چی گویرا جس کی پوری زندگی محکوم طبقات کی جنگ لڑتے گزری

چی گویرا جس کی پوری زندگی محکوم طبقات کی جنگ لڑتے گزری

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


''کسی بھی مقصد کیلئے جاری رہنے والی جدوجہد کی موت کے آنے تک کوئی حد نہیں ہوتی۔دنیا کے کسی بھی خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ ہمارا بھی مسئلہ ہے ۔سامراج کیخلاف کسی ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی بھی ملک کی شکست ہماری شکست ہے‘‘۔ یہ تاریخی الفاظ چی گویرا نے 1965ء میں '' ایفرو ایشین سالیڈیرٹی ‘‘کے سیمینار میں اپنی زندگی کے آخری بین الاقوامی خطاب میں کہے تھے جبکہ اس خطاب کے لگ بھگ دوسال بعد جی گویرا سامراجی قوتوں کے ہاتھوں ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا گیا۔
آرنستو رافیل گویرا ڈی لا سیرناجسے عرف عام میںچی گویرا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نو آبادیاتی نظام کیخلاف بغاوتوں کی قیادت کرنے والا عالمی شہرت یافتہ گوریلا رہنما ہی نہیں تھا بلکہ وہ ایک کوالیفائیڈ ڈاکٹر ، متعدد کتابوں کا مصنف ،شاعر ، فوٹو گرافر، ڈائری نویس، رگبی اور شطرنج کا بہترین کھلاڑی ، بہترین موٹرسائیکل رائیڈر ، سفارت کار اور فوجی تھیوریسٹ بھی تھا۔ یہ محکوم اقوام کو سامراجی نوآبادیاتی شکنجے سے آزاد کرانا چاہتا تھا۔
دنیا بھر کے مظلوم طبقات کی نجات کا علم بردار چی گویرا 14 جون 1928ء کو ارجنٹیناکے علاقے روسا ریو میںپیدا ہوا۔اس نے بیونس آئیرز یونیورسٹی سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔ سیاحت کا شوق بچپن سے تھا۔اس دوران 1950ء میں اس نے جنوبی اور وسطی امریکہ کا پہلا سفر بذریعہ سائیکل کیا، جو 4500 کلومیٹر پر محیط تھاجبکہ دوسرا سفر اس نے 1951ء میں اپنی سائیکل پر ایک موٹر لگا کر کیا۔ یہ سفر لگ بھگ 8000 کلومیٹر پر محیط تھا۔ اس کا تیسرا سفر 1953ء میں موٹر سائیکل پر ہی تھا۔ ا س دوران اسں نے بارہا چلی ، پیرو ، کولمبیا ، پانامہ ، برازیل ، کیوبا بولیویا، ایکواڈور، وینزویلا، پیرا گوئے اور نکارا گوا کا دورہ کیا۔ اپنے اس سفر کی روداد اس نے اپنی تصنیف ''دی موٹر سائیکل ڈائریز‘‘میں بیان کی ہے۔بعد ازاں اسی نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی۔
یہی وہ دور تھا جب چی گویرا نے اس پورے براعظم میں پھیلی بھوک، غربت، بے گھری اور ظلم و تشدد کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا سب سے بڑا سبب سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا ہے۔ اس کی ڈائری کے مطابق ''ان لوگوں کی مدد کے جذبے کے تحت میں نے میڈیکل کے شعبے کو خیر آباد کہا اور ہتھیار بند سیاسی جدوجہد کے میدان میں قدم رکھا‘‘۔ چی گویرا نے اپنی جدوجہد کا آغاز گوئٹے مالا سے کیا کیونکہ یہاں کی جمہوری حکومت جیکو بو آربینز کی سربراہی میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کیلئے کوشاں تھی۔چی گویرا ، گوریلا آربینز کے اقدامات سے بہت متاثر ہوئے۔ اس لئے گوئٹے مالا میں رہ کر اس نے اس کاساتھ دینے کا ارادہ کیا۔بدقسمتی سے 1954ء میں گوئٹے مالا کی فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا۔اس عمل نے سرمایہ دارانہ نظام بارے اس کی نفرت میں اور اضافہ کر دیا۔
چی گویرا کمیونسٹ نوجوانوں پر مشتمل مسلح گروہ کا حصہ بن گیالیکن گوئٹے مالا میں عوام کے عمومی رویہ سے مایوس ہو کر اسے یہاں سے کوچ کرنا پڑا۔چی گویرا کا اگلا پڑاو کیوبا تھا، جہاں ان کی نظریں کیوبا میں انقلاب پسند تحریکوں پر تھیں۔ جون 1955ء میں یہ فیڈل کاسترو کے بھائی راول کاسترو سے ملا۔ جب فیڈل کاسترو کو کیوبا میں جیل سے رہائی ملی تو راول کاسترو کے ذریعے اس کی فیڈل کاستروسے ملاقات ہوئی۔یہاں پر وہ لاطینی امریکہ میں انقلابی تحریک منظم کرنے کی شرط پر کاسترو کے شانہ بشانہ ڈکٹیٹر کیخلاف گوریلا جنگ میں شامل ہو گیا۔
چی گویرا کا اگلا ہدف کیوبا میں انقلاب پسند تحریکوں میں شمولیت تھی جہاں اس نے کاسترو کے شانہ بشانہ وہاں کے ڈکٹیٹر بتیستا کے خلاف گوریلا جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1959ء میں بتیستا کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اسے ملکی معاشی اصلاحات کی ترویج کیلئے کیوبا کے قومی بنک کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اسے ملک کے صنعتی شعبے کی وزارت سونپ دی گئی۔
امریکہ نے بادل ناخواستہ کیوبا کی حکومت کو تسلیم تو کر لیا مگر اس کے باوجود کاسترو کی سربراہی میں کیوبا کی انقلابی حکومت عالمی تنہائی کا شکار رہی۔ ایسے میں طے ہوا کہ کاسترو کے سب سے بااعتماد ساتھی چی گویرا ایک وفد کے ساتھ اس انقلابی حکومت کا تعارف اور پیغام پہنچانے کیلئے تیسری دنیا کے ممالک کا دورہ کریں۔چی گویرا کا تین ماہ کا یہ دورہ برما، سری لنکا، بھارت ، انڈونیشیا ، یوگو سلاویہ ،مصر ، مراکش ، شام، یونان اور پاکستان پر مشتمل تھا۔
طبعاً اور فطرتاً انقلابی روح کے حامل چی گویرا نے اپنے آپ کو جب اس کام میں غیر موزوں پایا تو اس نے کاسترو کو ایک خط لکھا ،'' مجھے لگتا ہے میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کردیا ہے جو مجھے کیوبا کھینچ لایا تھاچنانچہ میں سمجھتا ہوں اب میری ضرورت یہاں سے کہیں زیادہ ان علاقوں کو ہے جہاں انقلابی تحریکیں اپنے حق کیلئے سرگرم عمل ہیں‘‘۔ 1965ء میں چی گویرا کا اگلا پڑاو کانگو تھا جہاں وزیراعظم کا تختہ الٹ کر ملک میں آمریت مسلط کی جا چکی تھی۔ یہاں اس نے بولیویا کے عوام کی اس جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا۔یہاں چی گویرا متحرک نوجوانوں میں اپنا جذبہ منتقل کرنا چاہتا تھا جو گوریلا کارروائیوں ہی سے ممکن تھا۔ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کے باعث اسے اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب یہاں کی عوام نے انقلاب کے حصول میں عدم دلچسپی کا ثبوت دینا شروع کیا۔ 1966ء میں کاسترو کے کہنے پر چی گویرا واپس کیوبا لوٹ آیا۔کیوبا سے کچھ عرصہ بعد اس نے بولیویا کی راہ لی جہاں اس نے رینی بارنتوس اور تونو کی حکومت کے خلاف باغی فوجوں کی قیادت سنبھالی۔ستمبر 1966ء میں گوریلوں کے ٹھکانوں کی تلاش میں بولیویا سپیشل فورسز نے امریکی سی آئی اے کی زیر نگرانی ایک مخبر کی اطلاع پر چی گویرا کے ٹھکانے کا سراغ لگایا اور بالآخر 8 اکتوبر 1967ء کو ایک جھڑپ کے بعد اسے ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔
صدر برنتوس نے ایک لمحہ انتظار کئے بغیر اس کے قتل کا حکم جاری کر دیا۔ بولیویا حکام، امریکی آشیرباد کے تحت اس معاملے کو ایک لمحے کیلئے بھی لٹکانے کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔چی گویرا کو گرفتاری کے بعد قریبی گائوں کے ایک سنسان سکول کی عمارت میں رات بھر قید رکھا گیا۔اگلے دن یعنی 9 اکتوبر 1967ء کو بولیویا فوج کے ایک سارجنٹ نے گولی مار کر اسے ہلاک کر دیا۔
اس کی موت کے بعد اس کی لاش کوغائب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن چی گویرا کی باقیات کو کیوبا میں سانتا کلارا کے مقام پر ایک مقبرہ میں پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔یہ وہی مقام ہے جہاں چی گویرا کی قیادت میں کیوبا کے انقلاب کی آخری جنگ لڑی گئی تھی۔اس کی ڈائری ، دیگر تحریریں اور اس کی تصاویر دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔مخصوص ٹوپی اور منفرد داڑھی والی اس کی تصویر جو ارجنٹینا کے ایک فوٹو گرافر البرٹو کورڈا نے کھینچی تھی وہ آج بھی لاطینی امریکہ کی مقبول ترین تصویر ہے۔اس تصویر سے مزین ٹی شرٹس آج بھی بائیں بازو کے نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 پومپئی:عبرت،حیرت اور سیاحت کا مقام

پومپئی:عبرت،حیرت اور سیاحت کا مقام

اطالوی تاریخ کا ایسا باب جسے راکھ میں دفن ہو جانے کے باوجود دنیا نے فراموش نہ کیا پومپئی ایک قدیم رومن شہر، جسے اچانک آتش فشانی راکھ نے نگل لیا، آج بھی سیاحوں، ماہرین آثارِ قدیمہ اور تاریخ کے متوالوں کیلئے حیرت کا استعارہ بنا ہوا ہے۔ تقریباً دو ہزار سال گزر جانے کے باوجود یہ شہر آج بھی زندہ لگتا ہے۔ دیواروں پر لکھی تحریریں، برتن، فرنیچر اور یہاں تک کہ انسانوں کے ڈھانچے تک یہاں موجود ہیں۔79بعد از مسیح پومپئی میں زندگی اچانک موت میں تبدیل ہوگئی۔ آتش فشاں پہاڑ آگ اگلنے لگا،سیاہ دھواں چاروں جانب پھیل گیا۔ آبادی کی اکثریت خوف و ہراس کاشکار ہوگئی۔ کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو اپنے گھروں میں بند کرلیا۔ وہ یہ امید رکھتے تھے کہ مصیبت کی یہ گڑھی بالآخر ٹل جائے گی لیکن وہ بھی بچ نہ سکے اور زہریلے دھوئیں کے اثرات کی بدولت موت سے ہمکنار ہوگئے۔ ان کی لاشیں زیر زمین دب کر رہ گئیں اور1600برس تک زیر زمین دبی رہیں۔ تاریخی پس منظرپومپئی موجودہ اٹلی کے شہر نیپلز کے قریب ایک خوشحال رومن بستی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ چھٹی صدی قبل مسیح میں قائم ہوئی۔ بازار، تھیٹر، حمام، عبادت گاہیں، فوارے اور شاہانہ مکانات سمیت یہاں رومن تہذیب کی تمام سہولتیں میسر تھیں۔ شہر کی آبادی اندازاً 10ہزار سے 20ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ زرخیز زمین، خوشگوار موسم اور بندرگاہ کی موجودگی نے اسے تجارتی مرکز بنا دیا تھا۔ یہاں کی سڑکیں پتھروں سے بنی تھیں اور گلیوں میں پانی کی نکاسی کا مربوط نظام بھی موجود تھا،جو اس وقت کے شہری منصوبہ بندی کی ترقی یافتہ حالت کو ظاہر کرتا ہے۔تباہی کا دنپومپئی کی تقدیر کا وہ لمحہ 79 بعد از مسیح کو آیا، جب قریب واقع آتش فشاں پہاڑ اچانک پھٹ پڑا۔ اس زوردار دھماکے کے نتیجے میں لاوے، آتش فشانی راکھ اور زہریلی گیسوں کے طوفان نے صرف چند گھنٹوں میں شہر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ پہلے پہل راکھ کی ہلکی بارش ہوئی، جسے لوگ معمول کا مظاہرہ سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے مگر چند ہی گھنٹوں بعد آسمان سیاہ ہو گیا اور زہریلا ملبہ اتنی شدت سے برسنے لگا کہ پوری بستیاں دب گئیں۔ تقریباً 16 سے 20 فٹ اونچی راکھ اور پتھروں نے ہر چیز کو ڈھانپ لیا۔ انسان، جانور، عمارتیں سب کچھ اسی ملبے میں قید ہو کر رہ گیا۔وقت کی قید میں زندگیسب سے حیران کن بات یہ ہے کہ پومپئی کی تباہی ایک بدترین سانحہ ہونے کے باوجود انسانوں کو قدیم رومن زندگی کی جھلک دکھانے والا سب سے محفوظ مقام بھی ہے۔ جب صدیوں بعد اس شہر کی کھدائی شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ راکھ نے ہر چیز کو اس حال میں ''منجمد‘‘ کر دیا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ مٹی میں دبی لاشیں خالی خول بن چکی تھیں۔ ماہرین آثار قدیمہ نے ان خالی جگہوں میں پلاسٹر بھر کر انسانی شکلیں محفوظ کر لیں۔ کوئی نماز جیسی حالت میں، کوئی دوڑنے کی کوشش میں، کوئی بچہ ماں سے لپٹا ہوا، یہ سب مناظر آج بھی دل دہلا دیتے ہیں۔دریافت اور کھدائیپہلی بار پومپئی کو 1599ء میں پانی کی نہر کھودتے وقت دریافت کیا گیا۔ اصل کھدائی 1748ء میں شروع ہوئی۔ تب سے لے کر آج تک یہ جگہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے دلچسپی کا محور بنی ہوئی ہے۔ جوں ہی آتش فشاں پہاڑ کی راکھ کو کھود کر عمارات کوباہر نکالا گیا ماہر آثار قدیمہ کو وہ دکانیں دیکھنے کو ملیں جن میں ڈبل روٹی، مچھلی، گوشت، دالیں اور دیگر اشیائے خورونوش کی باقیات موجود تھیں۔ اس کے علاوہ عوامی غسل خانے، کھیلوں کے مقامات اور تھیٹر وغیرہ بھی منظر عام پرآئے۔ کھدائی کی بدولت برآمد ہونے والی عمارات سے اس قصبے کے مکینوں کی شاندار طرز زندگی کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔ اس میں عوامی عمارات، عبادت گاہیں تھیں اور بادشاہوں کے مجسمے بھی نصب تھے۔ قصبے کی سیاسی زندگی کے آثار بھی ملے تھے۔ دیواروں پرسیاسی نعرے درج تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کی دیواروں پر آج بھی ''گرافٹی‘‘ (Graffiti) یعنی ہاتھ سے لکھی گئی تحریریں موجود ہیں، جو اس وقت کے سماجی و معاشی حالات کا پتہ دیتی ہیں۔ثقافتی ورثہپومپئی کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ثقافتی ورثہ (UNESCO) نے 1997ء میں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا۔ ہر سال تقریباً 25 لاکھ سیاح اس مقام پر آتے ہیں تاکہ قدیم رومن تہذیب کو قریب سے دیکھ سکیں۔ یہ مقام نہ صرف تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کیلئے قیمتی ہے بلکہ عام انسانوں کیلئے بھی وقت کی بے ثباتی کا درس دیتا ہے۔ پومپئی کی کھدائی اب بھی جاری ہے اور ہر سال نئے مکانات، اشیاء اور انسانی ڈھانچے دریافت ہو رہے ہیں۔ اب تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے شہر کی ''ورچوئل بحالی‘‘ کا منصوبہ بھی زیر غور ہے، تاکہ لوگ پومپئی کی زندگی کو 3ڈی انداز میں دیکھ سکیں۔ 

ترکماستان کی معروف مساجد

ترکماستان کی معروف مساجد

ترکمانستان وسطی ایشیاء کا ایک صحرائی ملک ہے۔ اس کے شمال میں قازقستان، شمال مشرق میں ازبکستان، جنوب میں افغانستان اور ایران اور مغرب میں بحیرۂ کیپین واقع ہے۔ ترکمانستان کا صحرا قرہ قم(سیاہ ریگستان) کہلاتا ہے اور وہ ملک کے 90 فیصد رقبے پر محیط ہے۔ افغانستان سے آنے والا دریائے مرغاب تاریخی شہر مرو کے شمال مغرب میں جا کر قرہ قم میں گم ہو جاتا ہے۔ ترکمانستان کا رقبہ 4لاکھ 88ہزار ایک سو مربع کلو میٹر اور آبادی 50لاکھ کے قریب ہے۔ دارالحکومت عشق آباد ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے اور اس کی آبادی تقریباً ساڑھے چھ لاکھ ہے۔قدیم زمانے میں ترکمانستان عظیم ترین خراسان کا حصہ تھا۔22ھ/23ھ میں سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اخف بن قیس رضی اللہ نے مروشاہجہان( ماری) فتح کیا۔کچھ عرصہ بعد یزدگرد نے لوٹ کر مروشاہجہان کا محاصرہ کر لیا۔نبی کریم ﷺ نے انہیں خراسان اور مرو کے جہاد میں شرکت اور وہیں آباد ہونے کی تاکید کی تھی۔ 1881ء میں روسیوں نے ترکمانستان فتح کر لیا۔1884ء میں وہ مرو پر بھی قابض ہو گئے۔1925ء میں سوویت اشتراکی جمہوریہ ترکمانستان قائم ہوئی۔1991ء میں سوویت روس کے ٹوٹنے پر ترکمانستان آزاد ہو گیا۔ترکمانستان میں 85فیصد ترکمان،5فیصد ازبک اور 4فیصد روسی آباد ہیں۔ روسی رسم الخط میں ترکمانی سرکاری زبان ہے۔ 89فیصد آبادی مسلمان اور8 فیصد ایسٹرن آرتھوڈکس عیسائی ہیں۔ ترکمانستان کی بڑی فصلیں کپاس اور گندم ہیں۔ معدنی وسائل میں تیل ، گیس گندھک اور نمک شامل ہیں۔شرح خواندگی 99.6فیصد ہے۔ تیل و گیس کے باعث ترکمانستان بہت اچھی اقتصادی پوزیشن رکھتا ہے۔یہاں کی دو معروف مساجد حاجی مراد اورروحی ہیں۔حاجی مراد مسجد( عشق آباد)یہ مسجد عشق آباد شہر سے باہر مغرب کی جانب ایک پرانے قلعے کی باقیات پرتعمیر کی گئی ہے۔ یہ قلعہ اس جگہ واقع تھا جہاں 1881ء میں روس کی فوجوں نے ترکمانستان پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے لئے لڑائی لڑی تھی۔ یہ مسجد ان غازیوں کے سالار حاجی مراد کے نام سے موسوم ہے جنہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا۔ ترکمانستان کے صدر سفر مراد نیاز نے 1992ء میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور یہ 1995ء میں مکمل ہوئی۔ یہ مسجد ترکمانستان کی روس سے آزادی کے بعد پہلا بڑا پراجیکٹ تھا۔ ایک فرنچ کنسٹرکشن کمپنی نے یہ مسجد تعمیر کی تھی۔ اس کے چار نصف بیضوی گنبد ہیں جبکہ درمیان والا گنبد بڑا ہے۔ ان پانچوں گنبدوں کی اوپری سطح پر سبز رنگ کیا ہوا ہے۔ چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔ ہر مینار کی بلندی 63 میٹر ہے۔ اس مسجد میں ایک وقت میں 8ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مرکزی ہال میں بڑے گنبد کے نیچے دوٹن وزنی فانونس لٹک رہا ہے۔ یہ فانونس فرانس سے منگوایا گیا تھا۔ اس فانونس میں لگے ہوئے 260 بلب مسجد کو جگمگا دیتے ہیں۔ مسجد کے مشرق میں ایک خوبصورت کمپائونڈ بنایا گیا ہے جس کے درمیان ستارہ نما خوبصورت تالاب بنا ہوا ہے۔ ہال میں ترکمانستان ہی کے ہاتھ کے بنے ہوئے خوبصورت قالین بچھائے گئے ہیں۔روحی مسجد( عشق آباد)یہ مسجد پورے وسطی ایشیا میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ اسے ترکمانستان کے صدر سفر مراد نیاز نے 2001ء میں تعمیر کروایا۔ یہ مسجد عین اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں ایک زلزلے میں صدر نیاز کی والدہ اور دو بھائی شہید ہو گئے تھے۔ یہ زلزلہ1942ء میں آیا تھا۔ اس مسجد میں بیس ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کے ہال میں ترکمانستان ہی کا دستی بنا ہوا قالین بچھایا گیا ہے۔ یاد رہے ترکمانستان کے دستی قالین ساری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔ یہ مسجد دو منزلہ ہے۔ دوسری منزل پر خواتین نماز ادا کرتی ہیں۔ مسجد کے چاروں کونوں پر چار مینار آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں جبکہ مرکزی ہال کے اوپر سنہری گنبد ہے۔ ہر مینار کی بلندی 300 فٹ اور گنبد کی بلندی 165 فٹ ہے۔ گنبد کے اوپر والے حصے پر سونے کا کام کیا ہوا ہے۔ مسجد کے چاروں طرف خوبصورت باغیچے بنے ہوئے ہیں جن کے اندر نہایت دیدہ زیب فواروں کی پھوار محو رقص رہتی ہے۔ مسجد کے ہال کی دیواروں پر صدر نیاز کی لکھی ہوئی کتاب '' روح نامہ‘‘ سے اقتباسات رقم کئے گئے ہیں جو کہ ترکمان زبان میں ہیں۔

عظیم مسلم سائنسدان ابو القاسم مسلمہ بن مجریطی

عظیم مسلم سائنسدان ابو القاسم مسلمہ بن مجریطی

علم ریاضی، علم حیوانات اور علم کیمیا کے ماہر مسلمہ بن احمد مشہور سائنس دان گزرے ہیں، فن ریاضی ان کا خاص مضمون تھا دیگر کئی مضامین میں بھی مہارت رکھتے تھے۔علم حیوانات اور علم کیمیا میں انہیں دلچسپی تھی، اس طرح اس باکمال سائنسدان نے تین کتابیں تصنیف کرکے اہل عالم کو فائدہ پہنچایا۔ تجارت میں ''المعاملات‘‘، حیوانات میں ''حیوانات اور اس کی نسل‘‘ اور علم کیمیا پر ''غایتہ الحکم‘‘، یہ تینوں کتابیں یورپ پہنچیں تو ان کا ترجمہ اہل یورپ نے کر لیا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔ابو القاسم مجریطی اندلس کے ممتاز سائنسدان تھے، انہیں علم ریاضی اور حساب کتاب سے خاص لگائو تھا۔ اس نامور سائنسدان نے تین بادشاہوں کا زمانہ دیکھا تھا۔ عبدالرحمن الناصر 961ء، حکم ثانی 976ء اور ہشام ثانی 1009ء یہ بادشاہ اہل علم و فضل کے بڑے قدردان تھے۔ ابوالقاسم مجریطی کا تعلق ہمیشہ دربار سے رہا اور یہ بادشاہ اس کی بڑی قدر و منزلت کرتے رہے۔ مجریطی علم ہیئت، علم کیمیا اور علم حیوانات میں ماہر تھے، لیکن علم ریاضی میں انہیں کمال حاصل تھا۔ انہوں نے علم ریاضی میں ایک نیا راستہ پیدا کیا یعنی حساب تجارت پر انہوں نے توجہ دی اور حساب کتاب کے بنیادی اصول اور طریقے بتائے۔دنیا کی تجارت اور کاروبار پر اس قدیم دور میں مسلمان عادی تھے، مسلمانوں کے تجارتی جہاز مال لے کر ایک کونے سے دوسرے کونے تک، ساری دنیا میں سفر کرتے تھے۔ کوئی اور قوم اس عہد میں یعنی 750ء سے 1250ء تک ان کی ہم عصری کا دعویٰ نہیں کر سکتی تھی۔ابوالقاسم کے ذہن و دماغ نے زندگی کی ضروریات کو سمجھا اور ایک نئے زاویے سے نظر ڈالی۔ بازار اس کا حساب کتاب، اس کے اصول کاروبار کے طریقے، رواج اور ڈھنگ ابو القاسم نے غور و فکر کے بعد تجارتی حساب کتاب کے طریقے منضبط کئے، اصول بتائے اور قاعدے متعین کئے، اس ماہر نے اس اہم مضمون کو بڑے سلیقے اور مہارت سے مرتب کرکے ایک مستقل فن بنا دیا، اور اس سلسلہ میں ایک کتاب ترتیب دی جس کا نام ''المعاملات‘‘ رکھا۔مسلمانوں کے علوم و فنون چودھویں صدی میں یورپ پہنچ چکے تھے، ابوالقاسم کی کتاب ''المعاملات‘‘ بھی یورپ پہنچی اور اس کا ترجمہ لاطینی زبان میں کرکے اہل یورپ نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ابوالقاسم کا دوسرا موضوع حیوانات تھا۔ اس نے علم حیوانات پر تحقیق شروع کی اور اس کو مرتب کیا۔ حیوانات کی قسمیں، ان کے عادات و اطوار، ان کی خصوصیات ان سب باتوں کو اس نے تحقیق و تجسس کے بعد لکھا اور اپنی کتاب مکمل کی اس کتاب کا نام اس نے حیوانات کی نسل رکھا۔ اہل یورپ نے اس مفید کتاب کا بھی ترجمہ کر لیا۔ابوالقاسم نے تیسری کتاب علم کیمیا پر مرتب کی اور اس کا نام غایتہ الحکم رکھا، غایتہ الحکم علم کیمیا کے موضوع پر مستند کتاب سمجھی جاتی ہے، اس کتاب کا ترجمہ اندلس ہی کے ایک عیسائی عالم نے 1250ء میں کیا، اور اہل یورپ نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ ابوالقاسم نے اپنے فضل و کمال سے اہل عالم کو بہت فائدہ پہنچایا۔  

ناخن آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں !

ناخن آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں !

ہمارے جسم کا ہر عضو کسی نہ کسی صورت میں ہماری صحت کے بارے میں علامات ظاہر کرتا ہے، لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے پاؤں کے ناخن، جنہیں ہم عموماً نظرانداز کر دیتے ہیں، بھی ہماری مجموعی صحت کا پتہ دے سکتے ہیں؟۔ جی ہاں، ماہرین صحت کے مطابق پاؤں کے ناخنوں میں پیدا ہونے والی چھوٹی بڑی تبدیلیاں بعض اوقات خطرناک بیماریوں کی ابتدائی علامات ہوتی ہیں، جنہیں بروقت پہچان کر ہم کئی پیچیدہ مسائل سے بچ سکتے ہیں۔عام طور پر ناخنوں کو صاف ستھرا اور تراشیدہ رکھنا ایک صفائی اور خوبصورتی کا تقاضا سمجھا جاتا ہے، مگر ان کی ساخت، رنگ، چمک اور بڑھنے کی رفتار ہمارے جسم کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ ناخنوں پر آنے والی چھوٹی سی لکیر، ان کا غیر معمولی موٹا ہونا یا رنگ میں تبدیلی، یہ سب ممکنہ طور پر صحت کے مختلف پہلوؤں سے جڑی علامات ہو سکتی ہیں۔ ماہرین امراضِ جلد اور اندرونی بیماریوں کا ماننا ہے کہ ناخن ایک قسم کا ''ہیلتھ بارومیٹر‘‘ ہوتے ہیں، جو جسمانی اندرونی حالت کی بیرونی تصویر پیش کرتے ہیں۔ مختلف کیفیات واسبابزرد ناخن (Yellow Toenails): اگر آپ کے پاؤں کے ناخن زرد رنگ اختیار کر رہے ہیں، تو یہ اکثر فنگل انفیکشن (fungal infection) کی علامت ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ تمباکو نوشی، ذیابیطس، سانس کی بیماریوں یا ناخنوں کی پرانی چوٹ کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر زردی کے ساتھ ناخن بھربھرے ہو جائیں اور ان کی بڑھوتری کم ہو جائے تو فوری طور پر طبی معائنہ کروانا چاہیے۔ سفید دھاریاں یا دھبے :یہ عموماً کیلشیم یا زنک کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ناخنوں پر لگنے والی معمولی چوٹ یا دباؤ بھی سفید نشان چھوڑ جاتی ہے۔تاہم اگر سفید دھاریاں مکمل ناخن میں پھیلی ہوئی ہوں تو یہ جگر یا گردے کی کسی بیماری کی جانب بھی اشارہ کر سکتی ہیں۔ نیلے یا جامنی ناخن:یہ ناخن خون میں آکسیجن کی کمی (cyanosis) کی علامت ہو سکتے ہیں۔ جس کی وجہ دل یا پھیپھڑوں کا مرض ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات تھوڑی دیر کی سردی سے بھی ناخن نیلے پڑ سکتے ہیں، لیکن اگر یہ کیفیت مستقل ہو تو ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہیے۔ موٹے ناخن:پاؤں کے ناخن کا غیر معمولی موٹا ہونا عموماً فنگل انفیکشن کی نشاندہی کرتا ہے، خاص طور پر اگر ناخن زرد اور بھربھرا بھی ہو جائے۔کبھی کبھی چوٹ، بڑھاپا، یا psoriasis جیسی جلدی بیماریوں کی وجہ سے بھی ناخن موٹے ہو سکتے ہیں۔ اندر کی طرف مڑنے والے ناخن :یہ عموماً ناخنوں کو غلط طریقے سے کاٹنے یا تنگ جوتے پہننے سے ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سوجن، درد اور یہاں تک کہ انفیکشن بھی ہو سکتا ہے۔اگر وقت پر علاج نہ کیا جائے تو یہ حالت سرجری تک لے جا سکتی ہے۔ سیاہ دھاریاں یا دھبے:اگر ناخن میں سیاہ لکیر یا دھبہ ظاہر ہو تو یہ چوٹ کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ اگر یہ دھبہ وقت کے ساتھ بڑھے، پھیلے یا رنگ میں گہرا ہو جائے تو یہ جلد کے مہلک کینسر کی ابتدائی علامت ہو سکتا ہے۔ماہرین زور دیتے ہیں کہ ایسی صورت میں فوری طور پر ماہر جلد سے معائنہ کروانا ضروری ہے۔ناخنوں کی عمومی دیکھ بھالناخنوں کو ہمیشہ سیدھا کاٹیں، گول کنارے نہ بنائیں تاکہ ingrown ناخن سے بچا جا سکے۔ جوتے مناسب سائز کے اور نرم کناروں والے ہوں تاکہ ناخن دباؤ کا شکار نہ ہوں۔ فنگل انفیکشن سے بچنے کیلئے پاؤں کو خشک اور صاف رکھنا نہایت ضروری ہے۔ نیل پالش کو زیادہ دیر تک نہ لگائیں تاکہ ناخن ''سانس‘‘ لے سکیں۔متوازن غذا کھائیں تاکہ ناخنوں کو ضروری وٹامنز اور منرلز حاصل ہوں۔ماہرین کی رائے ماہر جلد کہتے ہیں ''ہم اکثر ناخنوں کی ظاہری شکل کو خوبصورتی کا مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، جبکہ یہ کئی بار ہمارے جسم کے اندر جاری بیماریوں کا خاموش الارم ہوتے ہیں۔ ناخنوں کا بغور معائنہ کرنے کی عادت ہمیں وقت سے پہلے کسی بڑی بیماری کی تشخیص میں مدد دے سکتی ہے‘‘۔پاؤں کے ناخن محض جسم کا ایک غیر فعال حصہ نہیں، بلکہ ہماری جسمانی، غذائی اور اندرونی صحت کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اگر ہم تھوڑا سا دھیان دیں تو یہ چھوٹے سے ناخن بڑے مسائل سے ہمیں خبردار کر سکتے ہیں۔یاد رکھیں جسم کے دوسرے اشاروں کی طرح ناخنوں کی زبان بھی سمجھنا سیکھیں ، ہو سکتا ہے یہ زبان آپ کو کسی بڑی طبی پریشانی سے بروقت بچا لے۔ 

حکایت سعدیؒ :کعبے کا مسافر

حکایت سعدیؒ :کعبے کا مسافر

حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار میں مکہ معظمہ کی طرف سفر کر رہا تھا۔ مسلسل سفر کرتا ہوا۔ جب وادی مکہ میں داخل ہوا تو اس قدر تھک چکا تھا کہ ایک قدم آگے بڑھنا دشوار تھا۔ میں نے شتر بان سے کہا: بھائی ! میری حالت تو بہت خراب ہے، تو جانتا ہے کہ میں نے اس سفر میں کتنی تکلیف اٹھائی ہے۔ میں تو کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔شتر بان نے جواب دیا کہ مکہ تیرے سامنے ہے اور ڈاکو تیرے پیچھے۔ تو کسی درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سوگیا تو کہا نہیں جاسکتا تیرا انجام کیا ہو۔ سفر کی تھوڑی سی تکلیف اور اٹھا لے گا تو اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔ ہمت ہار دے گا تو تباہی کا خطرہ ہے، تو نے سنا نہیں۔خنک سائے میں پڑوں کے بہت آرام ملتا ہےمگر پوشیدہ اس آرام میں جاں کا خطرہ بھی ہےحضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں جہد مسلسل کی برکتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ انھوں نے نہایت دلنشیں انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے آرام و راحت کا خیال انسان کو محرومیوں سے دوچار کر دیتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

روسی خلائی جہاز ''ووستوک 6‘‘ کی لانچنگ16 جون 1963ء کو روسی خلائی جہاز ''ووستوک 6‘‘ کو لانچ کیا گیا۔ اس خلائی سفر پر روانہ ہونے والی روسی خلانورد ویلنتینا تراش کوووا کو پہلی خاتون خلا نورد ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس سے قبل خلائی جہاز ''ووستوک 5‘‘ تکنیکی مسائل کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گیا تھا جبکہ ''ووستوک 6‘‘ کی لانچنگ بغیر کسی دقت کے آگے بڑھی۔ مشن کے دوران خلائی پرواز کے دوران خواتین کے جسم کے ردعمل پر تحقیق کی گئی۔مارٹن لوتھر کنگ کیلئے نوبیل انعام1964ء میں آج کے دن امریکی سیاہ فاموں کے حقوق کے علمبردار مارٹن لوتھر کنگ کو نوبیل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر ایک امریکی پادری، حقوق انسانی کے علمبردار اور افریقی امریکی شہری حقوق کی مہم کے اہم رہنما تھے۔وہ نوبیل انعام حاصل کرنے والے سب سے کم عمر شخص تھے۔ 1968ء میں انہوں نے غربت کے خاتمے اور جنگ ویتنام کی مخالفت کیلئے کوششیں کی اور دونوں کے حوالے سے مذہبی نقطہ نظر سامنے لائے۔ 4 اپریل 1968ء کو انہیں قتل کر دیا گیا۔بھوٹان پہلا ''نوسموکنگ ملک بنابھوٹان آج کے روز تمباکو پر مکمل پابندی لگانے والا پہلا ملک بنا۔ ''تمباکو کنٹرول ایکٹ ‘‘کو بھوٹان کی پارلیمنٹ نے 6 جون 2010ء کو اپنے ملک میں نافذ کیا اور 16 جون سے اس پرعملدرآمد شروع ہوا۔ اس ایکٹ میں یہ بھی لازمی قرار دیا گیا کہ بھوٹان کی حکومت تمباکو کے خاتمے میں سہولت اور علاج فراہم کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔بھوٹان میں آئینی بادشاہت ہے، جس میں ایک بادشاہ ریاست کا سربراہ اور وزیر اعظم حکومت کے سربراہ کے طور پر ہوتا ہے۔ سوویٹو بغاوتسوویٹو بغاوت جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت کے خلاف نوجوان سیاہ فام طلبہ کی ایک تاریخی تحریک تھی۔ یہ بغاوت بنیادی طور پر اس وقت شروع ہوئی جب حکومت نے حکم دیا کہ اسکولوں میں تعلیم کا ذریعہ ''افریکانز‘‘ زبان کو بنایا جائے، جو کہ سفید فام اقلیت کی زبان تھی، جسے سیاہ فام آبادی اپنی ثقافت، شناخت اور آزادی کے خلاف سمجھتی تھی۔ 16 جون 1976ء کو تقریباً 20ہزار سیاہ فام طلبہ نے پرامن احتجاجی مارچ شروع کیا۔ پولیس نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں۔درجنوں طلبہ ہلاک ہوئے۔ اندازاً 700 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر بچے اور نوجوان تھے۔