نعت کی صنف آغاز اور عروج
اسپیشل فیچر
نعت عالمی ادب کی سب سے مبارک، مفید اور کار آمد صنف سخن ہے۔ اگر کوئی شخص صرف ایک صنف سے شعر و شاعری کے تمام اشکال و ہئیات سے آگاہی چاہتا ہے تو اس کو یہ آگاہی اسی صنف نعت سے حاصل ہو سکتی ہے۔ نعت کا یہ ایسا امتیازی وصف ہے جس میں کوئی دوسری صنف اس کی شریک نہیں ہے۔
نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی عرب کی مقدس سرزمین میں ولادت باسعادت پذیر ہوئی اور وہیں آپ ﷺ کے کمالات، عادات و اطوار اور خصائل و شمائل منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوئے۔ اس لئے نعت کا آغاز عرب میں ہوا۔ دنیائے ادب کی پہلی نعت اس وقت معرض وجود میں آئی جب کفار قریش نے حضرت ابو طالب سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنے بھتیجے کو ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ اپنے انتقام کی آگ سرد کر لیں۔ حضرت ابو طالب نے اپنے پیارے بھتیجے کی مدافعت میں چند نعتیں کہیں جن سے انہوں نے قریش کے دیگر قبائل کے مقابلہ میں بنو ہاشم کو یکجا کرنے کا کام لیا۔ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی کو گل سر سبد قریش قرار دیااور ان کو مخاطب کرکے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ ''بیت اللہ کی قسم! تم غلط سمجھ رہے ہو کہ محمد ﷺ کو ہم مغلوب ہونے دیں گے حالانکہ ہم نے ابھی مدافعانہ جنگ نہیں کی اور نہ زور آزمائی کی ہے‘‘۔ حضرت ابو طالب کو آپﷺ سے مثالی محبت تھی۔ اس لئے آپ کے نعتیہ قصائد، عقیدت، خلوص اور شفتگی میں ڈوبے ہوئے ہیں، ان میں افادت و مقصدیت روح کی طرح جاری و ساری ہے۔
عربی کے متقدمین شعراء نے نعتیہ شاعری میں اپنے جوہر خوب دکھائے۔ نصرت دین، اشاعت مذہب، اعلاء کلمہ اللہ اس دور کی نعتیہ شاعری کے خاص موضوعات تھے۔ شعراء نے اس ضمن میں نبی اکرم ﷺ کے اوصاف و خصائل اور آپﷺ کے معنوی احسانات کو بھی واضح موضوع بنایا تھا۔ متاخرین نے اسلامی تہذیب و تمدن کے مائل بہ زوال ہو جانے پر جذبات شفتگی کے اظہار کیلئے نعت کا سہارا لیا۔ اس دور کی شاعری میں رقت، سوز و گداز اور جذباتِ عشق کا والہانہ اظہار ہے۔
فارسی کے نعت گو شعراء نے نعت کے دامن کو بہت وسعت دی۔ انہوں نے شاعری کی اس صنف میں آپﷺ کی ذات، صفات، متعلقات و منسلکات کے ساتھ آپﷺ کے عطیات و احسانات اور اس کے عالمی نتائج و عواقب پر روشنی ڈالی۔ اسی طرح نعت میں متصوفانہ خیالات، اخوت، بھائی چارہ، میل ملاپ، امن و آشتی کے پیغامات اور فلسفہ وسائنس کے مفید اضافے کئے گئے۔ فارسی ادب فردوسی سے لے کر آج تک کے شعراء نے نعت کہنا اپنے لئے باعث اعزاز جانا۔ سنائی کی شاعری میں مسائل تصوف کا بیان ہے۔ اس کی نعتیہ شاعری میں منظر نگاری، جذبات نگاری اور مرقع نگاری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ خاقانی نے اپنی نعتوں میں مقامی رنگ، عصری ماحول اور سوانح حیاتی عناصر کو بیان کیا۔ اس کی نعتیں بے مثال شعریت سے معمور ہیں۔ خاقانی کے عہد میں نعت نے ایک مستقل صنف سخن کی حیثیت اختیار کرلی۔
نظامیؔ نے اپنی نعتوں میں شیریں کلامی اور نزاکت تخیل کو خاصی اہمیت دی۔ اس نے نعت کے ذریعہ امت مسلمہ کے ادبار کا دل آویز نقشہ کھینچ کر مسلمانوں کی پستی پر آنسو بہائے ہیں۔رومی نے معجزات نبویہ کے سہارے عرفانی مسائل بیان کئے۔ عراقی کے یہاں پر وقار محتاط اور سنجیدہ لہجے کو خاص اہمیت دی گئی۔ اس نے صیغۂ متکلم میں کافی اچھی اور کافی موجب نعتیں لکھی ہیں۔ سعدی نے سادگی اظہار، ملاحت اور لطافت کو خاص اہمیت دی۔ جامی نے نعت کو معراج کمال پر پہنچا دیا۔ اس نے اپنی نعتوں میں مثالی درد اور اثر کا مزاج ڈالا۔قدسی نے تغزل اور قاآنی نے موسیقیت کے مفید اضافے کئے۔ فارسی کے ہندوستانی شعرائے نعت میں خسرو نے شاعرانہ توجیہات، عرنیؔ نے آداب نعت، فیضی نے مضمون آفرینی اور اقبالؒ نے فلسفہ اور سائنس داخل کرکے نعت میں بیکراں وسعت پیدا کر دی۔گرمئی جذبات ،شفتگی، خلوص اور وارفتگی عشق میں ایران کی نعتیہ شاعری، عرب کی نعتیہ شاعری کے مقابلے میں کافی وزنی ہے۔
ہندو عرب کے روابط قدیم زمانے سے چلے آ رہے ہیں۔ نبی کریم ﷺکی پیدائش سے قبل کے عربی ادب میں ہندوستان کا تذکرہ ملتا ہے۔ کعب ابن زہیر کے قصیدے کے اس شعر میں جس میں پیغمبر اسلامﷺ نے ان کو اپنی چادر مرحمت فرمائی تھی۔ نبی اکرم ﷺ کو ہندوستانی تلوار سے تشبیہ دی گئی ہے، لیکن ہندوستانی ادب، عربی و ایرانی ادب سے اس وقت تیزی سے متاثر ہونے لگا، جب ان دونوں خطوں کے مسلمانوں نے ہندوستاں پر حملے کئے اور یہاں بودوباش اختیار کی۔ مسلم صوفیائے کرام نے اصلاحی مشن چلائے اور رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کو نمونہ بنا کر آدمیت کو انسانیت میں متبدل کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔
صوفی دلوں کو سدھارتا ہے۔ وہ ظاہر کے مقابلہ میں باطن کو ترجیح دیتا ہے۔ عوام تک اپنی بات پہنچانے کے لئے انہیں عوام کی زبان سیکھنی پڑتی ہے۔ اسی لئے جتنے بھی صوفیائے عظام باہر سے ہندوستان تشریف لائے یا یہیں متولد ہوئے، انہیں یہیں کی بولیوں کو عوام سے بات چیت کا ذریعہ بنانا پڑا حالانکہ ان میں سے اکثر کو عربی و فارسی زبانوں میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ یہ حضرات حضور اکرم ﷺ سے والہانہ شفتگی اور عقیدت رکھتے تھے اور آپﷺ ہی کے سانچے میں اپنی زندگی ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ اللہ والے لوگ عالم انسانیت کو قعر ظلمت سے نکالنے کے لئے علاقائی زبانوں کو ذریعہ ابلاغ و تبلیغ بناتے تھے چنانچہ ان صوفیائے کرام نے مقامی زبانوں میں آنحضرت ﷺ کی پرخلوص نعتیں کہیں۔یمنی دور کے سید محمد حسینی گیسودراز کے کلام میں روح ِنعت ہر جگہ رواں دواں ہے۔ انہوں نے متصوفانہ خیالات کے مابین خالص نعتیہ اشعار کہے ہیں۔پندرہویں صدی عیسوی کے عہد آفریں شاعر فخر دین نظامی کی شخصیت اردو نعت کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ اس نے اپنی تصنانیف میں عربی و فارسی کے الفاظ کے بجائے سنسکرت ،پر اکرت اور علاقائی زبانوں کے الفاظ بکثرت استعمال کئے ہیں۔