سفر آخرت کی منفرد اور حیرت انگیز رسومات
رسومات کا انسانی زندگی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ چلا آرہا ہے۔یہ شاید واحد عمل ہے جو انسان کی پیدائش سے شروع ہو کر انسان کی تدفین تک جاری رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسانی زندگی کی رسومات خواہ خوشی کی ہوں یا غمی کی ہر مذہب، معاشرے اور ملک کی جدا جدا ہوتی ہیں۔
جہاں تک انسانی زندگی کے سفر آخرت کی رسومات کا تعلق ہے دنیا بھر کے مختلف مذاہب میں عمومی طور پر دو طرح سے مردوں کی تدفین کی جاتی ہے۔ اسلام اور الہامی مذہب جن میں مسلمان، یہودی اور عیسائی شامل ہیں مردے کے جسم کو زمین میں دفن کرتے ہیں جبکہ جین، سکھ، ہندو اور بدھ مت کے پیروکار مردے کے جسم کو جلاکر اس کی راکھ کو پانی میں بہاتے ہیں۔ آج آپ کو ایسے مذہب اور عقیدے بارے بتانے جا رہے ہیں جہاں نہ تو مردوں کو جلایا جاتا ہے اور نہ ہی دفنایا جاتا ہے بلکہ اس کی میت کو بلندی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔
میت کو لٹکانے کی رسم
فلپائن کے صوبہ ماو?نٹین کے شمالی حصے کے پہاڑوں کے درمیان واقع قدیم شہر سکاڈا میں میت کو لٹکانے کی رسم ہزاروں سالوں سے چلی آ رہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس شہر تک پہنچنے کے راستے میں جا بجا آ سیب زدہ علاقے، انوکھی اور پراسرار لٹکتی تصویریں اور عجیب و غریب رسم و رواج ادا کرتے لوگ نظر آئیں گے۔اس شہر کی واحد وجہ شہرت دنیا بھر میں تابوت لٹکانے کی انوکھی اور منفرد رسم ہے۔سکاڈا میں صدیوں سے ''ایگوروٹ‘‘ قبیلے کے لوگ آباد چلے آرہے ہیں۔مورخین کے مطابق یہاں گزشتہ دو ہزار سال سے تابوت لٹکانے کی اس رسم کے شواہدملے ہیں۔
ایگروٹ قبیلے کے لوگ عام طور پر اپنا تابوت اپنی زندگی میں خود ہی تیار کرتے ہیں جنہیں مرنے کے بعد انہیں اس تابوت میں ڈال کر پہاڑ کی چوٹی سے لٹکا دیا جاتا ہے۔ان کا عقیدہ ہے کہ ہوا میں لٹکتی ہوئی لاشیں ان کے آنجہانی آ باو? اجداد کو ان کے قریب لے آتی ہیں اور اس طرح مر کر بھی یہ اپنے پیاروں سے دور نہیں ہوتے۔
تابوت میں رکھنے سے پہلے مردے کو روائتی طور پر ایک کرسی پر بٹھایا جاتا ہے، جسے ''موت کی کرسی‘‘ کہا جاتا ہے، جہاں عزیز واقارب مردے کا آخری دیدار کرتے ہیں۔ جس کے فوری بعد اس مردے کو تابوت میں رکھ کر اس کو انگور کی بیلوں اور پتوں سے ڈھانپ کر اس کے اوپر کمبل یا کوئی موٹی چادر ڈال دی جاتی ہے۔ تابوت کے باہر سر والی طرف مردے کا نام اور مکمل کوئف لکھے جاتے ہیں اس کے بعد تمام عزیز واقارب مل کر اس تابوت کو اٹھا کر بلندی پر لے جا کر لٹکا دیتے ہیں۔یہاں تابوت اٹھانے والے ہر فرد کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ تابوت کو زیادہ سے زیادہ وقت کیلئے اٹھائے کیونکہ تابوت سے رستے انگوروں کے جوس کے قطرے جس شخص کے جسم کو چھوتے ہیں اسے خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔تابوت لٹکانے کے کئی روز تک قریبی عزیز واقارب باقاعدگی سے تابوت کے پاس آکر خاموشی سے کھڑے ہو کر تابوت پر نظریں جمائے رکھتے ہیں۔ جو اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم اپنے پیاروں کو بھولتے نہیں۔ تاریخی حوالوں سے اس منفرد رسم میں تابوت کو لٹکانے کے شواہد چین اور انڈونیشیا کے کچھ علاقوں میں بھی ملے ہیں۔
''ٹری برئیل‘‘میت دفنانے
کا انوکھا طریقہ
دنیا بھر میں بڑھتی آبادی کی رہائش کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنے والے ماہرین نے کئی کئی منزلہ عمارتیں بنا کر رہائش گاہوں کا حل تو نکا لیا۔ اب ان کے نزدیک یہ سوال تھا کہ زمین کو تو نہیں بڑھایا جا سکتا، جب قبرستان کم پڑنا شروع ہو جائیں گے تو انسان اپنے مردوں کو کہاں دفنائے گا؟۔امریکہ، جاپان اور کچھ دیگر ممالک کی تنظیموں نے اس پر سوچ بچار شروع کی۔1990ء میں سب سے پہلے جاپان کی تنظیم ''گریو فری پروموشن سوسائٹی‘‘ یعنی قبرستان کے بغیر تدفین کا تصور پیش کیا۔جس کے تحت انسان کے جسم کی راکھ کو جسے بھارت میں ''استھیوں‘‘ کہا جاتا ہے کو بکھیرنے کے عمل کی تشہیر کی گئی، جس پر جاپان کے ''شونجو ٹمپل‘‘ نے اگلے ہی سال یعنی 1991ء میں ''ٹری برئیل‘‘ نامی ایک نیا طریقہ متعارف کر ڈالا۔جس کے تحت مرنے والے کے جسم کی راکھ کو زمین میں دفن کر کے اس کے اوپر درخت اگا دیا جاتا ہے۔
شونجو ٹمپل کی انتظامیہ نے آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے اس سے کچھ ہی فاصلے پر ''چہوین ٹمپل‘‘ نامی ایک چھوٹا سا ٹمپل بنا ڈالا ہے جو ایک جنگل کے اندر واقع ہے۔ یہاں پر مرنے والوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے علاوہ ان کی راکھ کے اوپر ایک درخت لگا دیا جاتا ہے تاکہ مرنے والوں کے پیارے وقتاً فوقتاًآکر اپنے پیاروں کی آخری یادگاروں کو دیکھ سکیں۔
اس تصور کے تحت اب دنیا بھر کے ممالک اپنے پیاروں کی تدفین کے نئے نئے طریقے اختیار کر رہے ہیں۔مثال کے طور پر سنگاپور میں حکومت خاندانی مقبرے توڑ کر چھوٹی چھوٹی کھولیوں کی طرز پر عمارات کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے جہاں مرنے والوں کی صرف سمادھیوں کو رکھا جا سکتا ہے۔وہاں پر اب پندرہ سال سے زیادہ عرصہ تک قبر رکھنا قانوناً جرم تصور ہوتا ہے۔اس کیلئے قبر کی باقیات کو جلا کر ان کی راکھ کو سمادھیوں میں رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے اور قبر کو دوبارہ قابل استعمال بنا لیا جاتا ہے۔
ہانگ کانگ، جہاں کی زمین دنیا بھر میں سب سے مہنگی زمین شمار ہوتی ہے وہاں پاپ سٹار ز اور دیگر نامور شخصیات کے ذریعے میت دفنانے کی بجائے جلانے کے تصور کی تشہیر پر زور دیا جا رہا ہے۔
میت پرندوں کی خوراک
پارسی،زرتشت کے پیروکاروں کو کہتے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے مذہبی رہنما کے پاس اوستا کا وہ قدیم نسخہ موجود ہے جو ان کے پیغمبر زرتشت پر نازل ہوا تھا۔پارسی اپنے مردوں کو نہ تو جلاتے ہیں اور نہ ہی دفناتے ہیں بلکہ یہ اسے ایک کھلی عمارت میں رکھ دیتے ہیں تاکہ اسے گدھ اور دیگر پرندے کھا لیں۔اس خاص عمارت کو یہ لوگ ''دخمہ‘‘، ''مینار خموشاں‘‘ یا ''ٹاور آف سائلنس‘‘کہتے ہیں۔ جہاں ان کا دخمہ نہیں ہوتا وہاں ان کے قبرستان ہوتے ہیں جہاں یہ بہ امر مجبوری میت کو دفن کر دیتے ہیں۔پارسی مذہب کے مطابق زمین، پانی، ہوا، سورج اور آگ انتہائی مقدس عناصر ہیں،اس لئے مردوں کو زمین میں دفن کرنے یا انہیں آگ میں جلانے سے زمین، آگ اور سورج کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ اپنے عقیدے کے مطابق یہ مردوں کو دفنانے یا جلانے کی بجائے ایک کھلے مینار نما گول عمارت میں رکھ دیتے ہیں تاکہ اسے مردار خور پرندے یا گدھ وغیرہ کھا لیں۔
ستی کی رسم
برصغیر میں انگریزوں کے دور سے پہلے ہندوئوں میں یہ رواج تھا کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی بیوی اس کی چتا کے ساتھ ہی جل مرتی تھی۔ اس رسم کو ''ستی‘‘کہتے تھے۔ستی ہونے والی عورت سرخ رنگ کا پوشاک پہنتی اور باقاعدہ دلہن کی طرح سنگھار کرتی اور چتا کے مقام کی طرف چل پڑتی اور اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ لکڑیوں پر بیٹھ جاتی تھی۔اس کے اقربا لاش اور عورت کے گرد لکڑیاں چن کر اس کے اوپر روئی اور تیل اوپر ڈال دیتے تاکہ تیز آگ میں یہ جلد بھسم ہو جائے۔ تاہم انڈیا پر برطانیہ کی حکمرانی کے دور کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنک نے دسمبر 1829ء میں ہندوئوں کی اس قدیم رسم پر پابندی عائد کر دی تھی۔
عقیدوں سے بغاوت
2016ء میں دو مقبول ترین سیاسی شخصیات کے انتقال کے بعد ان کی آخری رسومات، اپنے اپنے ملک کے مروجہ رسم و رواج کے عین خلاف ادا کی گئیں۔ کیوبا کے سابق رہنما فیدل کاسترو کے بارے مورخین کہتے ہیں کہ ان کی پرورش رومن کیتھولک لڑکے کے طور پر ہوئی تھی، تاہم آگے چل کر اس نے اس طرز زندگی کو ترک کر دیا تھا۔ایک موقع پر اس نے کہا تھا ''میں کبھی عقیدے کا قائل نہیں ہوں۔اسے اکثر مورخین ملحد کہتے ہیں تاہم۔ ایک موقع پر اس نے کہا تھا ''میں اپنے ملک کو ملحد کی بجائے سیکولر بنانا پسند کرتا ہوں‘‘۔ نومبر 2016ء میں انتقال کے بعد کاسترو کی آخری رسومات کیوبا کے شہر سانتیاگو میں ملکی روایات کے برعکس، ان کی وصیت کے مطابق ان کے جسم کی راکھ کو ایک قبر میں رکھ کر ادا کی گئیں۔
2016ء ہی میں بھارتی ریاست تامل ناڈو کی سابق وزیر اعلیٰ جے للیتا کے جسد خاکی کو عقیدے کے مطابق جلانے کی بجائے قبر میں دفن کیا گیا تھا۔ ذہن میں رہے کہ جے للیتا کو شخصیت پرستی کا آئیکون کہا جا سکتا ہے کیونکہ ریاست اور ملک کے دیگر علاقوں میں کسی دیوی کی مانند ان سے عقیدت رکھی جاتی تھی۔