ڈیرنکویو
اسپیشل فیچر
اگرچہ تاریخی حوالوں میں اس شخص کا نام تو نہیں ملتا جس نے اپنے زمانے کے زیر زمین ایک ہنستے بستے آباد شہر کو معدوم ہو جانے کے بعد اچانک دریافت کر لیا تھا۔ تاہم مختلف روایات اور حوالوں سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ صدیوں سے دفن زیر زمیں یہ شہر ایک اجنبی نے حادثاتی طور پر دریافت کیا تھا۔ اپنے وقتوں کا لگ بھگ بیس ہزار آبادی والا ترکی کا ''ڈیرنکویو ‘‘ نامی شہر جو اٹھارہ زیر زمین منزلوں پر مشتمل ایک آباد مکمل شہر ہوا کرتا تھا ، اچانک غائب کیوں ہو گیا ؟، اس بارے حتمی طور پر ماہرین ابھی تک لاعلم ہیں۔ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اس شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ اب تک کی دریافتوں والادنیا کا زیر زمین سب سے بڑا شہر ہے۔
اس شہر کی دریافت کے بعد سے ایک مدت تک لوگوں کے ذہنوں میں بہت سارے سوالات جنم لیتے رہے کہ ناقابل یقین حد تک گہرا ، اٹھارہ منزلہ ، بیس ہزار افراد کا ہنستا بستا ایک مکمل شہر اچانک نظروں سے کیسے اوجھل ہو گیا ہو گا؟ اور صرف اوجھل ہی نہیں بلکہ اس کے اوپر ایک اور نیا شہر آباد ہو گیا اورکسی کو خبر بھی نہ ہوئی ہو گی ؟۔یہ اور اس جیسے لاتعداد سوالات کا سلسلہ ابھی تک ایک معمہ بنے ہوئے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر 280 فٹ گہرا'' ڈیرنکویو‘‘ نامی قدیم شہر ترکی کے صوبہ کیپاڈوسیہ کے موجودہ شہر ایلینگوبو کے نیچے واقع ہے۔ ذرہ چشم تصور میں کسی 25 منزلہ بلند و بالا عمارت کا تصور ذہن میں لائیے جو اس زیر زمین شہر جتنی اونچی ہو گی۔
شواہد بتاتے ہیں کہ 1920ء کی دہائی میں کیپاڈوسیہ کے یونانیوں نے اس وقت یہاں رہنا چھوڑ دیا تھا جب انہیں ترکوں کے خلاف جنگ میں عبرت ناک شکست ہوئی تھی۔یوں لگ بھگ مسلسل 2600 سال سے زائد عرصہ آباد رہنے والے یہاں کے باسیوں کو سب کچھ چھوڑ چھاڑ اجتماعی طور پر یونان کا رخ کرنا پڑا۔ ورنہ اس سے پہلے یہ شہر لگ بھگ ساتویں صدی قبل مسیح سے لے کر 1920ء تک فریجیون تہذیب اس کے بعد فارسیوں اور آخر میں بازنطینی عیسائیوں کا مرکز رہا تھا۔
اس شہر بارے ایک مورخ نے کہا تھا ، کیا عجب اتفاق ہے کہ گمشدہ مرغیوں کی تلاش نے صدیوں سے دفن ایک گم شدہ شہر کو کھوج نکالا۔
اس شہر کی دریافت 1963ء میں انتہائی ڈرامائی انداز میں اس وقت ہوئی جب اس شہر کے اوپر واقع ایک چھوٹے سے گھر کے مکین نے ( ایک گمنام شخص) جس کی مرغیاں اکثر اس کے صحن کے کونوں کھدروں میں غائب ہو جایا کرتی تھیں۔ ایک دن حسب معمول یہ اپنی مرغیوں کو تلاش کر رہا تھاجب اس کی نظر صحن کے کونے میں ایک سوراخ پر پڑی ۔چنانچہ اس گھر کے مکین نے اس سوراخ کو بند کرنے کے ارادے سے جب اس کی بھرائی شروع کی تو اسے اس کے نیچے کچھ غیر معمولی خلا سا نظر آیا۔ یہ پراسرار منظر اس کیلئے حیران کن اس لئے بھی تھا کیونکہ تھوڑی سی مزید کھدائی کے بعد اسے نیچے جانے کا ایک راستہ بھی نظر آیا۔ جس نے اسے نہ صرف حیرت زدہ بلکہ خوف زدہ بھی کرڈالا۔
یہ داستان ٹورسٹ گائیڈز ڈیرنکویو میں آئے اپنے ہر سیاح کو ضرور سناتے ہیں۔اس روایت میں کس حد تک حقیقت ہے حتمی طور پر تو یہ عقدہ اس وقت کھل کر سامنے آئے گا جب تحقیق کرنے والیحتمی طور پر کسی نتیجے پر پہنچ پائیں گے۔ لیکن آخر کچھ تو اس داستان میں ہے جو صدیوں سے ایک روایت کی شکل میں سینہ در سینہ چلی آ رہی ہے۔
ڈیرنکویو میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی تو حیرت اور خوف میں مبتلا ہزاروں لوگوں نے اس پراسرار شہر کا رخ کیا جس کے بعد فوری طور پر حکومتی اداروں نے اس کی کھدائی کا کام اپنی زیر نگرانی شروع کرایا۔
ابتدائی طور پر کھدائی کے دوران زیر زمین غار نما رہائشی کمرے ،مویشیوں کے اصطبل ،خشک خوراک ذخیرہ کرنے کے بڑے بڑے کمرے ، مٹی کے مرتبان نما برتن ، شراب کی بھٹیاں ، سکول اور عبادت گاہوں پر مشتمل ایک مکمل نیٹ ورک جو لگ بھگ 600 داخلی رستوں پر مشتمل تھا ، دریافت ہوئے۔ جو باقاعدہ ایک منظم طریقے سے بنائے گئے تھے۔ چنانچہ اس عظیم تاریخی ورثے کو یونیسکو نے 1985ء ہی میں عالمی ورثے کی اپنی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔
اس خبر کے پھیلتے ہی دنیا بھر کے آثار قدیمہ کے ماہرین اور ماہرین تعمیرات نے یہاں کا رخ کیا۔تمام ماہرین کی یہ متفقہ رائے تھی کہ یہ ایک شہر ہی نہیں بلکہ یہ ایک مکمل تہذیب تھی۔
اگرچہ اس شہر کی تعمیر کی حتمی تاریخ بارے ماہرین ابھی تک یکسو نہیں ہیں تاہم بعض ماہرین اایتھنز کی ایک محققہ ، زینوفون کی ہسٹری آف کلچر کی ایک کتاب '' اناباس‘‘ کو بہت اہمیت دیتے ہیں جو 370 قبل مسیح میں لکھی گئی تھی اور ممکنہ طور پرقدیم تاریخ اور تہذیب سے متعلق یہ شاید پہلی تحریری دستاویز ہے۔ اس کتاب میں اناطولیہ کے ساتھ ساتھ کیپا ڈوسیہ کے شہر ڈیرنکویو کا ذکر بھی ملتا ہے۔اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کیپا ڈوسیہ کے علاقے کے آس پاس خطے کے لوگ چٹانوں کی غاروں میں رہنے کی بجائے زیر زمین کھودے گئے مکانوں میں رہتے ہیں ۔
فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کی کلاسیکل سٹڈیز کی ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈی جیورگی نے زیر زمین اس شہر کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ، کیپاڈوسییہ کی وادی اس طرح کی آبادکاری اور ساخت کے اعتبار سے اس لئے بھی موزوں سمجھی جاتی ہو گی کیونکہ پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ یہاں کی چٹانیں نرم اور بھربھری ہیں جنہیں کھودنا نسبتاً آسان ہوتا ہو گا۔
شہر کی تعمیر بارے روشنی ڈالتے ہوئے ماہرین آثارقدیمہ کہتے ہیں ، شہر کی تعمیر کے دوران ہر منزل کو نہایت منظم طریقے سے مخصوص مقاصد کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔مثلاً مویشیوں کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والی بدبو اور زہریلی گیسوں کے اثرات کو زائل کرنے اور سردیوں کی شدت سے بچنے کے لئے باقاعدہ طور پر'' انسولیشن سسٹم‘‘کے شواہد بھی ملے ہیں۔لیکن سب سے حیران کن یہاں پر ہوا کی آمدورفت کا ایک منظم اور پیچیدہ نظام ہے جو پورے شہر کو تازہ ہوا فراہم کرتا ہو گا۔ دراصل بنیادی طور پر اس شہر کی ابتدائی تعمیر کے دوران پچاس سے پچپن کے قریب سوراخ صرف ہوا کی آمدورفت کے لئے بنائے گئے تھے جو شہر کے بیشتر مکانوں اور دالانوں کے درمیان قدرتی ہوا کے بہاو کا ایک منظم ذریعہ تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ کنووں کو لگ بھگ دوسو فٹ گہرائی تک کھودا گیا تھا جسے بوقت ضرورت باآسانی باہر کی دنیا سے منقطع بھی کیا جا سکتا تھا۔
ان زیر زمیں کمروں کی تعمیرات بتاتی ہیں کہ ڈیرنکویو کے باشندے ان زیر زمیں منزلوں کے نیچے مہینوں باآسانی رہ سکتے تھے۔ماہر تعمیرات اور ماہر آثار قدیمہ اس نقطے پر متفق ہیں کہ اس منظم زیر زمیں شہر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ڈیرنکویو کے باشندے ذہین اور تعمیرات کے ابتدائی اصولوں سے بخوبی آگاہ تھے۔یہاں یہ وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ کیپا ڈوسیہ میں ڈیرنکویو ہی واحد زیر زمیں شہر نہیں بلکہ اناطولیہ میں لگ بھگ 445 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے میدانوں میں ایسے ہی 200 مزید زیر زمیں شہر بھی دریافت ہوئے ہیں البتہ ڈیرنکویو ان سب میں مرکزی شہر کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس شہر کی زیر زمین تعمیر بارے بیشتر ماہرین آثار قدیمہ اس نقطے پر متفق نظر آتے ہیں کہ اس شہر کو ممکنہ طور پر جنگوں کے خطرات کے پیش نظر سامان ذخیرہ کرنے اور عارضی پناہ گاہ کے طور پر استعمال میں لانے کے لئے زیر زمین بنایا گیا ہو گا۔ کیونکہ کیپاڈوسیہ نے ایک لمبے عرصے تک طاقت ور سلطنتوں کے حملوں کا سامنا کیا تھا۔ کچھ ماہرین اس شہر کی تعمیر کو ساتویں صدی کے اسلامی حملوں سے بھی جوڑتے ہیں جو دراصل بنیادی طور پر عیسائی بازنطینی سلطنت پر حملوں کا عرصہ تھا۔ تاہم دنیا بھر کے ماہرین تمام دستیاب شواہد کی روشنی میں دن رات کڑیاں ملا کر حقائق کی تہ تک پہنچنے میں مصروف ہیں۔