آداب مجلس سے بے اعتنائی !

آداب مجلس سے بے اعتنائی !

اسپیشل فیچر

تحریر : ابن انشا


ہمارے ہاں آداب مجلس سے بے اعتنائی اور بے نیازی کا رجحان خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے ہم نے زر کثیر خرچ کرکے کچھ ادب دوست احباب کی دعوت کی۔ اس کی تقریب ہم نے کچھ اور بتائی۔ اصل امر یہ تھا کہ ہم نے حال ہی میں کچھ تازہ غزلیں کہی ہیں جو ہماری ناقص رائے میں اردو ادب میں بیش بہا اضافے کا حکم رکھتی ہیں۔
آداب مجلس کی خلاف ورزی کا آغاز تو کھانے کے دوران ہی ہو گیا۔ کسی نے کہاکہ یہ مچھلی یا مگر مچھ؟ مرغی کے متعلق پوچھ رہا تھا کہ یہ شتر مرغ ہے کیا؟ محض اس لیے کہ پوری طرح نہ گلا تھا۔ بعضے کوفتوں کو کھا کر سی سی کرنے لگے کہ مار ڈالا، کتنی مرچیں جھونک دیں۔
اس کے مقابلے میں دیکھیے کہ ابھی پچھلے دنوں ہم نے ایک جرمن دوست اور ان کی بیگم کی دعوت کی تھی اور اس میں بھی مرچوں اور مصالحے کا تناسب یہی تھا۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور پانی بھی بار بار پیتے تھے لیکن جب پوچھا کہ کیا مرچیں لگ رہی ہیں تو بولے ''جی نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں، پاکستانی کھانے بہت عمدہ ہوتے ہیں‘‘۔ یہ ہوتے ہیں آداب۔
ہمارے ان مہمانوں نے روٹیوں کے جلنے اور گھی کے بناسپتی ہونے کی بھی شکایت کی اور کھیر کے تھوڑی ہونے ہونے کی بھی، حتیٰ کہ بعد میں فرمائش کی کہ کنجوسی مت کرو، آم منگاؤ اور ہمیں کھلاؤ۔ ہم ہنس ہنس کر طرح دیتے رہے جس پر ایک صاحب جزبز بھی ہوئے کہ کیا آپ ہماری باتوں کو مذاق جانتے ہیں جو یوں منہ کھول کر ہنسے جا رہے ہیں۔
خیر کھانا ختم ہوا۔ اب ہم منتظر تھے کہ کوئی صاحب کلام کی فرمائش کریں۔ فرمائش کرنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں، مثلاً کھانسنا، پہلو بدلنا، زیر لب گنگنانا یا حاضرین میں سے کسی سے کہنا کہ آپ آج کل کیا لکھ رہے ہیں۔ کوئی تازہ غزل وزل ہوئی؟ اس پر نکتہ سنج اور اشارہ فہم لوگ میزبان سے فوراً فرمائش کرتے ہیں کہ اچھا اب کچھ تازہ کلام عنایت ہو اور وہ کان پر ہاتھ رکھ کر رات بھر گاتا ہے۔ چونکہ آج کل اشارہ فہم لوگوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے لہٰذا زیادہ تجربہ کار شاعر میزبان اپنے ساتھ ایک بچہ جمورا رکھتے ہیں جو ایسے موقعوں پر یاد دلاتا ہے کہ حاضرین مجلس آپ کی تازہ غزلیں سننے کے مشتاق ہیں اصرار کیے جاتا ہے کہ اور سنائیے۔ فلاں غزل بھی سنیں گے، فلاں بھی، مکرر ارشاد وغیرہ۔
ہم نے ایک دو لطیف اشارے تو کیے، لیکن حضرات برابر بجٹ، مہنگائی، وزارتی تبدیلیوں، مسئلہ کشمیر وغیرہ کی بحثوں میں جٹے رہے اور خواتین ایک دوسرے کے غراروں اور دوپٹوں کے بھاؤ پوچھتی رہیں یا بندوں اور چوڑیوں کو ہاتھ لگا لگا کر جانچتی رہیں کہ واقعی سونے کی ہیں یا کہنے والی جھوٹ کہہ رہی ہے۔
آخر ہمارے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوا اور ہم نے دو تین جمائیاں لے کر کہا صاحبو نان کہ خوردی خانہ برد۔ اب جاؤ، رات کے بارہ بجے ہیں ہمیں سونا بھی ہے اور صبح صبح یہ کرسیاں اور برتن جو خاص اس دعوت کے لیے مستعار لیے گئے تھے، دھو دھا کر ہمسایوں کو واپس بھی کرنے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
کوانٹم تھیوری

کوانٹم تھیوری

آج ہم آپ کوایک عجیب و غریب،انتہائی حیرت انگیز،پیچیدہ اور دلچسپ تھیوری کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جسے''کوانٹم تھیوری‘‘ کہتے ہیں۔ 1913ء سے 1925ء کے درمیان کوانٹم تھیوری میں کئی اہم پیش رفت ہوئیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ''کوانٹم‘‘ کو انسانی آنکھ دیکھ نہیں سکتی۔کوانٹم خلاء دراصل ذرات، توانائی اور لہروں سے بھرا ہوا ایک ماحول ہے جو پُراسرار انداز میں ظاہر ہوتا ہے اور تیزی سے غائب ہو جاتا ہے۔ ''کوانٹم تھیوری ‘‘ریاضی کے اعداد و شمار پر مبنی ایک تھیوری ہے۔اس تھیوری کو کوانٹم وجودات اور ان سے منسلک تجرباتی حقائق کی وضاحت کیلئے استعمال کیا گیا۔کوانٹم تھیوری کی مساوات بہت زیادہ کامیاب رہی ہیں اور پچھلے ستر سالوں سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ کوانٹم کے ذریعے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ ایٹم اور ایٹم کی ذیلی سطحوں میں مسلسل حرکت اور تبدیلی جاری رہتی ہے۔ ایٹم ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور اُن میں ذرات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ اس نظرئیے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ تبدیلی ایک تسلسل میں رونماہونے کی بجائے ایک بتدریج عمل سے گزرتی رہتی ہے۔کوانٹم وجودات پر کیے جانے والے تجربات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے کچھ نتائج کو دیکھاجائے تو وہ حیران کن ہیں ۔یہ تجربات زیادہ تر الیکٹران اور فوٹان پر مشتمل ہیں۔الیکٹران جو کہ ایٹم کا جزو ہیں اور آسانی سے ان کو الیکٹران گن کے ذریعہ پیدا کیا جا سکتا ہے جبکہ فوٹان لائٹ (بجلی) کی اکائی (یونٹ) ہیں ان کو بھی مختلف طریقوں سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ کچھ تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ کوانٹم وجودات ذرات ہیں جبکہ کچھ تجربات کے نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ ''لہریں‘‘ ہیں۔ ذرات قابل شناخت اور جگہ گھیرلینے والے اجسام ہیں۔جو ایک دوسرے کے ساتھ خاص طریقے سے عمل کرتے ہیں مثلاً ایک دوسرے کو دھکیل سکتے ہیں، ٹکرا سکتے ہیں اور چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوسکتے ہیں جبکہ لہریں مظہر ہوتی ہیں اجسام کی طرح قابل امیتاز نہیں ہوتیں اور وسیع علاقے پر پھیلی ہوتی ہیں۔لہروں کا باہمی تعامل اجسام کے باہمی تعامل سے مختلف ہوتا ہے۔وہ لہریں باہم تعامل کر کے کبھی ایک بڑی لہر پیدا کرتی ہیں اور کبھی ایک دوسرے کے اثر کوذائل کر دیتی ہیں۔فرض کریں!الیکٹرانز اجسام ہیں اگر آپ ایک رکاوٹ جس میں دو درزیں ہوں جس کی پچھلی طرف فوٹو گرافک پلیٹ لگی ہوئی ہو۔ اس پر جب الیکڑان فائر کئے جائیں اور وہ اجسام ہوں تو ان میں سے کافی سارے الیکٹران اس رکاوٹ کے ساتھ ٹکرائیں گے اور باقی الیکٹران ان درزوں سے گزر کر فوٹو گرافک پلیٹ سے ٹکرائیں گے اور خاص قسم کے نشانات چھوڑیں گے۔ آپ کو ایک اور عجیب بات بتائیں۔جس عمل میں لہروں کا مطالعہ کیا جارہا ہوگا وہاں اجسام سے متعلق ریاضی کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔یہ کہنا کہ کوانٹم تھیوری ماضی میں پیش کیے جانے والی تھیوریز سے مختلف ہے تو یہ بات درست ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کوانٹم تھیوریزکی پیش کردہ پیشگوئیوں میں یقینی پن کی بجائے امکان کا تاثر پایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر کوانٹم ریاضیات کو الیکٹران کی پوزیشن معلوم کرنے کیلئے استعمال کریں تو یہ ہمیں ایسے کئی مقامات کی نشاندہی کروائے گی جہاں الیکٹران موجود ہو سکتے ہیں۔کوانٹم تھیوری الیکٹران کی کسی جگہ موجودگی کے بارے میں پیشگوئی کرسکتی ہے اور ہر کوئی اس سے اتفاق کرتا ہے کہ کوانٹم تھیوری کی حسابی مساوات عمومی لحاظ سے آپ کو دنیا سے جوڑتی ہے۔ اگر کوئی اس عمومی سطح سے آگے بڑھنا چاہے تو کوانٹم تھیوری کی حسابی مساوات حقیقت کی جو تصویر کشی کرتی ہے وہ نہایت عجیب اور بے سروپا ہے۔ درحقیقت یہ بے ترتیبی کوانٹم تھیوری کی حسابی مساوات میں نہیں بلکہ اس کی تعبیر میں ہے لہٰذاکوانٹم تھیوری کے حوالے سے آلاتی اپروچ رکھنا درست ہوگا۔کوانٹم تھیوری اور لہروں سے جڑے ریاضی کے باہمی تعلق کومخصوص ریاضی عمل (مساوات) سے بیان کیا جا سکتا ہے،جس کو عام طور پر اس نظام کا لہری عمل کہا جاتا ہے۔ کوانٹم نظام کی مدد سے کی جانے والی ہر پیمائش لہروں کے ایک مخصوص گروہ سے منسلک ہوتی ہے۔ کوانٹم نظام کی مدد سے حاصل ہونے والی پیمائش کے بارے میں کی گئی پیشگوئی کا حصول اس عمل میں استعمال ہونے والی مخصوص گروہ کی لہروں کی تعداد کی مدد سے ممکن ہوتا ہے جن کو جب اکٹھا کیا جاتا ہے تو لہروں کا عمل وجود میں آتا ہے۔الیکٹران کو ایک مخصوص کوانٹم نظام میں ایک مخصوص ویو فکشن کے ذریعہ ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ لہروں کے مختلف خاندان ہوتے ہیں لہٰذا ان سے منسلک ریاضی کی مساواتیں بھی ایک خاندان کی شکل میں پائی جاتی ہیں اور کوانٹم تھیوری کی ریاضیاتی مساواتوں میں مساواتوں کے یہ خاندان مخصوص طرح پیمائشوں سے منسلک ہوتے ہیں کوئی پوزیشن کو ظاہر کرتا ہے اور کوئی حرکت کو۔ فزکس صرف ایک مخصوص وقت میں کی جانے والی پیمائشوں کے ساتھ ہی منسلک نہیں ہوتی بلکہ مستقبل میں کی جانے والی پیمائشوں سے بھی اس کا تعلق ہوتا ہے۔ کوانٹم تھیوری میں یہ کام ''Schrodingerمساوات‘‘ کی مدد سے کیا جاتا ہے جو کوانٹم نظام کی موجودہ ویوفکشن کی مدد سے مستقبل میں اس نظام کی متوقع حالت کے بارے میں بتاتی ہے لہٰذا کوانٹم تھیوری کی ریاضیات کی مدد سے ہم ایک مخصوص وقت میں کی جانے والی پیمائشوں کے نتائج کے بارے میں پیشگوئی کر سکتے ہیں بلکہ مستقبل میں اس نظام کی متوقع حالت کے حوالے سے بھی پیشگوئی کی جا سکتی ہے ۔تجربات و حقائق اور کوانٹم تھیوری کی پیش کردہ مساوات میں کوئی فرق نہیں لیکن تعبیر کے حوالے سے مسائل موجود ہیں۔جن میں سے ایک پیمائش کا مسلہ ہے یہ سب سے پیچیدہ مسلہ ہے۔اگر سیدھے طریقے سے کوانٹم ریاضیات کی تعبیر کرنا چاہیں تو ایسا ممکن نہیں۔کوانٹم تھیوری ریاضیات کوانٹم نظام کی سوپر پوزیشن کی پیشن گوئی کرتی ہے۔مگر عملی طور پر اس کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔جب پیمائشی آلات کو استعمال کیا جاتا ہے تو کوانٹم موجودات کی سوپر پوزیشن ایک حالت میں محدود ہوجاتی ہے اور دوسری حالت کا مشاہدہ نہیں ہوپاتاجبکہ اس دوران حالات بالکل ویسے ہی ہوتے ہیں جیساکہ آلات کی غیر موجودگی میں کی جانے والے تجربہ میں تھے۔  

سائوچائے ٹنکونگ

سائوچائے ٹنکونگ

چین کے جنوب مغرب میں واقع مضافاتی علاقہ ''چونگ قنگ‘‘اپنے سرسبز وشاداب کھلیانوں کی وجہ سے تو مشہور ہے ہی لیکن حیرت انگیز طور پر اس گاؤں کے مغربی کنارے پر واقع ایک دیو ہیکل کنواں نما گڑھا جو 660 میٹر گہرائی اور تقریباً 13کروڑ مربع میٹرز حجم کے ساتھ اس وقت تک قدرتی طور پر وجود میں آنے والا دنیا کا سب سے گہرا گڑھا مانا جاتا ہے۔ جسے چینی زبان میں ''ساؤ چائے ٹنکونگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ چینی زبان میں ''ساؤ چائے‘‘ کا مطلب ایک چھوٹا سا گاؤں جبکہ ''ٹنکونگ‘‘ کے معنی گڑھے یا کنوئیں کے ہیں۔یہ گڑھا صدیوں سے لوک داستانوں، پراسرار انکشافات اور افواہوں کا مرکز بنا ہوا ہے لیکن آج تک اس کی تاریخ اور حقیقت کا علم کسی کو نہ ہو سکا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دیوتاؤں کا کوئی قدیم مسکن ہے، کچھ لوگ اسے کسی بڑی دیوہیکل مخلوق کے قدموں کے نشان سے تعبیر کرتے ہیں۔ کچھ ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ پراسرا گڑھا زمین سے کسی سیارے کے ٹکراؤ کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہو گا۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے کچھ ماہرین نے اس کنوئیں کے معائنے کے بعد اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ اس طرح کے کنوئیں دنوں اور مہینوں میں نہیں بنتے بلکہ اس کے وجود میں آنے کا عمل لگ بھگ ایک لاکھ اٹھائیس ہزار سال قبل شروع ہوا ہو گا۔ اس کنوئیں کی غیر معمولی گہرائی بارے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ زمین سے ڈھلوان کی جانب پانی کا رسنا اور زیر زمین بہتے دریا میں شامل ہونا ہی دراصل اس گڑھے کی گہرائی میں اضافے کا سبب ہو سکتا ہے۔ اگرچہ چینی صدیوں سے اس گڑھے کو دیکھتے آ رہے ہیں لیکن چینیوں نے شاید اس کی پراسراریت کے خوف سے کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ 1994ء تک بیرونی دنیا اس پراسرا گڑھے کی حقیقت سے لاعلم تھی۔ کہتے ہیں سب سے پہلے اس گڑھے کو ایک بین الاقوامی ٹی وی نے عوام کے سامنے ایک ڈاکومینٹری کے طور پر پیش کیا۔ جس کے بعد 1994ء ہی میں برطانوی مہم جوؤں کی ایک ٹیم اینڈریو جیمز کی سربراہی میں چین پہنچی۔ اس ٹیم کے گائیڈ زاو گوئلین تھے۔ اینڈریو جیمز سب سے پہلے اپنی ٹیم کے ارکان کے ساتھ گڑھے کے اندر غاروں میں اترے یہ دیکھنے کیلئے کہ زیر زمین انہیں کس قسم کے حالات سے نمٹنا ہو گا۔ غاروں کے سروے کے دوران ہی اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ غاروں کے نیچے زیر زمین ایک انتہائی تیز بہاؤ والا دریا بھی بہہ رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس گڑھے کے اندر ایک دنیا آباد ہے جس میں 1300 کے لگ بھگ مختلف پودے اور بے شمار اقسام کے جانور جن میں کلاؤڈڈ، تیندوے اور گنگکو جیسے پرندے شامل ہیں۔یہ زیر زمین دنیا اس قدر پیچیدہ اور پراسرار ہے کہ اس برطانوی ٹیم کو سب سے زیادہ مشکل یہ درپیش تھی کہ کنوئیں کے اندر پھیلی غاروں کا سروے کیسے کیا جائے کیونکہ گھپ اندھیرے اور تیز رفتار بہتے دریا کے سامنے نیچے غاروں تک رسائی بذات خود ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس کے علاوہ اس گڑھے کے دہانے پر ایک آبشار گرتی ہے جو اس گڑھے کے غاروں کو سیراب کرتی ہے۔جیسے جیسے دنیا کے مہم جوؤں کے سامنے اس کنوئیں کی اسراریت کھلتی گئی دنیا کے مہم جوؤں نے گویا اسے ایک چیلنج سمجھ کر اسے پرکھنے کا ارادہ کر لیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2004ء تک دنیا کے مختلف ممالک کے مہم جوؤں نے پانچ بار اس کے غاروں تک رسائی کی کوشش کی لیکن ان دس سالوں میں مہم جوؤں کی کوئی بھی ٹیم زیر زمین دریا کی تیز لہروں کے سامنے اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکی۔اب تک اس گڑھے کی اسراریت کو کھوجنے میں سب سے موثر کردار برطانوی ٹیم کا رہا ہے۔ اس کے مطابق اس گڑھے کی پراسرایت میں جہاں سب سے بڑی رکاوٹ پانی کی تیز لہریں ہیں، وہیں اس کی زیر زمین غاروں کی تاریکی بھی ان کی کامیابیوں کے درمیان حائل ہے۔ تاہم میں اور میری ٹیم پرامید ہے کہ جلد یا بدیر دنیا کے قدرتی طور پر وجود میں آنے والے سب سے گہرے اس کنوئیں کے سربستہ رازوں سے پردہ ضرور اٹھے گا۔ 

حکایت سعدیؒ :روح ایک سرکش گھوڑا

حکایت سعدیؒ :روح ایک سرکش گھوڑا

ایک رات میں (شیخ سعدیؒ) اس ارادے سے سو گیا کہ صبح سویرے قافلے کے ساتھ مل کر سفر کروں گا۔ اچانک رات کو ایسا بگولا آیا کہ اندھیرا ہی اندھیرا ہو گیا۔ میں نے راستے میں دیکھا ایک چھوٹی سی بچی اپنے دوپٹے کے ساتھ باپ کے چہرے سے گرد صاف کر رہی تھی اور باپ اپنی بیٹی کو پیار کرتے ہوئے دیکھ کر رو پڑا اور کہنے لگا! بیٹی ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ان آنکھوں میں اس قدر مٹی بھر جائے گی کہ جو اوڑھنیوں سے صاف نہ ہو سکے گی۔ سعدیؒ فرماتے ہیں ہر شخص کی روح قبر کی طرف سرکش گھوڑے کی طرح بھاگ رہی ہے جس کو روکا نہیں جاسکتا۔ موت آکر جسم کی رکاب توڑ دے گی جس سے جسم کا تعلق روح سے ٹوٹے گا اور بالآخر جسم گڑھے میں گر جائے گا۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے دنیا میں انسان اپنے آپ کو جتنا بھی مٹی سے بچاتا پھرے لیکن قبر میں جا کر اس کا جسم مٹی سے ضرور بھر جائے گا لہٰذا اس وقت کی تیاری کرنی چاہیے۔  

آج کا دن

آج کا دن

دوسری جنگ عظیم: ''بگ تھری‘‘ کا اہم اجلاس28 نومبر1943ء کو دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے تہران میں واقع سوویت یونین کے سفارتخانے میں ایک اہم اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں ''بگ تھری‘‘ اتحادی ممالک یعنی امریکی صدر روزویلٹ، برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور سویت لیڈر جوزف اسٹالن شریک ہوئے۔ یکم دسمبر تک جاری رہنے والے اس تین روزہ اجلاس میں جنگ حکمت عملی پر بحث ہوئی اور جرمن نازیوں کیخلاف نیا محاذ کھولنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ '' اکسم قتل عام‘‘اکسم قتل عام میں تقریباً800افراد کو قتل کیا گیا۔یہ قتل عام 28 نومبر 2020ء کوٹگرے جنگ کے دوران اکسم کے مقام پر کیا گیاجو29نومبر تک جاری رہا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ایسوسی ایٹڈ پریس، ایتھوپیا کے انسانی حقوق کمیشن ، ہیومن رائٹس واچ اور اڈیگریٹ یونیورسٹی کے لیکچرر نے اس قتل عام کا ذمہ دار اریٹیرین ڈیفنس فورسز (ای ڈی ایف) کو قرار دیا۔ سخت مواصلاتی پابندیوں کی وجہ سے قتل عام کی خبریں جنوری 2021ء میں سامنے آئیں ۔البانیہ کی آزادیالبانیہ نے28نومبر1912ء کو ولور میں سلطنت عثمانیہ سے آزادی کا اعلان کیا۔ 6 دن بعد البانیہ کی پہلی حکومت قائم کی گئی، جس کی قیادت اسماعیل قما لی اور بزرگوں کی ایک کونسل نے کی۔ 1912ء کی البانوی بغاوت کے پڑوسی ممالک تک اثرات پہنچے اور بلقان کے اتحادیوں نے سلطنت عثمانیہ کے یورپی علاقے کی تقسیم کا منصوبہ مرتب کیا۔اس دوران پہلی بلقان جنگ کے دوران فتح کیے گئے علاقے کو کنڈومینیم کا درجہ دینے پر اتفاق کیا گیا۔ میرینر4لانچ ''میرینر4‘‘خلائی سیریز کا چوتھا مشن تھا،جس کا مقصد فلائی بائی موڈ میں سیاروں کی تلاش کرنا تھا۔اسے مریخ کے قریب سائنسی مشاہدات کرنے اور ان مشاہدا ت کو زمین تک منتقل کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس مشن کو 28نومبر1964کو لانچ کیا گیا۔''میرینر4‘‘سے پہلی مرتبہ مریخ کی سطح کی تصاویر حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس نے ڈیپ سپیس سے واپس آنے والے دوسرے سیارے کی تصاویر بھی حاصل کیں۔ ماؤنٹ ایریبس فضائی حادثہماؤنٹ ایریبس کا حادثہ28نومبر 1979ء کواس وقت پیش آئی جب ائیر نیوزی لینڈ کی پرواز 901نے راس جزیرہ،انٹارکٹیکا سے اڑان بھری۔ اس حادثے میں جہاز میں سوار 237 مسافر اور عملے کے20افراد ہلاک ہوئے۔ ابتدائی تحقیقات میں پائلٹ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ عوامی احتجاج کے بعد حادثے کی تحقیقات کیلئے رائل کمیشن تشکیل دیا گیا۔جس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حادثہ ایک رات قبل روٹ میں کئی گئی تبدیلی کی وجہ سے پیش آیا۔ 

یادرفتگان: مولانا ظفر علی خان

یادرفتگان: مولانا ظفر علی خان

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں مولانا ظفر علی خان کو ایک عظیم سیاسی رہنما، ایک جیّد صحافی، ادیب، شعلہ بیاں مقرر، بے مثل نقاد اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے قلم کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ 27 نومبر 1956ء کو اردو زبان و ادب کی اس نامور شخصیت کی زندگی کا سفر تمام ہو گیا تھا۔ بابائے صحافت کا لقب پانے والے مولانا ظفر علی خان کی آج برسی ہے۔مولانا ظفر علی خان 19جنوری 1873ء میں کوٹ میرٹھ شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول وزیر آباد سے مکمل کی۔ ظفر علی خان نے علی گڑھ سے اس وقت گریجویشن کیا جب سرسیّد، شبلی، حالی جیسے کئی نہایت قابل اور فکر و نظر کے اعتبار سے زرخیز ذہن اس درس گاہ سے وابستہ تھے۔ اسی فضا نے ظفر علی خان کی فکر اور ان کی صلاحیتوں کو اجالا اور علمی و ادبی میدان میں متحرک ہونے پر آمادہ کیا۔علی گڑھ کی تعلیمی فضا سے نکلنے کے بعد انہوں نے کبھی شاعری اور صحافت کے میدان میں قدم جمائے اور کبھی سیاست کے میدان کے شہسوار بنے۔کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد کے طور پر بمبئی میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے حیدرآباد دکن میں کام کیا اور محکمہ داخلہ کے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے۔مولانا ظفر علی خان کے والد مولوی سراج الدین احمد 1903ء میں جب ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے اپنے آبائی گائوں کرم آباد سے اخبار''زمیندار‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ شروع میں یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا اور اس کا مقصد زمینداروں اور کسانوں کی فلاح و بہبود تھا۔ والد کی وفات کے بعد جب ''زمیندار‘‘ مولانا کی زیر ادارت آیا تو اس نے انگریز کے خِرمَن اقتدار میں آگ لگا دی۔ مولانا نے 1908ء میں ''زمیندار‘‘ کی اشاعت لاہور سے شروع کی تو لاہور سے شائع ہونے والے بڑے بڑے اردو اخبارات کے چراغ ٹمٹمانے لگے اور ''زمیندار‘‘ کی شہرت کا ستارہ آسمانِ صحافت پر جگمگانے لگا۔ مسلمانوں کیلئے بطور خاص نکالے گئے اخبار کو مختلف حلقوں میں کافی پذیرائی ملی۔ مولانا کی صحافتی زندگی کافی دشوارگزار رہی، مالی وسائل کی کمی کے باعث اشاعت کا کام جاری رکھنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحافت کے انتہائی ناموافق حالات میں زمیندار نے مسلمانوں کی بیداری شعور میں اہم کردار کیا۔ مولانا ظفر علی خاں اپنے زمانے کے چوٹی کے مسلمان صحافیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کا شمار مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی اور داغ دہلوی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔انگریز دور میں سیاست کے میدان میں مختلف تحاریک، مزاحمتی سرگرمیوں کے علاوہ قلم کے ذریعے آزادی اور حقوق کی جنگ لڑنے کا سلسلہ جاری تھا اور اسی دوران مولانا ظفر علی خان آزادی بھی اپنے اداریوں اور مضامین کی وجہ سے معتوب ہوئے۔ انھیں اپنی تحریر و تقریر کی وجہ سے کئی مشکلات جھیلنا پڑیں اور ان کے اخبار زمیندار کو بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں تھا بلکہ مولانا نے متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔1934ء میں جب پنجاب حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کی تو مولانا ظفر علی خان جو اپنی جرات اور شاندار عزم کے مالک تھے انہوں نے حکومت پر مقدمہ کر دیا اور عدلیہ کے ذریعے حکومت کو اپنے احکامات واپس لینے پر مجبور کر دیا۔اس پر انہوں نے ایک نظم بھی لکھی، جس کا ایک شعر یہ ہے!یہ کل عرش اعظم سے تارا آ گیازمیندار ہو گا نہ تا حشر بندتری قدرت کاملہ کا یقیں مجھے میرے پروردگار آ گیامولانا ظفر علی خان ایک بہترین خطیب، باکمال شاعر اور انشا پرداز بھی تھے۔ ان کے اداریوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی اور ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کرتے تھے۔ ان کی متعدد تصانیف منظر عام پر آئیں جن میں نثری اور شعری مجموعے شامل ہیں۔مولانا ظفر علی خان صحافت، خطابت اور شاعری کے علاوہ ترجمہ میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے۔ حیدرآباد میں قیام کے دوران مولانا نے لارڈ کرزن کے انگریزی سفر نامہ ایران کا ترجمہ ''خیابان فارس‘‘ کے نام سے شائع کیا تو لارڈ کرزن نے سونے کے دستے والی چھڑی تحفہ مین پیش کی۔ اس کے علاوہ مولانا ظفر علی خان کے تراجم میں فسانہ لندن، سیر ظلمات اور معرکہ مذہب و سائنس بہت معروف ہوئے۔ انہوں نے ایک ڈرامہ ''جنگ روس و جاپان‘‘ بھی لکھا جبکہ شہرہ و آفاق جبکہ شہرہ و آفاق تخلیقات میں ''جسیات‘‘ اور ''بہارستان‘‘ نظموں کے مجموعے ہیں۔ ان کی شاعرانہ کاوشیں بہارستان، نگارستان اور چمنستان کی شکل میں چھپ چکی ہیں۔مولانا ظفر علی خان کا اسلوب منفرد تھا، ان کی تحریریں نثری ہوں یا شعری دونوں ہی ملی امنگوں کی ترجمان ہیں۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہلاتی ہیں۔ مولانا کی شاعری کی مختلف جہات ہیں۔ وہ فی البدیہہ شعر کہنے میں بھی ملکہ رکھتے تھے۔اُن کی شاعری میں حمد، نعت گوئی، حالاتِ حاضرہ کے مطابق شعر کہنا، وطن کی محبت میں شعر، اور انقلابی اشعار شامل ہیں۔ اُن کی شاعری کے چند نمونے ملاحظہ کیجئے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:بنائے اپنی حکمت سے زمین و آسماں تو نےدکھائے اپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تو نےتری صنعت کے سانچے میں ڈھلا ہے پیکرِ ہستیسمویا اپنے ہاتھوں سے مزاحِ جسم و جاں تو نےایک اور مقام پر عرض گزار ہیں:اب ہم سمجھے کہ شاہنشاہ مُلکِ لامکاں ہے توبنایا اک بشر کو سرورِ کون و مکاں تو نےمحمد مصطفیٰؐ کی رحمۃ اللعالمینی سے!بڑھائی یا رب اپنے لطف اور احساں کی شاں تو نےوہ اسلام کے سچے شیدائی، محب رسولﷺ اور اپنی نعت گوئی کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی اس نعت سے کون واقف نہیں ہے۔وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میںاِک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میںنبی آخر الزماں، ختم الرسل حضرت محمد ﷺ کی شانِ اقدس بیان کرنے والے عظیم شاعر، فلسفی، شعلہ بیاں مقرر، مصلحتوں پر سودا نہ کرنے والے، ارادوں کے پکے اور دھنی، فرنگی کو للکارنے، شیر کی طرح دھاڑنے، قلم سے تیغ کا کام لینے، شدھی اور سنگٹھن کی تحریکوں کے بخیے اْدھیڑنے اور دینِ اسلام اور آقائے دوجہاں کی حرمت پر مر مٹنے والے اپنی طرز کے یکتائے زمانہ صحافی مولانا ظفر علی خاں نے 27نومبر 1956ء کو اس دنیا فانی کا الوداع کہا، انہیں کریم آباد(وزیر آباد )میں دفن کیا گیا۔ صحافت اورنعت گوئی میں ان کا نام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ظفر کے قلم میں مصطفی کمال کی تلوار کا بانکپن ہے: اقبالؒان کی خدمات کے اعتراف کے لیے علامہ اقبال جیسی شخصیت کی یہ رائے ہی کافی ہے کہ''ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں۔ پنجاب کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولانا ظفر علی خاں نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برصغیر کی تمام قومی و ملکی تحریکیں ان کے عزم عمل کی مرہون منت نظر آئیں گی اور سیاسی و صحافتی شعر و ادب تو گویا انہی کی ذات سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے‘‘ 

کافی کہانی۔۔۔جادوئی مشروب ہم تک کیسے پہنچا؟

کافی کہانی۔۔۔جادوئی مشروب ہم تک کیسے پہنچا؟

بہت سے لوگ یہ مانیں گے کہ آجکل کافی ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی جزو ہے،مگر کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ''کافی ‘‘ اصل میں آئی کہاں سے ؟اس تحریر میں ہم اسی کا جائزہ لیں گے اور دنیا میں کافی کی سرگزشت اور روایت کا احاطہ کریں گے۔کافی کی حقیقت ،ایتھوپیا کا افسانہایتھوپیا کوکافی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے کی کافی کی سرگزشت کو گوگل کیا ہے تو آپ کو یہ مشہور کہانی ضرور ملے گی کہ کس طرح ایتھوپیا میں کلدی نامی ایک چرواہے نے 800 عیسوی کے قریب کافی تلاش کی تھی۔کہتے ہیں کہ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ تھا کہ اس نے انہیں عجیب و غریب سی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک درخت سے کچھ بیر جیسا پھل کھانے کے بعد توانا اور پرجوش ہو گئی تھیں۔کلدی نے خود بھی ان بیروں کا ذائقہ چکھا توخود بھی توانا محسوس کرنے لگا۔کلدی ان بیروں کو ایک راہب کے پاس لے کرگیا۔راہبوں نیاسے 'شیطان کا کام‘ قرار دے دیااور اُن بیروں کو آگ میں پھینک دیا۔ ایسا کرتے ہوئے بھینی بھینی اور خوش ذائقہ خوشبو آنے لگی تو ان بیروں کو آگ سے نکال کر انگاروں میں کچل دیا گیا۔ راہبوں نے کچلے ہوئے بیروں پر پانی چھڑکا توخوشبو کا احساس مزید زور پکڑ گیا تو راہب اس پانی کا ذائقہ چکھنے پر مجبور ہو گئے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا کیونکہ یہ سفوف ملا پانی جو دراصل کافی تھا، راہبوں کو رات کی عبادتوں اور دعاؤں کیلئے بیدار رہنے میں مدد دے رہا تھا۔مگریہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک حیرت انگیز افسانہ ہو کیونکہ کافی کی تاریخ کو اورمو/گال (Oromo/Galla)کے خانہ بدوش قبیلے سے بھی ملایا جاتا ہے۔کافی کا یمن سے آغاز؟کافی کی روایت میں یمن کے بارے بھی کچھ مشہور کہانیاں ہیں۔ کافی کی ابتدا کے بارے میں یمن کا سب سے مشہور افسانہ ایتھوپیا کی کہانی سے کچھ کچھ ملتا ہے۔وہ اس طرح کہ ایک یمنی صوفی ایتھوپیا کا سفر کر رہا تھا جہاں اسے کچھ بہت متحرک اور پرجوش پرندے دکھائی دیے جو ایک پودے سے پھل کھا رہے تھے۔ سفر کے تھکے ہوئے صوفی نے بھی ان بیروں کو کھانے کافیصلہ کیا اور اسے محسوس ہوا کہ ان سے خاصی توانائی ملتی ہے۔ تاہم عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی پھلیاں اصل میں ایتھوپیا سے یمن برآمد کی گئی تھیں۔ یمنی تاجر کافی کے پودوں کو اپنے وطن لائے اور وہاں ان کی کاشت شروع کی۔جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی ابتدا ایتھوپیا میں ہوئی تھی، یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 15 ویں صدی میں بحیرہ احمر کے پار شمال کی طرف یمن کی جانب اپنا راستہ بنایا اورپھر یہ یمنی علاقے میں بھی اگائی جانے لگی اور 16 ویں صدی تک یہ فارس، مصر، شام اور ترکی تک پہنچ چکی تھی ۔یہ مشروب چوکنا رہنے میں مدد کرنے کیلئے اپنی خصوصیات کیلئے بے حد مقبول ہوا، جس سے لوگوں کو روحانی معاملات اور دعا ؤںمیں زیادہ وقت لگانے کی آسانی بھی ملی۔دنیا کا پہلا کافی ہاؤس 1475 میں قسطنطنیہ(استنبول) میں کھولا گیا تھا۔ کافی روزانہ کے معمول کے طور پر گھر میں اور مہمان نوازی کیلئے پیش کی جانے لگی۔ بیرون ِخانہ لوگوں نے نہ صرف کافی پینے بلکہ گپ شپ، موسیقی ، شطرنج کھیلنے اور اطلاعات حاصل کرنے کیلئے کافی ہاؤسز کا دورہ کرنا شروع کر دیا۔ کافی ہاؤسز تیزی سے معلومات کے تبادلے اور حصول کا مرکز بن گئے۔ انہیں اکثر ''دانشمندوں کے مدرسے‘‘ کہا جاتا تھا۔کافی یورپ کیسے پہنچی ؟پھر کافی کی تاریخ کا رُخ بدلنا شروع ہوا۔دراصل اس مشروب نے یورپی مسافروں میں کافی مقبولیت حاصل کر لی تھی۔17ویں صدی تک کافی نے یورپ کا راستہ بنا لیا تھا اور پورے یورپی براعظم میں تیزی سے مقبول ہو رہی تھی۔یورپی کافی کی تاریخ اٹلی سے شروع ہوتی ہے جہاں اسے سلطنت ِعثمانیہ سے درآمد کیا گیا تھا۔وینس کے تاجروں نے یورپی علاقوں میں کافی کی وسیع پیمانے پر مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا اور 1645 میں وینس میں پہلا یورپی کافی ہاؤس کھولا گیا۔ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگلینڈ میں بھی کافی بہت مقبول ہوئی۔ انگلینڈ میں پہلا کافی ہاؤس 1651ء میں آکسفورڈ میں کھولا گیا۔ یہ کافی ہاؤسز صرف مردوں کیلئے ہوا کرتے تھے جہاں وہ کاروبار اور خبروں پر تبادلۂ خیال کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے کاروباری منصوبے اور آئیڈیاز لندن کے کافی ہاؤسز میں تخلیق ہوئے۔ اس کے بعد فرانس کے بادشاہ لوئس XIV کے دربار میں ترک سفیر سلیمان آغا نے 1669ء میں فرانس میں کافی متعارف کروائی۔ وہاں کافی کو ''جادوئی مشروب‘‘کا نام دیا گیا۔ دو سال بعد، 1671 میں پاسکل نامی ایک آرمینیائی باشندے نے سینٹ گرمین کے میلے میں کافی کا ڈھابہ کھولا۔ اگلے 30 سالوں میں کافی آسٹریا، جرمنی، سپین اور باقی یورپ میں ثقافتی مشرو ب بن چکی تھی۔ کافی کا بحر اوقیانوس کو عبور کرنا ورجینیا کی کالونی کے بانی کیپٹن جان سمتھ نے 1607 میں جیمز ٹاؤن کے دیگر آباد کاروں کو کافی متعارف کروائی۔ تاہم پہلے اسے خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا اور اس کے مقابلے میں چائے کو ترجیح دی گئی۔1670ء میں ڈوروتی جونز بوسٹن میں کافی فروخت کرنے کا لائسنس حاصل کرنے والی پہلی دکاندار تھیں۔ 1700ء کی دہائی کے وسط تک بہت سے شراب خانوں کو بھی کافی ہاؤس کہا جاتا تھا لیکن چائے اب بھی لوگوں کا پسندیدہ مشروب تھی۔ چائے پر زوال اُس وقت آ یا جب برطانیہ کے خلاف بغاوت کی وجہ سے اسے پینا غیر محب وطن ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا اور چائے سمندر میں پھینکی جانے لگی۔ اس کے بعد کافی تیزی سے مقبول ہوئی۔''نئی دنیا‘‘ کا گرم مرطوب موسم کافی کی کاشت کیلئے آئیڈئیل خیال کیاگیا اور کافی کے پودے تیزی سے پورے وسطی امریکہ میں پھیل گئے۔امریکہ میں کافی کی پہلی فصل کی چنائی 1726 میں ہوئی۔لاطینی امریکی ممالک میں بھی کافی کی کاشت کیلئے مثالی حالات تھے، جیسا کہ دھوپ اور بارش کا اچھا توازن اور مرطوب درجہ حرارت۔ اٹھارہویں صدی کے وسط تک لاطینی امریکہ کے ممالک جنگلات کو صاف کر کے کافی اگانے والے کچھ سرکردہ ممالک بن گئے۔ آج بھی برازیل دنیا کا سب سے بڑا کافی پروڈیوسر ہے۔