یادرفتگاں: مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح
محترمہ فاطمہ جناح بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کی نہ صرف خیال رکھنے والی مشفق بہن تھیں بلکہ وہ جناح صاحب کی سیاسی شریک کار بھی تھیں۔ جناح صاحب کی وفات کے بعد لوگ انہیں اسی قدر منزلت سے دیکھتے تھے جس طرح جناح صاحب کو۔ اسلام کا یہ خطہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی بڑی کاوشوں ‘ لگاتار جد وجہد، سیاسی قوت، آل انڈیا مسلم لیگ کی رہنمائی میں حاصل ہوا اور اس سفر آزادی میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی خدمات بے شمار اور ان گنت ہیں۔
یوں تو اسلامی تاریخ میں جب بھی کڑا وقت آیا، خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا لیکن پاکستان کی تاریخ میں بھی خواتین کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ تحریک پاکستان کی خونچکاں داستان مرد کی جرأتوں اور عورتوں کی قربانیوں سے لبریز ہے۔ یوں تو آزادی کی لگن سے ہر دل سرشار تھا مگر جو کردار بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح نے ادا کیا وہ قابل ستائش، قابل تحسین اور قابل تقلید ہے۔
قائداعظم ؒ اپنی بہن کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ''وہ روشنی اور اُمید کی کرن ہیں‘‘۔ وہ مسلم لیگ کی ایک انتھک کارکن تھیں۔ انہوں نے حق کی آواز بلند کی، مخالفتوں نے آپ کا راستہ روکا، مصائب کے پہاڑ ٹوٹے اور ظلم کی آندھیاں آئیں، لیکن اس خاتون آہن کے پائے استقلال کو متزلزل نہ کر سکیں۔ سچائی کا پرچم بلند کیا اور استقامت اور جرأت کے ساتھ پاکستانی عوام کی رہنمائی کیلئے میدان عمل میں کود پڑیں۔ پاکستانیوں کے دلوں میں ان کی عقیدت جس قدر تھی کسی اور خاتون کے حصہ میں نہ آئی۔
مادر ملت 31جولائی 1893ء کو اسی تین منزلہ مکان میں پیدا ہوئیں ( کچھ کتب میں 1891ء درج ہے) جہاں قائد اعظم ؒ نے جنم لیا تھا۔ اس گھرانے کے مکینوں میں سے دائمی شہرت قائد اعظم ؒ اور مادر ملت کو ہی نصیب ہوئی تھی۔انہیں سات برس کی عمر میں سکول میں داخل کرا دیا گیا اور غالبا ًیہ پہلی مسلمان لڑکی تھیں جنہیں سکول میں داخلہ مل گیا۔ قائداعظم ؒ کی جرأت مندانہ صلاحیتیں یہیں سے شروع ہو جاتی ہیں۔ 1926ء میں انہوں نے اپنے بھائی کی اجازت سے دندان سازی کی تربیت حاصل کی۔ 1928ء میں دو سال کا میڈیکل کورس مکمل کر کے ممبئی میں مشق شروع کردی۔ انہیں اپنے پیشے سے قلبی لگائو تھا اس لئے وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر بہت جلد قرب و جوار کے علاقہ جات میں بہت مقبول ہوئیں۔
یہ شہرت صرف قائداعظم ؒ کی بہن ہونے کی وجہ سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ وہ خود بھی ایک باعمل خاتون تھیں۔ ان کے ذاتی کردار نے ان کی شخصیت میں اجلا پن پیدا کر دیا تھا۔ وہ قائداعظم ؒ کی طرح کام، کام اور بس کام پر یقین رکھتے ہوئے ہمیشہ مصروف رہتیں۔ ان کی پوری زندگی عمل سے عبارت ہے۔ اخبارات کا مطالعہ ان کے روز مرہ معمولات کا حصہ تھا۔ ملکی اور عالمی سیاست پر وہ کڑی نظر رکھتی تھیں۔ مختلف تعلیمی تقریبات میں شرکت کرنا ان کی عادات میں شامل تھا۔ بے کار رہنا انہیں پسند نہیں تھا وہ خود باعمل زندگی اختیار کرنے کی خواہاں تھیں۔
1940 ء سے 1947ء تک وہ تحریک پاکستان میں خواتین کے جلسے جلسوں میں پیش پیش ہوتیں۔ خواتین میں آزادی کی روح بیدار کرنے کیلئے ان کا کردار بہت مثالی تھا۔ قیام پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
2جنوری1965ء میں صدارتی انتخابات کیلئے صدر ایوب کے مقابلے کیلئے کسی موزوں شخصیت کی تلاش ہوئی تو مادرِ ملت کے علاوہ پورے ملک میں کوئی دکھائی نہ دیا۔ ان انتخابات میں فاطمہ جناح کو شکست ہوئی لیکن ان کی شخصیت کا اُجلا پن برقرار رہا اور ان کی شکست سے لوگ آزادی کے حقائق سے روشناس ہوئے۔ پاکستان میں برسر اقتدار طبقہ اپوزیشن کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے وہی سلوک مادر ملت کے ساتھ کیا گیا۔مادر ملت نے ظلمت کے اس دور میں جو شمع روشن کی۔ اس کی روشنی آج تک پھیل رہی ہے۔ وہ 9جولائی 1967ء کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہم سے جدا ہوئیں۔
محترمہ فاطمہ جناح کی تدفئن مزار قائد کے احاطے میں کی گئی۔ مادر ملت کی قبر قائد اعظم کے مزار سے ایک سو بیس فْٹ دور بائیں جانب کھودی گئی۔ قبر ساڑھے چھ فٹ لمبی اور تین فٹ چوڑی تھی۔ زمین پتھریلی تھی اس لیے گورکنوں کو قبر کھودنے میں پورے 12 گھنٹے لگے، جبکہ بعض اوقات انہیں بجلی سے چلنے والے اوزاروں سے زمین کھودنی پڑتی۔بیس گورکنوں کی قیادت ساٹھ سالہ عبدالغنی کر رہا تھا، جس نے قائد اعظم، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کی قبریں تیار کی تھی۔ مرحومہ کی پہلی نمازِ جنازہ قصرِ فاطمہ میں مولانا ابنِ حسن چارجوئی نے پڑھائی۔ جب ان کی میت قصرِ فاطمہ سے اٹھائی گئی تو لاکھوں آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ قصرِ فاطمہ کے باہر دور دور تک انسانوں کا سمندر نظر آرہا تھا۔
قائداعظمؒ نے ایک مرتبہ اپنی ہمشیرہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا : ''فاطمہ نے ہمیشہ میری مدد کی اور میرا حوصلہ بڑھایا، جن دنوں اس بات کا خطرہ تھا کہ انگریزی حکومت مجھے گرفتار کر لے گی۔ میری بہن نے میرا حوصلہ بڑھائے رکھا۔ میں جب بھی گھر واپس آتا، میری بہن میرے لئے روشنی اور امید کی کرن بن جاتی۔ میں پریشانیوں کے ہجوم میں گھرا رہتا، میری صحت خراب ہوئی لیکن فاطمہ کے حسن سلوک سے ساری تکلیفیں دور ہو جاتیں‘‘۔
مادر ملت نے نوجوانوں کے نام ایک پیغام میں کہا: '' پاکستان کے نوجوانو! تمہاری رگوں کا خون سرد نہ ہونے پائے قدرت نے تمہارے دامن میں اپنی رحمتوں کے خزینے بھر دیئے ہیں۔ ان کو کام میں لانا اور فائدہ اٹھانا تمہارے کام آئے گا، تمہارے ہاتھوں میں بہت جلد مستقبل کی عنان آنے والی ہے۔ اپنا راستہ اپنی منزل اور اپنی ذمہ داریوں کا تمہیں ابھی سے اندازہ کرنا ہوگا اور اس کا انحصار تم پر ہوگا کہ کس قدر تیزی سے تم خود کو ایک مستحکم اور عظیم تر قوم میں تبدیل کر دو گے‘‘۔