چی گویرا جس کی پوری زندگی محکوم طبقات کی جنگ لڑتے گزری
''کسی بھی مقصد کیلئے جاری رہنے والی جدوجہد کی موت کے آنے تک کوئی حد نہیں ہوتی۔دنیا کے کسی بھی خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ ہمارا بھی مسئلہ ہے ۔سامراج کیخلاف کسی ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی بھی ملک کی شکست ہماری شکست ہے‘‘۔ یہ تاریخی الفاظ چی گویرا نے 1965ء میں '' ایفرو ایشین سالیڈیرٹی ‘‘کے سیمینار میں اپنی زندگی کے آخری بین الاقوامی خطاب میں کہے تھے جبکہ اس خطاب کے لگ بھگ دوسال بعد جی گویرا سامراجی قوتوں کے ہاتھوں ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا گیا۔
آرنستو رافیل گویرا ڈی لا سیرناجسے عرف عام میںچی گویرا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نو آبادیاتی نظام کیخلاف بغاوتوں کی قیادت کرنے والا عالمی شہرت یافتہ گوریلا رہنما ہی نہیں تھا بلکہ وہ ایک کوالیفائیڈ ڈاکٹر ، متعدد کتابوں کا مصنف ،شاعر ، فوٹو گرافر، ڈائری نویس، رگبی اور شطرنج کا بہترین کھلاڑی ، بہترین موٹرسائیکل رائیڈر ، سفارت کار اور فوجی تھیوریسٹ بھی تھا۔ یہ محکوم اقوام کو سامراجی نوآبادیاتی شکنجے سے آزاد کرانا چاہتا تھا۔
دنیا بھر کے مظلوم طبقات کی نجات کا علم بردار چی گویرا 14 جون 1928ء کو ارجنٹیناکے علاقے روسا ریو میںپیدا ہوا۔اس نے بیونس آئیرز یونیورسٹی سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔ سیاحت کا شوق بچپن سے تھا۔اس دوران 1950ء میں اس نے جنوبی اور وسطی امریکہ کا پہلا سفر بذریعہ سائیکل کیا، جو 4500 کلومیٹر پر محیط تھاجبکہ دوسرا سفر اس نے 1951ء میں اپنی سائیکل پر ایک موٹر لگا کر کیا۔ یہ سفر لگ بھگ 8000 کلومیٹر پر محیط تھا۔ اس کا تیسرا سفر 1953ء میں موٹر سائیکل پر ہی تھا۔ ا س دوران اسں نے بارہا چلی ، پیرو ، کولمبیا ، پانامہ ، برازیل ، کیوبا بولیویا، ایکواڈور، وینزویلا، پیرا گوئے اور نکارا گوا کا دورہ کیا۔ اپنے اس سفر کی روداد اس نے اپنی تصنیف ''دی موٹر سائیکل ڈائریز‘‘میں بیان کی ہے۔بعد ازاں اسی نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی۔
یہی وہ دور تھا جب چی گویرا نے اس پورے براعظم میں پھیلی بھوک، غربت، بے گھری اور ظلم و تشدد کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا سب سے بڑا سبب سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا ہے۔ اس کی ڈائری کے مطابق ''ان لوگوں کی مدد کے جذبے کے تحت میں نے میڈیکل کے شعبے کو خیر آباد کہا اور ہتھیار بند سیاسی جدوجہد کے میدان میں قدم رکھا‘‘۔ چی گویرا نے اپنی جدوجہد کا آغاز گوئٹے مالا سے کیا کیونکہ یہاں کی جمہوری حکومت جیکو بو آربینز کی سربراہی میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کیلئے کوشاں تھی۔چی گویرا ، گوریلا آربینز کے اقدامات سے بہت متاثر ہوئے۔ اس لئے گوئٹے مالا میں رہ کر اس نے اس کاساتھ دینے کا ارادہ کیا۔بدقسمتی سے 1954ء میں گوئٹے مالا کی فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا۔اس عمل نے سرمایہ دارانہ نظام بارے اس کی نفرت میں اور اضافہ کر دیا۔
چی گویرا کمیونسٹ نوجوانوں پر مشتمل مسلح گروہ کا حصہ بن گیالیکن گوئٹے مالا میں عوام کے عمومی رویہ سے مایوس ہو کر اسے یہاں سے کوچ کرنا پڑا۔چی گویرا کا اگلا پڑاو کیوبا تھا، جہاں ان کی نظریں کیوبا میں انقلاب پسند تحریکوں پر تھیں۔ جون 1955ء میں یہ فیڈل کاسترو کے بھائی راول کاسترو سے ملا۔ جب فیڈل کاسترو کو کیوبا میں جیل سے رہائی ملی تو راول کاسترو کے ذریعے اس کی فیڈل کاستروسے ملاقات ہوئی۔یہاں پر وہ لاطینی امریکہ میں انقلابی تحریک منظم کرنے کی شرط پر کاسترو کے شانہ بشانہ ڈکٹیٹر کیخلاف گوریلا جنگ میں شامل ہو گیا۔
چی گویرا کا اگلا ہدف کیوبا میں انقلاب پسند تحریکوں میں شمولیت تھی جہاں اس نے کاسترو کے شانہ بشانہ وہاں کے ڈکٹیٹر بتیستا کے خلاف گوریلا جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1959ء میں بتیستا کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اسے ملکی معاشی اصلاحات کی ترویج کیلئے کیوبا کے قومی بنک کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اسے ملک کے صنعتی شعبے کی وزارت سونپ دی گئی۔
امریکہ نے بادل ناخواستہ کیوبا کی حکومت کو تسلیم تو کر لیا مگر اس کے باوجود کاسترو کی سربراہی میں کیوبا کی انقلابی حکومت عالمی تنہائی کا شکار رہی۔ ایسے میں طے ہوا کہ کاسترو کے سب سے بااعتماد ساتھی چی گویرا ایک وفد کے ساتھ اس انقلابی حکومت کا تعارف اور پیغام پہنچانے کیلئے تیسری دنیا کے ممالک کا دورہ کریں۔چی گویرا کا تین ماہ کا یہ دورہ برما، سری لنکا، بھارت ، انڈونیشیا ، یوگو سلاویہ ،مصر ، مراکش ، شام، یونان اور پاکستان پر مشتمل تھا۔
طبعاً اور فطرتاً انقلابی روح کے حامل چی گویرا نے اپنے آپ کو جب اس کام میں غیر موزوں پایا تو اس نے کاسترو کو ایک خط لکھا ،'' مجھے لگتا ہے میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کردیا ہے جو مجھے کیوبا کھینچ لایا تھاچنانچہ میں سمجھتا ہوں اب میری ضرورت یہاں سے کہیں زیادہ ان علاقوں کو ہے جہاں انقلابی تحریکیں اپنے حق کیلئے سرگرم عمل ہیں‘‘۔ 1965ء میں چی گویرا کا اگلا پڑاو کانگو تھا جہاں وزیراعظم کا تختہ الٹ کر ملک میں آمریت مسلط کی جا چکی تھی۔ یہاں اس نے بولیویا کے عوام کی اس جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا۔یہاں چی گویرا متحرک نوجوانوں میں اپنا جذبہ منتقل کرنا چاہتا تھا جو گوریلا کارروائیوں ہی سے ممکن تھا۔ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کے باعث اسے اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب یہاں کی عوام نے انقلاب کے حصول میں عدم دلچسپی کا ثبوت دینا شروع کیا۔ 1966ء میں کاسترو کے کہنے پر چی گویرا واپس کیوبا لوٹ آیا۔کیوبا سے کچھ عرصہ بعد اس نے بولیویا کی راہ لی جہاں اس نے رینی بارنتوس اور تونو کی حکومت کے خلاف باغی فوجوں کی قیادت سنبھالی۔ستمبر 1966ء میں گوریلوں کے ٹھکانوں کی تلاش میں بولیویا سپیشل فورسز نے امریکی سی آئی اے کی زیر نگرانی ایک مخبر کی اطلاع پر چی گویرا کے ٹھکانے کا سراغ لگایا اور بالآخر 8 اکتوبر 1967ء کو ایک جھڑپ کے بعد اسے ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔
صدر برنتوس نے ایک لمحہ انتظار کئے بغیر اس کے قتل کا حکم جاری کر دیا۔ بولیویا حکام، امریکی آشیرباد کے تحت اس معاملے کو ایک لمحے کیلئے بھی لٹکانے کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔چی گویرا کو گرفتاری کے بعد قریبی گائوں کے ایک سنسان سکول کی عمارت میں رات بھر قید رکھا گیا۔اگلے دن یعنی 9 اکتوبر 1967ء کو بولیویا فوج کے ایک سارجنٹ نے گولی مار کر اسے ہلاک کر دیا۔
اس کی موت کے بعد اس کی لاش کوغائب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن چی گویرا کی باقیات کو کیوبا میں سانتا کلارا کے مقام پر ایک مقبرہ میں پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔یہ وہی مقام ہے جہاں چی گویرا کی قیادت میں کیوبا کے انقلاب کی آخری جنگ لڑی گئی تھی۔اس کی ڈائری ، دیگر تحریریں اور اس کی تصاویر دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔مخصوص ٹوپی اور منفرد داڑھی والی اس کی تصویر جو ارجنٹینا کے ایک فوٹو گرافر البرٹو کورڈا نے کھینچی تھی وہ آج بھی لاطینی امریکہ کی مقبول ترین تصویر ہے۔اس تصویر سے مزین ٹی شرٹس آج بھی بائیں بازو کے نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں۔