خوش ذائقہ میوہ:کاجو:اس سے جسم کی تھکن دور ہوتی ہے

خوش ذائقہ میوہ:کاجو:اس سے جسم کی تھکن دور ہوتی ہے

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور گلزار


سردیوں کی آمد آمد ہے اور موسم سرما کے شروع ہوتے ہی ہر سو خشک میوہ جات کی بہار آجاتی ہے۔ یہ میوے مختلف قسم کی نمکین اور میٹھی ڈشز میں استعمال ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں خشک میووں میں چکنائی اور حرارے بہت زیادہ ہوتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ خشک میوے اگر اعتدال سے استعمال کیے جائیں تو بے حد فائدہ دیتے ہیں۔ اگر ہم گری دار میووں کا استعمال ترک کر دیں گے تو پھر ہم پروٹین اور معدنیات سے محروم ہو جائیں گے۔
سردیوں کے موسم میں ہمیں اپنی صحت کی بہتری کیلئے خشک میوے ضرور استعمال کرنے چاہیں۔ان گری دار میووں میں ایک خوش ذائقہ میوہ کاجو بھی ہے۔ کاجو جنوبی بھارت کے جنگلوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ اس کے درخت کی بلندی دس سے بارہ میٹر تک ہوتی ہے۔ اس درخت سے زرد مائل رنگ کا گوند نکلتا ہے۔اس کی شاخوں سے چار انگشت ٹوپی جیسی کلی نکلتی ہے۔ پھر اس میں مخروطی شکل کا پھل لگتا ہے۔ جس کی پیندی چوڑی ہوتی ہے۔ سر پتلا اور بے نوک ہوتا ہے۔ اس پھل کا چھلکا بہت نرم ہوتا ہے۔جو اوپر سے سرخ یا زردی مائل ہوتا ہے۔ اس کی بو تیز ہوتی ہے اور مغز میٹھا ہوتا ہے۔ اس پھل کے نیچے سے دو رگیں دو خطوں کی طرح نکلتی ہیں۔ان دونوں کے درمیان دو بیج بندھے رہتے ہیں جن کی شکل گودے جیسی ہوتی ہے۔پتلے چھلکوں کے اندر سفید مینگ سی ہوتی ہے۔ جس کا مزا نہایت شیریں اور لذت سے بھرپور ہوتا ہے۔ کھانے میں بادام سے مشابہت رکھتا ہے اور ذائقہ دار ہوتا ہے۔ بس یہی کاجو کا بیج ہے۔
کاجو کا درخت Anacardiaceae خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ سدا بہار درخت ہے جو 12 میٹر تک بلند ہوتا ہے۔ اس کی پتّیوں کے باہر کی جانب ایک گنبد نُما تاج یا سائبان ہوتا ہے جہاں اس کے پھول اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا پھل گردے کی شکل کا بیج ہوتا ہے اور یہ 3 سینٹی میٹر لمبا اور 1.2 سینٹی میٹر چوڑا ہوتا ہے۔ یہ ایک بڑے برتن نُما‘ ڈنٹھل دار اور پھولے ہوئے پھل سے منسلک ہوتے ہیں جو کاجو ایپل (cashew apple) کہلاتا ہے اور اس پھل کی شکل ناشپاتی سے ملتی جلتی ہے۔ کاجو ایپل کا رنگ چمکدار لال سے پیلا ہوتا ہے۔ یہ نرم اور رسیلا ہوتا ہے۔ اس کے چھلکے کا رنگ سرخی مائل بھورا ہوتا ہے۔ جب اس کے گودے کا چِھلکا اتارا جاتا ہے تو یہ کاجو (یا کاجو کی گِری) کہلاتا ہے۔ یہ تجارتی مقاصد کے تحت ہندوستان اور برازیل میں بکثرت کاشت کیا جاتا ہے۔
اس کے چھلکے سے تیل نکلتا ہے۔ اس کا رنگ سیاہ اور مزا تلخ ہوتا ہے۔جسے جلد پر لگانے سے چھالے پڑ جاتے ہیں مگر لکڑی کو محفوظ رکھتا ہے۔ اس میں گائے کے قیمے جتنا فولاد ہوتا ہے۔ اسے کھانے سے جسم میں خون کی کمی دور ہو جاتی ہے۔ کاجو میں جست بھی پایا جاتا ہے جو جسم کی معمول کی افزائش کیلئے مفید ہے۔ یہ جسم کے مدافعتی نظام کیلئے مفید ہے۔ تاہم ہائی بلڈ پریشر یا دل کے مریض افراد نمکین کاجو سے پرہیز کریں۔ کاجو میں تانبا اور مینگنیز بھی خوب ہوتا ہے۔ یہ عضلات کیلئے اچھا اثر ڈالتا ہے کیونکہ اس میں فاسفورس، مینگنیزیم، جست وٹامن بی اور فولیٹ کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔
ا سیکھانے سے جسم کی تھکن دور ہوتی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ کاجو اور دیگر گری دار میووں کے استعمال سے وزن کم کرنے میں مدد ملتی ہے حالانکہ اس میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے۔ سو گرام کاجو میں 600 حرارے اور 60 گرام چکنائی ہوتی ہے۔ کاجو کے استعمال کے طریقے نہار منہ شہد کے ساتھ کھانے سے نسیان کے مرض میں افاقہ ہوتا ہے۔ یہ ٹھنڈے مزاج افراد کیلئے بھی مفید غذا ہے۔ کاجو کے پھل کا رس ورم میں ہونے والے درد کیلئے بھی مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس کے چھلکوں کا تیل سرکہ میں بھگو کر حاصل کرتے ہیں جو کہ ایگزیما اور آتشک میں مالش کرنے سے فائدہ دیتا ہے۔ اس کے مغز کا مربہ دل و دماغ کیلئے طاقتور ہے۔ جسم کے مسوں اور پھوڑے پھنسی کو ہٹانے کیلئے اس کا تیل لگایا جاتا ہے۔ اس کا مغز دانتوں کی جڑوں کو ہونے والے درد سے آرام دیتا ہے۔ کاجو خوش ذائقہ ہونے کی وجہ سے مختلف کھانوں اور آئس کریموں میں استعمال ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
نسیم بیگم:خداداد صلاحیتوں سے مالامال گلوکارہ

نسیم بیگم:خداداد صلاحیتوں سے مالامال گلوکارہ

نسیم بیگم کا شمار پاکستان کی ان خاتون گلوکارائوں میں ہوتاہے جنہوں نے 60ء کی دہائی میں اپنی دل نشین آواز کا جادو بکھیرا اور بہت جلد عوام کے دلوں میں گھر کر گئیں۔50ء کی دہائی میں زبیدہ خانم چھائی رہیں۔ وہ بلاشبہ ایک بے مثل گلوکارہ تھیں۔ لیکن یہاں اس حقیقت کو مدنظر رکھا جائے کہ زبیدہ خانم نے زیادہ تر پنجابی نغمات گائے جبکہ نسیم بیگم نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں گیت گا کراپنی فنی عظمت کا سکہ جمایا۔ تیکھی آواز کی مالکہ نسیم بیگم نے اردو اور پنجابی گیتوں کے علاوہ کچھ ملی نغمات بھی گائے جنہوں نے ان کی شہرت میں مزید اضافہ کیا۔ یہ کہا جاتا تھا کہ غزل گائیکی میں صرف میڈم نور جہاں اور فریدہ خانم وہ خاتون گلوکارائیں ہیں جنہیں اس فن گائیکی میں کمال حاصل ہے۔ لیکن نسیم بیگم نے غزل بھی اتنی شاندار گائی کہ لوگ حیران رہ گئے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر نسیم بیگم نے بہت جلد منفرد مقام حاصل کرلیا۔24 فروری 1936ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والی نسیم بیگم کو اپنے دور کی نیم کلاسیکل گائیکہ مختار بیگم نے گائیکی کے اسرارو رموز سکھائے۔ شروع میں انہیں دوسری نور جہاں کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی اور کامیابی سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔1956ء میں پلے بیک گائیکی کا آغاز کرنے والی نسیم بیگم نے سب سے پہلے بابا جی اے چشتی کی موسیقی میں فلم ''گڈیگڈا‘‘ کیلئے گیت گایا۔ 1958ء میں موسیقار شہریار نے ان سے اپنی فلم ''بے گناہ‘‘ کیلئے گیت گوائے۔ اس فلم میں ان کا گایا ہوا گیت ''نینوں میں جل بھر آئے‘‘ بہت مشہور ہوا۔ انہوں نے مشہور گلوکار احمد رشدی کے ساتھ کئی مسحور کن دوگانے گائے۔ 60ء کی دہائی میں انہوں نے ''سہیلی، شام ڈھلے، شہید، باجی، اک تیرا سہارا، حویلی، فرنگی، پائل کی جھنکار، زرقا اور پردیس‘‘ شامل ہیں۔ ان کی مشہور پنجابی فلموں میں ''کرتار سنگھ، تیس مار خان، جی دار، مکھڑا چن ورگا، جنٹرمین، چن پتر، میرا ویر اور لنگوٹیا‘‘ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے ''کون کسی کا، لٹیرا اور حویلی‘‘ کیلئے بھی شاندار گیت گائے۔ فلم ''کرتار سنگھ‘‘ میں ان کا گایا ہوا یہ گیت ''دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘‘ کو اتنی شہرت ملی کہ اسے لوک گیت کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس فلم کی موسیقی سلیم اقبال نے مرتب کی تھی جبکہ یہ گیت وارث لدھیانوی کے زور قلم کا نتیجہ تھا۔ اس فلم کا ایک اور گیت نسیم بیگم نے بڑی لگن سے گایا اور یہ بھی سپرہٹ ثابت ہوا۔ اس گیت کے بول تھے ''ماہی نے تینوں لے جانا لے جانا نی‘‘۔ انہوں نے فلم ''نیند‘‘ میں میڈم نور جہاں کے ساتھ دو دو گانے گائے۔ یہ گیت کچھ اس طرح تھے ''اکیلی مت جانا، زمانہ نازک ہے‘‘ اور جیا دھڑکے،سکھی اے زور سے‘‘۔ اس کی موسیقی رشید عطرے کی تھی۔ جنہوں نے نسیم بیگم سے بے شمار گیت گوائے۔ حبیب جالب کا لکھا ہوا گیت ''دے گا نہ کوئی سہارا ان بے درد فضائوں میں‘‘ انہوں نے فلم ''کون کسی کا‘‘ کیلئے مسعود رانا کے ساتھ مل کر گایا تھا۔ اس دوگانے میں انہوں نے اتنا سوز بھردیا تھا کہ سینما ہال میں بیٹھے ہوئے شائقین کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی تھیں اور بعض انتہائی حساس لوگ تو زاروقطار رونے لگتے تھے۔ اسی طرح فلم ''اک تیرا سہارا‘‘ میں قتیل شفائی کے اس رومانوی گیت کو نسیم بیگم نے اتنی رغبت اور چاشنی سے گایا کہ اہل موسیقی جھوم اٹھے۔ ماسٹر عنایت حسین کی دلفریب موسیقی میں گایا ہوا یہ گیت آج بھی جب سماعت سے ٹکراتا ہے تو انسان پر وجد طاری ہو جاتا ہے۔بلاشبہ اس گیت کو وجد آفریں گیت کہا جاسکتا ہے۔ اس گیت کے بول تھے ''گھنگھور گھٹا لہراتی ہے، پھر یاد کسی کی آتی ہے‘‘۔1969ء میں فلم ''پرستان‘‘ میں ان کا گایا ہوا یہ نغمہ بھی بہت مشہور ہوا ''محبت کے دم سے یہ دنیا حسیں ہے‘‘۔نسیم بیگم نے غزل گائیکی میں بھی کمال کر دیا۔1962ء میں منیر نیازی کی یادگار غزل ''اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ گلوکارہ نسیم بیگم نے ریاض شاہد اور خلیل قیصر کی فلم ''شہید‘‘ کیلئے گائی تو اس غزل نے بھی بے پناہ شہرت حاصل کی۔ نسیم بیگم نے اس غزل کو انتہائی خوبصورتی سے گایا تھا اور منیر ینازی نے بھی نسیم بیگم کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیا۔ حالانکہ ان کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ وہ کسی دوسرے کی تحسین شاذ ہی کرتے تھے۔ منیر نیازی کی مذکورہ بالا غزل کے علاوہ ان کی کچھ دیگر غزلوں نے بھی اہل موسیقی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میڈم نور جہاں کو بھی ان سے سخت مقابلہ کرنا پڑا۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کی لکھی ہوئی فلم ''شام ڈھلے‘‘ کیلئے یہ غزل آج تک اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ نسیم بیگم نے اس غزل کو انتہائی خوبصورتی سے گایا۔ یہ غزل تھی ''سوبار چمن مہکا، سو بار بہار آئی‘‘۔ حفیظ ہوشیارپوری کی اس معرکۃ آلارا غزل کو مہدی حسن اور نسیم بیگم نے الگ الگ گایا۔ اس غزل نے بھی مقبولیت کے تمام ریکارڈ پاش پاش کر دیئے تھے۔ غزل ملاحظہ فرمائیں ''محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘‘۔انہوں نے ملی نغمات بھی گائے، ان کا گایا ہوا یہ نغمہ ''اے راہ حق کے شہیدو‘‘ انتہائی اثر انگیز ہے۔ مشیر کاظمی کے لکھے ہوئے اس گیت کوانہوں نے جس نفاست اور لگن سے گایا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ نسیم بیگم فن گائیکی پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اے حمید، بابا چشی، ناشاد، بخشی وزیر، نثار بزمی اور سلیم اقبال کی موسیقی میں نغمات گائے۔ وہ 1956ء سے 1971ء تک اپنی شاندار آواز کا جادو بکھیرتی رہیں۔29 ستمبر1971ء کو یہ ہمہ جہت گلوکار ہ صرف35سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

آج کا دن

آج کا دن

برازیلین صدر کا مواخذہ1992ء میں آج کے روز برازیل کے صدر فرنینڈو کولر ڈی میلو کا مواخذہ کیا گیا۔ فرنینڈو نے 1990ء سے 1992ء تک برازیل کے 32 ویں صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ برازیل میں فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد جمہوری طور پر منتخب ہونے والے پہلے صدر تھے۔ وہ 40 سال کی عمر میں عہدہ سنبھالتے ہوئے برازیل کی تاریخ کے سب سے کم عمر صدر بن گئے تھے۔ بدعنوانی کے الزامات پر ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی کی گئی۔ فرنینڈو کو قصور وار پانے پر آٹھ سال کیلئے منتخب عہدہ رکھنے کیلئے نااہل قرار دیا گیا۔ بعد میں سپریم فیڈرل کورٹ نے انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا۔ایران فضائی حادثہ29ستمبر 1981ء کو ایرانی فضائیہ کا ''لاک ہیڈ 130 سی‘‘ ہرکولیس ملٹری ٹرانسپورٹ طیارہ کہریزک، ایران کے قریب فائرنگ رینج میں گر کر تباہ ہو گیا، جس میں 80 افراد ہلاک ہوئے۔ ''لاک ہیڈ 130 سی ہوکولیس‘‘ ایک امریکی چار انجن والا ٹربو پروپ ملٹری ٹرانسپورٹ ہوائی جہاز تھا جو ٹیک آف اور لینڈنگ کیلئے بغیر تیاری کے رن وے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے قابل۔اب یہ دنیا بھر میں بہت سے فوجی دستوں کیلئے اہم ٹیکٹیکل ہوائی جہاز ہے۔ ہرکولیس کی 40 سے زیادہ اقسام ہیں۔ناسا کے خلائی مشن کی روانگی1988ء میں آج کے روز ناسا کا خلائی مشن ''ایس ٹی ایس 26‘‘ خلائی سفر پر روانہ ہوا۔ اسے کینیڈی اسپیس سنٹر، فلوریڈا سے لانچ کیا گیا۔ یہ ''چیلنجر‘‘ سانحہ کے بعد خلاء میں جانے والا ناسا کا پہلا مشن تھا جو چار دن بعد یعنی 3 اکتوبر 1988ء کو اپنی منزل مقصود پر پہنچا۔ اس دوران اس نے 27لاکھ تین ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا، اس میں ''اپالو 11‘‘ کے بعد ایک تجربہ کار عملہ تھا جو 5 خلاء بازوں پر مشتمل تھا۔گوئٹے مالا کا زلزلہگوئٹے مالا میں 29 ستمبر 1717ء کو آنے والے زلزلے نے متعدد شہروں میں تباہی مچا دی۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے کی شدت 7.4 تھی، جبکہ بعدازاں آنے والے آفٹر شاکس بھی شدید نوعیت کے تھے۔ زلزلے سے اینٹیگوا کی عمارتوں کوبہت نقصان پہنچا جو اس وقت وسطی امریکہ کا نوآبادیاتی دارالحکومت تھا۔ مجموعی طور پر 3ہزار سے زیادہ عمارتیں تباہ ہوئیں جن میں کئی مندر اور گرجا گھر بھی شامل تھے۔

یادرفتگاں  امیر خسرو

یادرفتگاں امیر خسرو

امیر خسرو کا اصل نام ابوا لحسن اور یمین الدین محمود لقب تھا مگر انہیں شہر ت تخلص سے ملی۔ امیر ان کا موروثی خطاب تھا اور پیدائش 1253ء کی ہے ۔ خسرو خو د ترک ہندوستانی کہلانا پسند کرتے تھے جبکہ ان کہ مرشد نظام دین اولیاء نے انہیں '' طوطی ِ ہند‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ان کے والد امیر سیف الدین ایک ترک سردار تھے ۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور شمالی ہند کے پٹیالی قصبے (آگرہ ) میں جا بسے۔ ان کی والدہ ایک نو مسلم راجپوت گھرانے سے تھیں۔ وہ 8برس کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ کچھ عرصے بعد ان کا خاندان دہلی منتقل ہوگیا ۔ وہ برصغیر میں مسلم عہد حکومت کے ابتدائی ادوارکے عینی شاہد بھی ہیں ۔انہوں نے دہلی سلطنت کے خاندان ِ غلامہ خلجی اور تغلق کے آٹھ بادشاہوں کا نہ صرف زمانہ دیکھا بلکہ اس زمانے کی سیاسی سماجی اور ثقافتی زندگی میں بھرپور کردار بھی اد ا کیا۔ اگرچہ خسرو کا آبائی پیشہ سپہ گری تھا مگر وہ صوفی کے علاوہ ایک بلند پایا ادیب،شاعر ، نثر نگار، موسیقار اورمتعدد زبانوں کے ماہر تھے۔ انہوں نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر وہ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے۔ان کی تصانیف کی تعداد 92ہے جو فارسی اور اُردو زبان کی پہلی شکل ہندوی (فارسی، ترکی، کھڑی بولی، برج بھاشہ، اودھی کا مرکب) میں لکھی گئی ہیں۔ ان میں''تحفہ الصغروو سطالحیات ، غرۃ الکمال ، بقیہ نقیہ ، قصہ چہار درویش، نہایتہ کمال، بشت بہشت، قرآن السعدین، مطلع الانوار ، مفتاح الفتوح ،مثنوی، ذوالرانی ، خضر خان ، نہ سپہر ، تغلق نامہ ، خمسہ نظامی ، اعجاز خسروی ، خزائن الفتوح ، افضل الفوائد، لیلیٰ مجنوں، خالق باری، ضواہر خسروی، آئینہ سکندری، ملاالانور اور شیریں خسرو‘‘ و غیرہ کافی مشہور ہیں۔خسرو کو اُردو زبان کا موجد بھی کہا جاتا ہے، جسے انہوں نے ''ہندوی‘‘ نام دیا تھا جو بعد میں ہندی ، پھر ریختہ ، اور اردو معلی کے بعد اردو کہلائی ۔اسی طرح دنیا میں اردو کا پہلا شعر بھی خسروسے منسوب کیا جاتا ہے ۔ ان سے اور بھی کئی ایجادات منسوب ہیں جن میں قوالی، موسیقی، کے راگ اور آلات وغیرہ شامل ہیں۔ وہ موسیقی کے دلدادہ تھے، ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کا انہیں ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ کلاسیکل موسیقی کے اہم ساز، طبلہ اور ستار پر ''تیسرہ تار چڑھانا‘‘ انہی کی ایجاد ہے۔ انہوں نے اکثرراگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی ( ایمن ، کلیان ) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی اختراع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تان سین اور بے جو باورا نے فن ِ موسیقی میں جو دوامی شہرت پائی وہ خسرو کے فن کی بدولت ہے۔ اسی طرح کے ماضی کے بے شمار فنکاروں جیسے امرائو جان ادا ، ملکہ جان گوہر جان اور شہناز وغیرہ کو ''کلام ِ خسرو‘‘ کی بدولت شہرت ملی۔ علمی و ادبی لحاظ سے خسرو کی عظمت بہت زیادہ ہے ۔ انہوں نے ہمسہ نظامی کی طرز پر ہمسہ لکھا اور تصوف و اخلاقیات کے موضوع پر اپنی پہلی کوشش ''مطلع النوار‘‘ پیش کی۔ مثنوی شیری، خسرولیلیٰ مجنوں لکھی۔ اسی دوران ان کی والدہ اور چھوٹے بھائی کا انتقال ہوگیا۔ مثنوی میں درد و قرب کی کیفیت لانے کی ضرورت نہیں پڑی خودبخود آ گئی۔ سلطان علائو الدین خلجی کے دور کو 12 سال تک دیکھنے اور پر کھنے کے بعد خسرو نے''خزائن الفتوح‘‘تصنیف کی جو ان کا پہلا نثری کارنامہ تھا ۔ انہوں نے اس کتاب میں اپنے عہد کی تاریخ پیش کی ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے مرشد نظام الدین اولیاء کے ملفوظا ت کو جمع کر کے ''افضل الفواد‘‘ کے نام سے مر تب کیا۔ انہوں نے علائو الدین خلجی کے بیٹے خضر خان کی داستان ِ عشق بھی نظم کی ۔ خسرو کو شاعری کے حوالے سے اپنی زندگی ہی میں شہرت مل گئی تھی۔ انہوں نے بیشتر کتابیں اپنی زندگی ہی میں ترتیب دیں ۔ وہ نظام الدین اولیاء کے بڑے چہیتے مرید تھے اور انہیں بھی اپنے مرشد سے انتہائی عقیدت تھی ۔ دوسرے مرید بھی مرشد کی توجہ کیلئے اکثر خسرو ہی کو وسیلہ بناتے تھے۔ ایک طرف آپ کا تعلق درباروں سے تھا اور دوسری طرف نظام الدین اولیاء کی خانقاہ سے۔ اپنے پیر و مرشد کی جدائی میں امیر خسرو کا دل صرف شاعری ہی سے نہیں بلکہ زندگی سے بھی اُچاٹ ہوگیا تھا ۔ آخر کار دل کی اس بے قراراری کو قرار آہی گیا اور محض چھ مہینوں بعد خسرونے بھی 28ستمبر 1325ء کو اس جہان ِ فانی کو خیرباد کہا اور اپنے مرشد کے قدموں میں دفن ہوئے ۔ تب تک وہ اپنا آخری دیوان ''نہایت الکمال‘‘ مکمل کر چکے تھے۔ 13ویں صدی کا یہ عوامی شاعر برصغیر ہندو پاک کی ادبی و ثقافتی تاریخ کی نمایاں شخصیات میں سے ایک ہے، جن کا فن و کلام آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔   

لندن سنٹرل مسجد

لندن سنٹرل مسجد

مساجد تو اللہ کا گھر ہیں ان کی تعمیر میں حصہ لینا ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ اس سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور وہ شخص خوش قسمت ہے جسے اللہ کا قرب حاصل ہو جائے مساجد تو اہل اسلام کے قلعے ہیں۔ہر ایک شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی گھر کی تعمیر خوبصورت انداز میں کرے، اس کا ڈیزائن جاذب نظر اور پرکشش ہو۔ بالکل اسی طرح مسلمانوں کا یہ شعار رہا ہے کہ وہ اللہ کے گھر کی تعمیر ڈیزائن کی خوبصورتی اور طرز تعمیر میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور یہی کیفیت ان کے جذبہ ایمانی کی عکاس ہوتی ہے۔ اگر ایمان مضبوط ہو تو امت مسلمہ کی بنیادیں بھی مضبوط ہوتی ہیں۔برطانیہ کے بڑے شہر لندن کے مسلمانوں نے بھی ایک مسجد کی کمی کو شدت سے محسوس کیا۔ شہر میں ایک مسجد کی تعمیر ان کا ایک دیرینہ خواب تھا اس خواب کی تعبیر پانے کے لئے کمیونٹی کے زعماء نے شب و روز کوششیں شروع کر دیں۔ آخر ایک دن ان کی کوششیں رنگ لے آئیں اور شہر میں ایک مرکزی مسجد کی صورت میں ان کو عبادت الٰہی کی جگہ نصیب ہوئی۔4جون 1937ء کو شہزادہ اعظم جاہ نے جو ریاست حیدر آباد(دکن) کے آخری حاکم میر عثمان علی خاں کے بڑے صاحبزادے تھے، نے لندن میں مسجد کی تعمیر کیلئے ہدیہ دیا اور مسجد کمیٹی کی بنیاد رکھی۔1939ء میں لندن کی مشہور مسلم شخصیات اور نمائندگان نے ایک مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں لارڈ لائیڈ جو برٹش کونسل کے چیئرمین تھے، سے بات چیت کی۔ لارڈ لائیڈ نے مسجد کمیٹی سے معلومات لیں اور بعد ازاں مدد کرنے کا وعدہ کیا۔1940ء میں لارڈ لائیڈ نو آبادیات کا سیکرٹری بن گیا۔ اس نے برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کو مسلمانوں کیلئے مسجد تعمیر کے متعلق تجویز بھیجی جس میں واضح کہا کہ یورپ کے کسی بھی دارالحکومت سے زیادہ مسلمان لندن میں رہائش پذیر ہیں لیکن ان مسلمانوں کے پاس عبادت کرنے کیلئے کوئی مرکزی جگہ موجود نہیں۔ حکومت برطانیہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے مسجد اور ایک کمیونٹی سنٹر تعمیر کرنے سے جہاں برطانوی مسلمانوں میں برطانوی حکومت سے احساس وفاداری پیدا ہوگا وہیں مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک پر بھی اس کا ایک مثبت اثر پڑے گا۔اتفاق سے انہی دنوں شاہ مصر فاروق الاوّل نے قاہرہ میں عیسائیوں کو ایک چرچ بنانے کیلئے وسیع قطعہ اراضی تحفہ میں دیا۔ جواباً جارج ششم نے بھی برطانیہ کے مسلمانوں کو مسجد اور کمیونٹی سنٹر کیلئے ایک قطعہ اراضی تحفہ میں دیا اور ساتھ ایک لاکھ پائونڈ مسجد اور کمیونٹی سنٹر کی تعمیر کیلئے منظور کئے۔ لندن میں مقیم مسلمانوں نے مسجد کمیٹی سے مشورہ کے بعد حکومت برطانیہ کا یہ تحفہ بسر و چشم شکریہ کے ساتھ قبول کیا اور اس پراجیکٹ کا نام ''اسلامک کلچرل سنٹر و مرکزی جامع مسجد‘‘ رکھ دیا گیا۔اس اسلامک کلچر سنٹر کا افتتاح نومبر 1944ء میں ہر میجسٹی شاہ جارج ششم نے کیا۔ یہ مسجد لندن کے مشہور ریجنٹ پارک کے کنارے قائم ہے۔ مسجد کی تعمیر سے قبل 1969ء میں ماہر تعمیرات سے شایان شان ڈیزائن تیار کرنے کی دعوت دی گئی، جس کے نتیجہ میں مسجد کمیٹی کو ایک سو سے زائد مقررہ تاریخ تک ڈیزائن پیش کئے گئے۔ بالآخر ایک انگریز آرکیٹیکٹ سرفریڈرک گبرڈ کا تیار کردہ ڈیزائن منتخب کیا گیا۔ مسجد کی عمارت دو حصوں پر مشتمل ہے ایک مرکزی حصہ میں نمازیوں کیلئے ہال ہے جس میں 5400نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں، جبکہ گیلری میں خواتین کیلئے جگہ مخصوص کی گئی ہے۔ کمپلیکس کے دوسرے حصہ میں داخلی دروازہ، لائبریری، ریڈنگ روم، کانفرنس روم اور انتظامیہ کے دفاتر ہیں۔ بک شاپ کے علاوہ ایک شاپ میں تسبیح، ٹوپیاں اور جائے نماز بھی دستیاب ہیں۔ کیفے ٹیریا ،پکچر گیلری اور وضو خانہ بھی موجود ہے۔ مسجد کا کل رقبہ 203ایکڑ ہے۔ مسجد کے واحد مینار کی اونچائی 141 فٹ اور گنبد کا قطر82فٹ ہے۔ گنبد بیت المقدس کے قبتہ الصخراہ کے مشابہ ہے۔ ہال کے درمیان گنبد کے نیچے خوبصورت فانونس آویزاں ہے، لائبریری میں 25000کتب موجود ہیں۔ قرآن پاک کے تیس زبانوں میں تراجم بھی دستیاب ہیں۔مسجد کی تعمیر 1947ء میں شروع ہوئی۔ سعودی عرب کے فرمانبروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز السعود نے مسجد کی تعمیر کیلئے 20لاکھ پائونڈ عطیہ دیا۔ اس طرح متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ زائد بن سلطان النہیان نے خطیر رقم کا عطیہ دیا۔ سلطنت عمان کے سلطان قابوس کے علاوہ قطر اور کویت کے حکمرانوں نے بھی دل کھول کر کار خیر میں حصہ ڈالا۔ مسجد کی تعمیر جولائی 1977ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور اس کی تعمیر پر 65لاکھ پائونڈ خرچ ہوئے۔اس اسلامک سنٹر کے پہلے ڈائریکٹر راجہ آف محمود آباد امیر احمد خاں تھے جنہوں نے تعلیمی اور انتظامی حصہ کی تعمیر کیلئے خطیر رقم عطیہ کی۔ اس حصہ کی تعمیر میں سعودی عرب کے شاہ فہد بن عبدالعزیز نے بھی بطور خاص عطیہ دیا۔ یہ حصہ 1994ء میں مکمل ہوا۔اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ اس وقت برطانیہ میں تقریباً2000مساجد ہیں جن میں 1500مساجد صرف لندن شہر میں ہیں۔ یہ برطانیہ میں مقیم 45لاکھ مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہیں، جبکہ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 7فیصد ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

اوماہا کے فساداتاوماہا میں نسلی فسادات 28ستمبر1919ء کو شروع ہوئے۔ان فسادات کے نتیجے میں ایک سیاہ فام شہری ول براؤن کو قتل کردیا گیا جبکہ بہت سے سفید فام اس میں زخمی ہوئے، شہر کے مئیر ایڈورڈ پارسنز سمتھ کو پھانسی دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ اوماہا پولیس ڈیپارٹمنٹ کے بہت سے افسران اور شہری شدید زخمی ہوئے۔ جوابی کارروائی کرتے ہوئے سفید فاموں کی بہت بڑی تعداد نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی اور اومایا کے مرکز میں واقع ڈگلس کاؤنٹی کورٹ ہاؤس کو آگ لگا دی۔ ان فسادات نے 1919ء کے ریڈ سمر کے دوران ریاستہائے متحدہ امریکہ کے بڑے صنعتی شہروں میں 20سے زیادہ نسلی فسادات کو ہوا دی۔ انڈونیشیا میں زلزلہ28 ستمبر 2018ء کو انڈونیشیا کے جزیرہ نما مناہاسا میں ایک بہت بڑا زلزلہ آیا، جس کا مرکز ڈونگالا ریجنسی، وسطی سولاویسی میں واقع تھا۔ اس زلزلے کی شدت 7.5 ریکارڈ کی گئی جبکہ اس کا مرکز صوبائی دارالحکومت پالو سے 70 کلومیٹر دور واقع تھا۔ زلزلے کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ اس کے جھٹکے ملائیشیا کے تواؤ میں بھی محسوس کئے گئے ۔مرکزی زلزلے سے قبل بھی کچھ جھٹکے محسوس کئے گئے جس کی شدت6.1ریکارڈ کی گئی۔مرکزی زلزلے کے بعد، قریبی آبنائے مکاسر کے لیے سونامی کا الرٹ جاری کر دیا گیا۔ ایک مقامی سونامی بھی آیا جس کے راستے میں ساحل پرموجود مکانات اور عمارتیں تباہ ہوگئیں۔ شام میں بغاوت 28 ستمبر 1961ء کو شام میں بغاوت کا آغاز ہوا۔یہ شامی فوج کے ناراض افسران کی بغاوت تھی جس کے نتیجے میں ایک آزاد شامی جمہوریہ کا آغاز ہوا۔اس بغاوت کے بعد شامی افواج کے پاس تمام اختیارات موجود تھے لیکن شامی فوج نے براہ راست حکومت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اورسابقہ شامی جمہوریہ کی روایتی سیاسی جماعتوں کے سیاست دانوں کوحکومت بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔بحال ہونے والی حکومت شامی جمہوریہ کا سلسلہ تھا لیکن عرب قوم پرستوں کے اثرو رسوخ کی وجہ سے اس کا نیا نام شامی عرب جمہوریہ رکھا گیا۔بحال شدہ حکومت افراتفری کا شکار تھی کیونکہ اندرونی فوجی بغاوت نے حکومت کی بہت سے پالیسیوں کو متاثر کیا تھا۔ جنوبی آسٹریلیا کا بلیک آؤٹ28ستمبر2016ء کو جنوبی آسٹریلیا کو اچانک بلیک آؤٹ کا سامنا کرنا پڑا،یہ بجلی کی ایک وسیع بندش تھی جو طوفان کی وجہ سے بجلی کی ترسیل کے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں پیش آئی تھی۔ اس بندش سے تقریباً8لاکھ50ہزار افراد متاثر ہوئے۔کنگارو جزیرہ اس بلیک آؤٹ سے متاثر نہیں ہوا کیونکہ یہاں موجود پاور سٹیشن جزیرہ کی سپلائی کے لئے تعمیر کیاگیا تھا تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کی صورت میںبجلی کی ترسیل متاثر نہ ہو سکے۔ 

یادرفتگاں:رہنمائوں کے رہنما بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان

یادرفتگاں:رہنمائوں کے رہنما بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان

جمہوریت کیلئے نوابزادہ نصر اللہ خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ان چند سیاست دانوں میں سے ہیں جو حقیقی معنوں میں کسی بھی دور میں نہ بکے اور نہ جھکے۔ 1951ء کے بعد ملک میں جتنے بھی سیاسی اتحاد بنے نوابزادہ نصراللہ خان کا ان کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ضرور رہا۔انہیں سب سے زیادہ شہرت ایوب خان کے دور میں اس وقت ملی جب انہوں نے جمہوریت کی بحالی کیلئے قربانیاں دیں اور ان پر بغاوت کا مقدمہ بنا۔ اس وقت جب دوسرے سیاستدان ہمت ہار بیٹھے تھے یہ مردِ قلندر میدان عمل میں ڈٹا رہا اور ایوب خان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کرے۔ یہی صورتحال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی رہی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے مستقل مزاجی سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک جاری رکھی۔ قائد جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 21 سال بِیت چکے ہیں اور ان کی برسی کل منائی جائے گی۔نوابزادہ نصر اللہ خان13 نومبر 1916ء کو مظفرگڑھ کے قصبے خان گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نوابزادہ سیف اللہ خان دفعہ 30 کے مجسٹریٹ تھے۔ نصراللہ خان ابھی چھ برس ہی کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ انہوں نے ایچیسن کالج لاہورسے ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں گریجوئشن کیلئے داخلہ لیا لیکن شادی کے باعث انہیں کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔وہ شعبہ صحافت سے بھی وابستہ رہے۔ سیاست انہوں نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے شروع کی۔وہ اس جماعت میں اس طرح رچ بس گئے کہ قیام پاکستان سے قبل 27 یا 28 سال کی عمر میں ہی وہ اس کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ 1950ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعدازاں اختلافات کی بنا پر مسلم لیگ سے استعفی دے دیا اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر عوامی لیگ قائم کی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان 1962ء میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور انہوں نے 1962ء میں ہی حزب اختلاف کا اتحاد ''نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ‘‘ تشکیل دے دیا۔ 1964ء میں متحدہ حزب اختلاف( سی او پی) کے نام سے ایک تیسرا بڑا سیاسی اتحاد معرض وجود میںآیا۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا یہ دوسرا بڑا اتحاد تھا جس کے قیام کا موقع ایوب خان نے صدارتی انتخاب کا اعلان کر کے فراہم کیا تھا۔ تمام اپوزیشن جماعتوں بشمول کونسل مسلم لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی اور عوامی لیگ نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا متفقہ صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ ابتدا میں سی او پی کے رہنما ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار کھڑا کرنے کے معاملے میں اختلافات کا شکار ہو گئے تا ہم فاطمہ جنا ح کے نام پر کسی کو اعتراض نہ ہوا۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے محترمہ فاطمہ جنا ح سے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنے کی درخواست کی۔ پہلے انہوں نے انکار کیا مگر بعد ازاں انہوں نے آمادگی ظاہر کر دی۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے فاطمہ جنا ح کی صدارتی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا ۔ سی او پی کو قوی یقین تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح الیکشن جیت جائیں گی۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ کو شکست ہوگی۔ نواب زادہ نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف 1967ء میں حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ''پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ تشکیل دیا۔ انہوں نے ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کو اپنی سیاسی زندگی میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ،کئی مرتبہ جیلوں میں گئے اور متعدد بار نظر بند رہے۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا ء کے دوران اپنے آبائی گھر خان گڑھ میں نظر بند ہونے کے باوجود ملکی سیاسی صورتحال پر پوری طرح نظر رکھے رہتے۔ وہ وقتاً فوقتاً قلبی واردات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرکے نظم کی صورت میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنے 50 سالہ پرانے رفیق عبدالرشید قریشی ایڈووکیٹ کے نام بھجوا دیتے، جو اس کی نقول مختلف اخبارات کو جاری کر دیتے ۔ جنرل ضیاالحق کے عہد مارشل لاء میں جس نظم کے چرچے ہوئے اور ملک بھر میں اس کی فوٹو کاپیاں تقسیم کی گئیں وہ یہ ہے۔کتنے بے درد ہیں کہ صر صر کو صبا کہتے ہیںکیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیںجبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیںمیری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے خامشی کو بھی اک طرز نوا کہتے ہیںکشتگانِ وجور کو بھی دیکھ تو لیںاہل ِدانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیںکل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی آج بھی پیش بتاں نامِ خدا کہتے ہیں یوں تو محفل سے تیری اٹھ گئے سب دل والےایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا ، کہتے ہیں یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہےچارہ گر موت کو تکمیل شفا کہتے ہیں بزمِ زنداں میں ہوا شور سلاسل برپادہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیںآندھیاں میرے نشیمن کو اُڑانے اٹھیں میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا ، کہتے ہیںان کے ہاتھوں پر اگر خون کے چھینٹے دیکھیں مصلحت کش اِسے رنگ ِحنا کہتے ہیںمیری فریاد کو اس عہدِ ہوس میں ناصر ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں نوابز ادہ نصر اللہ خان نے 1988ء اور 1993ء کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش18 سیاسی اتحاد بنائے، جن میں پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی ،این ڈی اے ،اے آر ڈی ،اے پی سی اور دیگر سیاسی اتحاد شامل ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے اے آر ڈی کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جس میں بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کو ایک فورم پر جمع کیا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان پیرانہ سالی اور علا لتوں کے دور سے گزر رہے تھے اس کے باوجود انتقال سے کچھ دن پہلے انہوں نے بیرون ملک دورہ کیا۔بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو وطن واپس آنے کی ترغیب دی۔ اس سفر میں انہیں عمرہ اداکرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان مسلح افواج کے سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ کسی بھی آئینی کردار کے خلاف تھے۔ ان کی جمہوریت کے فروغ کیلئے خدمات قابل تحسین ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ نوابزادہ نصر اللہ خان کی بحالی جمہوریت کیلئے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ا نہیں ''بحالی جمہوریت کا ہیرو ‘‘ قرار دے۔26اور27 ستمبر2003ء کی درمیانی رات وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔انہیں ان کے آبائی قبرستان خان گڑھ میں سپرد خاک کیا گیا۔اس وقت ملک میں جو سیاسی افرا تفری پھیلی ہوئی ہے،ان حالات میں اگر وہ زندہ ہوتے تو ملک میں سیاسی امن و امان قائم کرنے کیلئے ضرور اپنا کردار ادا کرتے۔