15دسمبر :چائے کا عالمی دن
ہر سال 15 دسمبر کو عالمی سطح پر چائے کا دن منایا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے ممالک کی توجہ چائے اگانے والے اور چائے کے کھیتوں میں کام کرنے والے کارکنان پر چائے کی تجارت سے ہونے والے اثرات پر مرکوز کرنا ہے۔ یہ دن زیادہ تر چائے کی پیداوار کرنے والے ممالک مثلاً بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، ویتنام، انڈونیشیا، کینیا، مالاوی، ملائیشیا، یوگنڈا، انڈیا اور تنزانیہ میں منایا جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ زمانۂ قبل مسیح کا ایک چینی بادشاہ شین ننگ ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا کہ اس کا ملازم اس کیلئے پینے کا پانی گرم کر کے لایا اور اچانک اس درخت سے کچھ پتّیاں اس کھولتے ہوئے پانی میں گریں اور پانی کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ بادشاہ جو ماہرِنباتات بھی تھا بہت حیران ہوا۔ اس نے وہ پانی پیا تو اسے فرحت اور تازگی محسوس ہوئی اور اس کے منہ سے ''چھا‘‘نکلا غالباًوہ حیران ہو گیا تھا کہ یہ کیا ہے؟ اور اس نے اس درخت کا نام ہی ''چھا‘‘ رکھ دیا جو بگڑ کر چاء ہو گیا اور اب چائے کہلاتا ہے۔
چائے اور اس کی انگریزی ''ٹی‘‘ (Tea) دونوں چینی زبان کے الفاظ ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چاء فارسی زبان کا لفظ ہے۔ پاکستان میں چائے کا استعمال جہاں اسے چائے کہا جاتا ہے، یہ نام اردو میں ہے۔ برِصغیر میں چائے کا استعمال ایک دوائی کے طور پر کیا جاتا تھا۔ پانی میں چائے کی پتیاں ابال کر قہوہ بنا کر اسے پیا جاتا تھا۔ یہ چائے کے پودے کی پتیوں کو چند منٹ گرم پانی میں ابالنے سے تیار ہوتی ہے۔ پھر اس میں ضرورت اور خواہش کے مطابق چینی اور دودھ ملاتے گئے۔ چائے میں کیفین کی موجودگی پینے والے کو تروتازہ کر دیتی ہے۔ چائے کے پودے کا اصل وطن مشرقی چین، جنوب مشرقی چین ، میانمار اور آسام ہیں۔
پاکستانی ثقافت میں اسے مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مشرق سے ہر قسم کی اجناس کی تجارت کی ذمہ دار تھی۔ اسے چائے کی پتی مہنگے داموں چین سے خریدنا پڑتی تھی اور وہاں سے لمبے سمندری راستے سے دنیا کے باقی حصوں کی ترسیل چائے کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز شدت سے چاہتے تھے کہ خود اپنی نو آبادی ہندوستان میں چائے اگانا شروع کر دیں۔ اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ چائے کا پودا کیسے اگتا ہے اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے، سرتوڑ کوششوں کے باوجود اس راز سے پردہ نہ اٹھ سکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب کمپنی نے رابرٹ فارچیون کو اس پرخطر جاسوسی مہم پر بھیجا تھا۔ اس مقصد کیلے اسے چین کے ان علاقوں تک جانا تھا جہاں شاید مارکوپولو کے بعد کسی یورپی نے قدم نہیں رکھا تھا۔ اسے معلوم ہوا تھا کہ فوجیان صوبے کے پہاڑوں میں سب سے عمدہ کالی چائے اگتی ہے۔ اس لیے اس نے اپنے گائیڈ کو وہیں کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ سر منڈوانے، بالوں میں نقلی مینڈھی گوندھنے اور چینی تاجروں جیسا روپ دھارنے کے علاوہ فارچیون نے اپنا ایک چینی نام بھی رکھ لیا، سِنگ ہُوا یعنی شوخ پھول۔
فارچیون تربیت یافتہ ماہرِ نباتیات تھا۔ اور اس کے تجربے نے اسے بتا دیا تھا کہ چند پودوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ پودے اور ان کے بیج بڑے پیمانے پر سمگل کر کے ہندوستان لانا پڑیں گے۔ یہی نہیں بلکہ اسے چینی مزدوروں کی بھی ضرورت تھی تاکہ وہ ہندوستان میں چائے کی صنعتی بنیادوں پر کاشت اور پیداوار میں مدد دے سکیں۔ فارچیون کی محنت رنگ لائی اور بالآخر وہ حکام سے آنکھ بچا کر چائے کے پودے، بیج اور چند مزدور بھی ہندوستان سمگل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی نگرانی میں آسام کے علاقے میں یہ پودے اگانا شروع کر دیے۔چین سے سمگل شدہ چائے کی پیداوار اور پتی کی تیاری کی ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ کارکن بے حد کارآمد ثابت ہوئے۔ جب ان طریقوں کے مطابق پتی تیار کی گئی تو تجربات کے دوران لوگوں نے اسے خاصا پسند کرنا شروع کر دیا۔ چینی تو ہزاروں برس سے کھولتے پانی میں پتی ڈال کر پیا کرتے تھے مگر انگریزوں نے اس مشروب میں پہلے چینی اور بعد میں دودھ ڈالنا شروع کر دیا۔
پاکستان میں چائے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مشروب ہے۔ پاکستان میں چائے کی پیداوار نہیں ہے لیکن یہ دنیا میں چائے کا تیسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک ہے۔ بلا شبہ چائے پینے کا بھی اپنا ایک مزہ ہے۔کہتے ہیں کہ عام لوگ چائے نوش کرتے ہیں۔ مگر چائے کا راز جس کے روبرو کھل چکا ہے وہ چائے نوش نہیں کرتا بلکہ محسوس کرتا ہے۔ چائے کے کپ کو ہونٹوں سے پی کر معدے کی زینت بنانے والے لوگ اور ہوتے ہیں اور چائے کے کپ کو جذبات کے ہاتھ سے تھام کر ہونٹوں سے لگا کر چسکیاں لے لے کر روح میں اتارنے والے اور ہوتے ہیں۔
چائے پہ شاعری
سگرٹیں چائے دھواں رات گئے تک بحثیں
اور کوئی پھول سا آنچل کہیں نم ہوتا ہے
(والی آسی)
چائے کی پیالی میں تصویر وہی ہے کہ جو تھی
یوں چلے جانے سے مہمان کہاں جاتا ہے
(شاہین عباس)
تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا
(ناصر کاظمی)
سویرے اْٹھ کے میں پہلے تو چائے لیتا ہوں
پھر اْس کے بعد پرندوں سے رائے لیتا ہوں
(شہزادقیس)
عشق بھی رنگ بدل لیتا ہے جانِ جاناں
ٹھنڈی ہو جائے تو پڑ جاتی ہے کالی چائے
ٔ٭٭٭