ٹاور برج دریائے ٹیمز کے گلے کا ہار

ٹاور برج دریائے ٹیمز کے گلے کا ہار

اسپیشل فیچر

تحریر : فقیر اللہ خاں


لندن میں ٹاور برج دریائے ٹیمز کے اوپر ایک خوبصورت معلق پل ہے۔ لندن شہر کے دس خوبصورت اور پرکشش مقامات کی فہرست میں یہ پل بھی شامل ہے۔ اپنے خوبصورت ڈیزائن اور محل وقوع کی وجہ سے یہ پل لندن شہر کی خاص علامت سمجھا جاتا ہے۔اس کو ٹاور برج اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لندن کی مشہور عمارت لندن ٹاور کے قریب واقع ہے۔ ایک اور پل لندن برج اس ٹاور برج کے اوپر کی جانب صرف آدھے میل کے فاصلے پر بنا ہوا ہے۔
ٹاور برج کی تعمیر جون 1886ء میں شروع ہوئی اور جون 1894ء میں یہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس پل کی سب سے انوکھی انفرادیت یہ ہے کہ یہ درمیان میں دو تختوں پر مشتمل ہے اور بوقت ضرورت ان کو پانچ منٹ میں ایک مشینی عمل کے ذریعے86ڈگری تک اوپر اٹھایا جا سکتا ہے اور یہی اس کی تعمیر میں انجینئرنگ کا کمال ہے۔ یہ پل اس وجہ سے اس طرح ڈیزائن کیا گیا تاکہ اس کے نیچے سے دریائی ٹریفک آرام سے گزر سکے۔
سرکاری طور پر اس پل کا افتتاح ایڈورڈ پرنس آف ویلز اور شہزادی الیزینڈر نے 30جون 1894ء کو کیا۔افتتاحی تقریب میں لارڈ چیمبر لین اور ہوم سیکرٹری کے علاوہ متعدد اہم شخصیات شریک تھیں۔
انیسویں صدی میں جب تجارتی سرگرمیوں میں تیزی آئی تو مشرقی لندن میں دریائے ٹیمز پر ایک نئے ل کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی۔ 1877ء میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے نئے پل کے ڈیزائن کے لئے درخواستیں طلب کیں۔ ماہر تعمیرات کی طرف سے پچاس سے زائد ڈیزائن پیش کئے گئے۔ ان ڈیزائنوں میں سرہوریس جونز کا تیار کردہ ڈیزائن پسند کیا گیا۔ اس کی 1886ء میں تعمیر شروع کی گئی اور 1894ء میں یہ پل تیار ہو گیا۔
ٹاور برج کی لمبائی 800فٹ اور یہ سطح آب سے 213فٹ اونچا ہے۔ اس کے دونوں اطراف کے ٹاور 200فٹ اونچے ہیں۔ بوقت ضرورت اوپر اٹھائے جانے والے دونوں تختے270فٹ لمبے ہیں۔ ان تختوں کا وزن 1000ٹن ہے جو کہ مشین کی مدد سے اوپر اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کی تعمیر میں11000ٹن سٹیل اور بنیادوں میں 70ہزار ٹن کنکریٹ استعمال کیا گیا۔ سٹیل کو آپس میں جوڑنے کیلئے 2ملین نٹ بولٹ اور اس کے علاوہ31ملین اینٹوں کا استعمال کیا گیا۔ اس پل کی تعمیر میں 432افراد نے حصہ لیا۔ اس پل کی تعمیر میں کل 11,84000پائونڈ خرچ ہوئے۔ 1885ء میں ایک ایکٹ کے ذریعے اس پل کی تعمیر کی منظوری دی گئی۔ یہ پل 250فٹ چوڑا ہے۔
اس ٹاور برج کو عبور کرنے کیلئے روزانہ چالیس ہزار افراد گزرتے ہیں جن میں کاریں، موٹرسائیکل، سائیکل سوار اور پیدل سفر کرنے والے شامل ہیں۔ کسی گاڑی کو 20میل(32کلو میٹر) فی گھنٹہ سے تیز رفتار کی اجازت نہیں۔ سپیڈ کو مخصوص کیمرے چیک کرتے ہیں اور کسی گاڑی کا وزن بھی 20ٹن سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ ضوابط کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔
دریائی ٹریفک کو گزارنے کیلئے پل کے تختے ا وپر اٹھائے جاتے ہیں جس کیلئے روڈ ٹریفک بند کر دی جاتی ہے۔ ہمیشہ دریائی ٹریفک کو روڈ ٹریفک پر فوقیت دی جاتی ہے جو پہلے کی نسبت اب کم ہو گئی ہے۔ روڈ ٹریفک کو بند کرنے کے پروگرام کے مطابق میڈیا میں مطلع کر دیا جاتا ہے۔ یہ نوٹس24گھنٹہ قبل ویب سائٹ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
پیدل چلنے والے افراد کیلئے لفٹ کے ذریعے180فٹ اوپر بلندی والے راستہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس پیدل راستہ پر شیشے کا فرش لگایا گیا ہے جس سے نیچے کی ٹریفک اور ارد گرد کا نظارہ بہت لطف دیتا ہے۔ ٹاور برج کے قریب ٹیوب سٹیشن ٹاور ہل لائن پر لندن برج ہیں۔ ٹیوب سٹیشن سے ٹاور برج کا پیدل راستہ صرف سات منٹ کے فاصلہ پر ہے۔
ٹاور برج ایک سال میں عموماً850مرتبہ روڈ ٹریفک کیلئے بند اور دریائی ٹریفک کیلئے کھولا جاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ادب و صحافت کا گوہر نایاب چراغ حسن حسرت

ادب و صحافت کا گوہر نایاب چراغ حسن حسرت

چراغ حسن( حسرت )پونچھ ، آزاد کشمیر میں 1904ء میں پیدا ہوئے ۔شعر و شاعری کا ذوق وراثت میں پایا ۔ فارسی کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان پونچھ سے پاس کیا، فارسی اور اردو کے علاوہ انگریزی بھی بے تکلفی سے لکھتے تھے ۔چراغ حسن حسرت کی عملی زندگی کا آغاز سکول میں تدریس سے ہوا۔ طبیعت اکتائی تو کلکتہ جا کر اخبار نویسی شروع کردی اور '' عصرِ جدید‘‘، '' نئی دنیا‘‘، ''جمہور‘‘ اور '' استقلال‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ کچھ عرصہ مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار'' پیغام‘‘ میں بھی کام کیا۔ مولانا ظفر علی خاں کلکتہ گئے تو انہیں لاہور لے آئے ، یوں حسرت زمیندار کے ادارۂ تحریر سے منسلک ہو گئے۔ مولانا ظفر علی خاں کی غیر حاضری میں حسرت ہی اداریہ اور فکاہات لکھتے تھے لیکن ان لوگوں کے سوا جنہیں انہوں نے خود بتایا کسی کواس کا علم اور احساس نہ ہو سکا۔ اس کے بعد ''انصاف‘‘، ''احرار‘‘، ''احسان‘‘ اور ''شہباز‘‘ کے ادارہ ہائے تحریر میں بھی کام کیا۔''شیرازہ‘‘ کے نام سے ایک علمی و ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔ حکومتِ پنجاب کے ہفتہ وار'' پنچایت‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ یہاں سے فوجی اخبار کا رخ کیا اور فوج میں کپتانی کے عہدے پر فائز ہوئے۔نثر نویسی میں حسرت کو کمال حاصل تھا۔ الفاظ کی نشست، تراکیب کی بندش اور محاورہ کا برتاؤ حسرت پر ختم تھا۔ زبان نہایت شگفتہ، صاف اور اندازِ بیان میں غضب کی روانی۔حسرت کی تحریر میں تکلف نہیں تھا۔ ''سرگزشت سلام‘‘ ان کی بلند پایہ تصنیف ہے۔اس کے علاوہ سند باد جہازی کے نام سے '' جدیدجغرافیہ پنجاب‘‘ ،''کیلے کا چھلکا‘‘ اور '' دو ڈاکٹر‘‘ لکھ کر علمی دنیا سے خراج تحسین حاصل کیا۔ مزاح نگاری میں ان کا مذاق نہایت ہی سلجھا ہوا تھا۔ طنز کرتے ہوئے بھی حسرت نے لطافت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ان کی تصنیف'' مردم دیدہ‘‘ بھی بے حد مقبول ہوئی ۔جدید جغرافیہ پنجاب‘‘ ایک ایسا شہ پارہ ہے جو طنزیات اور مطایبات میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس پائے کی تحریریں اردو میں شاذ ہی لکھی گئی ہیں۔ مجازات کے استعمال سے حقیقت حال کا بیان اس ندرت اور شادابی و تازگی سے کسی نے کم ہی کیا ہے۔''آفتاب‘‘ (1926ء) اور ''شیرازہ‘‘ (1936ء) حسرت کی ادبی فتح مندیوں اور رجحان سازیوں کے دو روشن مینار ہیں۔ آج بھی لکھنے والے ان سے کسب فیض کرتے ہیں۔ ''آفتاب‘‘ مشرقی ہندوستان کا اکیلا ماہانہ ادبی رسالہ تھا جس نے آفتاب آمد دلیل آفتاب کے قول کو ادبی دنیا میں سچ کر دکھایا جبکہ ''شیرازہ‘‘ نے اپنی ہفت روزہ اشاعتوں سے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ احمد ندیم قاسمی نے اپنی پہلی کتاب ''کیسر کیاری‘‘ میں لکھا تھا: ''چراغ حسن حسرت نے ''شیرازہ‘‘ جاری کیا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے امائوس کی رات میں بدر منیر اچھل پڑا ہو‘‘۔حسرت ایک آزاد منش انسان تھے۔ دوست اور دشمن کے سامنے بے باکی اور بے تکلفی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ۔ ان کے کلام کا معتدبہ حصہ سیاسی ہے۔ شعرو شاعری میں آپ کی طبیعت غزل کی طرف زیادہ مائل رہی۔ ان کے کلام کی ،خصوصیت زبان کی سادگی اور خیالات کی شوخی اور رنگینی اور لطافت ہے۔یارب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتاجو ہاتھ جگر پر ہے وہ دست دعا ہوتا.........اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفتیا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا.........ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہےیوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا.........امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتیوعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا.........غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نےکچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتاحسرت کی شخصیت کی بات کی جائے تو انہیں مولانا کہنے کی بھی چند وجوہات تھیں۔ عام طور پہ جو شخص اپنے علم و فضل کی وجہ سے لائق عزت و تکریم ہوتا اسے مولانا کہا جاتا تھا۔ مولانا کیلئے عالم دین اور عربی زبان سے واقف ہونا ضروری تھا۔ گویا مولانا علما کا لقب تھا۔ہمارے ہاں ادب و سیاست میں '' مولانا‘‘ کا لفظ کب آیا؟ بے ریش اصحاب کے نام کے ساتھ مولانا کا سابقہ کیوں رائج ہوا اور مولانا چراغ حسن حسرت خود کیوں اور کیسے مولانا تھے؟ اور اس لفظ کے ساتھ ان کا سلوک کیا تھا؟ اس پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔تحریک خلافت(1920،1921ء) نے مسلمانوں پر جو غیر معمولی اثرات مرتب کئے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے سینکڑوں گریجویٹس نے علما کی طرز کی داڑھیاں رکھ لیں۔ کوٹ پتلون کو خیر باد کہہ دیا، کھدر کی شیروانی اور مولانا محمد علی کے انداز کا پائجامہ پہننا شروع کردیا۔ ان نوجوانوں کے انداز و اطوار کو دیکھ کر ان کو مولانا کہا جانے لگا۔ ماہر القادری لکھتے ہیں: '' خلافت اور کانگریس کی تحریکیں جب دور آغاز میں زوروں پر تھیں اس وقت مولانا کا لقب بہت ارزاں ہو گیا تھا۔ ‘‘مولانا چراغ حسن حسرت نہ تو سیاست سے تعلق رکھنے والے مولانا تھے، جیسے مولانا ظفر علی خاں، مولانا حسرت موہانی، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی وغیرہ۔چراغ حسن حسرت کی نثر کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں ''وہ نثر کی ہر صنف پر قادر تھے، سیرت بھی لکھی، افسانے بھی تحریر کیے، تاریخ پر بھی قلم اٹھایا۔ بچّوں کا نصاب بھی لکھا۔‘‘۔ 26جون 1955 کو اردو صحافت اور ادب کا یہ چراغ گل ہو گیا اور لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

کرپٹو کرنسی : دودھاری تلوار

کرپٹو کرنسی : دودھاری تلوار

دنیا تیزی سے ڈیجیٹل معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس دوڑ میں کرپٹو کرنسی کا ذکر عام ہے۔یہ کرنسی ایسی ڈیجیٹل یا ورچوئل کرنسی ہے جو کرپٹوگرافی کی مدد سے محفوظ بنائی جاتی ہے۔ اس کرنسی کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا کوئی مرکزی کنٹرول نہیں ہوتا یعنی نہ ہی کوئی بینک اس پر قابو رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی حکومت۔2009ء میںبِٹ کوائن کے نام سے پہلی کرپٹو کرنسی متعارف ہوئی جسے ایک گمنام شخصیت یا گروپ نے ساتوشی ناکاموٹو کے نام سے پیش کیا تھا۔ اس کا مقصد ایک ایسا مالی نظام تشکیل دینا تھا جو روایتی بینکاری نظام سے آزاد ہو اور صارف کو براہِ راست مالی اختیارات فراہم کرے۔ بعد ازاں کئی دیگر کرپٹو کرنسیاں بھی سامنے آئیں جن میں ایتھیریئم، لائٹ کوائن، ڈوج کوائن اور رِپل شامل ہیں۔کرپٹو کی خوبیاں اور خامیاںکرپٹو کرنسی میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ شفافیت، رفتار اور کم خرچ ٹرانزیکشنز کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے ہر لین دین کا ریکارڈ دنیا بھر کے نیٹ ورک پر محفوظ ہوتا ہے جسے کوئی فرد تبدیل نہیں کر سکتا۔لیکن دوسری طرف اس میں بے پناہ خطرات بھی ہیں۔ قیمتوں میں شدید اتار چڑھاؤ، ہیکنگ، دھوکہ دہی اور قانون کی عدم موجودگی اسے ایک غیر محفوظ سرمایہ کاری بناتی ہے۔پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا بڑھتا رجحانپاکستان میں کرپٹو کرنسی کا رجحان خاص طور پر نوجوانوں میں تیزی سے بڑھا ہے۔ 2020ء کے بعد سے ملک میں ہزاروں افراد کرپٹو ایکسچینجز جیسے Binance اور OKX کے ذریعے سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ تاہم قانونی حیثیت کے حوالے سے صورت حال تاحال غیر یقینی ہے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپریل 2018ء میں کرپٹو کرنسیز کے خلاف واضح ہدایت جاری کرتے ہوئے تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کو کرپٹو کرنسی میں لین دین سے باز رہنے کا حکم دیا تھالیکن بعد ازاں سندھ ہائیکورٹ کے احکامات کے بعد حکومت نے ایک بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دی تاکہ کرپٹو کرنسی کے ممکنہ ریگولیشن پر غور کیا جا سکے۔2022ء میں سٹیٹ بینک نے ایک رپورٹ میں کرپٹو کرنسی پر مکمل پابندی کی سفارش کی جبکہ ایف اے ٹی ایف (FATF) کی شرائط کے تحت اس نظام کو منی لانڈرنگ سے پاک رکھنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت بھی واضح کی گئی۔عالمی رجحانات اور پاکستان کا ممکنہ کرداردنیا کے کئی ممالک کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کر کے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ السلواڈور نے تو اسے سرکاری کرنسی کا درجہ دے دیا ہے، جبکہ امریکہ، جرمنی، جاپان اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی دیگر ممالک نے اس کے لیے واضح قانونی فریم ورک تیار کر لیا ہے۔مگرپاکستان کے لیے یہ بدستور دو دھاری تلوار ہے۔ اگر بروقت قانون سازی اور ریگولیٹری نظام نافذ نہ کیا گیا تو ایک جانب معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور دوسری جانب عام شہری دھوکہ دہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔لیکن اگر حکومت ہوشیاری، حکمت اور تکنیکی ماہرین کی مدد سے کرپٹو کرنسی کو قومی مالیاتی نظام میں شامل کرے تو یہ نہ صرف نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے گی بلکہ ڈیجیٹل معیشت کی طرف قدم بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔ماہرین کیا کہتے ہیں؟ ایلون مسک کرپٹو کرنسی کو ''مستقبل کی مالی دنیا‘‘ قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی اسے ''غیر مستحکم‘‘بھی کہتے ہیں۔ دوسری جانب معروف سرمایہ کار وارن بفیٹ کرپٹو کو ایک ''جوا‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں یہ ایک حقیقی سرمایہ کاری نہیں بلکہ صرف قیاس آرائی پر مبنی نظام ہے۔کرپٹو کرنسی بلاشبہ ایک انقلابی ایجاد ہے جو عالمی مالیاتی نظام کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ تاہم اس میں موجود خطرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے اس میں نہ صرف خطرات پوشیدہ ہیں بلکہ مواقع بھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت فوری طور پر اس حوالے سے جامع پالیسی مرتب کرے تاکہ کرپٹو کرنسی کو قومی مفاد میں بروئے کار لایا جا سکے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ماریہ تھیریسیا کی تاجپوشی سلطنت ہیبس برگ کی واحد خاتون حکمران ماریہ یسیا کی ہنگری کی ملکہ کی حیثیت سے تاجپوشی 25 جون 1741 ء کو سینٹ مارٹن کے کیتھڈرل میں ہوئی۔ وہ آسٹریا ، ہنگری ، کروشیا ، بوہیمیا ، ٹرانسلوینیہ ، منٹووا ، میلان ، لوڈومیریا اور گلیشیا ، آسٹریا نیدرلینڈز اور پیرما کی حکمران تھیں۔ اکتوبر 1740ء میں اس کے والد شہنشاہ چارلس VI کے انتقال کے بعد ماریہ تھیریسا کا 40 سالہ دورِ اقتدار شروع ہوا۔خاتون ہونے کے ناتے اسے اپنے والد کی جانشینی کا اہل نہیں سمجھا جاتا تھا،لیکن جانشینی کی جنگ میں ماریہ یسیا کو اس کی مضبوط قیادت کے لیے سراہا جاتا ہے، ج میں اس نے پرشیا کے فریڈرک دی گریٹ کے خلاف اپنے علاقوں کا بھرپور دفاع کیا تھا۔کوریا ئی جنگکوریائی جنگ شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان 1950ء سے 1953ء تک لڑی گئی۔یہ جنگ 25 جون 1950ء کو شروع ہوئی جب شمالی کوریا نے سرحد پر جھڑپوں اور جنوبی کوریا میں بغاوتوں کے بعد جنوبی کوریا پر حملہ کر دیا تھا۔ شمالی کوریا کو سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی جبکہ جنوبی کوریا کو اقوام متحدہ،اور خاص طور پر امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔ یہ لڑائی 27 جولائی 1953ء کو جنگ بندی کے ساتھ ختم ہوئی۔1910ء میں امپیریل جاپان نے کوریا پر قبضہ کیا جہاں اس نے 15 اگست 1945ء کو دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ہتھیار ڈالنے تک 35 سال حکومت کی۔ سوویت یونین نے شمالی زون کا انتظام سنبھالا اور امریکیوں نے جنوبی زون کا۔ 1948 میں سرد جنگ کے تناؤ کے نتیجے میں قبضے والے علاقے دو خودمختار ریاستیں بن گئے۔ موزمبیق کی آزادی 1975ء میں آج کے دن موزمبیق نے پرتگال سے آزادی حاصل کی۔1498ء میں واسکو ڈی گاما نے اس علاقے کی سیاحت کی اور 1505ء سے پرتگیزیوں نے اس پر اپنا استعمار قائم کر لیا۔ موزمبیق1975ء میں اس استعمار سے آزاد ہوا اور اس کے بعد جلد ہی عوامی جمہوریہ موزمبیق کی شکل اختیار کرلی۔ یہی وہ دور تھا جب موزمبیق میں زبردست خانہ جنگی برپا تھی۔ خانہ جنگی کا آغاز 1972میں ہوا اور 1992ء میں یہ خانہ جنگی ختم ہوئی۔سعودی عرب میں دھماکہ25جون1996ء سعودی عرب کے شہر الخوبر میں ایک ہاؤسنگ کمپلیکس کے ایک حصے میں بم دھماکہ ہوا۔یہ دھماکہ قومی تیل کمپنی کے ہیڈکوارٹر ظہران اور کنگ عبدالعزیز ائیربیس کے قریب دہشت گردانہ حملہ تھا۔جس وقت یہ حملہ ہوا اس وقت خوبر ٹاورز کو اتحادی افواج کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا ۔ یہ افواج آپریشن سدرن واچ کیلئے یہاں موجود تھیں۔دھماکے کیلئے ٹرک کا استعمال کیا گیا۔اس میںامریکہ کی فضائیہ کے اہلکار موجود تھے جن میں سے 19ہلاک ہوئے اور مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے 498 افراد زخمی ہوئے۔ 

ایئر ڈیفنس سسٹم کیسے کام کرتا ہے؟

ایئر ڈیفنس سسٹم کیسے کام کرتا ہے؟

دنیا میں جدید جنگوں کی نوعیت بدل چکی ہے۔ اب میدانِ جنگ صرف زمین تک محدود نہیں رہا بلکہ فضا، خلا اور سائبر سپیس بھی جنگی حکمت عملیوں کا اہم حصہ بن چکی ہیں۔ اسی تناظر میں ایئر ڈیفنس سسٹم کسی بھی ملک کی سلامتی کا ایک ناگزیر جزو بن چکا ہے۔ یہ سسٹم دشمن کے فضائی حملوں کو روکنے، میزائلوں، ڈرونز، جنگی طیاروں اور دیگر فضائی خطرات کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایئر ڈیفنس سسٹم کیسے کام کرتا ہے ایئر ڈیفنس سسٹم دراصل ایک جامع دفاعی نظام پر مشتمل ہوتا ہے جو زمین سے فضا میں آنے والے کسی بھی خطرے کی بروقت شناخت، سراغ رسانی، تعاقب اور تباہی کے لیے کام کرتا ہے۔ اس نظام میں مختلف ٹیکنالوجیز شامل ہوتی ہیں:ریڈار سسٹم: جو فضا میں موجود اشیا(جیسا کہ طیارے، میزائل، ڈرونز) کی نشاندہی کرتا ہے۔کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم: جو خطرے کا تجزیہ کرتا ہے اور دفاعی اقدامات کے لیے ہدایات جاری کرتا ہے۔میزائل یا راکٹ: جو نشانے پر فائر کئے جاتے ہیں اور دشمن کی فضائی قوت کو تباہ کرتی ہیں۔ایئر ڈیفنس سسٹمز کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے! شارٹ رینج سسٹمز: یہ عام طور پر قریبی خطرات جیسے ڈرونز یا لو فضا میں پرواز کرنے والے میزائلوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ لانگ رینج سسٹمز: یہ سینکڑوں کلومیٹر دور سے آنے والے بیلسٹک میزائل یا جنگی طیاروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔دنیا کے بڑے اور مشہور ایئر ڈیفنس سسٹمز۔ ایس400 ٹریومف،روسایس400 دنیا کا سب سے جدید اور خطرناک ائئر ڈیفنس سسٹم مانا جاتا ہے۔ یہ سسٹم روس نے تیار کیا ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک وقت میں 36 اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس کی رینج 400 کلومیٹر تک ہے اور یہ 30 کلومیٹر بلندی تک اہداف کو نشانہ بناسکتا ہے۔چین ، ترکی اور بھارت نے یہ نظام خریدا ہے۔معرکۂ حق کے دوران افواج پاکستان کی کارروائی میں اس ائیر ڈیفنس سسٹم کو بھی تباہ کیا گیا تھا جو کہ اپنی نوعیت کا ایک الگ کارنامہ ہے۔پیٹریاٹ، امریکہامریکی ساختہ پیٹریاٹ سسٹم 1980ء کی دہائی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ سسٹم خاص طور پر بیلسٹک میزائلوں اور طیاروں کے خلاف مؤثر ہے۔ سعودی عرب، جاپان ، اسرائیل اور دیگر ممالک میں یہ سسٹم تعینات ہے۔ آئرن ڈوم، اسرائیلیہ سسٹم اسرائیل نے تیار کیا ہے اور وہی اسے استعمال کرتا ہے۔ یہ مختصر فاصلے پر داغے جانے والے راکٹ اور مارٹر گولوں کو روکنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آئرن ڈوم کو ایک تیز ردعمل دینے والا سسٹم مانا جاتا ہے تاہم حالیہ دنوں ایران کے میزائلوں کے خلاف بارہا اس سسٹم کی ناکامی ثابت ہوئی ہے۔THAAD،امریکہTHAAD (Terminal High Altitude Area Defense )سسٹم امریکی ڈیفنس کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے تیار کیا تھا۔ یہ بیلسٹک میزائلوں کو ان کے ٹرمینل فیز میں یعنی جب وہ زمین کے قریب آ رہے ہوں،مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی رینج 200 کلومیٹر سے زائد ہے۔HQ-9،چینیہ چینی ایئر ڈیفنس سسٹم روسی ایس300 کا متبادل ہے۔ یہ سسٹم درمیانے اور طویل فاصلے کے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چین نے اسے پاکستان، ترکمانستان اور دیگر اتحادی ممالک کو فراہم کیا ہے۔ باراک 8 یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل سسٹم بھارت اور اسرائیل کا تیار کردہ ہے جو خاص طور پر بحری جنگی جہازوں کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ 100 کلومیٹر فاصلے تک کے فضائی خطرات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔پاکستان کا ایئر ڈیفنس سسٹمپاکستان ایئر ڈیفنس کے حوالے سے خاصا متحرک ہے۔ پاکستان آرمی ایئر ڈیفنس کمانڈ پاک فضائیہ کے ساتھ مل کر مختلف سسٹمز پر کام کر رہی ہے۔ پاکستان کے اہم سسٹمز میں چینی HQ-9، LY-80 (میڈیم رینج) اور خود تیار کردہ ہتھیار شامل ہیں۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں FD-2000 جیسے جدید چینی سسٹمز بھی حاصل کیے ہیں۔مستقبل کے ایئر ڈیفنس سسٹمزدنیا بھر میں ایئر ڈیفنس کی سمت تیزی سے بدل رہی ہے۔ اب ہائپرسانک میزائلز، سٹیلتھ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے استعمال سے فضائی دفاع مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔ امریکہ اور چین جیسے ممالک لیزر ڈیفنس سسٹمز پر بھی کام کر رہے ہیں جو روشنی کی رفتار سے اہداف کو تباہ کر سکتے ہیں۔بلا شبہ ایئر ڈیفنس سسٹمز آج کے دور کی جنگی حکمت عملیوں کا ایک اہم ستون بن چکے ہیں۔ چاہے وہ کسی ملک کی سرحدی حفاظت ہو یا شہری آبادیوں کا دفاع، ان کا کردار ناقابلِ انکار ہے۔ جیسے جیسے دنیا میں ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، ویسے ویسے ان سسٹمز کی اہمیت اور افادیت بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر ملک اپنی دفاعی ضروریات کے مطابق ایئر ڈیفنس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ کسی بھی فضائی حملے کا مؤثر اور فوری جواب دیا جا سکے۔

نوجوان الجھن کا شکار کیوں؟

نوجوان الجھن کا شکار کیوں؟

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی، شعور اور بقا کی بنیاد ہوتی ہے اور طالب علم قوم کا مستقبل سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں نوجوانوں کل آبادی کاتقریباً65 فیصدبنتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت طالب علموں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان پاکستان کے مستقبل کے معمار ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام اور معاشرتی حالات ایسے ہیں کہ اکثر طلبہ منزل کی سمت واضح نہ ہونے کے باعث الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ایسے میں طلبہ کی صحیح رہنمائی، مشورہ اور کردار سازی ازحد ضروری ہو جاتی ہے تاکہ نوجوان تعلیمی، اخلاقی، سماجی اور پیشہ ورانہ میدانوں میں کامیاب ہو سکیں۔تعلیم کا مقصد صرف ڈگری نہیںہمارے ہاں تعلیم کو صرف ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور والدین اور اساتذہ طالب علموں کو اکثر نمبروں کی دوڑ میں لگائے رکھتے ہیں، جبکہ تعلیم کا اصل مقصد شعور، سوچ، تحقیق، اخلاق اور ہنر کی تربیت ہوتا ہے۔ ایک باشعور طالب علم وہی ہوتا ہے جو کتابوں سے زیادہ سیکھنے پر توجہ دے، سوال کرے، تحقیق کرے اور تخلیقی سوچ اپنائے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ مطالعہ کی عادت اپنائیں۔ہمارے ملک کے نوجوانوں میں مطالعہ کی عادت کم ہوتی جا رہی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا، غیر متعلقہ مواد اور غیر نصابی سرگرمیوں میں وقت کا ضیاع ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ صرف نصاب ہی نہیں بلکہ حالات حاضرہ، تاریخ، سائنس، مذہب، ادب اور معاصر موضوعات کابھی مطالعہ کریں۔ روزانہ کم از کم 30 منٹ کا مطالعہ ایک کامیاب زندگی کی طرف قدم ہے مگر یہ کم از کم حد ہے‘ اس میں اپنی کوشش سے جو اضافہ کر سکے یہ اس کیلئے مفید ہے۔ یہ بھی مد نظر رکھیں کہ کامیاب زندگی کی بنیاد وقت کی قدر اور نظم و ضبط ہے۔ ایک طالب علم کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں باقاعدگی، منصوبہ بندی اور وقت کے درست استعمال کو شعار بنانا چاہیے۔ سونے، جاگنے، پڑھنے، آرام کرنے، اور تفریح کرنے کے اوقات طے کریں اور اس پر سختی سے عمل کریں۔ موبائل اور سوشل میڈیا کا متوازن استعمالاس دور میں موبائل فون اور سوشل میڈیا ایک طرف معلومات کا خزانہ ہیں،مگر وہیں یہ وقت کا بہت بڑا ضیاع بھی بن چکے ہیں۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر بے مقصد گھنٹوں ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ان پلیٹ فارمز کو تعلیمی ویڈیوز، لیکچرز، آئی ٹی کورسز اور معلوماتی مواد کے لیے استعمال کیا جائے۔ ہر طالب علم کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر گزارے جانے والے وقت کا جائزہ لے اور اسے مثبت سمت میں بدلے۔یاد رکھیں کہ آج کا دور صرف ڈگری کا نہیں بلکہ مہارتوں کا ہے۔آئی ٹی، گرافک ڈیزائننگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، کنٹینٹ رائٹنگ، فری لانسنگ، زبانیں سیکھنا اور سوشل میڈیا مینجمنٹ جیسی صلاحیتیں ہر طالب علم کو اپنے وقت کے ساتھ سیکھنی چاہئیں۔چھٹیوں یا فالتو وقت میں کوئی آن لائن کورس کریں، یوٹیوب یا دیگر پلیٹ فارمز سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ سیکھے ہوئے ہنر مستقبل میں بہت کام آئیں گے ۔تعلیم کا اصل مقصدتعلیم کا اصل مقصد کردار سازی ہے۔ ہمارے ملک اور معاشرے کو اچھے گریڈز کے ساتھ ساتھ اچھے انسانوں کی بھی ضرورت ہے۔ ایک طالب علم کو ایمانداری، سچائی، عاجزی، تحمل اور احترام جیسے اوصاف کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔ معاشرے میں اگر تبدیلی لانی ہے تو اس کی ابتدا تعلیمی اداروں سے ہونی چاہیے۔ترقی یافتہ قوموں میں اساتذہ کو سب سے بلند مقام حاصل ہوتا ہے۔ دوستوں کا انتخابآدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ طالب علم کی کامیابی میں دوستوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ نیک، محنتی اور سنجیدہ سوچ رکھنے والے دوست آپ کو کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں جبکہ وقت ضائع کرنے والے دوست زندگی برباد کر سکتے ہیں۔ اس لیے صحبت کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں۔ طالب علم کو صرف کتابی علم ہی نہیں بلکہ اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنے معاشرے سے بھی جڑے رہنا چاہیے۔ حالات حاضرہ، ملکی مسائل، سیاسی و سماجی مسائل، اور معاشرتی خدمات کا شعور ہونا چاہیے۔ یہ طلبہ کل کے لیڈر ہیں، انہیں ابھی سے ملک سے محبت، خدمت اور دیانتداری کا سبق سیکھنا ہو گا۔ مایوسی کو شکست دیںہمارے نوجوانوں اور طلبا میں مایوسی، ڈپریشن اور بے مقصدیت متعدی وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس کی ایک وجہ معاشرتی دباؤ، تعلیمی ذمہ داریاں اور روشن مستقبل کے مواقع کی کمی ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ مایوسی کفر ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اگر کوئی طالب علم محنت کرے، ثابت قدم رہے، خود پر بھروسہ رکھے اور دعا کے ساتھ کوشش جاری رکھے تو وہ ضرور کامیاب ہوگا۔پاکستانی طلبہ میں بے پناہ ذہانت اور صلاحیت ہے، لیکن ان کو صحیح رہنمائی، ماحول اور مواقع کی ضرورت ہے۔ یہ رہنمائی اساتذہ، والدین، میڈیا، اور خود طالب علم کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہمارے طالب علم سنجیدہ ہوں، وقت کی قدر کریں، تعلیم کو مقصدِ حیات بنائیں اور مثبت رویہ اختیار کریں تو کوئی شک نہیں کہ وہ خود کو سنوار سکتے ہیں اور پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا سکتے ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

پکا سو کی پہلی نمائش24جون 1901 ء کو پیرس میں ایک نوجوان ہسپانوی مصور پابلو پکا سو کی پہلی سولونمائش نے مصوروں اور نقادوں کو حیران کر دیا۔ اس سے قبل بھی پیرس میں آرٹ کی کئی نمائشیں ہو چکی تھیں لیکن یہ اپنے طرز کی ایک منفرد نمائش تھی جس میں پابلو پکا سو نے جدید طریقہ مصوری کا استعمال کیا تھا۔وہ دورِ جدید کا سب سے بڑا مصور اور تجریدی مصوری کا بانی تھا۔پکا سو کو جدید دنیا کا سب سے مشہور اور قابل مصور تصور کیا جاتا ہے اور جہاں بھی آرٹ یا فن کی بات کی جائے وہاں پکا سو کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔جبرالٹر کا محاصرہجبرالٹر کے محاصرے کا آغاز 24جون 1779ء کو ہوا۔ یہ سپین اور فرانس کی جانب سے جبرالٹر کو انگریزوں کے قبضے سے چھڑوانے کی ایک کوشش تھی، جس میں سپین اور فرانس کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سپین اور فرانس کو جبرالٹر پر حملے کے دوران انگریز افواج کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔کینیڈا ، ایئرمیل سروس کا آغاز24جون 1918 ء کو کینیڈا میں پہلی ایئرمیل سروس کا آغازکیا گیا۔ اس سے قبل پیغام رسانی کیلئے بہت سے ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن اس طرح پیغام پہنچانے میں بہت وقت لگ جاتا تھا ۔ایئر میل کو پیغام رسانی کیلئے انقلاب کی حیثیت حاصل ہوئی۔ائیر میل کاباقاعدہ آغاز پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوا جب ہوائی جہازوں کی ٹیکنالوجی میں بہتری آئی اور انہیں باقاعدہ ڈاک کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔سیام کا نام تھائی لینڈ رکھا گیا24جون 1939ء کو فیلڈ مارشل پلیک فیبونسوسنگرم(Plaek phibusongkram)نے سیام کا نام تبدیل کرکے تھائی لینڈ رکھا۔ فیلڈ مارشل پلیک فوج کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ تھائی لینڈ کے تیسرے وزیراعظم بھی تھے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سی اصلاحات کیں جن میں ایک یہ بھی شامل تھی۔ سیام کا نام تھائی لینڈ رکھنے کا ایک مقصد اس کو جدید دنیا سے متعارف کروانا بھی تھا۔