مغل بادشاہوں کی تاج پوشیاں
اسپیشل فیچر
مغل بادشاہوں کی تخت نشینی کی تقریبات انتہائی شاندار ہوتی تھیں۔زیر نظر مضمون میں چند مغل بادشاہوں بابر، ہمایوں، اکبر اور جہانگیر کی تاجپوشی کی تقریبات کا ذکر کیا جائے گا۔
بابر کی تخت نشینی
ابراہیم لودھی کو شکست دے کر بابردہلی اور آگرہ بہت سادگی کے ساتھ آیا۔ پانی پت کی فتح کے بعد وہ خود لکھتا ہے کہ ہمایوں مرزا خواجہ کلاں، محمدی، شاہ منصور، برلاس، یونس علی، عبداللہ اور ولی خازن کو حکم دیا کہ ابھی جا کر آگرہ پر قبضہ کر لو اور خزانے ضبط کر لو۔ مہدی خواجہ، محمد سلطان مرزا، عادل سلطان، جنید برلاس اور قتلق قدم کو حکم دیا کہ پھر سے علیحدہ ہو کر فوراً دہلی چلے جائو اور وہاں کے خزانے کی حفاظت کروَ دوسرے دن ہم کوس بھر چلے، گھوڑوں کو آسائش دینے کیلئے جمنا کے کنارے ڈیرے کئے، پھر دو منزل چل کر سہ شنبہ (منگل)کو دہلی میں داخل ہوئے۔
پہلے حضرت شیخ نظام الدین اولیا قدس سرہ کے مزار کی زیارت کی، دہلی کے قریب جمنا کے کنارے پر اترے، بدھ کی رات کو دہلی کے قلعہ کی سیر کر کے رات وہیں گزاری، صبح حضرت خواجہ قطب الدین قدس سرہ کے مزار مبارک کی زیارت سے مشرف ہوا۔ سلطان غیاث الدین بلبن، سلطان علاء الدین خلجی کے مقبروں، عمارتوں، لاٹھ، شمسی تالاب، حوض خاص، مقبرہ سلطان سکندر اور باغ کی سیر کی۔ سیر کرکے کشتی میں بیٹھ کر عرق پیا، ولی بیگ فرملی کو دلی کا صوبہ دار اور دولت بیگ کو دلی کا دیوان مقرر کیا، خزانوں پر مہریں لگا کر ان کے سپرد کر دیا۔ جمعرات کو دلی سے کوچ کیا اور تغلق آباد کے قریب جمنا کے کنارے پر لشکر اترا، جمعہ کے دن یہاں قیام ہوا، مولانا محمود اور شیخ زین وغیرہ یہاں سے شہر گئے۔دلی کی جامع مسجد میں انہوں نے جمعہ کی نماز پڑھی، میرے نام کا خطبہ پڑھوایا گیا اور فقراء کو بہت سا روپیہ تقسیم کرکے واپس آئے۔ ہفتہ کو اس منزل سے چلے، میں نے تغلق آباد کی سیر کی، کوچ در کوچ آگرہ چلے گئے۔
جمعہ کے دن بائیسویں رجب کو نواح آگرہ میں پہنچے اور سلیمان فرملی کے مکان میں اترنا ہوا، یہ مقام شہر سے بہت دور ہے، صبح یہاں سے جلال خاں جگہت کے محلوں میں جا ٹھہرے ہمایوں وغیرہ پہلے سے آگئے تھے۔ قلعہ والوں نے قبضہ دینے میں حیلے حوالے کئے، ان کی تادیب کیلئے کچھ لوگ بھیجے گئے جنہوں نے ان کے جرائم معاف کر دیئے۔ سلطان ابراہیم کی مان کو سات لاکھ نقد کا پرگنہ عنایت کیا اور رہنے کو آگرہ سے کوس بھر کے فاصلہ پر دریا کے اس طرف ایک مکان دیا۔ رجب کی 27ویں تاریخ ہفتہ کے دن دوپہر کو شہر آگرہ میں داخل ہوا اور سلطان ابراہیم کے محل میں اترا۔
ہمایوں کی تخت نشینی
ہمایوں33سال کا تھا کہ بابر کی وفات کے بعد دہلی میں دسمبر1530ء میں تخت پر بیٹھا، دیرینہ روایت کے مطابق آگرہ کو سجا کر ''رشک عالم‘‘ بنایا گیا، ایک کشتی میں بھر کر سونا تقسیم کیا گیا۔ اس لئے تخت نشینی کی تاریخ کشتی زر سے نکالی گئی۔ اس موقع پر ہمایوں نے اپنے بھائی ہندال کو میوات کی جاگیر دی، مرزا کامران کو پنجاب، کابل اور قندھار دیا، مرزا عسکری کو سنبھل دیا، امراء کو بھی جاگیریں دی گئیں۔ خزانے میں روپے کی کمی نہ تھی، اس لئے بڑی فیاضی سے روپے انعام میں تقسیم کئے گئے۔
اکبر کی تاج پوشی
بادشاہ اکبر اپنے اتالیق خان خاناں بیرم خان کے ساتھ ایک فوجی مہم میں کلانور ضلع گورداس پور میں تھا کہ اس کو وہیں ہمایوں کی وفات کی خبر ملی۔ بیرم خان نے دوراندیشی سے کام لیا اور اس کی تاج پوشی کلانور کے ایک باغ میں کرا دی۔ اس موقع کیلئے اینٹوں کا ایک تخت بنایا گیا جو اٹھارہ فٹ لمبا اور تین فٹ اونچا تھا، یہ 963ھ (بمطابق 1556ء) کا واقعہ تھا، جبکہ اکبر کی عمر صرف چودہ سال کی تھی۔
جہانگیر کی تخت نشینی
اکبر کی وفات پر سات دن تک سوگ منایا گیا، اس کے بعد24اکتوبر1605ء (بمطابق1014ھ) میں تخت نشیں ہوا، اس وقت اس کی عمر36سال کی تھی۔ اقبال نامۂ جہاں گیری کے مولف کا بیان ہے کہ گیارہ جمادی الثانی 1014ھ کے دن نجومیوں کے مشورہ سے نیک ساعت دیکھ کردارالخلافت اکبر آباد میں تخت نشینی کی رسم ادا کی گئی۔
جہانگیر کے نام کا خطبہ پڑھایا گیا اور خطیب کی زبان سے القاب شاہی ادا ہوتے ہی ڈھیروں زر و گوہر نچھاور کئے گئے۔ امراء کو بڑے بڑے عہدے اور مناصب دیئے گئے۔ خواجہ عبدالصمد شیریں قلم کا لڑکا شریف امیر الامرا کے خطاب سے نوازا گیا اور وہ وکیل السلطنت بنا۔ خود جہانگیر نے مہر اشرف اوزک کو قیمتی جواہرات سے آراستہ کرکے اس کی گردن میں ڈال دی۔ یہ وکیل السلطنت کی مہر تھی، مرزا جان بیگ کو وزیر الملک کا خطاب عنایت ہوا، مرزا غیاث بیگ کو اعتماد الدولہ کا خطاب ملا اور شیخ فرید بخاری کو میر بخشی کے عہدہ پر مامور کر کے پنج ہزاری منصب عطا ہوا۔ راجہ مان سنگھ کو چار قب، شمشیر مرصع اور اسپ خاصہ کے ساتھ خلعت فاخرہ عطا کیا گیا اور بنگال کی صوبیداری دی گئی۔ اسی طرح اور امراء بھی نوازے گئے۔
یہ جشن دستور کے مطابق محل کو گراں بہا پردوں اور انواع و اقسام کی آرائشوں سے زینت دے کر منایا گیا۔ جہانگیر نے اس موقع پر یہ بھی اعلان کیا کہ قلعہ کے برج میں ایک زنجیر عدالت آویزاں کی جائے تاکہ جو مظلوم شاہی دربار تک نہ پہنچ سکے۔ اس زنجیر کو ہلائے، اسی کے ساتھ اس نے بارہ احکام اور جاری کئے جن میں سے بعض یہ تھے۔ تمغا اور میر بحری جیسے ٹیکس موقوف کر دیئے جائیں۔ جن راستوں میں ڈاکے پڑتے تھے، وہاں منزل بہ منزل سرائیں، کنویں اور مسجدیں بنوائی جائیں۔ لاوارث کی دولت، سرائوں، پلوں اور تالابوں کی تیاری میں صرف کی جائے، ملک میں شراب اور سنسکرات بکنے نہ پائیں، کسی کے مکان میں شاہی ملازمین نہ اتریں، ناک کان کاٹنے کی سزا نہ دی جائے، رعایا کی زمین جبراً خالصہ میں شریک نہ کی جائے، شاہی ملازمین اپنے علاقہ میں اجازت کے بغیر شادی نہ کریں، بڑے بڑے شہروں میں شفاخانے قائم کئے جائیں اور طبیب جراح کے اخراجات شاہی خزانہ سے ادا کئے جائیں، جمعرات، ہفتہ اور جہانگیر کی ولادت کی تاریخ میں جانور ذبح نہ کئے جائیں۔ اکبر کے زمانے کے تمام عہدہ دار بدستور سابق برقرار رہیں اور جس قدر قیدی تھے، سب آزاد کر دیئے جائیں۔