عظیم ناول نگار بانو قدسیہ
اسپیشل فیچر
اردو ادب کی بے مثال مصنفہ، یادگار ڈراموں کی تخلیق کار، بانو قدسیہ کی آج ساتویں برسی ہے،حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ''ستارہ امتیاز‘‘ اور ''ہلال امتیاز ‘‘سے نوازا۔بانو قدسیہ نے افسانوں، ناولز، ٹی وی ا و رریڈیو ڈراموں سمیت نثر کی ہر صنف میں قسمت آزمائی کی اور انہوں نے جو لکھا امر ہو گیا۔ اردو ناول میں قرۃ العین حیدر کے بعد جس خاتون نے فکشن میں نام کمایاوہ بانو قدسیہ ہیں۔ انہوں نے ناول کو نئی جہت اور نئے زاویے عطا کیے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ شخصیت کے اعتبار سے وہ بہت سادہ، مشفق اور پر خلوص عورت تھیں۔
بانوقدسیہ 28نومبر 1928ء کو فیروز پور، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔پاکستان بننے کے بعد عزیز و اقارب کے ساتھ پاکستان کی طرف ہجرت فرمائی۔ کنیئرڈ کالج برائے خواتین لاہورسے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن کیا اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے 1951ء میں نمایاں نمبروں سے ایم اے اردو پاس کیا۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لکھتی رہیں۔ان کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں نے بہت شہرت پائی۔
اپنے ادبی سفر کے حوالے سے بانو قدسیہ کا کہنا تھا کہ میں نے پانچویں جماعت میں ایک چھوٹا سا ڈرامہ لکھا تھا اس کے بعد افسانہ نگاری کا شوق اور مشق جاری رہی لیکن سب ردی کی ٹوکری کی خوراک بنتے رہے۔ 1950ء کے بعد انہوں نے باقاعدہ افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ 1956ء میں ان کا پہلا افسانہ ''واماندگئی شوق‘‘ ادب لطیف میں شائع ہوا۔ اردو افسانے میں ان کی شہرت کا آغاز ان کے افسانے ''کلو‘‘ سے ہوا۔ یہ موضوع، پلاٹ اور کردار کے اعتبار سے ایک منفرد افسانہ ہے۔ بانو قدسیہ نے دلکش اور موثر پیرائے میں اس افسانے کو بیان کیا اور قارئین نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی ان کے دل میں ہے۔ بانو قدسیہ کا پہلا افسانوں کا مجموعہ'' شیش محل‘‘تھا۔ جس میں مندرجہ ذیل افسانے ''کاغذی ہے پیراہن، بیوگی کا داغ، بازگشت، جٹ بکرا فقیر، مجازی خدا، باپ پرست، دانت کا دستہ، چابی، فلورا اور فریدہ، نیلوفر‘‘شامل تھے۔
ان کا دوسرا افسانہ کا مجموعہ ''امربیل‘‘ 1975ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ان کے کل دس افسانے شامل ہیں جن کے نام یہ ہیں۔ ہو نقش اگر باطل، سوغات، کتنے سو سال، سامان شیون، اسنون جل سینچ سینچ، موج محیط آب میں، مجازی خدا، سمجھوتہ، ناخواندہ، امربیل۔ ان کا تیسرا افسانوں کا مجموعہ ''کچھ اور نہیں‘‘ ہے۔ جس میں کل نو افسانے شامل ہیں۔ توجہ کی طالب، کلو، کال کلیجی، یہ رشتہ یہ پیوند، بکری اور چرواہا، انتر ہوت اداسی، کر کلی، مراجعت، ایک اور ایک۔ ان کا چوتھا افسانوں کا مجموعہ ''ناقابل ذکر‘‘ ہے۔ ان کا پانچواں افسانوں کا مجموعہ ''آتش زیرپا‘‘ ہے۔ افسانوں کے علاوہ انہوں نے چار ناولٹ بھی لکھے۔ ایک دن، موم کی گلیاں، پروا، شہر بے مثال، ان چاروں ناولوں کا مجموعہ ''چہار چمن‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔بانو قدسیہ نے 27 کے قریب ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں 2003ء میں ''ستارہ امتیاز‘‘ اور 2010ء میں ''ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انہیں کئی ایوارڈ ملے۔
بانو قدسیہ نے ناول کو سادہ اور جدید وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے انگریزی زبان کے الفاظ کی اردو میں آمیزش بھی کی، جو آج کا رواج ہے۔ ان کے ناول میں انگریزی الفاظ کا بکثرت استعمال ملتا ہے، جو تعلیم یافتہ اور اعلیٰ طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے حقیقت کا رنگ بھرنے اور کہانی میں ماحول کی آبیاری کیلئے انتہائی ضروری تصور کی جاتی ہے۔بانو قدسیہ نے عورت کے ساتھ ساتھ مرد کی نفسیات کے بارے میں بھی لکھا ہے ۔ان کی فکر، مختلف موضوعات اور ان کی کئی کئی جہات، حقیقت پسندانہ تخیل اور سوچ کی سادگی قاری کو اپنے قریب لے جاتی ہے ۔
ان کے افسانوں میں معاشرتی شعور کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بصیرت اور متصوفانہ رنگ کی جھلک بھی ہے۔ ان کے افسانوں میں کہیں کہیں بے باک دہقانیت بھی ملتی ہے جو عریانی کو فحش نہیں ہونے دیتی۔ انھوں نے اشیا افراد اور محسوسات کے باطن میں جھانک کر اپنے عہد کے معنی دریافت کرنے کی کوشش کی۔ ان کے افسانوں میں طبقاتی کشمکش، معاشرتی رسم و رواج، نوجوان نسل کی بے راہ روی اور ان کے ذہنی مسائل، محبت، جنس، عورت کا احساس محرومی اور ان کا عدم تحفظ کا احساس، خوف اور ازدواجی تعلقات اور رشتوں جیسے اہم موضوعات کی عکاسی نظر آتی ہے۔ ان کا انداز بیاں سادہ، سلیس اور رواں ہے اور کرداروں کا لب و لہجہ اپنے ماحول سے مطابقت رکھتا ہے۔ بانو قدسیہ کے افسانوں کے مکالمے ایک خاص قسم کا تاثر پیدا کرتے ہیں ، یہاں ان کے افسانوں کے کچھ جملے درج ذیل ہیں جس سے بانو کے اسلوب کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
بانو قدسیہ نے ایک روائتی مشرقی ملنسار اور محبت و احترام کے رشتوں میں گندھی ہوئی بیوی کا ثبوت دیا ہے ۔ وہ اس بات کا برملا اظہار کرتی ہیں کہ ان کا پہلا اور آخری ادبی حوالہ ان کے شوہر نامدار اشفاق احمد ہیں۔اس احسان مندی پر وہ اپنی عمر کے آخری دن تک قائم رہیں۔وہ انہیں شادی کے بعد شوہر نہیں بلکہ استاد جی کہتی ہوئی نظر آئیں۔ وہ خود اعتراف کرتی ہیں :''میرا ادیب ہونا اچنبھے کی بات ہے۔37 سال سے لکھ رہی ہوںاور جب بھی لکھنا شروع کرتی ہوں تو مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ میں ایک ڈیڑھ صفحہ سے زائدہ نہ لکھ پائوں گی۔ لیکن ڈرامہ یا افسانہ لکھا جاتا ہے۔ اور بات بن جاتی ہے۔ اشفاق احمد نے بطور استاد میری بڑی مدد کی اور رہنمائی بھی۔ورنہ شائد میں ایسے افسانے لکھتی جو عام خواتین لکھتی ہیں۔ اشفاق صاحب نے استاد کی حیثیت سے مجھے لکھنے کی تکنیک سمجھائی اور میں ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلی‘‘ ۔
وہ 4 فروری2017ء کو 88سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ وہ ماڈل ٹائون لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔
٭٭٭٭٭٭