سانپوں کی کہانی
اسپیشل فیچر
اگر آپ قدیم دور کے انسان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ایک ایسا دور بھی گزرا ہے جب سانپ انسانی خوراک کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ بنیادی طور پر یہ دور کاشتکاری کے دور سے بہت پہلے کا دور تھا جب انسان شکار کر کے اپنی خوراک کی ضروریات پوری کیا کرتا تھا۔ لیکن انسانی خوراک صرف سانپوں تک ہی محدود نہیں ہوا کرتی تھی اس میں چھپکلیوں کے علاوہ متعدد رینگنے والے کیڑے شامل ہوا کرتے تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ ابتدائی دور میں انسان نے ابھی اڑتے پرندوں کے شکار کیلئے ہتھیار ایجاد نہیں کئے تھے اس لئے ممکنہ طور پر رینگنے والے کیڑے ہی اس کا آسان ہدف ہوتے ہوں گے۔
یہ وہ دور تھا جب سانپ انسانی آبادیوں کے اندر ہی رہتے تھے۔ بنیادی طور پر یہ دور کم انسانی آبادی والا دور تھا۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انسانی آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو سانپوں نے بھی جنگلوں، پہاڑوں، ویروانوں اور جزیروں کو اپنا محفوظ مسکن جانتے ہوئے وہاں کا رخ کیا اور شہروں میں ان کی قلیل تعداد رہ گئی۔ اس کی ایک وجہ ان مقامات پر سانپوں کی وسیع پیمانے پر خوراک کی دستیابی بھی ہے۔ سانپوں کا ذکر چھڑا ہے تو آج آپ کو دنیا کے مختلف خطوں میں پھیلے سانپوں کے دلچسپ اور منفرد واقعات سناتے ہیں۔
منفرد جزیرہ جہاں صرف
سانپ رہتے ہیں
106 مربع ایکڑ رقبے پر پھیلا '' ایلا ڈا قیماڈا گرینڈ ے‘‘ ، برازیل کا ایک منفرد جزیرہ ہے جو انسانوں کی بجائے دنیا کے خطرناک ترین سانپوں ''گولڈن لینس ہیڈ‘‘ کا گڑھ ہے۔ سنہرے رنگ کا یہ خطرناک سانپ دوسرے کسی بھی سانپ کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ مہلک ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی انسان آباد نہیں۔ اور تو اور اس جزیرے پر سانپوں کے علاوہ کوئی جاندار بھی نہیں بستا، پرندے بھی یہاں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ صرف وہ جو دور دراز سے پرواز کے دوران یہاں سستانے کیلئے رک جاتے ہیں۔
برازیل کی حکومت نے عام انسانوں کا داخلہ یہاں ممنوع قرار دے رکھا ہے۔صرف سائنس دانوں یا ماہرین کو داخلے کی مشروط اجازت دی جاتی ہے۔داخلے کی اجازت نہ دئیے جانے کی ایک وجہ ان سانپوں کا تیز ترین زہر ہے جسے سائنسی لیبارٹریاں اور تحقیق کرنے والے ادارے مہنگے داموں خرید لیتے ہیں۔ ان سانپوں کا زہر کینسر سمیت کئی خطرناک بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتا ہے۔ اس نسل کا ایک سانپ عمومی طور پر 30 ہزار امریکی ڈالر ( تقریباً 80 لاکھ پاکستانی روپے) میں فروخت ہوتا ہے۔
سنیک آئی لینڈ
''سنیک آئی لینڈ‘‘ یوکرین اور روس کے درمیان ایک متنازعہ جزیرہ چلا آرہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ یوکرین کا ایک خطہ ہے جو روس اور یوکرین کی سرحد پر دریائے دنوب کے کنارے واقع ہے۔ اگرچہ برسوں سے یوکرین کا اس پر قبضہ رہا ہے لیکن اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے روس نے اب بزور طاقت اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ایک زمانے میں یہ ویران جزیرہ یوکرین کے زیر انتظام تھا۔ اس جزیرے کی ویرانی کی وجہ یہاں خطرناک سانپوں کا مسکن تھا جس کی وجہ سے اس جزیرے کا نام '' سنیک جزیرہ‘‘ مشہور ہو گیا تھا۔روس اور یوکرین کے درمیان برسوں سے جاری جنگ کے سبب اب یہاں سانپوں کا،قریب قریب خاتمہ ہو چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ دنیا کا واحد جزیرہ ہے جہاں جنگی تباہ کاریوں کے باعث کسی جنگلی مخلوق کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
سانپوں کی منفرد فلاحی پناہ گاہ
میانمار ،جس کا،قدیمی نام برما تھا ، جنوبی ایشیا کا یہ ملک بدھ مت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ینگون یہاں کا ایک مرکزی شہر ہے۔اس شہر کی ایک وجہ شہرت یہاں پر خطرناک سانپوں کی ایک فلاحی پناہ گاہ ہے جو بدھ مت کے ایک پیروکار اور راہب ویلاتھا نے 2015ء سے قائم کر رکھی ہے۔ یہ پناہ گاہ ینگون میں واقع ''سیکھتا ٹھوکا ٹیٹھو‘‘ نامی ایک مندر میں قائم ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ''رائٹرز‘‘ اس پناہ گاہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے، ''اس پناہ گاہ کے خالق ویلاتھا، سانپوں کے تحفظ کیلئے اگریہ پناہ گاہ نہ بناتے تو اب تک سیکڑوں سانپ یا تو ہلاک کر دئیے جاتے یا پھر انہیں بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دیا جاتا‘‘۔ویلاتھا کا کہنا ہے کہ لوگ عموماً سانپ بیچنے کیلئے پکڑتے ہیں ، لیکن میانمار میں بدھ مت کے پیروکاروں کے نزدیک اسے راہب کے حوالے کرنا نیکی اور احسن عمل سمجھا جاتا ہے۔اس پناہ گاہ میں وائپرز، پائتھن اور کوبرا جیسے خطرناک سانپ بھی موجود ہیں۔
ویلاتھا کے بقول یہ سانپ میرے بچوں کی طرح ہیں۔اس لئے وہ سانپوں سے بہت پیار کرتے ہیں ، ان کی دیکھ بھال اور خوراک پر وہ ہر ماہ تقریباً تین سو سے چار سو ڈالر تک خرچ کرتے ہیں، جس کا ذریعہ مخیر حضرات کے عطیات پر منحصر ہوتا ہے۔ ویلاتھا کا کہنا ہے کہ سانپوں کی اس پناہ گاہ میں علاقے کے مکین اور سرکاری ادارے مختلف مقامات سے پکڑے گئے سانپ بھی جمع کراتے رہتے ہیں۔ویلاتھا کے بقول، جیسے ہی وہ محسوس کرتے ہیں کہ سانپ اب جنگل میں محفوظ زندگی بسر کر سکتا ہے تو وہ اسے جنگل میں جا کر چھوڑ آتے ہیں۔
بیس لاکھ سانپوں والا جزیرہ
50 کلومیٹر طویل اور دس کلومیٹر چوڑے ایک امریکی جزیرے ''گوام‘‘ کی کل آبادی تو بمشکل ڈیڑھ سے دو لاکھ کے درمیان ہے، لیکن اس جزیرے پر چار سو پھیلے ''براؤن ٹری سنیک‘‘ نامی سانپوں کی تعداد 20 لاکھ سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ جنگلی حیات کے ماہرین کے بقول یہ سانپ دوسری جنگ عظیم کے بعد ممکنہ طور پر پاپوا نیو گنی سے امریکہ بھیجے گئے سامان کے ساتھ کسی بحری یا ہوائی جہاز کے ساتھ گوام میں آ گئے ہوں گے۔ جنگلی حیات کے ایک ماہر نے بتایا کہ ایک جینیاتی مطالعہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ تمام سانپ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور پاپوا نیو گنی کے جزیرے مینس سے یہاں آئے ہیں۔
دنیا کا خطرناک ترین سانپ
ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اس وقت تک دنیا کا سب سے زہریلا اور خطرناک سانپ ''ان لینڈ ٹائیپین‘‘ ہے۔یہ آسٹریلیا کے علاوہ بعض افریقی ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں۔یہ فطرتاً ایک نڈر اور اپنے شکار پر فی الفور حملہ کرنے کی شہرت رکھتا ہے۔عام سانپوں کی فطرت سے ہٹ کر یہ دن کے ابتدائی اوقات میں زیادہ متحرک ہوتا ہے۔یہ اس قدر زہریلا سانپ ہے کہ اس کے ڈسنے سے اموات کی شرح 85 سے 90 فیصد تک ہوتی ہے۔اس کے ڈسنے کے 30 سے 40 منٹ کے اندر اندر انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا
( دیو ہیکل)سانپ
حال ہی میں بین الاقوامی میڈیا نے اب تک دنیا کے سب سے بڑے سانپ کے دریافت ہونے کی خبر دی ہے جو ایمازون کے جنگلات سے ملا ہے۔ تفصیل کی مطابق دریافت ہونے والا سانپ ایک اژدھا ہے جس کا وزن تقریباً 200 کلوگرام کے قریب ہے ، جبکہ اس کی لمبائی 26 فٹ ہے۔اس دیوہیکل سانپ کے سر کا سائز ایک عام انسان کے سر کے برابر ہے۔ پانی کے اندر رہنے والے اس سانپ کی جلد آدھ انچ موٹی ہے۔
دنیا کا قدیم ترین سانپ
حال ہی میں بھارتی میڈیا نے بھارت کی ریاست گجرات کے اندر صدیوں پہلے پائے جانے والے سانپ جسے ہندو مذہب میں ''واسوکی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے کی باقیات دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ یہ باقیات 4 کروڑ 70 لاکھ سال پرانی بتائی جاتی ہیں۔اس دریافت کا سہرا ''انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی رورکی‘‘ کے ماہرین کے سر جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دریافت کئے گئے سانپ کی لمبائی 33 فٹ سے لے کر 50 فٹ کے درمیان بتائی جا رہی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سانپ کی یہ نسل صدیوں پہلے بھارت کے اسی خطے میں پائی جاتی تھی جو ممکنہ طور پر موسمیاتی تبدیلیوں یا کثرت سے شکار ہونے کے باعث رفتہ رفتہ معدوم ہو گیا ہو گا۔