دلاورفگار:ایک ظرافتی عہد
اسپیشل فیچر
ہنسنا مسکرانا ایک بہت بڑی نعمت ہے جبکہ دوسروں کو ہنسانا اس نعمت کا درجہ کمال ہے۔ پھر شاعری کی زبان میں عوام الناس کیلئے مسکراہٹوں کا سامان کرنا، ایک عطا ہے۔ یہ وہ مقامِ بلند ہے جس پر گنے چنے افراد ہی فائز کیے جاتے ہیں۔ ان میں ایک نمایاں نام ''شہنشاہ ظرافت، اکبر ثانی، دلاور فگار‘‘ہے۔ یہ اعزاز پانے کیلئے ایک فنکار کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اس کی ترجمانی وہ یوں کرتے ہیں:
جادہ فن میں بڑے سخت مقام آتے ہیں
مر کے رہ جاتا ہے فنکار امر ہونے تک
چند ذروں کو ہی ملتی ہے ضیائے خورشید
چاند تارے ہی چمکتے ہیں سحر ہونے تک
دلاور فگار کا اصل نام دلاور حسین تھا۔ وہ بھارتی صوبے اتر پردیش کے قصبے بدایوں میں جولائی 1928ء کو پیدا ہوئے۔ ان کاخاندان علاقے میں معزز جانا جاتا تھا۔ فگار نے ابتدائی تعلیم مقامی سکول میں حاصل کی۔ اس وقت بدایوں میں مشاعروں کا رواج تھا۔ قریب قریب تمام طالب علم ہی طبع آزمائی میں مصروف نظر آتے۔ فگار کا رجحان بھی شاعری کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کافی اساتذہ سے فیض علم حاصل کیا۔ جن میں مولانا جامی، آفتاب احمد جوہر ،جام نوائی اور سبطین احمد شامل ہیں۔ فگار نے آگرہ یونیورسٹی سے انگلش، معاشیات اور اردو میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔
انہوں نے شاعری کے سفر کا آغاز سنجیدہ شاعری سے کیا اور نعتیہ کلام بھی لکھا مگر ان کی شہرت کی وجہ مزاحیہ شاعری بنی۔ 1956ء میں طویل نظم ''بو قلموں کی ممبری‘‘ پہلی کامیاب مزاحیہ نظم ٹھہری۔ 1963ء مزاحیہ و طنز یہ، قطعات اور نظموں کا پہلا مجموعہ''ستم ظریفیاں‘‘ شائع ہوا۔ اسی دور میں آپ کی نظم ''شاعر اعظم‘‘ مشہور ہوئی۔ 1964ء میں دوسرا مجموعہ ''شامت اعمال‘‘ منظر عام پر آگیا۔ اتر پردیش حکومت نے اسے انعام کا مستحق قرار دیا۔ اب تک فگار اردو کے تمام عالمی حلقوں میں شہرت پا چکے تھے۔ 1968ء میں انھوں نے پاکستان کے شہر کراچی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ دسمبر 1970ء میں نظم ''اپنا ووٹ کس کو دوں‘‘نے آپ کو پاکستان میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ انہوں نے اردو ادب کو قابل قدر مزاحیہ شعری مجموعے دیے۔ جن میں '' انگلیاں فگار اپنی، ستم ظریفیاں، آداب عرض، شامت اعمال، مطلع عرض ہے، سنچری، خدا جھوٹ نہ بلوائے، چراغ خنداں اور کہا سنا معاف‘‘ شامل ہیں۔
فگار نے اردو ادب کو ایک نئی جہت سے متعارف کروایا۔ انہوں نے ابتدال سے دامن بچاتے ہوئے معیاری ظرافت نگاری کی اور شائستگی کو ملحوظ خاطر رکھا۔ انھوں نے دائرہ اردو ادب کو ادب کی حدود میں رہتے ہوئے ادبی طنز و مزاح سے وسعت دی تو ''اکبر ثانی‘‘ کہلائے اور ''شہنشاہ ظرافت‘‘ کا لقب پایا۔ ان کے فن کی پختگی درج ذیل اشعار سے بھی واضح ہوتی ہے۔
حاکم رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
میں بتاؤں تجھ کو تدبیر رہائی، مجھ سے پوچھ
لیکے رشوت پھنس گیا ہے، دیکے رشوت چھوٹ جا
فگار ذہین اور زودگو آدمی تھے، ذرا سی دیر میں درجنوں شعر کہہ دیتے تھے۔ ان کو زندگی کے سنجیدہ پہلووں سے بھی مزاح کشید کر لینے کا فن آتا تھا۔ دیکھئے انسانی تنزلی کو کس خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں۔
ناپ کر دیکھا تو قد میں درازی آ گئی
تول کر دیکھا تو انسان آدھا رہ گیا
وہ سمجھتا تھا کہ یہ بھی اشرف المخلوق ہے
انسان کو دیکھ کر شیطان آدھا رہ گیا
بھارت میں وہ شعبہ تدریس سے وابستہ رہے اور پاکستان آکر کراچی کے عبداللہ ہارون کالج لیاری میں بطور اردو لیکچرار وابستہ ہوگئے۔ اس ادارے کے پرنسپل فیض صاحب تھے۔ مختلف اخبارات کیلئے بھی لکھتے رہے۔ کچھ عرصہ بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ (کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی) اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ وہ روپے پیسے کو جوڑ جوڑ کر رکھنے کے عادی نہ تھے۔ ان کا ہاتھ کشادہ تھا اس لیے کوئی جائیداد نہ بنا سکے بلکہ آخری دم تک دو کمروں پر مشتمل ایک مکان میں رہے۔ وہ سڑک جو ان کے گھر کو جاتی تھی اس پر اکثر چہل قدمی کیا کرتے تھے۔ اس نسبت سے اسے آج''دلاور فگار روڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی وفات کے بعد حکومت کی طرف سے انہیں ''صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ عطا کیا گیا۔ان کے جسد خاکی کو پاپوش نگر کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ مشاہیر اردو ادب کے درمیان آپ وہ پھول ہیں جس کے ساتھ کانٹے نہیں۔ آپ کے اشعار آج بھی لطف اور تازگی میں بھرپور ہیں۔ تعلیمی اداروں میں انگلش کو اردو پر قابض ہوتا دیکھ کر یوں فرماتے ہیں۔
کل یونیورسٹی میں کسی سوٹ پوش سے
میں نے کہا کہ آپ ہیں کیا کوئی سارجنٹ؟
کہنے لگے جناب سے مسٹیک ہو گئی !
آئی ایم دی ہیڈ آف دی اردو ڈیپارٹمنٹ
اردو شاعری میں طنز و مزاح کی روایت بہت قدیم ہے۔ فگار نے اس گلدستے میں نئی خوشبو کا اضافہ کر کے اسے مزید استحکام بخشا ہے۔ وہ انسانی زندگی کو گھر سے لے کر قبر تک بلکہ یوں کہیے کہ قبر میں اترنے کے بعد تک کے مناظر کو جس خوبصورتی اور شگفتگی سے بیان کرتے ہیں، اردو ادب میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ وہ سیاسی نا چاقیوں، گھریلو الجھنوں، شاعروں کی پریشانیوں اور زندگی کی نا ہمواریوں کو شائستہ اور مزاحیہ پیرائے میں اتار لینے کے ماہر تھے۔ انہوں نے کئی ایک کامیاب پیروڈیاں بھی لکھیں اور خوب داد سمیٹی۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی کھیل میں غارت ہو خدایا میری
فلم میں میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
متوجہ میری جانب ''مدھو بالا‘‘ہو جائے
وہ کتابوں کو ساتھ لگائے رکھتے تھے۔ گویا مطالعہ ان کی فطرت ثانیہ تھی۔ مشاعرے میں اپنا کلام تحت اللفظ پڑھتے تھے اور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے تھے۔ ان کے قلم نے کئی لازوال نظموں کو جنم دیا۔ جن میں ''گدھے کا قتل، کرکٹ اور مشاعرہ، کراچی کا قبرستان، شاعر اعظم اور عشق کا پرچہ‘‘ شامل ہیں۔ وہ زندگی کی سنجیدگی اور روکھے پن کے درمیاں سے طنز و مزاح کی راہ نکال لیتے تھے۔ یہ انہی کا خاصہ تھا۔ ان کا دور بلاشبہ ''ظرافتی عہد‘‘ کہلانے کا مستحق ہے۔
انھوں نے مشاعروں میں شرکت کیلئے کئی ممالک کے سفر کئے۔ محتلف شعرا اور مشاعروں کے حال احوال پر بہت کچھ لکھا۔ اس حوالے سے ان کی نظم ''مشاعرہ اور کرکٹ میچ‘‘ کا یہ خوبصورت شعر:
میرے خیال کو اہل نظر کریں گے کیچ
مشاعرہ بھی ہے اک طرح کا کرکٹ میچ