لینن گراڈفن تعمیر کی شاہکار عمارتوں والا روس کا اہم ترین شہر
لینن گراڈ، روس کا ایک اہم شہر ہے جو خلیج فن لینڈ پر دریائے نیوا کے کنارے پر واقع ہے۔ اس کا پرانا نام سینٹ پیٹرز برگ تھا کیونکہ اس کا سنگ بنیاد 1730ء میں زار روس پیٹر اعظم نے رکھا تھا،بعدازاں اس کا نام تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس شہر کا شمار دنیا کے حسین ترین شہروں میں ہوتا ہے۔
17ویں صدی عیسوی میں روس کا شمار یورپ کی چند پسماندہ اقوام میں ہوتا تھا۔اس وقت تک یہاں مغربی اثرات آنا شروع ہو چکے تھے جب 1689ء میں پیٹراعظم روس کا حکمران بنا۔ وہ پہلا روسی حکمران تھا جس نے غیر ممالک کا دورہ کیا۔1697ء میں انگلینڈ، فرانس اور ہالینڈ کا دورہ کرکے واپسی پر اس نے مصمم ارادہ کر لیا تھاکہ وہ روس کو جدید ممالک کی صف میں کھڑا کرے گا۔ اس کے پروگرام کا ایک اہم حصہ بندرگاہ بنا کر روسی بحریہ کو مضبوط تر بنانا تھا اور اس کے ساتھ ایک نیا شہر بھی بسانے کا منصوبہ تھا۔
بحریہ کی ضروریات کے نقطہ نظر سے خلیج فن لینڈ میں نیواڈیلٹا کا دلدلی علاقہ اس شہر کی تعمیر کیلئے منتخب کیا گیا۔ اس شہر کو دارالحکومت بنانے کا فیصلہ 1712ء میں کیا گیا۔ یہ شہر ادب و فنون کا بہت بڑا مرکز بنا اور اس پر مغربی تہذیب کا گہرا اثر پڑا۔ اس شہر کیلئے جگہ کا انتخاب کرنے کے بعد زار پیٹر کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کس قسم کا شہر تعمیر کروایا جائے۔
1725ء میں پیٹراعظم کی موت کے بعد بھی اس شہر کی شاندار عمارات کی تعمیر جاری رہی۔ ان عمارتوں میں قلعہ پیٹرپال، مین شیکو پیلس، سمر پیلس اور ونٹر پیلس شامل ہیں۔ سینٹ پیٹرز برگ اہل روس اور بہت سے غیر ملکیوں کی کوششوں سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ تاجروں اور مختلف ماہر فنون کو مجبور کیا گیا کہ وہ یہاں اپنے گھر تعمیر کریں۔ چونکہ اس علاقہ میں پتھر نہیں تھے اس لئے شہر میں داخل ہونے والی ہر سواری یا گاڑی میں تین پتھر ، ہر کشتی میں پتھر اور ہر بحری جہاز میں کم از کم 30پتھر لدے ہوتے تھے۔
سینٹ پیٹرز برگ میں اتنے تعمیراتی سٹائل نظر آتے ہیں کہ یہ شہر فن تعمیر کی سمفنی (symphony)نظر آتا ہے۔ دو سٹائل خاص طور پر چھائے ہوئے ہیں۔
سینٹ پیٹرز برگ کی شاندار عمارتوں کے ساتھ اس شہر کا کشادہ لے آئوٹ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا کی ایک سب سے بڑی سڑک سینٹ پیٹرز برگ کے درمیان سے گزرتی ہے۔ یہ سڑک دریائے نیوا کے کنارے واقع ایڈمائی رہائی سے شروع ہوتی ہے۔ اس سڑک کا اپنا ایک منفرد حسن ہے۔ اس کے اطراف میں باوقار اور شاندار عمارتیں بنی ہیں جن میں سٹروگونوف اور ارچ کوف محلات، شودالوف اسٹیٹ اور کرزن کیتھڈرل شامل ہیں۔
جس عمارت میں سینٹ پیٹرز برگ کی مکمل تاریخ جمع ہے وہ یہاں کا سرمائی محل ہے، جسے 1711ء میں بنایا گیا تھا۔ اس محل میں پانچ مرتبہ تبدیلیاں کی گئیں۔ آخری چھٹا سرمائی محل ریسٹ ایلی نے ڈیزائن کیا جو 1760ء میں مکمل ہوا۔ اس محل کا تناسب اتنا شاندار ہے کہ اس کی چاروں سمتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس عمارت کے سامنے کے حصے میں ایک کے اوپر ایک رکھے ہوئے ستون زمین سے لے کر چھت تک چلے گئے ہیں۔ اس کے اوپر کانسی کے بنے بڑے بڑے ایسے مجسمے لگے ہیں جو اصل میں خاکدان ہیں۔ قدیم زمانے کے لوگ ان خاکدانوں میں مردے کی راکھ رکھا کرتے تھے۔ اس محل کی 3منزلوں میں 1500 کمرے ہیں۔ سب سے نچلی منزل میں محل کے ملازمین رہتے تھے۔ دوسری منزل پر سرکاری دفاتر تھے۔تیسری منزل پر بیڈ رومز اور درباریوں کے رہنے کی جگہ تھی۔ 1837ء میں اس سرمائی محل کو ایک آگ کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا لیکن اسے جلد ہی ماہر تعمیرات نے دوبارہ درست کردیا۔
1917ء میں جب روس میں بالشویک انقلاب آیا تو اسی سرمائی محل میں زار روس نکولس دوئم کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمن افواج نے لینن گراڈ کا900دن تک محاصرہ کئے رکھا اس وقت بھی اس محل کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ اس کے بعد شہر کی دیگر عمارتوں کی طرح اس عمارت کی مرمت بھی بڑی احتیاط اور توجہ سے کی گئی۔ آج کل اس عمارت کا ایک بہت بڑا حصہ آرٹ کے نادر نمونوں کو جمع کرنے کیلئے وقف ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران میں سینٹ پیٹرز برگ کا نام تبدیل کرکے پیٹرو گراڈ رکھ دیا گیا۔1845ء کے انقلاب سے لے کر 1917ء کے بالشویکی انقلاب تک یہ شہر بڑی انقلابی تحریکوں کا مرکز رہا۔