مسجد بہاول خان عباسی پنجم
پنجاب میں انگریزوں کی آمد کے بعد جدید تعلیمی اداروں کے قیام کا آغاز ہوچکا تھا، انیسویں صدی کے آخر تک کئی سکول اور کالج کھل چکے تھے، لیکن ابھی تک نوابوں ، راجے مہاراجوں اور امراء و روساء کے بچوں کی معقول تعلیم کا مسئلہ باقی تھا۔ اس ضمن میں انگریز راج کے تحت بر صغیر پاک و ہند کے پانچ شہروں میں چیف کالج قائم کئے گئے، جن میں اجمیر، راج کوٹ، اندور، رائے پور اور لاہور شامل تھے۔
لاہورمیں 3 نومبر 1886ء کو وائسرائے اور گورنر جنرل آف انڈیا سر فریڈرک ٹیمپل ہیملٹن کے ہاتھوں چیف کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس کالج کے قیام کے وقت انگلستان کے ایچی سن کالج کو بطور نمونہ پیش نظر رکھا گیا۔ البتہ مسلمان طلباء کیلئے اردو، فارسی اور دینیات کے مضامین شامل کیے گئے۔ مسٹر رابنسن کالج کے پہلے پرنسپل تھے، جبکہ انتظامی امور کی ذمہ داری جنرل بلیک کے سپرد تھی۔ یہی کالج بعد میں ایچی سن کالج کہلایا جس میں اس وقت کے بڑے بڑے روساء کے بچے تعلیم و تربیت حاصل کرتے تھے جن میں ہندو، سکھ، عیسائی، اور مسلمان شامل تھے۔ ان طلباء میں جدید تعلیم کے ساتھ کھیل کود، گھڑ سواری اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعہ علم کی فراہمی کے ساتھ اعتماد اور قائدانہ صلاحیتیں بھی پیدا کی جاتی تھیں۔ آج بھی ایچیسن کالج کا وہ معیار برقرار ہے۔
ایچی سن کالج لاہور کی مال روڈ پر واقع ہے جسے ٹھنڈی سڑک بھی کہتے ہیں، اس سے پہلے سندر داس روڈ کو بھی ٹھنڈی سڑک کہا جاتا تھا جو کہ ایچیسن کالج کے عقبی جانب ہے۔ اس ادارے میں مختلف مذاہب کے طلباء کی عبادات کیلئے مختلف ادوار میں مندر، گوردوارہ اور مسجد کی تعمیرات عمل میں لائی گئیں۔ نواب آف بہاولپور برصغیر پاک و ہند کے مختلف تعلیمی اداروں کی بہتری میں دلچسپی رکھتے تھے، انہوں نے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کی ابتدائی عمارت کی تعمیر اپنے خرچہ سے کروائی، انہوں نے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی مالی معاونت کی اور اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے نواب محمد بہاول خان عباسی پنجم نے ایچی سن کالج لاہور میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔
نواب محمد بہاول خان پنجم ریاست بہاولپور کے 11ویں نواب تھے، محمد بہاول خان پنجم نواب امیر سر صادق محمد خان عباسی چہارم بہادر کی دوسری بیوی کے دوسرے بیٹے تھے۔ 1899ء میں، جب وہ صرف سولہ سال کے تھے، اپنے والد کی وفات کے بعد بہاولپور کے تخت پر بیٹھے۔ ان کی حکمرانی کیلئے عمر پوری ہونے تک ایک کونسل آف سپرنٹنڈنس کے تحت ریاست کے امور چلائے گئے۔ 12نومبر 1903ء کو ڈیراوڑ فورٹ میں ایک تقریب میں فرمانروائی کے مکمل اختیارات تفویض کئے گئے، اس تقریب میں وائسرائے لارڈ کرزن نے خود شرکت کی۔
1902ء میں نواب محمد بہاول خان پنجم کو ویسٹ منسٹر ایبی میں ایڈورڈ VII اور ملکہ الیگزینڈرا کی تاجپوشی میں شرکت کیلئے لندن مدعو کیا گیا۔ وہ کراچی سے روانہ ہوئے، لیکن بمبئی کے ابتدائی سفر میں وہ سمندری بیماری میں اس قدر شدید متاثر ہوئے کہ وہاں اترتے ہی انہوں نے دورہ منسوخ کر دیا۔15 فروری 1907ء کو محمد بہاول خان پنجم عدن کے ساحل پر سفر کرتے ہوئے جہاز میں بیماری کے باعث انتقال کر گئے۔
نواب محمد بہاول خان عباسی پنجم ایک ذہین طالب علم تھے اور ایچی سن کالج لاہور میں 1897ء سے 1901ء تک زیر تعلیم رہے، زمانہ طالب علمی ہی کے دوران انہوں نے 1900ء میں ایچی سن کالج میں ایک انتہائی خوبصورت مسجد کی تعمیر کروائی۔ ایچی سن کالج کے وسط میں واقع سرخ دیواروں اور سفید رنگ کے میناروں اور گنبدوں پر مشتمل یہ مسجد ایک موتی کی مانند لگتی ہے۔ نواب صاحب کے ذاتی اخراجات سے اس مسجد کی تعمیرپایہ تکمیل کو پہنچی، یہ مسجد سلطنت بہاولپور کے شعبہ تعمیرات کی طرف سے ڈیزائن کردہ ہے ، جس میں مرکزی داخلی دروازے کے بعد صحن اور اس کے بعد مسجد کا مرکزی ہال آجاتا ہے۔ مرکزی ہال میں دیواروں سے لے کر گنبدوں کے اندرونی حصوں اور چھتوں تک پر انتہائی خوبصورت پینٹنگ کی گئی ہے۔ یہ تمام پینٹنگ رنگ برنگ پھولوں اور پھلوں سے مزین ہے، ان میں جابجا قرآنی آیات کی خطاطی، فارسی میں لکھائی اور اسمائے مبارک لکھے ہوئے ملتے ہیں۔
اس مسجد میں ایک مرکزی بڑے گنبد کے دونوں اطراف چھوٹے گنبد ہیں اور مرکزی ہال کے چاروں کناروں پر کچھ اونچائی کے مینار موجود ہیں۔ اسی سے ملتے جلتے نقشہ پر تعمیر کردہ مساجد بہاولپور کے دربار محل اور احمد پور شرقیہ کے صادق گڑھ محل میں آج بھی موجود ہیں۔ ایچی سن کالج میں موجود مندر اور گوردوارے میں اب عبادت نہیں ہوتی۔ مندر کی عمارت میں آرکائیوز کا سیکشن قائم ہے جبکہ گوردوارہ کی عمارت بھی انتظامی امور کے کام آتی ہے۔ اور ان عمارات کو بطریق احسن سنبھال کر رکھا گیا ہے۔
انگریز دور میں جب یہ مسجد تعمیر کی گئی تھی اس وقت کالج میں مسلمان طلباء کی تعداد درجنوں میں ہوگی جن کیلئے یہ مسجد انتہائی کشادہ تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد اس کالج میں صرف مسلمان طلباء رہ گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں طلباء کی تعداد 4000 سے تجاوز کرگئی ہے جن کیلئے اس مسجد کی گنجائش ناکافی ہے۔ کالج انتظامیہ اس وقت اس مسجد کی کشادگی پر غور کر رہی ہے یا بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اسی کالج کے احاطے میں ایک نئی مسجد کی تعمیر کی جائے گی۔
ایچی سن کالج میں نواب آف بہاولپور کی طرف سے تعمیر کردہ یہ مسجد انتہائی توجہ کے ساتھ سنبھالی گئی ہے اور اس میں نماز پنجگانہ کا اہتمام کیا جاتا ہے، اتنے سال گزرنے کے بعد بھی اس کے رنگوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور آج بھی خوبصورتی کے معاملے میں اپنی مثال آپ ہے۔ 1906ء میں نواب بہاول خان پنجم نے نور محل بہاولپور کے احاطے میں صدر عمارت سے 200 گز کے فاصلے پر ایچی سن کالج لاہورکی مسجد کے نمونہ پر ایک اور خوبصورت مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔
مسجد بہاول خان ایچی سن کالج لاہورمیں مرکزی ہال کے داخلی دروازے کے بالائی حصے پر فارسی میں ایک کتبہ نصب ہے جس کے ترجمہ کے مطابق ''نواب مبارک بہال خان عباسی نے زمانہ تعلیم میں خوبصورت مسجد کی بنیاد رکھی، غیبی آواز نے مالک کو اس تعمیر کا سال بتایا کہ بہال خان پنجم سے اس کی تعمیر ہوئی‘‘۔ اسی پلیٹ کے بالائی حصے پر اس مسجد کا سن تعمیر بمطابق ہجری سال 1318ھ درج ہے جو کہ عیسوی سال کے مطابق 1900ء بنتا ہے۔ اسی طرح مرکزی ہال کے ایک گنبد کے زیریں حصے پر فارسی کے کچھ اشعار لکھے گئے ہیں جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے
یہ گھر آسمان کی طرح فیض کا مظہر ہے
حریم مقدس کی طرح فیض سے بھرپور
اہل قبلہ کی مرادوں (کی تکمیل) کیلئے یہ دروازہ فیض و برکات کیلئے تا حشر کھلا رہے۔
مسجد کے اندرونی حصے میں ہی فارسی میں لکھا ہوا ملتا ہے ، ترجمہ بمطابق
محمد مدنی ﷺ زمین و آسمان کا فخر ہیں
جو کوئی آپ ﷺ(کی ذات) کا طالب ہے اسی کے سر پر تاج ہے
پروفیسر شعیب رضا شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں، اور آپ تاریخی مقامات پر تحقیقی مضامین لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں