گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ!
یہ دنیا اس قدر وسیع وعریض ہے کہ اس کے کسی نہ کسی کونے میں ہر لمحہ کچھ نہ کچھ نیا یا منفرد عمل ہو رہا ہوتا ہے۔ گئے زمانوں میں بھی یقینا ایسا ہی ہوتا ہو گالیکن فرق صرف اتنا تھا کہ تب لوگوں کی سوچ اور انسانی سرگرمیاں محدود تھیں، انہیں نہ تو ماضی سے دلچسپی تھی اور نہ ہی وہ مستقبل کے بارے سوچا کرتے تھے۔ اس کی وجہ شاید ذرائع ابلاغ کا عدم وجود تھا۔ رفتہ رفتہ ذرائع ابلاغ کی بنیاد پڑی تو انسانی سوچ میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی چلی گئیں۔ تاریخ دان کہتے ہیں انسانی سوچ کی پہلی بڑی تبدیلی '' مقابلہ‘‘ تھا۔ یہیں سے انسان نے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی عادت کو اپنایا تو اس کی زندگی کے معمولات اور معیار زندگی میں مثبت تبدیلیاں بھی آنا شروع ہوئیں۔ شاید مقابلے بازی سے ہی انسان نے کھیل تماشوں کو بھی رواج دیا۔
گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا پس منظر
سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے سر ہیو بیور اکثر شہر کے کسی بھی کونے میں ہونے والی سوشل تقریبات میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ یہ 10 نومبر 1951ء کا ایک دن تھا جب ہیو بیور شوٹنگ کے سالانہ مقابلوں کی ایک تقریب میں آئرلینڈ کی ایک کاونٹی وکیسفورڈمیں اپنے ایک میزبان کے ہمراہ جا پہنچے ۔ اس دوران ایک شکاری کا نشانہ گولڈن پلوور نامی ایک پرندے کے قریب سے بنا چھوئے گزر گیا۔ تو ہیو بیور اور ساتھ بیٹھے شائقین میں یہ بحث چھڑ گئی کہ یورپ کا کونسا شکاری پرندہ سب سے تیز رفتار ہے۔ گولڈن پلوور یا ریڈ گروس؟۔ یہ بحث کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکی کیونکہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ گزشتہ سال انہی مقابلوں میں ریڈ گروس تیز رفتاری کا اعزاز حاصل کرنے والا پرندہ تھا جبکہ بیشتر شائقین کا خیال تھا کہ گزشتہ سال ان دونوں پرندوں کے علاوہ کوئی تیسرا پرندہ تیز رفتار شکاری پرندہ قرار پایا تھا۔یہ بحث کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے ہی دم تو توڑ گئی لیکن اس نے ہیو بیور کو ساری رات بے چین کئے رکھا۔
اس سے پہلے دنیا میں ایسی کسی کتاب کا تصور ہی نہیں تھا جس میں زندگی میں پیش آئے ایسے واقعات کی تفصیل یا ان کا ریکارڈ رکھنے کا رواج ہو۔ اگلے ہی روز ہیو بیور نے ایک ایسے کتابچے کو عملی جامہ پہنانے کی شروعات کر ڈالی جو ابتدائی طور پر سوال جواب پرمشتمل تھا ۔ اگست 1954ء میں ہیو بیور نے بیئر شراب بنانے والی ایک کمپنی گنیز کے ایک ملازم کرسٹو فر سے رابطہ کیا جس نے ہیو بیور کی ملاقات دو سپورٹس جرنلسٹ بھائیوں نورس اور راس سے کرائی جو اس کے کالج فیلو تھے اور لندن میں پبلشنگ کا کام بھی کرتے تھے۔ نورس اور راس نے بیور کی پہلی کتاب کی اشاعت کی حامی بھری۔ یہ اشاعت شروع میں ''گنیز سوپر لیٹو‘‘ کمپنی کی طرف سے شائع ہوئی جبکہ بعد میں اس کمپنی کا نام ''گییز ورلڈ ریکارڈ لمیٹڈ ‘‘ میں بدل دیا گیا تھا۔
پہلی اشاعت ایک ہزار کاپیوں پر مشتمل تھی جسے آئر لینڈ اور انگلینڈ میں مفت تقسیم کیا گیا۔ اس کتابچے کو '' گنیزکمپنی ‘‘کی مالی معاونت حاصل تھی۔ اس کے بعد 27 اگست 1955ء کو 197صفحات پر مشتمل اس کا پہلا باقاعدہ ایڈیشن شائع ہوا جو انگلینڈ میں اس سال کی فروخت کی فہرست میں سب سے آگے تھا۔ اس سے اگلے سال امریکہ میں بھی اس کی اشاعت کا آغاز ہوا اور پہلے ہی سال اس کی 70ہزارکاپیاں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئیں۔ جس کے بعداس ادارے کو مزید کتابوں کی اشاعت کرنا پڑی۔1955ء کے بعد اس کتاب کی سالانہ اشاعت35 سے زائد زبانوں میں باقاعدگی سے ہوتی آرہی ہے۔
''گنیز ورلڈ ریکارڈ لمیٹڈ ‘‘کے تحت ''گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ ‘‘ سالانہ چھپنے والی ایک ایسی کتاب ہے جس میں انسانی اچھوتے کارناموں اور فطری واقعات کے ریکارڈ درج ہیں۔دنیا میں اپنی نوعیت کی سب سے زیادہ چھپنے والی یہ کتاب بذات خود ایک ریکارڈ ہے جس کا سال بھر دنیا کے ہر خطے میں انتظار رہتا ہے۔ اس کتاب کی اب سے چند سال پہلے تک 12کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت کی جا چکی تھیں ، جو بذات خود ایک اور ریکارڈ ہے۔
اس کتاب کا ہر سال نیا ایڈیشن جاری ہوتا ہے جس میں گزشتہ سال میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بننے والے نئے ریکارڈ درج ہوجاتے ہیں۔
یہ ریکارڈ مختلف حقائق پر مبنی ہوتے ہیں جو بہت سارے امور ، اجناس اور انسانی مد مقابلین کا احاطہ کرتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں نئے ریکارڈ بھی شامل ہوتے رہتے ہیں۔کسی بھی ریکارڈ کو توڑنے یا نئے ریکارڈ کو درج کروانے کے لئے سال کے کسی بھی حصے میں تحریری درخواست جمع کرائی جا سکتی ہے۔
2024ایڈیشن میں شامل پاکستانی
٭... صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ کے ایک منگی خاندان کے میاں ، بیوی اور ساتوںبچے ایک ہی دن پیدا ہوئے ہیں۔ان تمام افراد کا یوم پیدائش یکم اگست ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔
٭...پاکستانی کو پیما شہروز کاشف گنیز ورلڈ ریکارڈ میں دوسری مرتبہ جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔20 سالہ کاشف کودنیا کی پانچ بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والے سب سے کم عمر کوہ پیما کے طور پرگنیز بک میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک سال پہلے بھی وہ کے ٹو اور ماونٹ ایورسٹ سر کرنے والے دنیا کے کم عمر ترین کوہ پیما کا اعزاز بھی اپنے نام کر چکے ہیں۔
٭...پاکستانی کوہ پیما فضل علی کا نام بھی گنیز ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہواہے، جنہوں نے 2014ء ، 2017ء اور 2018ء میں کے ٹو کو تین مرتبہ بغیر آکسیجن سر کیا تھا۔
٭...پاکستانی گلوکارہ عروج فاطمہ کا نام بھی نئے ایڈیشن میں درج ہے، جنہوں نے میوزک کا سب سے بڑا ''گریمی ایوارڈ ‘‘اپنے نام کیا ۔انہیں یہ ایوارڈ ان کے گانے '' محبت ‘‘ پر ملا تھا۔
٭... صوبہ خیبر پختونخواہ کے عرفان محسود اور ان کے بیٹے سفیان محسود نے سب سے کم وقت میں کسی شخص کے گرد چڑھنے ( کلائمب اراؤنڈ ) کا نیا ریکارڈ بنا یاہے۔ 7.87 سیکنڈ میں دونوں باپ بیٹا نے اس اعزاز کا مظاہرہ 19جون 2024ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں کیا تھا۔
دلچسپ اور عجیب و غریب بین الاقوامی ریکارڈز
٭...دبئی میں رئیل سٹیٹ کے ایک بڑے گروپ '' وصل‘‘ کے تعمیر کردہ ایک رہائشی ٹاور کی 43 ویں منزل پر قائم '' سکائی ٹریک‘‘ ۔سطح زمین سے 157 میٹر کی بلندی پر واقع یہ ٹریک 365 میٹر طویل ہے اوریہ اس وقت بلندی پر دنیا کا سب سے منفرد ٹاور ہے جو گنیز ورلڈ ریکارڈ کے ایڈیشن 2024ء میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔
٭...سعودی عرب کے عسیرریجن میں قائم وادیٔ حشبل کے فارم ہاؤس کو دنیا کے سب سے بڑے فارم ہاوس کا اعزاز دیا گیا ہے۔اس کا مجموعی رقبہ 32 لاکھ مربع میٹر سے زیادہ ہے۔ اس فارم ہاوس میں مختلف اقسام کے 14ہزار سے زائد درخت ہیں۔
٭...امریکی ریاست وسکونسن کے 70سالہ ایک شہری ڈونلڈ گورسکی کو لگاتار 50 سال سے روزانہ برگر کھانے کا گنیز ورلڈ ریکارڈ کا اعزاز دیا گیا ہے۔ گورسکی 17 مئی 1972ء سے بلاناغہ روزانہ کم از کم ایک برگر کھا رہے ہیں۔گنیز ورلڈ ریکارڈ حکام کے مطابق پہلی بار 1999ء میں انہوں نے 15490 برگر کھانے کا سنگ میل عبور کیا تھا۔ پھر 2018 میں 30 ہزار برگر کھانے کا سنگ میل عبور کیا ، اس کے بعد 2021ء میں 32 ہزار برگر ،جنوری 2023ء تک 33 ہزار 400 برگر کھا کر باقاعدہ طور پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام شامل کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
٭...ہاتھ کی انگلیوں کے طویل ترین ناخن رکھنے والی 45 سالانہ خاتون کریسٹائن والٹن کا تعلق لاس ویگاس سے ہے۔ان کے دائیں ہاتھ کی انگلی کے ناخن 9 فٹ 7 انچ جبکہ بائیں ہاتھ کی انگلی کے ناخن کا سائز 10 فٹ 2انچ ہے۔ کریسٹائن نے گنیز ورلڈ کا یہ اعزاز 2012ء میں حاصل کیا تھا۔