سڑک کا اپنا ایک منفرد حسن ہے۔ اس کے اطراف میں باوقار اور شاندار عمارتیں بنی ہیں جن میں سٹروگونوف اور ارچ کوف محلات، شودالوف اسٹیٹ اور کرزن کیتھڈرل شامل ہیں۔جس عمارت میں سینٹ پیٹرز برگ کی مکمل تاریخ جمع ہے وہ یہاں کا سرمائی محل ہے، جسے 1711ء میں بنایا گیا تھا۔ اس محل میں پانچ مرتبہ تبدیلیاں کی گئیں۔ آخری چھٹا سرمائی محل ریسٹ ایلی نے ڈیزائن کیا جو 1760ء میں مکمل ہوا۔ اس محل کا تناسب اتنا شاندار ہے کہ اس کی چاروں سمتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس عمارت کے سامنے کے حصے میں ایک کے اوپر ایک رکھے ہوئے ستون زمین سے لے کر چھت تک چلے گئے ہیں۔ اس کے اوپر کانسی کے بنے بڑے بڑے ایسے مجسمے لگے ہیں جو اصل میں خاکدان ہیں۔ قدیم زمانے کے لوگ ان خاکدانوں میں مردے کی راکھ رکھا کرتے تھے۔ اس محل کی 3منزلوں میں 1500 کمرے ہیں۔ سب سے نچلی منزل میں محل کے ملازمین رہتے تھے۔ دوسری منزل پر سرکاری دفاتر تھے۔تیسری منزل پر بیڈ رومز اور درباریوں کے رہنے کی جگہ تھی۔ 1837ء میں اس سرمائی محل کو ایک آگ کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا لیکن اسے جلد ہی ماہر تعمیرات نے دوبارہ درست کردیا۔1917ء میں جب روس میں بالشویک انقلاب آیا تو اسی سرمائی محل میں زار روس نکولس دوئم کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمن افواج نے لینن گراڈ کا900دن تک محاصرہ کئے رکھا اس وقت بھی اس محل کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ اس کے بعد شہر کی دیگر عمارتوں کی طرح اس عمارت کی مرمت بھی بڑی احتیاط اور توجہ سے کی گئی۔ آج کل اس عمارت کا ایک بہت بڑا حصہ آرٹ کے نادر نمونوں کو جمع کرنے کیلئے وقف ہے۔پہلی جنگ عظیم کے دوران میں سینٹ پیٹرز برگ کا نام تبدیل کرکے پیٹرو گراڈ رکھ دیا گیا۔1845ء کے انقلاب سے لے کر 1917ء کے بالشویکی انقلاب تک یہ شہر بڑی انقلابی تحریکوں کا مرکز رہا۔  

آج کا دن

آج کا دن

دنیا کا پہلا کمرشل سیٹلائٹ''سکور‘‘کمرشل استعمال کیلئے بنایا گیا دنیا کا پہلا مواصلاتی سیٹلائٹ تھا۔ اسے18 دسمبر 1958ء کو امریکن اٹلس سیٹلائٹ کے ذریعے لانچ کیا گیا ۔ سیٹلائٹ نشریات کا آغاز اس پروگرام کا پہلا کامیاب استعمال تھا۔سیٹلائٹ کے آن بورڈ ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے امریکی صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کے کرسمس پیغام کو نشر کر کے اس نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ اسے ''دی ٹاکنگ اٹلس‘‘کا نام بھی دیا گیا تھا۔''سکور‘‘ ایک جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کے طور پر امریکہ کو سوویت یونین کے برابر تکنیکی سہولت فراہم کرتا تھا۔اس سیٹلائٹ کو براڈکاسٹنگ کی دنیا میں انقلاب بھی کہا جاسکتا ہے۔جنوب مشرقی سیلابی سلسلہ2006-07ء میں جنوب مشرقی سیلاب ایک سیلابی سلسلہ تھا جس کا آغاز 18دسمبر 2006ء سے ہوا ۔ملائشیا اس سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور 13 جنوری 2007ء تک اس سیلاب نے ملائشیا کے ایک بڑے حصے میں تباہی مچائی۔اسی طوفان کی وجہ سے انڈونیشیا اور سنگا پور میں بھی سیلاب آیا۔سیلاب اس وقت شروع ہوا جب کئی روز سے جاری بارش نے ندیوں اور ڈیموں کو اوور فلو کر دیا۔ موسمی حکام نے سیلاب کو اس علاقے میں اس صدی میں بدترین سیلاب قرار دیا۔ سیلاب کے نتیجے میں تقریباً6ہزار افراد کو موت واقع ہوئی۔ٹرانس سروس ائیر لفٹ حادثہٹرانس سروس ائیر لفٹ لاک ہیڈ حادثہ18دسمبر1995ء کو پیش آیا۔ جہاز انگولا کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس میں سوار تمام141افراد ہلاک ہو گئے۔ جہاز کافی پرانا تھا، اس کو 1959ء میں بنایا گیا تھا، کافی عرصہ سروس کے بعد اسے 1992ء میں TSAکو فروخت کر دیا گیا تھا۔ حادثے کے دن جہاز ایک چارٹر فلائٹ پر تھا۔ جہاز میں وز ن ضرورت سے زیادہ تھا۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پرواز کے دوران جہاز کے پچھلے حصے میں کارگو سامان اپنی جگہ سے پھسل گیا جس سے جہاز کا توازن خراب ہوا اور حادثہ پیش آیا۔کیلونگ کا زلزلہ18دسمبر1867ء کو تائیوان کے شمال ساحل پر 7.0شدت کا زلزلہ آیا جسے کیلونگ کا زلزلہ بھی کہا جاتا ہے۔اس زلزلے نے شدید ہلچل پیدا کی جس کے نتیجے میں کیلونگ اور تائی پے کے شہروں کو شدید نقصان پہنچا۔ ایک سونامی بھی آیا جسے تائیوان میں اپنی نوعیت کا واحد تباہ کن سونامی تصور کیا جاتا ہے۔ اس سونامی میں سینکڑوں افراد ڈوب گئے ، اس کی بلندی 15 میٹر سے بھی زیادہ تھی۔زلزلے اور اس کے نتیجے میں آنے والے سونامی کی وجہ سے تقریباً600افرا ہلاک ہوئے،جبکہ سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔زلزلے کے بعد آفٹر شاکس بھی آئے جو ایک دن میں تقریباًدس مرتبہ محسوس کئے گئے۔ 

یادرفتگاں: کمال احمد رضوی ایک عہد ساز فنکار

یادرفتگاں: کمال احمد رضوی ایک عہد ساز فنکار

کمال احمد رضوی کو ایک عہد ساز فنکار کہا جائے تو بے جا نے اداکاری اور ڈرامہ نویسی کے نئے رحجانات متعارف کرائے۔ کمال احمد رضوی یکم مئی 1930ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پولیس افسر تھے لیکن ادبی ذوق کے حامل تھے۔ ان کے گھر کا ماحول ادبی تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے گھر میں مذہبی اقدار کا بڑا خیال رکھا جاتا تھا۔ جب کمال احمد رضوی نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو انہوں نے اپنے گھر میں کتابوں کا ایک بڑا خزانہ پایا۔ وہ بڑے حساس شخص تھے اور ان کی والدہ کی وفات کے بعد وہ اور بھی حساس ہو گئے۔ جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے تو انہوں نے اْردو کے کلاسیکی ادب کا مطالعہ شروع کیا۔ وہ کہا کرتے تھے میں ڈرامہ پڑھا کرتا تھا اور اس کے مکالمے اتنے جاندار ہوتے تھے کہ میں اکثر اوقات وہ مکالمے بولا کرتا تھا۔ کمال رضوی نے اپنے والد کی وجہ سے تھیڑ میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ان کے والد اگرچہ ایک مذہبی آدمی تھے لیکن سٹیج ڈرامہ بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ وہ اپنے بیٹے کمال احمد رضوی کو بھی ساتھ لے جاتے۔سکول کے دنوں میں کمال احمد رضوی نے شائی لاک کا کردار ادا کیا۔ اسے ولیم شیکسپیئر نے اپنے پسندیدہ ڈرامے ''وینس کا تاجر‘‘ میں شامل کیا تھا۔12سال کی عمر میں انہوں نے ایک مختصر کہانی لکھی اور اسے شائع کرایا۔ کمال احمد رضوی نے پٹنہ یونیورسٹی سے نفسیات میں گریجویشن کی اور پھر1951ء میں کراچی آ گئے۔ اس وقت ان کی عمر 21برس تھی۔ پھر وہ کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر کراچی سے لاہور آ گئے۔ لاہور میں انہوں نے محسوس کیا کہ یہ شہر ان کے فنکارانہ مزاج کیلئے بہت موزوں ہے۔انہوں نے لکشمی مینشن میں رہائش اختیار کرلی اور اس طرح وہ سعادت حسن منٹو کے ہمسائے بن گئے۔ انہوں نے یہاں پر اپنے تھیڑ کے کریئر کا آغاز کیا اور ان کا پہلا ڈرامہ منٹو کے افسانہ ''بادشاہت کا خاتمہ‘‘ سے ماخوذ تھا۔ اس کے بعد کمال احمد رضوی نے مْڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے مشہور ناولوں کے بڑے شاندارتراجم کئے۔ انہوں نے لیوٹالسٹائی، دوستو وسکی، ٹرگنو،چیخوف اور کئی دوسرے نامور ادیبوں کے ناولز اور کہانیوں کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ 1964ء میں انہوں نے کئی جرائد کی ادارت کے فرائض سرانجام دیئے۔ ان میں ''تہذیب‘‘، ''آئینہ‘‘، ''پھلواری‘‘، ''شمع‘‘ اور ''بچوں کی دنیا‘‘ شامل ہیں۔ کمال احمد رضوی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے جنوبی ایشیا کے مشہور ڈرامہ نویسوں کے ڈراموں کا انتخاب کیا جنہیں نیشنل بک فائونڈیشن نے شائع کیا۔ اس کتاب کا عنوان تھا ''منتخب ڈرامے‘‘۔ ان ڈراموں کے دوسرے والیم میں کمال احمد رضوی نے طویل دورانیے کے ڈرامے شامل کئے جن میں خوبصورت انداز بیاں اور حقیقت نگاری نمایاں تھی۔ انہوں نے مجموعی طور پر 150کتابوں کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے بچوں کیلئے پانچ شاندار ڈرامے تخلیق کئے جن کے نام تھے ''جادو کی بوتل‘‘، ''خوبصورت شہزادی‘‘، ''سمندر میں نمک‘‘، ''ہوشیار بلی‘‘ اور ''ذہن کی تلاش میں‘‘۔ انہوں نے بچوں کیلئے چار ناول بھی تحریر کئے جن کے نام تھے ''پانی کا درخت‘‘، ''ایک گھر‘‘ اور'' دو دیواریں‘‘ شامل ہیں۔کمال احمد رضوی نے 1951ء میں ریڈیو پاکستان کیلئے ڈرامے لکھنا شروع کئے۔ ان کے پہلے ریڈیو ڈرامے کا عنوان تھا ''جب آنکھ کھلی‘‘۔ انہوں نے جن ڈراموں کے تراجم کئے ان میں ''بھوت‘‘،'' برف کا طوفان‘‘، ''کفارہ‘‘، ''نفع اور نقصان‘‘،'' طوفانی بارش‘‘ اور '' وحشی بطخ‘‘ شامل ہیں۔ ان کے کئی ریڈیو ڈراموں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے سٹیج ڈرامہ نویس، ہدایتکار اور اداکار کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔جب وہ انتظار حسین کی کہانی ''خوابوں کے مسافر‘‘ کو سٹیج ڈرامے میں ڈھالنے کیلئے کام کر رہے تھے تو اس وقت کے سرکاری ٹی وی کے جنرل مینجر بھی اس سٹیج ڈرامے کو دیکھنے آئے۔ کمال احمد رضوی کے کام کو دیکھ کر انہوں نے ان سے کہا کہ آپ ٹی وی کیلئے لکھیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی ٹی وی دیکھا ہی نہیں، وہ کیسے ٹی وی کیلئے لکھ سکتے ہیں۔ اس پر اسلم اظہر نے ہنستے ہوئے کہا '' آپ کو لکھنے کی ضرورت ہی نہیں، آپ جس انداز سے بولتے ہیں وہی ٹی وی ہے‘‘۔ اس طرح کمال احمد رضوی ٹی وی سے وابستہ ہو گئے۔ ''الف نون‘‘سرکاری ٹی وی کی مقبول ترین سیریل تھی جو کئی بار ٹیلی کاسٹ کی گئی اور ہر دفعہ اس سیریل نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ 1965ء میں پہلی بار ''الف نون‘‘ پیش کیا گیا۔ اس وقت بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کا دور تھا اور ریکارڈنگ بھی لائیو ہوتی تھی۔ ان مشکل حالات میں کمال احمدرضوی اور رفیع خاور ننھا نے لاجواب کام کیا۔ ''الف نون‘‘ میں صرف دو کردار تھے۔ اس سیریل کے ذریعے عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ سماجی برائیوں کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ ان کا نظریہ تھا کہ منافقت ، دھوکہ دہی اور فراڈ نے عام آدمی کو حقیقت سے دور رکھا ہے۔ ''الف نون‘‘ کے مزاح کی بنیاد عام لوگوں کے ان تجربات پر رکھی جاتی تھی جن کا سامنا انہیں روزانہ ہوتا تھا۔کمال احمد رضوی کی سعادت حسن منٹو سے دوستی تھی اور وہ ان سے بہت متاثر تھے۔ روسی اور فرانسیسی ادب نے ان کے ذہن پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے تھے۔ اس میں کیا شک ہے کہ وہ ایک کثیر الجہات شخصیت تھے۔ انہوں نے اتنا زیادہ کام کیا جو نہ صرف حیران کن ہے بلکہ ناقابل یقین ہے۔1989ء میں انہیں تمغۂ حسنِ کارکردگی دیا گیا۔17دسمبر 2015ء کو یہ نابغۂ روزگار 85 برس کی عمر میں اس عالم ناپائیدار سے رخصت ہو گیا۔ 

گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ!

گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ!

یہ دنیا اس قدر وسیع وعریض ہے کہ اس کے کسی نہ کسی کونے میں ہر لمحہ کچھ نہ کچھ نیا یا منفرد عمل ہو رہا ہوتا ہے۔ گئے زمانوں میں بھی یقینا ایسا ہی ہوتا ہو گالیکن فرق صرف اتنا تھا کہ تب لوگوں کی سوچ اور انسانی سرگرمیاں محدود تھیں، انہیں نہ تو ماضی سے دلچسپی تھی اور نہ ہی وہ مستقبل کے بارے سوچا کرتے تھے۔ اس کی وجہ شاید ذرائع ابلاغ کا عدم وجود تھا۔ رفتہ رفتہ ذرائع ابلاغ کی بنیاد پڑی تو انسانی سوچ میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی چلی گئیں۔ تاریخ دان کہتے ہیں انسانی سوچ کی پہلی بڑی تبدیلی '' مقابلہ‘‘ تھا۔ یہیں سے انسان نے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی عادت کو اپنایا تو اس کی زندگی کے معمولات اور معیار زندگی میں مثبت تبدیلیاں بھی آنا شروع ہوئیں۔ شاید مقابلے بازی سے ہی انسان نے کھیل تماشوں کو بھی رواج دیا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا پس منظر سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے سر ہیو بیور اکثر شہر کے کسی بھی کونے میں ہونے والی سوشل تقریبات میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ یہ 10 نومبر 1951ء کا ایک دن تھا جب ہیو بیور شوٹنگ کے سالانہ مقابلوں کی ایک تقریب میں آئرلینڈ کی ایک کاونٹی وکیسفورڈمیں اپنے ایک میزبان کے ہمراہ جا پہنچے ۔ اس دوران ایک شکاری کا نشانہ گولڈن پلوور نامی ایک پرندے کے قریب سے بنا چھوئے گزر گیا۔ تو ہیو بیور اور ساتھ بیٹھے شائقین میں یہ بحث چھڑ گئی کہ یورپ کا کونسا شکاری پرندہ سب سے تیز رفتار ہے۔ گولڈن پلوور یا ریڈ گروس؟۔ یہ بحث کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکی کیونکہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ گزشتہ سال انہی مقابلوں میں ریڈ گروس تیز رفتاری کا اعزاز حاصل کرنے والا پرندہ تھا جبکہ بیشتر شائقین کا خیال تھا کہ گزشتہ سال ان دونوں پرندوں کے علاوہ کوئی تیسرا پرندہ تیز رفتار شکاری پرندہ قرار پایا تھا۔یہ بحث کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے ہی دم تو توڑ گئی لیکن اس نے ہیو بیور کو ساری رات بے چین کئے رکھا۔ اس سے پہلے دنیا میں ایسی کسی کتاب کا تصور ہی نہیں تھا جس میں زندگی میں پیش آئے ایسے واقعات کی تفصیل یا ان کا ریکارڈ رکھنے کا رواج ہو۔ اگلے ہی روز ہیو بیور نے ایک ایسے کتابچے کو عملی جامہ پہنانے کی شروعات کر ڈالی جو ابتدائی طور پر سوال جواب پرمشتمل تھا ۔ اگست 1954ء میں ہیو بیور نے بیئر شراب بنانے والی ایک کمپنی گنیز کے ایک ملازم کرسٹو فر سے رابطہ کیا جس نے ہیو بیور کی ملاقات دو سپورٹس جرنلسٹ بھائیوں نورس اور راس سے کرائی جو اس کے کالج فیلو تھے اور لندن میں پبلشنگ کا کام بھی کرتے تھے۔ نورس اور راس نے بیور کی پہلی کتاب کی اشاعت کی حامی بھری۔ یہ اشاعت شروع میں ''گنیز سوپر لیٹو‘‘ کمپنی کی طرف سے شائع ہوئی جبکہ بعد میں اس کمپنی کا نام ''گییز ورلڈ ریکارڈ لمیٹڈ ‘‘ میں بدل دیا گیا تھا۔ پہلی اشاعت ایک ہزار کاپیوں پر مشتمل تھی جسے آئر لینڈ اور انگلینڈ میں مفت تقسیم کیا گیا۔ اس کتابچے کو '' گنیزکمپنی ‘‘کی مالی معاونت حاصل تھی۔ اس کے بعد 27 اگست 1955ء کو 197صفحات پر مشتمل اس کا پہلا باقاعدہ ایڈیشن شائع ہوا جو انگلینڈ میں اس سال کی فروخت کی فہرست میں سب سے آگے تھا۔ اس سے اگلے سال امریکہ میں بھی اس کی اشاعت کا آغاز ہوا اور پہلے ہی سال اس کی 70ہزارکاپیاں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئیں۔ جس کے بعداس ادارے کو مزید کتابوں کی اشاعت کرنا پڑی۔1955ء کے بعد اس کتاب کی سالانہ اشاعت35 سے زائد زبانوں میں باقاعدگی سے ہوتی آرہی ہے۔''گنیز ورلڈ ریکارڈ لمیٹڈ ‘‘کے تحت ''گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ ‘‘ سالانہ چھپنے والی ایک ایسی کتاب ہے جس میں انسانی اچھوتے کارناموں اور فطری واقعات کے ریکارڈ درج ہیں۔دنیا میں اپنی نوعیت کی سب سے زیادہ چھپنے والی یہ کتاب بذات خود ایک ریکارڈ ہے جس کا سال بھر دنیا کے ہر خطے میں انتظار رہتا ہے۔ اس کتاب کی اب سے چند سال پہلے تک 12کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت کی جا چکی تھیں ، جو بذات خود ایک اور ریکارڈ ہے۔اس کتاب کا ہر سال نیا ایڈیشن جاری ہوتا ہے جس میں گزشتہ سال میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بننے والے نئے ریکارڈ درج ہوجاتے ہیں۔ یہ ریکارڈ مختلف حقائق پر مبنی ہوتے ہیں جو بہت سارے امور ، اجناس اور انسانی مد مقابلین کا احاطہ کرتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں نئے ریکارڈ بھی شامل ہوتے رہتے ہیں۔کسی بھی ریکارڈ کو توڑنے یا نئے ریکارڈ کو درج کروانے کے لئے سال کے کسی بھی حصے میں تحریری درخواست جمع کرائی جا سکتی ہے۔2024ایڈیشن میں شامل پاکستانی ٭... صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ کے ایک منگی خاندان کے میاں ، بیوی اور ساتوںبچے ایک ہی دن پیدا ہوئے ہیں۔ان تمام افراد کا یوم پیدائش یکم اگست ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ ٭...پاکستانی کو پیما شہروز کاشف گنیز ورلڈ ریکارڈ میں دوسری مرتبہ جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔20 سالہ کاشف کودنیا کی پانچ بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والے سب سے کم عمر کوہ پیما کے طور پرگنیز بک میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک سال پہلے بھی وہ کے ٹو اور ماونٹ ایورسٹ سر کرنے والے دنیا کے کم عمر ترین کوہ پیما کا اعزاز بھی اپنے نام کر چکے ہیں۔ ٭...پاکستانی کوہ پیما فضل علی کا نام بھی گنیز ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہواہے، جنہوں نے 2014ء ، 2017ء اور 2018ء میں کے ٹو کو تین مرتبہ بغیر آکسیجن سر کیا تھا۔٭...پاکستانی گلوکارہ عروج فاطمہ کا نام بھی نئے ایڈیشن میں درج ہے، جنہوں نے میوزک کا سب سے بڑا ''گریمی ایوارڈ ‘‘اپنے نام کیا ۔انہیں یہ ایوارڈ ان کے گانے '' محبت ‘‘ پر ملا تھا۔٭... صوبہ خیبر پختونخواہ کے عرفان محسود اور ان کے بیٹے سفیان محسود نے سب سے کم وقت میں کسی شخص کے گرد چڑھنے ( کلائمب اراؤنڈ ) کا نیا ریکارڈ بنا یاہے۔ 7.87 سیکنڈ میں دونوں باپ بیٹا نے اس اعزاز کا مظاہرہ 19جون 2024ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں کیا تھا۔دلچسپ اور عجیب و غریب بین الاقوامی ریکارڈز٭...دبئی میں رئیل سٹیٹ کے ایک بڑے گروپ '' وصل‘‘ کے تعمیر کردہ ایک رہائشی ٹاور کی 43 ویں منزل پر قائم '' سکائی ٹریک‘‘ ۔سطح زمین سے 157 میٹر کی بلندی پر واقع یہ ٹریک 365 میٹر طویل ہے اوریہ اس وقت بلندی پر دنیا کا سب سے منفرد ٹاور ہے جو گنیز ورلڈ ریکارڈ کے ایڈیشن 2024ء میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ ٭...سعودی عرب کے عسیرریجن میں قائم وادیٔ حشبل کے فارم ہاؤس کو دنیا کے سب سے بڑے فارم ہاوس کا اعزاز دیا گیا ہے۔اس کا مجموعی رقبہ 32 لاکھ مربع میٹر سے زیادہ ہے۔ اس فارم ہاوس میں مختلف اقسام کے 14ہزار سے زائد درخت ہیں۔ ٭...امریکی ریاست وسکونسن کے 70سالہ ایک شہری ڈونلڈ گورسکی کو لگاتار 50 سال سے روزانہ برگر کھانے کا گنیز ورلڈ ریکارڈ کا اعزاز دیا گیا ہے۔ گورسکی 17 مئی 1972ء سے بلاناغہ روزانہ کم از کم ایک برگر کھا رہے ہیں۔گنیز ورلڈ ریکارڈ حکام کے مطابق پہلی بار 1999ء میں انہوں نے 15490 برگر کھانے کا سنگ میل عبور کیا تھا۔ پھر 2018 میں 30 ہزار برگر کھانے کا سنگ میل عبور کیا ، اس کے بعد 2021ء میں 32 ہزار برگر ،جنوری 2023ء تک 33 ہزار 400 برگر کھا کر باقاعدہ طور پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام شامل کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ٭...ہاتھ کی انگلیوں کے طویل ترین ناخن رکھنے والی 45 سالانہ خاتون کریسٹائن والٹن کا تعلق لاس ویگاس سے ہے۔ان کے دائیں ہاتھ کی انگلی کے ناخن 9 فٹ 7 انچ جبکہ بائیں ہاتھ کی انگلی کے ناخن کا سائز 10 فٹ 2انچ ہے۔ کریسٹائن نے گنیز ورلڈ کا یہ اعزاز 2012ء میں حاصل کیا تھا۔   

آج کا دن

آج کا دن

رائٹ برادرز کے جہاز کی پہلی اڑان 17 دسمبر 1903ء کو رائٹ برادرز نے امریکہ کی ریاست شمالی کیرولینا میں پہلا موٹر والا جہاز اڑایا۔ طیارے نے 12 سیکنڈ کی پرواز میں 37 میٹر کی مسافت طے کی۔اسی روز کئے جانے والے آخری تجربے میں طیارہ 59 سیکنڈ تک فضاء میں رہا اور 280 میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ رائٹ برادران نے اس دن رائٹ فلائر کو چار مرتبہ زمین پر اتارا۔ اب یہ جہاز واشنگٹن کے نیشنل میوزیم میں رکھا ہواہے۔نیو یارک کی بدترین آتشزدگی17 دسمبر1835ء کو نیویارک میں لگنے والی آگ کو تاریخ کی بدترین آتشزدگیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ آگ کی وجہ سے نیویارک کے 17 بلاک اور سیکڑوں عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ نقصان کا تخمینہ اس وقت20ملین ڈالر لگایاگیا جو موجودہ دور میں تقریباً550ملین ڈالر کے برابر ہے۔ 1835 ء میں بھی نیویارک امریکہ کا ایک بڑا شہر تھا اور اس کی مالی طاقت فلاڈیلفیا یا بوسٹن سے زیادہ تھی۔ آتشزدگی کی ابتدا ایک وئیر ہاؤس سے ہوئی، یہ اس قدر شدید تھی کہ اسے نیویارک سے 80میل دور فیلاڈیلفیا سے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ تیونس کا انقلابطارق الطیب محمد بوعزیزی، جس نے 17دسمبر 2010ء کو تیونس میں خودکو آگ لگا لی تھی، تیونس کے انقلاب اور عرب سپرنگ کی وجہ ثابت ہوا۔ میونسپل اہلکاروں کی جانب سے دکان کا سامان ضبط کرنے اورحکام کی ہریسمنٹ سے تنگ آکر اس نے خود سوزی کی۔ بوعزیزی کی موت کے بعد شدید عوامی ردعمل سامنے آیا۔حکومت اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شدت اختیار کرتی گئیں۔ جس کے نتیجے میں تیونس کے صدر زین العابدین 23سال اقتدار میں رہنے کے بعد 14جنوری 2011ء کو اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے۔دی گرین سرکس کا سانحہدی گرین سرکس نورٹی کا آغاز 15دسمبر 1961ء کو ہوا۔ اس سرکس میں تقریباً60 اداکار ، 20 ملازمین اور150جانور شامل تھے۔ اس سرکس کو لاطینی امریکہ کی سب سے بڑی سرکس تصور کیا جاتا تھا۔ سرکس کیلئے چھ ٹن وزنی نائلون کا ٹینٹ خریدا گیا تھا۔ 17دسمبر1961ء کو سرکس میں اچانک آگ بھڑک اٹھی،جس وقت آگ لگی اس وقت ٹینٹ میں تقریباً 3 ہزار افراد موجود تھے۔ ایک سکاؤٹ نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹینٹ کو چاقو سے چاک کیا تاکہ لوگ باہر نکل سکیں،پانچ منٹ کے اندر اندر آگ نے سرکس کو مکمل طورپر اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس حادثے میں تقریباً500افراد ہلاک ہوئے جن میں70فیصد بچے تھے۔ مولاناجلال الدین رومی کا وصالمولاناجلال الدین رومی کی شخصیت اور ان کا کلام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔اپنے دور کے عظیم مفّکر، شاعر اور صوفی نے17 دسمبر 1273ء کو قونیہ میں وفات پا ئی۔26ہزار 666 اشعار پر مبنی ان کی مشہورِ زمانہ ''مثنوی‘‘ تصوف اور عشقِ الٰہی جملہ موضوعات کو انتہائی سادگی روحانی اور عام فہم انداز میں بیان کرتی ہے۔ آپ کی ساری زندگی سفر میں گزری۔زندگی کے آخری چند سال ترکی کے مشہور شہر قونیہ میں گزارے، وہیں مدفن ہیں۔ 

15دسمبر :چائے کا عالمی دن

15دسمبر :چائے کا عالمی دن

ہر سال 15 دسمبر کو عالمی سطح پر چائے کا دن منایا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے ممالک کی توجہ چائے اگانے والے اور چائے کے کھیتوں میں کام کرنے والے کارکنان پر چائے کی تجارت سے ہونے والے اثرات پر مرکوز کرنا ہے۔ یہ دن زیادہ تر چائے کی پیداوار کرنے والے ممالک مثلاً بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، ویتنام، انڈونیشیا، کینیا، مالاوی، ملائیشیا، یوگنڈا، انڈیا اور تنزانیہ میں منایا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ زمانۂ قبل مسیح کا ایک چینی بادشاہ شین ننگ ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا کہ اس کا ملازم اس کیلئے پینے کا پانی گرم کر کے لایا اور اچانک اس درخت سے کچھ پتّیاں اس کھولتے ہوئے پانی میں گریں اور پانی کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ بادشاہ جو ماہرِنباتات بھی تھا بہت حیران ہوا۔ اس نے وہ پانی پیا تو اسے فرحت اور تازگی محسوس ہوئی اور اس کے منہ سے ''چھا‘‘نکلا غالباًوہ حیران ہو گیا تھا کہ یہ کیا ہے؟ اور اس نے اس درخت کا نام ہی ''چھا‘‘ رکھ دیا جو بگڑ کر چاء ہو گیا اور اب چائے کہلاتا ہے۔ چائے اور اس کی انگریزی ''ٹی‘‘ (Tea) دونوں چینی زبان کے الفاظ ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چاء فارسی زبان کا لفظ ہے۔ پاکستان میں چائے کا استعمال جہاں اسے چائے کہا جاتا ہے، یہ نام اردو میں ہے۔ برِصغیر میں چائے کا استعمال ایک دوائی کے طور پر کیا جاتا تھا۔ پانی میں چائے کی پتیاں ابال کر قہوہ بنا کر اسے پیا جاتا تھا۔ یہ چائے کے پودے کی پتیوں کو چند منٹ گرم پانی میں ابالنے سے تیار ہوتی ہے۔ پھر اس میں ضرورت اور خواہش کے مطابق چینی اور دودھ ملاتے گئے۔ چائے میں کیفین کی موجودگی پینے والے کو تروتازہ کر دیتی ہے۔ چائے کے پودے کا اصل وطن مشرقی چین، جنوب مشرقی چین ، میانمار اور آسام ہیں۔ پاکستانی ثقافت میں اسے مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مشرق سے ہر قسم کی اجناس کی تجارت کی ذمہ دار تھی۔ اسے چائے کی پتی مہنگے داموں چین سے خریدنا پڑتی تھی اور وہاں سے لمبے سمندری راستے سے دنیا کے باقی حصوں کی ترسیل چائے کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز شدت سے چاہتے تھے کہ خود اپنی نو آبادی ہندوستان میں چائے اگانا شروع کر دیں۔ اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ چائے کا پودا کیسے اگتا ہے اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے، سرتوڑ کوششوں کے باوجود اس راز سے پردہ نہ اٹھ سکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب کمپنی نے رابرٹ فارچیون کو اس پرخطر جاسوسی مہم پر بھیجا تھا۔ اس مقصد کیلے اسے چین کے ان علاقوں تک جانا تھا جہاں شاید مارکوپولو کے بعد کسی یورپی نے قدم نہیں رکھا تھا۔ اسے معلوم ہوا تھا کہ فوجیان صوبے کے پہاڑوں میں سب سے عمدہ کالی چائے اگتی ہے۔ اس لیے اس نے اپنے گائیڈ کو وہیں کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ سر منڈوانے، بالوں میں نقلی مینڈھی گوندھنے اور چینی تاجروں جیسا روپ دھارنے کے علاوہ فارچیون نے اپنا ایک چینی نام بھی رکھ لیا، سِنگ ہُوا یعنی شوخ پھول۔ فارچیون تربیت یافتہ ماہرِ نباتیات تھا۔ اور اس کے تجربے نے اسے بتا دیا تھا کہ چند پودوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ پودے اور ان کے بیج بڑے پیمانے پر سمگل کر کے ہندوستان لانا پڑیں گے۔ یہی نہیں بلکہ اسے چینی مزدوروں کی بھی ضرورت تھی تاکہ وہ ہندوستان میں چائے کی صنعتی بنیادوں پر کاشت اور پیداوار میں مدد دے سکیں۔ فارچیون کی محنت رنگ لائی اور بالآخر وہ حکام سے آنکھ بچا کر چائے کے پودے، بیج اور چند مزدور بھی ہندوستان سمگل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی نگرانی میں آسام کے علاقے میں یہ پودے اگانا شروع کر دیے۔چین سے سمگل شدہ چائے کی پیداوار اور پتی کی تیاری کی ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ کارکن بے حد کارآمد ثابت ہوئے۔ جب ان طریقوں کے مطابق پتی تیار کی گئی تو تجربات کے دوران لوگوں نے اسے خاصا پسند کرنا شروع کر دیا۔ چینی تو ہزاروں برس سے کھولتے پانی میں پتی ڈال کر پیا کرتے تھے مگر انگریزوں نے اس مشروب میں پہلے چینی اور بعد میں دودھ ڈالنا شروع کر دیا۔پاکستان میں چائے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مشروب ہے۔ پاکستان میں چائے کی پیداوار نہیں ہے لیکن یہ دنیا میں چائے کا تیسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک ہے۔ بلا شبہ چائے پینے کا بھی اپنا ایک مزہ ہے۔کہتے ہیں کہ عام لوگ چائے نوش کرتے ہیں۔ مگر چائے کا راز جس کے روبرو کھل چکا ہے وہ چائے نوش نہیں کرتا بلکہ محسوس کرتا ہے۔ چائے کے کپ کو ہونٹوں سے پی کر معدے کی زینت بنانے والے لوگ اور ہوتے ہیں اور چائے کے کپ کو جذبات کے ہاتھ سے تھام کر ہونٹوں سے لگا کر چسکیاں لے لے کر روح میں اتارنے والے اور ہوتے ہیں۔ چائے پہ شاعریسگرٹیں چائے دھواں رات گئے تک بحثیںاور کوئی پھول سا آنچل کہیں نم ہوتا ہے(والی آسی)چائے کی پیالی میں تصویر وہی ہے کہ جو تھییوں چلے جانے سے مہمان کہاں جاتا ہے(شاہین عباس)تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھیدل کا رنج تو دل میں رہا تھا(ناصر کاظمی)سویرے اْٹھ کے میں پہلے تو چائے لیتا ہوںپھر اْس کے بعد پرندوں سے رائے لیتا ہوں(شہزادقیس)عشق بھی رنگ بدل لیتا ہے جانِ جاناںٹھنڈی ہو جائے تو پڑ جاتی ہے کالی چائۓ٭٭٭