گندگی سے اٹا درہ بابو سرٹاپ
پاکستان کی پاکیزہ وادیوں اور شفاف بلندیوں کی طرف سفر کریں تو ناران سے گزرنا مجبوری ہے۔ ورنہ جو ہجوم اور غلاظت یہاں پر موجود ہوتی ہے، وہ ذوق سیاحت کو قتل کرنے کیلئے کافی ہے۔ تیرہ ہزار سات سو فٹ بلند بابوسر ٹاپ تو باقاعدہ ایک''کوٹھا‘‘ بن چکا ہے جہاں پر موجود دلال گلیشیئر، بلندیوں اور موسموں کی قیمت وصول کر کے ان کے جسم نوچنے کی اجازت دے چکے ہیں۔
کتنا اچھا ہوتا کہ دوسرے دروں کی طرح یہاں بھی آلودگی سے پاک موسم ہوتے اور یہاں پر آنے والے سیاح اپنی گاڑیاں دو کلومیٹر دور پارک کر کے یہاں صرف موسم اور نظاروں سے لطف اندوز ہوتے۔جو گزرنا چاہتے وہ گزر جاتے، مگر یہاں تو منافع خوروں نے پانچ زپ لائنز، دو فلک بوس جھولے اور موت گھر بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ عین بلندی پر پندرہ واش رومز جو ایک گاہک سے پچاس روپے فی دو منٹ وصول کرتے ہیں۔ درجنوں بسوں کا ڈیزل دھواں فطرت کی عطائوں میں ضرب لگاتا ہے تو لوگ چکرائے سے نظر آتے ہیں۔
کوئی تو ہو جو ان بلندیوں کی نیلامی پر پالیسی بنائے اور دل کش وادیوں کو برباد ہونے سے بچائے۔ بالا کوٹ سے بٹہ کنڈی تک دریاو?ں اور آبشاروں کو بیچنے والوں کے پیٹ نہیں بھرے؟ ابھی تو جھیل سیف الملوک کی بربادی کا ماتم جاری تھا کہ منافع خوروں نے بابوسر ٹاپ میں بھی غلاظت بھر دی۔ ملک بھر میں تمام درے خدا کی عطا ہیں۔
پہاڑوں میں موجود بلند درے دراصل مختلف وادیوں اور آبادیوں کو آپس میں ملاتے وہ راستے ہیں جو زمانہ قدیم سے گزر گاہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ بلند ترین یہ راستے سال بھر میں صرف دو سے تین ماہ کیلئے کھلتے ہیں اور باقی عرصہ ان پر پڑی برف انسان کو بے بس کیے رکھتی ہے۔ بڑے شہروں کو آپس میں ملانے والے کئی درے اب زیر پہاڑ تعمیر ٹنل کی وجہ سے برف کی رکاوٹ سے آزاد ہو چکے ہیں۔ پاک چین دوستی کے نام سے شاہراہ قراقرم پر تعمیر کیے گئے ٹنلز اب سال بھر زمینی رابطوں کو بحال رکھتے ہیں اور مسافروں کو لینڈ سلائیڈنگ کا خوف بھی نہیں رہتا۔
چترال اور پشاور کے درمیان درہ لواری ہمیشہ حائل رہتا تھا۔ ساڑھے دس کلومیٹر طویل ٹنل نے دنوں کے سفر کو گھنٹوں پر محیط کر دیا ہے اور اب چترال بھی پاکستان کا آباد شہر محسوس ہونے لگا ہے۔ تیرہ ہزار سات سو فٹ بلند بابو سر پاس پشاور، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کے درمیان اب بھی سال بھر میں آٹھ ماہ بند رہتا ہے۔
پاکستان میں بلند ترین دروں کی اپنی اپنی تاریخ اور جغرافیائی حیثیت ہے۔ بلند ترین دروں میں بابو سر، بولان، بروغل، چاپروٹ، دورہ، گوندو گورو، گومل، حایل، ہسپار، کڑاکڑ، خنجراب، خیبر، کلک، کوہاٹ، لواری، مالاکنڈ، منٹکا، نلتر، شیندور اور ٹوچی کے درے شامل ہیں۔ ان دروں میں بلند ترین گوندو گورو پاس ہے جس کی بلندی 5940 میٹرہے۔ یہ درہ گلگت کی حوشی وادی کونکورڈیا سے ملاتا ہے اور یہاں سے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو دیکھا جا سکتا ہے۔ 4700 میٹر بلند منٹکا پاس درہ خنجراب کے مغرب میں ایستادہ ہے اور شاہراہ ریشم کے مسافر اسے گزر گاہ کے طور پر پاس کرتے ہیں۔
دورہ پاس کی 5030 میٹر بلندی گلگت کی غذر ویلی کو بالائی سوات سے ملاتی ہے۔ درہ چلنجی 5300 میٹر بلند ہے اور بالائی ہنزہ کی چپرسن وادی کو اشکومن اور کرومبر سے جوڑتا ہے۔
برزل پاس 4200 میٹر بلندی کے ساتھ کشمیر اور گلگت کی واحد قدیم گزرگاہ تھی اور آج کل استور سے کارگل کو ملاتا ہے۔ شمشال پاس 4735 میٹر بلندی کے ساتھ کوہ پیماو?ں کو کے ٹو کے شمالی چہرے کی طرف لے جاتا ہے اور شمشال سے برالدو کا سفر ممکن بناتا ہے۔
کرومبر کی بلندی بھی 4300 میٹر کے ساتھ گلگت کے ضلع غذر اور چترال کی سرحد کو اشکومن پر باہم ملاتی ہے۔
بروغل پاس کا درہ بلندی میں کچھ کم ہے مگر افسانوی واخان کوریڈور میں افغانستان کے بدخشاں صوبے کو پاکستان کے ضلع چترال سے جوڑتا ہے۔