آداب مجلس سے بے اعتنائی !
ہمارے ہاں آداب مجلس سے بے اعتنائی اور بے نیازی کا رجحان خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے ہم نے زر کثیر خرچ کرکے کچھ ادب دوست احباب کی دعوت کی۔ اس کی تقریب ہم نے کچھ اور بتائی۔ اصل امر یہ تھا کہ ہم نے حال ہی میں کچھ تازہ غزلیں کہی ہیں جو ہماری ناقص رائے میں اردو ادب میں بیش بہا اضافے کا حکم رکھتی ہیں۔
آداب مجلس کی خلاف ورزی کا آغاز تو کھانے کے دوران ہی ہو گیا۔ کسی نے کہاکہ یہ مچھلی یا مگر مچھ؟ مرغی کے متعلق پوچھ رہا تھا کہ یہ شتر مرغ ہے کیا؟ محض اس لیے کہ پوری طرح نہ گلا تھا۔ بعضے کوفتوں کو کھا کر سی سی کرنے لگے کہ مار ڈالا، کتنی مرچیں جھونک دیں۔
اس کے مقابلے میں دیکھیے کہ ابھی پچھلے دنوں ہم نے ایک جرمن دوست اور ان کی بیگم کی دعوت کی تھی اور اس میں بھی مرچوں اور مصالحے کا تناسب یہی تھا۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور پانی بھی بار بار پیتے تھے لیکن جب پوچھا کہ کیا مرچیں لگ رہی ہیں تو بولے ''جی نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں، پاکستانی کھانے بہت عمدہ ہوتے ہیں‘‘۔ یہ ہوتے ہیں آداب۔
ہمارے ان مہمانوں نے روٹیوں کے جلنے اور گھی کے بناسپتی ہونے کی بھی شکایت کی اور کھیر کے تھوڑی ہونے ہونے کی بھی، حتیٰ کہ بعد میں فرمائش کی کہ کنجوسی مت کرو، آم منگاؤ اور ہمیں کھلاؤ۔ ہم ہنس ہنس کر طرح دیتے رہے جس پر ایک صاحب جزبز بھی ہوئے کہ کیا آپ ہماری باتوں کو مذاق جانتے ہیں جو یوں منہ کھول کر ہنسے جا رہے ہیں۔
خیر کھانا ختم ہوا۔ اب ہم منتظر تھے کہ کوئی صاحب کلام کی فرمائش کریں۔ فرمائش کرنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں، مثلاً کھانسنا، پہلو بدلنا، زیر لب گنگنانا یا حاضرین میں سے کسی سے کہنا کہ آپ آج کل کیا لکھ رہے ہیں۔ کوئی تازہ غزل وزل ہوئی؟ اس پر نکتہ سنج اور اشارہ فہم لوگ میزبان سے فوراً فرمائش کرتے ہیں کہ اچھا اب کچھ تازہ کلام عنایت ہو اور وہ کان پر ہاتھ رکھ کر رات بھر گاتا ہے۔ چونکہ آج کل اشارہ فہم لوگوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے لہٰذا زیادہ تجربہ کار شاعر میزبان اپنے ساتھ ایک بچہ جمورا رکھتے ہیں جو ایسے موقعوں پر یاد دلاتا ہے کہ حاضرین مجلس آپ کی تازہ غزلیں سننے کے مشتاق ہیں اصرار کیے جاتا ہے کہ اور سنائیے۔ فلاں غزل بھی سنیں گے، فلاں بھی، مکرر ارشاد وغیرہ۔
ہم نے ایک دو لطیف اشارے تو کیے، لیکن حضرات برابر بجٹ، مہنگائی، وزارتی تبدیلیوں، مسئلہ کشمیر وغیرہ کی بحثوں میں جٹے رہے اور خواتین ایک دوسرے کے غراروں اور دوپٹوں کے بھاؤ پوچھتی رہیں یا بندوں اور چوڑیوں کو ہاتھ لگا لگا کر جانچتی رہیں کہ واقعی سونے کی ہیں یا کہنے والی جھوٹ کہہ رہی ہے۔
آخر ہمارے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوا اور ہم نے دو تین جمائیاں لے کر کہا صاحبو نان کہ خوردی خانہ برد۔ اب جاؤ، رات کے بارہ بجے ہیں ہمیں سونا بھی ہے اور صبح صبح یہ کرسیاں اور برتن جو خاص اس دعوت کے لیے مستعار لیے گئے تھے، دھو دھا کر ہمسایوں کو واپس بھی کرنے ہیں۔