پہاڑ :زمین کا حسن اور میخیں !
اسپیشل فیچر
پہاڑ دنیا میں زمین پر خشکی کا پانچواں حصہ ہیں۔ دنیا میں80 فیصد تازہ پانی انہی پہاڑوں میںسے نکلتاہے جو میدانوں کو آباد و سیراب کرتاہے۔ پہاڑ معدنیات کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ دنیا میں کئی قسم کی معدنیات پہاڑوں ہی سے حاصل کی جاتی ہیں۔ پہاڑوں پر ان کے ماحول کے مطابق مختلف قسم کی جڑیں بوٹیاں پائی جاتی ہیں جو مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں۔ارشاد ربانی ہے : ''اور کیاہم نے پہاڑوں کو(زمین کی) میخیں نہیں بنایا؟ (سورۃ النبا:7)۔
وان انگلن(Van Anglin)نے اپنی تصنیف''Geomorphology‘‘ میں لکھا ہے کہ ''اب یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رو ئے زمین کے اوپر پہاڑ ایک جڑ کی طرح پایا جاتا ہے۔ زمینی پرت کے جمانے میں پہاڑوں کا کوئی نا کوئی کردار ضرورہے۔
جدید ماہرین ارضیات ہمیں بتاتے ہیں کہ زمین کا نصف قطر 6378کلو میٹر ہے ۔زمین کی سب سے باہری سطح ٹھنڈی ہے،لیکن اندرونی پرتیں ا نتہائی گرم اور پگھلی ہوئی حالت میںہیں،جہاں زندگی کا کوئی امکان موجود نہیںاوریہ کہ زمین کی سب سے بیرونی پرت جس پر ہم آباد ہیں ،نسبتاً انتہائی باریک ہے ۔ اس پر پہاڑوں کو میخوںکی طرح بنا دیا گیا تاکہ زمین کاتوازن برقراررہے اوریہ اپنی جگہ سے لڑھک نہ جائے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ''اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں ،شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کرلیں (الانبیاء)‘‘۔
پروفیسر سیاویدا نے سمندروں یا زمین کے اوپر پائے جانے والے تمام پہاڑوں کی شکل اورساخت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ میخ یا فانہ کی طرح کی ہوتی ہیں۔اسی طرح امریکہ کے ایک ماہر ارضیات ڈاکٹر فرینک پریس اپنی کتاب '''زمین‘‘ (جو یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے) میں لکھتے ہیں کہ پہاڑ مثلث نما ہوتے ہیں، زمین کے اندر گہرائی تک ان کی جڑیں ہوتی ہیں اور یہ کہ پہاڑ زمین کواستحکام فراہم کرتے ہیں۔
زمین پر پہاڑوں کو کسی خاص ترتیب اور حکمت سے پیدا کیا گیا ہے ۔ کہیں اونچے پہاڑ ہیں۔ کہیں بلندی کم ہے،کہیں سیدھے لمبے پہاڑ ہیں، ان کا پھیلائو کم ہے ، کہیں پھیلاؤ زیادہ ہے ۔ کہیں دور دور تک پہاڑوں کا نام ونشان ہی نہیں ملتا اور کہیں طویل ترین سلسلے پائے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ مالک و خالق نے زمین کے توازن کو قائم رکھنے کیلئے کیا ہے ۔
''پہاڑوں کاعالمی دن‘‘ (Mountain Day) پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 11 دسمبر کو منایا جاتا ہے ۔پہاڑوں کا عالمی دن منانے کا آغاز11 دسمبر 2002ء میں کیا گیا۔اس دن دنیا بھر میں پہاڑوں کی اہمیت ،ان کی حالت بہتر بنانے ،قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے ،آلودگی سے بچائو جیسے خصوصی اقدامات پر زور دیا جاتا ہے۔ یعنی عوام میں پہاڑوں کا قدرتی حسن برقرار رکھنے کے لئے اقدامات کا شعور اجاگرکرنا اس دن کو منانے کا مقصد ہے ۔
پاکستان میں 5 ایسی بلند وبالا چوٹیاں ہیں جن کی بلندی 26 ہزار فٹ سے زائد ہے جبکہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ''کے 2‘‘ اور نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت بھی پاکستان میں واقع ہے۔کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول نیپال کی ماؤنٹ ایورسٹ موجود ہیں۔دنیا کی 8 ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔
سلسلہ کوہ قراقرم پاکستان، چین اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں واقع ہے۔ یہ دنیا کے چند بڑے پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے۔ قراقرم ترک زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کالی بھربھری مٹی ہے۔
''کے ٹو‘‘ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کی لمبائی 8 ہزار 6 سو 11 میٹر ہے۔ بے شمار ناکام کوششوں اور مہمات کے بعد 1954 ء میں اس پہاڑ کو سر کرنے کی اطالوی مہم بالآخر کامیاب ہوئی۔ جس کے بعد اب تک سیکڑوں بار اسے سر کیا جا چکا ہے۔
نانگا پربت دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری سب سے بلند چوٹی ہے۔ اس کی اونچائی 8 ہزار 125 میٹر ہے۔ اسے دنیا کا قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔اس کو سر کرنے میں سب سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ نانگا پربت کو سب سے پہلے ایک جرمن کوہ پیما ہرمن بہل نے 1953 ء میں سر کیا۔سلسلہ کوہ ہندوکش شمالی پاکستان کے ضلع چترال اور افغانستان کا اہم پہاڑی سلسلہ ہے۔
ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی ''ترچ میر‘‘ چترال پاکستان میں ہے۔ اس کی بلندی 7 ہزار 708 میٹر ہے۔صوبہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر واقع کیر تھر کا پہاڑی سلسلہ حسین قدرتی مناظر کا مجموعہ اور نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے۔ صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں واقع کارونجھر کے پہاڑ بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔