یادرفتگاں: کمال احمد رضوی ایک عہد ساز فنکار
کمال احمد رضوی کو ایک عہد ساز فنکار کہا جائے تو بے جا نے اداکاری اور ڈرامہ نویسی کے نئے رحجانات متعارف کرائے۔ کمال احمد رضوی یکم مئی 1930ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پولیس افسر تھے لیکن ادبی ذوق کے حامل تھے۔ ان کے گھر کا ماحول ادبی تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے گھر میں مذہبی اقدار کا بڑا خیال رکھا جاتا تھا۔ جب کمال احمد رضوی نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو انہوں نے اپنے گھر میں کتابوں کا ایک بڑا خزانہ پایا۔ وہ بڑے حساس شخص تھے اور ان کی والدہ کی وفات کے بعد وہ اور بھی حساس ہو گئے۔ جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے تو انہوں نے اْردو کے کلاسیکی ادب کا مطالعہ شروع کیا۔ وہ کہا کرتے تھے میں ڈرامہ پڑھا کرتا تھا اور اس کے مکالمے اتنے جاندار ہوتے تھے کہ میں اکثر اوقات وہ مکالمے بولا کرتا تھا۔
کمال رضوی نے اپنے والد کی وجہ سے تھیڑ میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ان کے والد اگرچہ ایک مذہبی آدمی تھے لیکن سٹیج ڈرامہ بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ وہ اپنے بیٹے کمال احمد رضوی کو بھی ساتھ لے جاتے۔سکول کے دنوں میں کمال احمد رضوی نے شائی لاک کا کردار ادا کیا۔ اسے ولیم شیکسپیئر نے اپنے پسندیدہ ڈرامے ''وینس کا تاجر‘‘ میں شامل کیا تھا۔12سال کی عمر میں انہوں نے ایک مختصر کہانی لکھی اور اسے شائع کرایا۔ کمال احمد رضوی نے پٹنہ یونیورسٹی سے نفسیات میں گریجویشن کی اور پھر1951ء میں کراچی آ گئے۔ اس وقت ان کی عمر 21برس تھی۔ پھر وہ کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر کراچی سے لاہور آ گئے۔ لاہور میں انہوں نے محسوس کیا کہ یہ شہر ان کے فنکارانہ مزاج کیلئے بہت موزوں ہے۔
انہوں نے لکشمی مینشن میں رہائش اختیار کرلی اور اس طرح وہ سعادت حسن منٹو کے ہمسائے بن گئے۔ انہوں نے یہاں پر اپنے تھیڑ کے کریئر کا آغاز کیا اور ان کا پہلا ڈرامہ منٹو کے افسانہ ''بادشاہت کا خاتمہ‘‘ سے ماخوذ تھا۔ اس کے بعد کمال احمد رضوی نے مْڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے مشہور ناولوں کے بڑے شاندارتراجم کئے۔ انہوں نے لیوٹالسٹائی، دوستو وسکی، ٹرگنو،چیخوف اور کئی دوسرے نامور ادیبوں کے ناولز اور کہانیوں کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ 1964ء میں انہوں نے کئی جرائد کی ادارت کے فرائض سرانجام دیئے۔ ان میں ''تہذیب‘‘، ''آئینہ‘‘، ''پھلواری‘‘، ''شمع‘‘ اور ''بچوں کی دنیا‘‘ شامل ہیں۔
کمال احمد رضوی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے جنوبی ایشیا کے مشہور ڈرامہ نویسوں کے ڈراموں کا انتخاب کیا جنہیں نیشنل بک فائونڈیشن نے شائع کیا۔ اس کتاب کا عنوان تھا ''منتخب ڈرامے‘‘۔ ان ڈراموں کے دوسرے والیم میں کمال احمد رضوی نے طویل دورانیے کے ڈرامے شامل کئے جن میں خوبصورت انداز بیاں اور حقیقت نگاری نمایاں تھی۔ انہوں نے مجموعی طور پر 150کتابوں کا اُردو میں ترجمہ کیا۔
انہوں نے بچوں کیلئے پانچ شاندار ڈرامے تخلیق کئے جن کے نام تھے ''جادو کی بوتل‘‘، ''خوبصورت شہزادی‘‘، ''سمندر میں نمک‘‘، ''ہوشیار بلی‘‘ اور ''ذہن کی تلاش میں‘‘۔ انہوں نے بچوں کیلئے چار ناول بھی تحریر کئے جن کے نام تھے ''پانی کا درخت‘‘، ''ایک گھر‘‘ اور'' دو دیواریں‘‘ شامل ہیں۔
کمال احمد رضوی نے 1951ء میں ریڈیو پاکستان کیلئے ڈرامے لکھنا شروع کئے۔ ان کے پہلے ریڈیو ڈرامے کا عنوان تھا ''جب آنکھ کھلی‘‘۔ انہوں نے جن ڈراموں کے تراجم کئے ان میں ''بھوت‘‘،'' برف کا طوفان‘‘، ''کفارہ‘‘، ''نفع اور نقصان‘‘،'' طوفانی بارش‘‘ اور '' وحشی بطخ‘‘ شامل ہیں۔ ان کے کئی ریڈیو ڈراموں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔
انہوں نے سٹیج ڈرامہ نویس، ہدایتکار اور اداکار کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔جب وہ انتظار حسین کی کہانی ''خوابوں کے مسافر‘‘ کو سٹیج ڈرامے میں ڈھالنے کیلئے کام کر رہے تھے تو اس وقت کے سرکاری ٹی وی کے جنرل مینجر بھی اس سٹیج ڈرامے کو دیکھنے آئے۔ کمال احمد رضوی کے کام کو دیکھ کر انہوں نے ان سے کہا کہ آپ ٹی وی کیلئے لکھیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی ٹی وی دیکھا ہی نہیں، وہ کیسے ٹی وی کیلئے لکھ سکتے ہیں۔ اس پر اسلم اظہر نے ہنستے ہوئے کہا '' آپ کو لکھنے کی ضرورت ہی نہیں، آپ جس انداز سے بولتے ہیں وہی ٹی وی ہے‘‘۔ اس طرح کمال احمد رضوی ٹی وی سے وابستہ ہو گئے۔
''الف نون‘‘سرکاری ٹی وی کی مقبول ترین سیریل تھی جو کئی بار ٹیلی کاسٹ کی گئی اور ہر دفعہ اس سیریل نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ 1965ء میں پہلی بار ''الف نون‘‘ پیش کیا گیا۔ اس وقت بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کا دور تھا اور ریکارڈنگ بھی لائیو ہوتی تھی۔ ان مشکل حالات میں کمال احمدرضوی اور رفیع خاور ننھا نے لاجواب کام کیا۔ ''الف نون‘‘ میں صرف دو کردار تھے۔ اس سیریل کے ذریعے عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ سماجی برائیوں کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ ان کا نظریہ تھا کہ منافقت ، دھوکہ دہی اور فراڈ نے عام آدمی کو حقیقت سے دور رکھا ہے۔ ''الف نون‘‘ کے مزاح کی بنیاد عام لوگوں کے ان تجربات پر رکھی جاتی تھی جن کا سامنا انہیں روزانہ ہوتا تھا۔
کمال احمد رضوی کی سعادت حسن منٹو سے دوستی تھی اور وہ ان سے بہت متاثر تھے۔ روسی اور فرانسیسی ادب نے ان کے ذہن پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے تھے۔ اس میں کیا شک ہے کہ وہ ایک کثیر الجہات شخصیت تھے۔ انہوں نے اتنا زیادہ کام کیا جو نہ صرف حیران کن ہے بلکہ ناقابل یقین ہے۔1989ء میں انہیں تمغۂ حسنِ کارکردگی دیا گیا۔17دسمبر 2015ء کو یہ نابغۂ روزگار 85 برس کی عمر میں اس عالم ناپائیدار سے رخصت ہو گیا۔