شمشال،حسن لازوال
اسپیشل فیچر
چین کی سرحد پر واقع آخری گاؤں شمشال بلند ترین انسانی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ سطح سمندر سے تین ہزار ایک سو میٹر بلند یہ گاؤں سو فیصد شرح خواندگی کا حامل ہے اور یہاں پر خدمت خلق کا ایک شاندار نظام ''نومس ‘‘ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔ نومس واکھی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب انسان کی باہمی دوستی ہے۔ چار چھوٹی چھوٹی آبادیوں پر مشتمل وادء شمشال کم ترین سرکاری سرپرستی کے بغیر ایک خوشحال معاشرے پر مشتمل ہے۔
گلگت سے خنجراب جاتے ہوئے پسو Passo کے مقام پر ایک چھوٹی سی خستہ حال سٹرک دائیں جانب قراقرم ہائی وے سے نیچے اترتی ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں پسو کونز ہیں۔ بلند پہاڑیاں جن کی چوٹیاں نوکیلی ہیں پسو کونز کہلاتی ہیں۔ ہمیں کریم آباد ہنزہ سے پسو پہنچنے میں پینتیس منٹ لگے۔
ضلع ہنزہ کی تحصیل گوجال دریائے ہنزہ کے اطراف میں پھیلی وادی ہے، جہاں دریائے خنجراب ، ہنزہ ریور کی طغیانی بڑھاتا ہے ، وہاں دریائے شمشال بھی اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ پسو سے 56 کلومیٹر کا فاصلہ ہم نے بذریعہ جیپ تین گھنٹوں میں طے کیا۔ پسو سے شمشال تک سٹرک اتنی تنگ ہے کہ کراسنگ آپ کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ کہیں گہری کھائیاں ہیں اور کہیں دریا سڑک کے قریب آ جاتا ہے۔ پہاڑ اپنی رنگت اور پتھروں کی اقسام بدلتا ہے۔
دریائے شمشال پر جھولتے پل ایک وقت میں ایک گاڑی کا وزن اٹھانے کے قابل ہیں اور ان پلوں کی تعداد سات ہے۔
پسو سے شمشال تک سنگلاخ پہاڑ ہیں اور صرف زیارت ہی وہ واحد جگہ ہے جہاں سبزہ ہے مگر چھوٹی چھوٹی آبشاریں ہیں۔ سیاہ گلیشیرز ایک حیران کن منظر پیش کرتا ہے۔ سیکڑوں فٹ بلند یہ گلیشیر ٹوٹ ٹوٹ کر دریائے شمشال کا حصہ بنتا ہے تو برف کے ٹکڑے سلیٹی رنگ پانی میں تیرتے واضح نظر آتے ہیں۔ برف کے ذخیرے پر چڑھی مٹی نے سفید وجود کو سیاہ بنا دیا ہے۔
وادیٔ شمشال اپنے سمیت چار دیہاتوں امین آباد ، خضر آباد اور فرمان آباد پر مشتمل ہے مگر یہ چاروں گاؤں آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
اپنی مدد آپ کا نظام ‘‘ نومس ‘‘ یہاں کے معاشرتی مسائل کا واحد حل ہے۔ نومس کے تحت لوگ اپنے پیاروں کی یاد میں یا ایصال ثواب کے لئے فلاحی منصوبے مکمل کرواتے ہیں۔ شمشال میں قائم سکول اور ہوسٹل بھی ایک جرمن خاتون ولما نے بنوایا تھا۔ ہماری موجودگی میں جرمن سیاحوں کی دس سے بارہ جیپیں وہاں پہنچیں تھیں جن میں سے کچھ شمشال پاس کی طرف ہائیکنگ کرنے چلے گئے۔
شمشال میں لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور گندم ، سرسوں ، باجرہ جیسی فصلیں اگاتے ہیں۔ گاؤں کا ہر شخص تعلیم یافتہ ہے۔ یہ ایک ہی برادری کے لوگ ہیں جو شمالی پاکستان ، افغانستان ، چین اور تاجکستان تک پھیلے ہوئے ہیں ، جن کا فرقہ اسماعیلی ہے۔ گاؤں کے ایک سوشل ورکر صفت کریم نے بتایا کہ یہاں پر آغا خان فاونڈیشن نے بہت سارے ترقیاتی کام کروائے ہیں۔ صاف پانی ، صحت اور دیگر منصوبے آغا خان فاونڈیشن کی مدد سے مکمل ہوئے۔
شمشال میں چونکہ پاکستانی سیاح بہت کم آتے ہیں اس لئے ہمارے ساتھ چھوٹے بچوں آیت زہرا اور حجاب کو دیکھ کر مقامی لوگ بہت حیران ہوئے۔ گاؤں میں ہیلی پیڈ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہاں پر اہم لوگ بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔
جون کے آخری ہفتہ میں صاف ستھرے لباس پہنے بچوں کو سکول جاتے ہوئے اور پھر کرکٹ کھیلتے دیکھا ، بالکل ایسے ہی جیسے بڑے شہروں کے بچے تیار ہو کر سکول جاتے ہیں۔
دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون اور تیسری پاکستانی شخصیت ثمینہ بیگ کا تعلق بھی شمشال سے ہے۔ وہ 21 سال کی عمر میں یہ اعزاز حاصل کرنے والی کم عمر ترین مسلمان خاتون بھی ہے۔ ثمینہ سات چوٹیوں کو سر کرنے والی پہلی پاکستانی مسلمان خاتون بھی ہے۔ معروف کوہ پیما رجب علی کا تعلق بھی شمشال سے ہے۔
سابق فیلڈ مارشل ایوب خان اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی حدود کے تعین پر جب چین اور پاکستان کے مذاکرات ہوئے تو انہوں نے چین کو اس بات پر راضی کیا تھا کہ شمشال کے لوگوں کا روزگار مویشی پالنے سے جڑا ہے اس لئے ان سے چراگاہیں نہ چھینی جائیں تو پھر چین نے اس بات سے اتفاق کیا اور یہ وسیع و عریض علاقہ پاکستان کی ملکیت تسلیم کر لیا گیا۔
سابق برطانوی وزیر اعظم چرچل کی برطانوی آرمی کی ٹریننگ کے بعد پہلی تعیناتی 1896ء میں برطانوی انڈیا کے شمالی علاقہ جات میں ہوئی تھی۔چرچل نے اپنی یادداشتیں تحریر کیں اور پھر بعد میں ‘‘ دی سٹوری آف مالا کنڈ فیلڈ فورس ‘‘ کے نام سے کتابی شکل دی تو اس نے بیان کیا کہ پورے یورپ کے پہاڑی سلسلے ایلپس میں 6000 میٹر بلندی کی اتنی چوٹیاں نہیں جتنی صرف ہنزہ کے چھوٹے سے علاقے میں ہیں ‘‘ اور وہ علاقہ شمشال ہے جو پامیر تک پھیلا ہوا ہے۔ سفید اور سیاہ گلیشئر بھی شمشال کی پہچان ہیں۔
سیاحت کے موسم میں بھی شمشال میں صرف دو چار سر پھرے یا جرمن سیاح دیکھے جا سکتے ہیں۔