پوٹھو ہار۔۔۔۔برصغیر کی تاریخ کا ایک درخشاں باب
اسپیشل فیچر
سطح مرتفع پوٹھوہار کے علاقے کو وادی سواں بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی مغربی سرحد آزاد کشمیر اور جنوبی حصہ خیبر پختونخوا سے ملحقہ ہے۔ ضلع راولپنڈی، جہلم، چکوال اور اٹک پر مشتمل اس علاقے میں دریائے سواں اہم دریا ہے ۔ اس کا معاون دریا دریائے لنگ ہے۔ زمین غیر ہموار ہونے کی وجہ سے پوٹھوہار میں صرف بارانی کاشتکاری ممکن ہے۔ قلعہ روہتاس، قلعہ پھروالہ، قلعہ روات اور قلعہ نندنہ یہاں کے قدیم قلعے ہیں۔اس علاقے کی تاریخ میں اہمیت کا درست اندازہ چندر گپت موریا کے خاندان سے لگایا جا سکتا ہے،326 قبل مسیح سے لیکر 550 قبل مسیح تک یہاں سکندر اعظم کی حکومت رہی اور پھر چندر گپت کے پوتے مہاراجا اشوک نے ٹیکسلا شہر کو اپنا دار الخلافہ بنایا جس سے اس علاقے کی اہمیت اور تاریخی درجہ بندی انتہائی اہم ہو گئی۔ اس کے قابل ذکر علاقے سٹوپا مانلیلا ،کٹاس راج، ٹلہ جوگیاں جیسے تاریخی کھنڈر جو قومی ورثے کا حصہ ہے۔1928ء میں جیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ مسٹر ڈی این واڈیا اور1930ء میں ڑیل کیمرج ایکسپی ڈیشن نے دریائے سواں کی پٹی کے ساتھ قدیم دور کے پتھروں کے تراشیدہ اوزار اور ہتھیار دریافت کیے۔ جرمن محقق ڈی ٹیرا اور پیٹرسن نے بھی یہاں قدیم ترین انسانی عہد کا سراغ لگایا۔انہوں نے چونترا،اڈیالہ،ملک پور اور روات کے مقامات سے پتھر کے دور کی تقریباً تین لاکھ سال قدیم سنگی کلہاڑیاں ور تیز دھار شیشے دریافت کیے۔ڈاکٹر ڈی ٹیرہ کی رائے کے مطابق وادی سواں کی تاریخ بابل، نینوا، وادی سندھ، مصر اور یونان کی تہذیبوں سے بھی ہزاروں سال قدیم ہے۔انہوں نے روات کے قریب سے دریافت ہونے والی دو انسانی کھوپڑیوں پر بھی تحقیق کی۔انHomo Sapiensکا تعلق پتھر کے جدید دور سے بتایا جاتا ہے ۔یہ ڈھانچے پانچ سے دس ہزار سال قدیم ہیں۔1968ء میں آرکیالوجی آف پنجاب نے بھی ٹیکسلا میں سرائے کھولا کے قریب کھدائی کی اور ماقبل از تاریخ دور کا پتہ لگایا ۔دریافت شدہ برتنوں اور ہتھیاروں پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ3100 قبل مسیح میں یہاں انسانی آبادی موجود تھی۔اس کے علاوہ ٹیکسلا میوزیم کی شمالی سمت میں واقع ہتھیال نامی مقام سے مٹی کے ایک ٹیلے کی کھدائی کے دوران2800 قبل مسیح سے2400قبل مسیح کے آثار دریافت ہوئے ہیں ۔بعد ازاں ڈاکٹر سیف الرحمن ڈار کی سربراہی میں ایک آرکیالوجیکل ٹیم نے ضلع چکوال کے علاقے ڈھوک بن امیر خاتون میں قدیم فوسلز کا بہت بڑا ذخیرہ دریافت کیا۔
پوٹھوہار برصغیر کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ اس کی رہگزاروں میں طالب علم، دانشور اور سودا گروں کے قافلے گزرتے نظر آتے ہیں تو کہیں بیرونی حملہ آوروں کے جنگجو جتھے دھول مٹی اڑاتے‘ ماضی کے اوراق میں گم ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ اقوام کا چھوڑا ہوا ورثہ تاریخی اور نادر عمارتوں کی شکل میں مجسم ہے اور کہیں بھکشوؤں کے گھومتے سائے معبد خانوں کی شکستہ دیواروں میں لرزاں ہیں۔پوٹھوہار کا ماضی تہذیب و ثقافت اور دانش و حکمت سے عبارت ہے۔یہاں اس دور میں بھی علم کی شمع روشن تھی جب باقی دنیا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے تلے سانس لے رہی تھی اگر ہم اپنے حال کی شکستہ کڑیاں عہد رفتہ کے تاریخی سلسلے سے جوڑ لیں تو ایک سہانے مستقبل کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔