سر آئزک نیوٹن
وہ سائنسدان جس نے نظریہ کشش کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا اور دنیا کو بتایا کہ چاند، زمین اور نظام شمسی کے تمام سیارے کشش کی بدولت ہی سورج کے چاروں طرف گردش کرتے ہیں۔ وہ اعلیٰ درجہ کا ریاضی دان بھی تھا۔ اسے انگلستان کی رائل سوسائٹی کا متواتر پچیس سال تک صدر منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ اسے نائٹ کا خطاب بھی ملا۔
7دسمبر 1643ء کو ہانا نیوٹن کے بطن سے ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام آئزک رکھا گیا۔ تین سال بعد مسز نیوٹن نے دوسری شادی کرلی اور آئزک کی پرورش کا بار اس کی نانی پر آن پڑا۔ اس کا بچپن لاڈ چونچلے میں گزرا اور وہ اپنے سکول میں کچھ ترقی نہ کر سکا لیکن ایک دن اس نے اپنے سے زیادہ طاقتور ہم جماعت پر فتح پا لی اور اس دن سے نیوٹن میں گویا نئی جان پڑ گئی۔ چند ہی ہفتوں بعد اس کا شمار چوٹی کے طلباء میں ہونے لگا لیکن یہ صورت زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی کیونکہ 1656ء میں اس کے سوتیلے باپ کا انتقال ہو گیا اور زمین کی دیکھ بھال کا کام اس کی بیوہ ماں پر آن پڑا اس نے اپنی مدد کیلئے آئزک کو سکول سے اٹھا لیا۔ اس وقت ہمارے اس موجد کی عمر چودہ سال تھی۔
سر آئزک کا دل کھیتی باڑی میں بالکل نہیں لگا۔ اسے ریاضی کا چسکا لگ چکا تھا۔خوش قسمتی سے اس کے ماموں نے اس کی بات سمجھ لی جو ٹرنٹی کالج کا ممبر تھا، چنانچہ آئزک کو 1661ء میں سکول واس بھیج دیا گیا اور 5جون 1661ء کو اس کا داخلہ کیمرج کے ٹرنٹی کالج میں ہوگیا۔8جولائی 1661ء کو اس نے میٹرک پاس کیا اور جنوری 1665ء میں اس نے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اب اسے رضیات سے بہت زیادہ دلچسپی پیدا ہو چکی تھی۔
طالب علمی کے زمانے میں ہی اس نے اس مضمون کیلئے کئی نئے اصول دریافت کر لئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن آئزک نیوٹن وولز تھروپ میں اپنے باغ میں گھوم رہا تھا کہ اس نے ایک سیب کو درخت سے نیچے گرتے دیکھا وہ سوچنے لگا ہر چیز زمین کی طرف ہی کیوں گرتی ہے، کسی اور سمت میں کیوں نہیں جاتی! اس معمولی واقعے سے اس نے زمین کی کشش کا نظریہ دریافت کیا اور اسے پوری کائنات تک وسعت دی۔
وہ چاند کی گردش پر پہلے بھی غور کیا کرتا تھا لیکن اس نظریے سے بات صاف ہو گئی۔ وہ سمجھ گیا کہ نہ صرف ہماری زمین میں کشش موجود ہے بلکہچاند، سورج اور تمام اجرام فلکی میں یہ صفت پائی جاتی ہے۔ درحقیقت ہر دو مادی اجسام ایک دوسرے کو اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
1667ء میں نیوٹن کیمبرج واپس آ گیا اور اسے ٹرنٹی کالج کا فیلو مقرر کیا گیا اس نے آئندہ چند سال روشنی پر تحقیقات کرنے اور دوربین کو بہتر بنانے میں صرف کئے۔ 1668ء میں اس نے پہلی دوربین تیار کی جو روشنی کو منعکس کر سکتی تھی۔ اس کی لمبائی صرف چھ انچ تھی لیکن اس کی مدد سے نیوٹن نے مشتری نامی سیارے کے چاند دیکھ لئے۔ بعد میں آنے والے ہیئت دانوں نے اسی اصول پر بہتر قسم کی دوربینیں بنائیں۔
1669ء میں نیوٹن کو ٹرنٹی کالج میں پروفیسر کی جگہ مل گئی اور دو سال بعد وہ رائل سوسائٹی کا ممبر منتخب ہوا۔ نیوٹن نے منشور کی مدد سے روشنی پر مزید تجربات کئے اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ روشنی درحقیقت مختلف رنگوں کی بہت سی شعاعوں کا مجموعہ ہوتی ہے جو منشور سے گزرنے کے بعد مختلف طور پر منعطف ہوتی ہیں۔ اس قسم کے نتائج سے تمام سائنسدانوں کو دلچسپی پیدا ہوئی اور نیوٹن کی شہرت انگلستان کے علاوہ سارے یورپ میں پھیل گئی۔
نیوٹن کے نظریات پر بہت کچھ بحث مباحثہ ہوا۔ کسی نے تائید کی اور کسی نے تردید۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نیوٹن کے تجربات بڑھتے رہے اور روشنی پر تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا۔ اس نے جو نظریات قائم کئے وہ 1801ء تک صحیح تسلیم کئے جاتے رہے۔
1675ء میں نیوٹن رائل سوسائٹی کا فیلو بنا دیا گیا۔ اس کا سب سے بڑا کام نظریہ کشش کو وسعت دینا ہے۔ نیوٹن ہی نے ہمیں پوری کائنات کے اس اہم راز سے واقف کیا۔ اس کی تصنیف پرنسپیا(Principa)اسی موضوع سے تعلق رکھتی ہے اور آج تک مشہور ہے۔ یہ کتاب 1686ء میں شائع ہوئی تھی۔
نیوٹن 1692ء سے 1694ء تک سخت علیل رہا۔ اس رات کو نیند نہیں آتی تھی اور اعصابی ہیجان اس بلا کا تھا کہ سارے یورپ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ نیوٹن پاگل ہو گیا ہے اور اسے پاگل خانے میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ خدا خدا کرکے یہ مصیبت ختم ہوئی۔ اس عرصے میں اس کے دوست اس کے کام کو آگے بڑھاتے رہے۔
1695ء میں نیوٹن کو وارڈن آف منٹ یعنی ٹکسال کے افسر کی آسامی پیش کی گئی جو اس نے قبول کر لی۔ چار سال بعد وہ ماسٹر آف منٹ بنا دیا گیا۔
1701ء میں اسے یونیورسٹی پارلیمنٹ کیلئے منتخب کیا گیا اور اب ان مصروفیات میں اس کا اس قدر وقت صرف ہونے لگا کہ اسے سائنسی تحقیقات کیلئے فرصت نہیں ملتی تھی۔ نیوٹن نے ماسٹر آف منٹ کی خدمات بڑی تن دہی سے انجام دیں۔ وہ اس سے پر آخر دم تک فائز رہا لیکن سائنسی امور میں اس کی دلچسپی بدستور قائم رہی۔
1703ء میں وہ رائل سوسائٹی کا صدر منتخب ہوا اور اس کے بعد پورے پچیس سال تک ہر سال یہ اعزاز اسے ملتا رہا۔1705ء میں ملکہ این کیمبرج آئیں اور اس موقع پر نیوٹن کو نائٹ کا گراں قدر خطاب عطا کیا گیا۔
1727ء کے شروع میں نیوٹن پھر سخت بیمار ہوا۔ اس کی صحت کچھ عرصے سے مستقل طور پر خراب رہنے لگی تھی چنانچہ 20مارچ 1727ء کو اس نے پتھری کی بیماری میں کنسنگٹن میں انتقال کیا۔28مارچ کو اسے ویسٹ منسٹر ایبے میں دفن کیا۔ گیا اور 1731ء میں اس کے اعزاز میں وہاں ایک یادگار قائم کی گئی۔
یہ ہے سوانح عمری ایک ایسے انسان کی جس کی ابتدا ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے ہوئی لیکن خداداد ذہانت، محنت اور استقلال نے اسے زندگی کا ہر اعزاز عطا کیا۔ اب زمانہ بہت آگے بڑھ چکا ہے لیکن نیوٹن نے جو شمع روشن کی تھی اس کی روشنی کبھی کم نہ ہوگی۔