یادرفتگاں: یوسف خان باصلاحیت ورسٹائل اداکار

اسپیشل فیچر
پاکستان کی فلمی تاریخ میں متعدد فنکار ایسے بھی رہے ہیں کہ جنھیں اپنا مقام حاصل کرنے کیلئے خاصی جدوجہد کرنا پڑی اوربعدازاں ان میں سیکچھ لیجنڈ کہلائے۔ ایسے ہی فنکاروں کی فہرست میں ایک نام اداکار یوسف خان کا تھا جو 20ستمبر2009 ء کو اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے تھے اور آج ان کی 14ویں برسی ہے ۔
یوسف خان پاکستانی فلمی صنعت کے پہلے فنکار تھے جنہوں نے فلموں میں مسلسل کام کرنے کی گولڈن جوبلی منائی تھی۔ وہ یکم اگست 1931ء کو فیروز پور (بھارت) میں پیدا ہوئے اور ان کا اصل نام خان محمد تھا۔ 1954ء میں فلم ''پرواز‘‘ سے فنی کریئر کا آغاز کیا لیکن بدقسمتی سے ان کے فنی کریئر کو وہ پرواز نہ مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ ایک سپرسٹار کا مقام حاصل کرنے کیلئے انھیں پورے دو عشرے(20سال) انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران انھیں ہیرو، معاون اداکار اور کریکٹرایکٹر کے علاوہ ولن کے کردار بھی قبول کرنا پڑے۔ وہ ایک انتہائی با صلاحیت اداکار تھے، ہر کردار میں ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ 70ء اور 80ء کی دہائی میں پنجابی فلموں میں ایکشن ہیرو کے طور پر اپنے فن کے جلوے دکھا تے نظر آئے۔ انہوں نے کچھ پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔
1970ء کی دہائی ان کیلئے مبارک ثابت ہوئی۔ ان کے مرکزی کردار سے سجی متعدد فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ ہدایتکار اقبال کاشمیری کی سپر ہٹ پنجابی فلم ''ٹیکسی ڈرائیور‘‘ میں انہوں نے مرکزی کردار بڑے شاندار طریقے سے نبھایا۔ اس کے بعد ان کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا۔ ہدایتکار اقبال کاشمیری نے انہیں ''ضدی‘‘ میں کاسٹ کیا۔ یہ فلم بھی سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس میں ان کے ساتھ فردوس، اعجاز،نبیلہ اور الیاس کاشمیری نے اہم کردار ادا کیے۔ اس فلم کے نغمات بھی بہت پسند کیے گئے۔ اس فلم میں یوسف خان فن کی بلندیوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ نبیلہ کی اداکاری کو بھی بہت سراہا گیا۔ ''ضدی‘‘ اداکارہ ممتاز کی پہلی فلم تھی جس میں ان پر عکسبند کیا گیا گیت ''وے چھڈ میری وینی نہ مروڑ‘‘ بڑا مشہور ہوا تھا۔
یوسف خان نے سلطان راہی کی طرح بہت زیادہ فلموں میں کام نہیں کیا۔ان کی اداکاری کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اوور ایکٹنگ نہیں کرتے تھے۔وہ دھیمے لہجے میں بولتے تھے لیکن جب ضرورت پڑتی تھی تو اپنی گرجدار آواز سے بھی فلمی شائقین کو متاثر کرتے تھے۔ وہ بڑی دلکش شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے صبیحہ خانم، نیلو، آسیہ، انجمن، فردوس اور نغمہ کے ساتھ خاصاکام کیا۔ وہ مزاحیہ اداکاری بھی کرسکتے تھے۔ جس کی سب سے بڑی مثال ان کی فلم ''اتھرا‘‘ ہے جو 1975ء میں ریلیز ہوئی۔
ان کی اردو فلموں میں ''حسرت، لگن، دو راستے، سسرال اور خاموش رہو‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ بالا فلموں میں ان کی اہم ترین فلمیں ''سسرال‘‘ اور ''خاموش رہو‘‘ تھیں جن میں انہوں نے اچھا کام کیا۔ دونوں سپرہٹ فلمیں تھیں لیکن ہوا یوں کہ ''سسرال‘‘ میں علائوالدین کی لافانی اداکاری نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا اور ''خاموش رہو‘‘ میں محمد علی سب پر بازی لے گئے۔ اگرچہ ان دونوں اردو فلموں میں یوسف خان ہیرو تھے۔ اس کے بعد بھی یوسف خان نے '' ماں باپ، تاج محل، دل بے تاب اور غرناطہ‘‘ جیسی فلموں میں کام کیا لیکن ان کی اتنی پذیرائی نہیں ہوئی۔ ان کے بارے میں فلمسازوں اور ہدایتکاروں کی یہ رائے تھی کہ وہ اردو فلموں کیلئے موزوں نہیںکیونکہ ان کا لہجہ اردو فلموں والا نہیں تھا۔
انہوں نے سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔ ایک زمانے میں مصطفیٰ قریشی کے ساتھ ان کی بہت فلمیں ریلیز ہوئیں۔ جن میں وارنٹ، حشر نشر، چالان، چور سپاہی، غلامی، رستم تے خان اورسوہنی مہیوال بڑی کامیاب ثابت ہوئیں۔ ''جبرو‘‘ اور ''نظام ڈاکو‘‘ نے بھی بہت بزنس کیا۔ ''سوہنی مہیوال‘‘میں اداکاری کر کے انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ رومانوی کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ نغمہ کے ساتھ ان کی فلم ''سدھا رستہ‘‘بہت ہٹ ہوئی۔ ان کی پنجابی فلمیں ''چن پتر، بائوجی اور جاپانی گڈی‘‘ بھی بہت کامیاب رہیں۔ وہ بڑی ٹھیٹھ پنجابی بولتے تھے۔ ان کی دیگر یادگار پنجابی فلموں میں ٹیکسی ڈرائیور، ضدی، رستم تے خان، غلامی، دھی رانی اور بڈھا گجر‘‘ شامل ہیں۔ یوسف خان کی دیگر فلموں میں بابل، جواب دو، چترا تے شیرا، پھول اور شعلے، یارانہ، وڈاخان، اللہ رکھا اور قصہ خوانی‘‘ شامل ہیں۔
وہ فنکاروں کی تنظیم ''ماپ‘‘ کے چیئرمین بھی رہے۔ ان کے کئی اداکاروں کے ساتھ جھگڑے بھی مشہور ہوئے اور انہیں فلمی صنعت کا دادا بھی کہا جانے لگا۔ اسی طرح شجاعت ہاشمی نے جب بھارت جا کر سعادت حسن منٹو کے افسانے ''ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ پر بننے والی ٹیلی فلم میں کام کیا تو یوسف خان نے اس کا بھی برا مانا۔ وہ بھارت اور بھارتی فلموں سے نفرت کرتے تھے۔ اسی طرح وہ بھارتی اداکاروں کے پاکستان آنے کے بھی بڑے مخالف تھے۔ اس بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ وہ ایک سچے قوم پرست تھے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی انکھوں سے 1947 میں مسلمانوں کی کٹی پھٹی نعشیں دیکھی ہیں اور وہ یہ دلخراش مناظر کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔
ان کی خوش بختی تھی کہ انہیں شروع میں ہی ریاض شاہد جیسا نابغہ روزگار مل گیا۔ جنہوں نے یوسف خان کی صلاحیتوں کو نکھارا۔ 20 ستمبر 2009ء کو ان کا 78 برس کی عمرمیں لاہور میں انتقال ہوا۔