ہن کانگ:ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والی کورین خاتون

ہن کانگ:ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والی کورین خاتون

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد زابر سعید بدر


دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کی پرورش میں ان کا ادبی ماحول اتنا گہرا اثر چھوڑتا ہے کہ وہ خود ادب کا ایک ستون بن جاتے ہیں۔ ہن کانگ انہی خوش نصیب گنے چنے افراد میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کا سفر ایک ایسے گھر میں شروع کیا جہاں کی ہر دیوار سے الفاظ اور جذبات کی خوشبو آتی تھی۔ جنوبی کوریا میں27 نومبر 1970 ء کو پیدا ہونے والی ہن کانگ کے والد بھی ایک معروف مصنف تھے۔ ان کا گھرانا ہمیشہ کتابوں اور ادب کی روشنی میں رہا اور اس ماحول نے ان کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے۔ وہ کہتی ہیں ''ادب میرے لیے ہمیشہ سے ایک پناہ گاہ رہا ہے، جہاں میں دنیا کے شور شرابے سے دور خود کو محسوس کرتی ہوں۔
ہن کانگ نے سیول یونیورسٹی سے کورین ادب میں ماسٹرز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تربیت اور ماحول نے انہیں ہمیشہ ادب اور فن کی جانب راغب رکھا۔ ان کی تحریروں میں انسانی جذبات، نفسیات، اور انسانی تاریخ کی تلخیاں نمایاں طور پر جھلکتی ہیں۔ 1993 ء میں ان کی پہلی کہانیوں کی کتاب ''Love of Yeosu‘‘ شائع ہوئی، جو ان کے ادبی سفر کا آغاز تھا۔ ان کا اصل شہکار 2007 ء میں شائع ہونے والا ناول ''The Vegetarian‘‘ ہے جس نے انہیں عالمی سطح پر شہرت دلائی۔ اس ناول میں ایک خاتون کی کہانی بیان کی گئی ہے جو گوشت کھانے سے انکار کر دیتی ہے۔ یہ بظاہر ایک سادہ فیصلہ لگتا ہے، لیکن کانگ نے اس بغاوت کے ذریعے انسانی جسم اور نفسیات کے گہرے پہلوں کو دریافت کیا۔ اس ناول کا تھیم ایک خاتون پر نفسیاتی اور جسمانی دبائو کے ساتھ ساتھ معاشرتی دبائو اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بغاوت ہے۔ اس کہانی نے نہ صرف ادبی دنیا میں ہلچل مچا دی بلکہ اس کی سادہ سی علامتی دنیا نے گہرے اور پیچیدہ موضوعات کو بڑی کامیابی سے پیش کیا۔
حال ہی میں ہن کانگ کو 2024 ء کا ادب کا نوبل انعام دیا گیا ہے جس نے ان کے ادبی دنیا میں مقام کو مزید مستحکم کیا ہے۔ ان کی تحریروں میں انسانی وجود،دماغ اور تاریخ کے پیچیدہ مسائل کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
'' The Vegetarian‘‘ نے انسانی احساسات اور نفسیات کو کچھ اس طرح سے کھول کر سامنے رکھا کہ پڑھنے والا ان کے الفاظ کی گہرائی میں ڈوب جاتا ہے۔ اس ناول نے دنیائے ادب میں بڑی مقبولیت حاصل کی، جس میں ایک عورت کے سماجی اور جسمانی پابندیوں سے نکلنے کی جدو جہد کو بیان کیا گیا ہے۔ ناول کی مرکزی کردار''یونگ ہی‘‘ معاشرتی روایات سے بغاوت کرتے ہوئے گوشت کھانا چھوڑ دیتی ہے، جس سے وہ اپنے خاندان کی نظروں میں غیر معمولی بن جاتی ہے۔ یہ کہانی نفسیاتی اور سماجی حدود پر گہری نظر ڈالتی ہے اورانسانی خواہشات و مشکلات کا نہایت گہرا اور پیچیدہ تجزیہ کرتی ہے۔اس ناول کو 2016ء میں ''بکر ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا گیا۔
ہن کانگ کی سوچ اور اقوال میں انسانی زندگی اور ادب کے گہرے معانی ملتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں''ادب ہمیں ہماری زندگی کی تلخیوں اور خوشیوں کا آئینہ دکھاتا ہے اور ہمیں خود کو پہنچاننے کا موقع دیتا ہے‘‘۔ان کے نزدیک ادب صرف ایک تخلیقی عمل نہیںبلکہ انسانی جذبات اور زندگی کے فلسفے کو سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ہن کانگ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ 1980 ء کا ''گوانگجو قتل عام‘‘ تھا، جس نے ان کی شخصیت اور تحریروں پر گہرا اثر ڈالا۔ اس سانحے میں سیکڑوں بے گناہ شہری مارے گئے تھے۔ ان کا ناول ''Human Acts‘‘اسی سانحے پر مبنی ہے، جس میں انہوں نے انسانی جسم اور روح کے ربط اور اس کے ٹوٹنے کا المیہ بیان کیا۔
اس ناول میں انسانی تکالیف، تاریخ کی تلخیاں اور انسانی فطرت کے اندھیرے پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔ان کے کتاب ''دی وائٹ بک‘‘ (The White Book)ان کے اپنے جذباتی سفر پر مبنی ہے، جس میں مصنفہ اپنی زندگی کے غموں اور خوشیوں کو بڑے دلنشین انداز میں بیان کرتی ہیں۔نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد ہن کانگ نے اپنی کامیابی کاجشن اپنے بیٹے کے ساتھ سادگی سے ایک کپ چائے پی کر منایا، جس سے ان کی عاجزی اور سادگی جھلکتی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی زندگی میں سادگی کو ترجیح دی، اور ان کا یہ رویہ ان کی ادبی شخصیت میں بھی نمایاں ہے۔
ہن کانگ کے ناول پر دنیا کے بڑے اخبارات اور ادیبوں نے بے شمار تبصرے کیے ہیں۔ ''نیو یارک ٹائمز‘‘ نے انہیں ''ادب کی دنیا کی ایک نایاب آواز‘‘قرار دیا، جبکہ ''دی گارڈین‘‘ نے ان کے کام کو ''شاعرانہ اور فلسفیانہ عمق کا نمونہ‘‘کہا۔ ہن کانگ کی ادبی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ ادب انسانی جذبات، تاریخ، اور نفسیات کی گہرائیوں میں جھانکنے کا ایک منفرد ذریعہ ہے۔
ان کی تحریریں ہمیں احساس دلاتی ہیں کہ زندگی کی ناپائیداری اور انسانی تجربات کی شدت کو سمجھنے کیلئے ہمیں الفاظ اور احساسات کی دنیا میں جانا ہوگا۔ ہن کانگ کا منفرد اسلوب ہمیں ہمیشہ انسانیت اور تاریخ کے پیچیدہ مسائل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا رہے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
دنیا کےخوشحال اور بدحال ترین شہر!

دنیا کےخوشحال اور بدحال ترین شہر!

بنیادی طور پر معیار زندگی کا مطلب کسی بھی خطے میں آباد افراد کو دستیاب بنیادی ضروریات زندگی کا وہ پیمانہ ہے جو اسے دستیاب ہوتی ہیں۔ ان میں صحت، تعلیم، استحکام، امن و امان، بنیادی انتظامی ڈھانچہ، ثقافت اور ماحول قابل ذکر ہیں۔ دراصل دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کوئی حکومت اپنے عوام کو کس مقدار میں اور کس معیار کے ساتھ بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرتی ہے۔برطانوی جریدے ''اکانومسٹ‘‘ کا ایک ذیلی ادارہ ''اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘‘ (ای آئی یو) ہر سال دنیا بھر کے ممالک میں دستیاب مختلف شعبہ ہائے زندگی کے مالی اور معاشی اعداد و شمارلے کران کی درجہ بندی کرتا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے افراد کیلئے ایک پیمانہ تجویز کرنا ہوتا ہے کہ نقل مکانی کی صورت میں کون سا ملک ان کیلئے بہتر اور موزوں ہے۔ اس درجہ بندی میں پانچ بنیادی عوامل کو سامنے رکھا جاتا ہے، جس میں استحکام، صحت کی سہولیات، تعلیم، بنیادی ڈھانچہ ، ثقافت اور ماحول شامل ہوتے ہیں۔یہ درجہ بندی ایک وسیع تر سروے کے ذریعے براہ راست دنیا بھر کے سرکردہ شہروں کے باسیوں کی آرا پر مبنی ہوتی ہے۔ حال ہی میں اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے سال 2024ء کے دس بہترین قابل رہائش شہروں کی درجہ بندی کا اعلان کیا ہے۔ یہ سروے دنیا بھر کے 173 شہروں کو 30 اشاریوں کی بنیاد پر پانچ زمروں ( جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے) میں تقسیم کرتا ہے۔یہ سروے12 فروری 2024ء سے لے کر 17 مارچ 2024ء کے دوران کیا گیا تھا۔اس سروے کے مطابق مغربی یورپ عالمی سطح پر بہترین رہائش پذیری کے لحاظ سے سرفہرست ہے جس کا مجموعی سکور 100 میں سے 92 ہے۔ شمالی امریکہ دوسرا بہترین خطہ ہے جس نے 100 میں سے90.5 سکور حاصل کیا ہے۔ بدقسمتی سے ایشیاء وہ خطہ ہے جس کا صرف ایک ملک جاپان جس کا شہر اوساکا نویں نمبر پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آسٹریا وہ واحد ملک ہے جس کا شہر ویانا مسلسل تین سال سے پہلی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ دس بہترین قابل رہائش شہر ویانا ( آسٹریا ): قابل رشک رہائشی شہروں کی عالمی فہرست میں رواں سال بھی 98.4فیصد نمبر حاصل کرکے مسلسل تیسری مرتبہ پہلی پوزیشن سنبھالنے والا آسٹریا کاشہر ویانا ہی ہے۔رواں سال کی رپورٹ کے مطابق ویانا نے دوسال پہلے یہ ٹائٹل نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ سے چھینا تھا جو پہلے نمبر سے 34 ویں پر پہنچ گیا تھا۔ ماہرین اس کی وجہ کورونا کی وجہ سے عائد پابندیوں کو بتاتے ہیں۔ ویانا وہ شہر ہے جس نے انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت اور استحکام کے شعبوں میں سو فیصد نمبر حاصل کئے ہیں۔ رپورٹ کے مصنفین ویانا کو دنیا کا پرکشش اور قابل رشک شہر کا اعزاز حاصل کرنے کی وجہ اس کا استحکام ، مضبوط انفرا سٹرکچر، بہترین طبی سہولیات، ثقافت اور تفریح کے خاطر خواہ مواقع اور موثر تعلیمی نظام کو بتاتے ہیں۔ کوپن ہیگن (ڈنمارک ):کوپن ہیگن ڈنمارک کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شہر ای آئی یو کے سالانہ سروے ''بہترین معیار زندگی‘‘ کے مطابق کئی مرتبہ پہلے نمبر پر رہا ہے۔2021ء تک یہ متعدد بار پہلے نمبر پر رہ چکا ہے جبکہ اس سال 98فیصد نمبر حاصل کر کے یہ مسلسل تین سال سے دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ یہ دنیا کے ماحول دوست شہروں میں بھی نمایاں مقام پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں ماحول کو صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک رکھنے کیلئے ترجیحی طور پر سائیکل استعمال کیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بہترین ریاستی انفراسٹرکچر، ثقافت ، سیاحت ، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں متاثر کن کارکردگی کے سبب یہ اس سال بھی دوسری پوزیشن سنبھالے ہوئے ہے۔زیورخ (سوئزر لینڈ ):اس شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ 2021ء سے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پہلے نمبر پر ہے۔معیار زندگی کے لحاظ بھی یہ شہر دنیا کے پہلے دس ممالک میں شامل رہتا ہے۔ امسال یہ شہر ای آئی یو کے انڈیکس 97.1 فیصد نمبر حاصل کر کے تیسری پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں یہ سو فیصد نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ سال گزشتہ یہ اس انڈیکس میں چھٹی پوزیشن پر تھا۔ اس کی وجہ یہاں کا معیاری نظام تعلیم، مضبوط ریاستی انفراسٹرکچر، صحت اور امن و امان کی مجموعی صورتحال ہے۔ ملبورن (آسٹریلیا ): ملبورن اس سال ای آئی یو کی فہرست میں 97 فیصد نمبر حاصل کر کے یہ چوتھے نمبر پر ہے۔ سال گزشتہ یہ اسی رپورٹ میں تیسرے نمبر پر براجمان تھا۔اس شہر کو ثقافت اور ماحولیات میں دنیا کے بیشتر ممالک کے مقابلے میں برتری حاصل ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اس شہر کو بھی سو فیصد نمبر حاصل ہیں۔ خوبصورت ٹرمز کی وجہ سے یہاں کے شہریوں کو سفر کی بہترین سہولتیں میسر ہیں۔اس سروے کے مطابق یہاں کے شہریوں کا رویہ دوستانہ اور مثبت ہے۔ یہاں صحت، تعلیم اور امن و امان کا نظام انتہائی مضبوط ہے۔ کیلگری (کینیڈا ) جینیوا (سوئزر لینڈ ):ای آئی یو کی اس فہرست میں کینیڈین شہر کیلگری ا س سال 96.8 نمبروں کے ساتھ پانچویں پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہو گیا ہے جبکہ سال گزشتہ یہ شہر ساتویں پوزیشن پر تھا۔ اس کے ساتھ سوئز شہر جینیوا بھی96.8فیصد نمبروںکے ساتھ پانچویں ہی نمبر پر براجمان ہے۔ یہاں دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ سال گزشتہ کیلگری ساتویں پوزیشن سے امسال پانچویں پوزیشن پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے ایسے ہی سوئس شہر جینیوا بھی سال گزشتہ آٹھویںپوزیشن پر ہونے کے بعد امسال پانچویں پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہوا ہے۔آسٹریلیا کا شہر سڈنی اور کینیڈا کا شہر وینکور مشترکہ طور پر 96.6فیصد نمبر حاصل کر کے ساتویں پوزیشن پر براجمان ہیں۔جاپان کا شہر اوساکا اور نیوزی لینڈ کا شہر آکلینڈ 96 فیصد نمبر کے ساتھ مشترکہ طور پر نویں پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ جاپان کا شہر اوساکا صحت ، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سو فیصد نمبر حاصل کرنے کے باوجود بھی امسال 10 ویں پوزیشن حاصل کر پایا ہے۔ غیر محفوظ شہر ای آئی یو کے سال 2024 کے سروے کے مطابق غیر محفوظ اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے 173ملکوں کی اس فہرست میں دمشق 173 ویں نمبر پر جبکہ طرابلس 172 ویں ، الجیریا 171 ویں،نائجیرین شہر لاگوس 170 ویں کراچی 169 ویں اور بنگلہ دیشی شہر ڈھاکہ 168 ویں نمبر پر ہیںجبکہ زمبابوے ، پاپوا نیو گنی ، یوکرین اور وینزویلا بالترتیب 167 سے 164 ویں نمبر پر ہیں۔

قدرتی آفات سے بچاؤ کا عالمی دن

قدرتی آفات سے بچاؤ کا عالمی دن

دنیا بھر میں گزشتہ روز قدرتی آفات سے بچاؤ کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں کو قدرتی آفات سے بچاؤ اور ان کے اثرات کو کم کرنے کیلئے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ 1978ء میں اس دن کو منانے کی بنیاد رکھی گئی، تاکہ عوام کو ناگہانی سانحات جیسے سیلاب، زلزلے، سونامی، آتش فشاں پھٹنے اور دیگر قدرتی آفات سے متعلق ضروری معلومات فراہم کی جا سکیں۔یہ دن دنیا بھر میں مختلف تنظیموں کے تحت منایا جاتا ہے، جن میں شہری دفاع کے ادارے، رضا کار تنظیمیں، ریسکیو ادارے اور سماجی تنظیمیں شامل ہوتی ہیں۔ ان اداروں کے زیر اہتمام تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور عوام میں معلوماتی لٹریچر اور پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں، تاکہ عوام کو آگاہ کیا جا سکے کہ ایسی آفات کے دوران کیسے بچا جا سکتا ہے۔قدرتی آفات وہ ناگہانی سانحات ہیں جو انسانی زندگیوں اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف قدرتی آفات آتی ہیں، جن میں سیلاب، زلزلے، سونامی، طوفان، آتش فشاں، جنگلات میں آگ اور خشک سالی شامل ہیں۔ان کے اپنے اثرات ہوتے ہیں اور ان کا دائرہ کار کم یا وسیع ہو سکتا ہے۔ماضی قریب کی بڑی قدرتی آفاتہیٹی زلزلہ 12 جنوری 2010 ء کو آیا، جس نے ہیٹی کو شدید نقصان پہنچایا اور تقریباً 2 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔26 دسمبر2004ء کو آنے والے اس سونامی نے جنوبی ایشیا کے ساحلی علاقوں کو تباہ کر دیا۔ جس میں سوا 2 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 11 مارچ2011ء کو جاپان میں آنے والے زلزلے اور سونامی نے ملک کے شمال مشرقی حصے میں تباہی مچا دی اور فوکوشیما نیوکلیئر پاور پلانٹ میں بھی حادثہ پیش آیا۔پاکستان میں ماضی قریب میں بھی قدرتی آفات نے تباہی مچائی۔8 اکتوبر 2005ء کو پاکستان کے شمالی علاقوں میں زلزلہ آیا، جس میں تقریباً 86ہزار افراد جان سے گئے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ اس زلزلے نے ایسے ایسے غم و الم کے قصے چھوڑے کہ سن کر اب بھی خوف طاری ہو جاتا ہے۔ خاندانوں کے خاندان تباہ ہو گئے، کہیں صرف ایک دن کا بچہ باقی بچا اور پورا خاندان تباہ ہو گیا، کہیں صرف سو سال کا بزرگ بچا اور باقی پورا خاندان دار فانی سے کوچ کر گیا۔ 2010 کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب تھا، جس نے ملک کے بیشتر حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تقریباً 2 کروڑلوگ متاثر ہوئے اور انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا۔2022 کے سیلاب نے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً سندھ اور بلوچستان کو تباہ کیا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور ملک کے معاشی حالات مزید خراب ہو گئے۔قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے حکومت پاکستان نے کئی اقدامات کیے ہیں۔ جیسا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا قیام، پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کا قیام، فورسز اور دیگر اداروں کو ایمرجنسی میں بطور رضاکار ٹریننگ وغیرہ۔قدرتی آفات سے بچاؤ کیلئے عوام کو آگاہی فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مختلف اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو آفات سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں بتایا جانا ضروری ہے۔

راکٹ اور میزائل کی کہانی

راکٹ اور میزائل کی کہانی

موجودہ خلائی دور کی بنیاد ڈالنے میں تین موجدوں کا حصہ ہے۔ ایک روسی کونسٹنٹین زالکووسکی،دوسرا امریکی روبرٹ گوڈرڈ اور تیسر ارومانیہ کا ہرمن اوبرتھ۔ یہ تینوں جانتے تھے کہ ہوائی جہاز تو صرف ہوا میں اڑ سکتا ہے اور خلائی سفر صرف راکٹ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے۔اسی کے ذریعہ سے ہم کسی دوسری دنیا پر پہنچ سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ایندھن کے جلنے اور رفتار حاصل کرنے کیلئے آکسیجن ضروری ہے لہٰذا راکٹ کو اپنی ضرورت کا ایندھن اپنے ساتھ لے جانا ہوگا۔ راکٹ کی پرواز کا اصول یہ ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتاہے اور یہ دونوں آپس میں برابر ہوتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال معمولی غبارہ ہے۔ غبار میں خوب ہوا بھرلیں اور پھر یکایک اس کا منہ کھول کر اسے چھوڑ دیں۔ اس میں سے ہوا تیزی سے جس سمت میں نکلے گی وہ اس کی مخالف سمت میں اتنے ہی زور سے حرکت کرے گا اور اڑ جائے گا۔1950ء میں روس اور امریکہ میں نہایت طاقتور راکٹ بنائے گئے۔ یہ راکٹ ہزاروں میل کی بلندی تک اٹھتے تھے اور خلا سے زمین پر واپس آ جاتے تھے اور یوں رفتہ رفتہ راکٹ کو بہت قوی بنایا گیا۔ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ چین میں اب سے 5ہزار سال پہلے راکٹ کا تصور موجود تھا۔ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ 1230ء میں راکٹ کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اس کے تقریباً پونے تین سو سال بعد وان ہو نامی چینی رہنما نے راکٹ کے اصول پر چلنے والے ایک طیارے میں سفر کیا۔1807ء میں انگریزوں نے کوپن ہیگن پر حملے کے دوران راکٹ استعمال کئے اس کے علاوہ دوسری جنگوں میں بھی انہیں استعمال کیا گیا۔دوسری جنگ عظیم میں راکٹ دوبارہ استعمال ہوئے۔ شروع میں راکٹ میں بارود کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس راکٹ کی بناوٹ بہت سادہ ہوتی تھی۔ پہلے دھات کا ایک سلنڈر بنایا جاتا تھا اس کے زیادہ حصے میں بارود بھر دی جاتی تھی۔ اس کے پچھلے حصے میں قیف جیسا ایک شگاف ہوتا تھا اور اس کے بالکل آگے یعنی اس کی ناک میں دھمکا پیدا کرنے والی کوئی چیز بھر دی جاتی تھی۔ ایسے راکٹ ہوا کے بالائی طبقات کی تحقیقات کے لئے بھی استعمال کئے گئے۔ اس صورت میں ان کے اگلے حصے میں دھماکے والی شے کے بجائے سائنسی آلات بھر دیئے جاتے تھے۔ پچھلے حصے سے فتیلہ باہر نکلا ہوتا تھا۔ فضا میں راکٹ کا توازن برقرار رکھنے کیلئے اس کے اوپر ایک ڈنڈا لگا دیا جاتا تھا جیسے ہی فیتے کو شعلہ دکھایا جاتا تھا، بارود جلنے لگتی تھی۔ اس کی گیس پیچھے سے زور سے باہر نکلتی تھی اور راکٹ آگے کی طرف پرواز کرتا تھا۔1920ء میں راکٹ میں خشک ایندھن کے بجائے مائع ایندھن کا استعمال ہوا جو زیادہ طاقتور ثابت ہوا۔1926ء میں امریکہ میں ایک مرتبہ ایسا راکٹ فضا میں چھوڑا گیا اس میں بنزین اور مائع آکسیجن استعمال کئے گئے۔ یہ ایک چھوٹا سا راکٹ تھاجس کا ایندھن صرف اڑھائی سیکنڈ میں ختم ہو گیا اور وہ 198فٹ کی بلندی تک پہنچا۔ جرمنی کا وی ٹو راکٹ بھی اسی اصول پر بنایا گیا تھا۔ امریکہ نے ویک کارپورل اور وائکنگ وغیرہ میں بھی اسی بناوٹ کو ملحوظ خاطر رکھا۔ یہ تھی ابتدا مائع ایندھن سے چلنے رالے راکٹوں کی۔1950ء کے بعد روس اور امریکہ دونوں ملکوں میں کہیں زیادہ طاقتور راکٹ تیار کئے گئے جو خلا میں ہزاروں میل کی بلندی تک جا کر حفاظت سے زمین پر واپس آ سکتے تھے۔ پھر سائنسدانوں نے حساب لگایا کہ اگر کوئی راکٹ سات میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین سے روانہ ہو تو چاہے اس کی رفتار بلندی کے ساتھ تھوڑی کم ہوتی رہے، پھر بھی وہ زمین کی کشش کو توڑ دے گا اور زمین پر واپس نہیں گرے گا۔ گویا وہ زمین سے فرار ہو جائے گا۔اسی لئے سائنسدانوں نے اس رفتار کو ''رفتارِ فرار‘‘ کہا اور تجربے نے بتا دیا کہ یہ نظریہ صحیح تھا۔ اسی رفتار سے روانہ ہونے والے راکٹ زمین کے مصنوعی چاند یا مصنوعی سیارے بنے۔ایسا پہلا مصنوعی سیارہ روسی سائنسدانوں نے چھوڑا وہ صرف ایک گولہ تھا جس میں سائنسی آلات رکھے گئے تھے۔ اس کا وزن75کلو گرام تھا۔یہ 1957ء کی بات ہے یہ تجربہ کامیاب رہا۔ اگلے چند سال کے دوران بعض جاندار بھی خلا میں بھیجے گئے۔ کتا اور بندر تھے خلا کے اوّلین مسافر۔یوں انسانوں کا خود خلا میں جانے کا حوصلہ بڑھا۔آزمائش کے طور پرروسی خلا باز یوری گیگرین نے 12اپریل 1961ء کو زمین کے چاروں طرف گردش کی۔ اس نے جس راکٹ سے سفر کیا اس کا نام '' دو سٹوک‘‘ تھا۔ جس کیپ سول میں خلا باز کو بٹھایا گیا تھا اس کا قطر دو میٹر کے قریب تھا۔ اس پر ایسا مادہ چڑھا ہوا تھا جو آہستہ آہستہ جل کر الگ ہو جاتا تھا۔ یہ مادہ اس لئے چڑھایا گیا تھا کہ واپسی پر تیز رفتاری کے سبب ہوا کے ساتھ رگڑ کھا کر اس کرے کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہو جاتا تھا۔ خلاء باز کی بحفاظت واپسی کیلئے یہ ضروری تھا کہ وہ اس زبردست حرارت سے محفوظ رہے۔پہلا امریکی خلا نورد5مئی 1961ء کو خلا میں پہنچا۔ایک سال بعد جون گلین کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس نے زمین کے چاروں طرف گردش کی۔ وہ پہلا امریکی تھا جس نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ اس کے لانچر راکٹ کا نام اٹیلسن تھا۔1965ء میں پہلی مرتبہ دو روسی خلا باز ایک ساتھی دو سٹوک راکٹ کے ذریعہ سے خلا میں پہنچے۔ ان میں سے ایک نے خلا میں چہل قدمی بھی کی۔چند دن بعد امریکہ نے ایک نیا خلائی پروگرام شروع کیا جو '' جمنئی‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ خاص طرز کا ایک کیپسول تھا جس میں دو خلا باز بیٹھ سکتے تھے۔ یہ دو سٹوک اور مرکری کے مقابلے میں بہتر اور جدیدتھا۔اس کی سمت بھی بدلی جا سکتی تھی اور دو سرے خلائی جہاز کے ساتھ جوڑا بھی جا سکتا تھا۔ اصل میں یہ سب تجربات انسان کو چاند پر پہنچانے کیلئے کئے جا رہے تھے، بالآخر یہ آرزو بیسویں صدی میں پوری ہوئی۔ ''اپالو‘‘ پروگرام کے تحت انسان چاند پر پہنچا۔

پیغام رسانی کے پرانے ذرائع

پیغام رسانی کے پرانے ذرائع

اکیسویں صدی کو جدید ٹیکنالوجی کا دور کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جدید سے جدید تر ٹیکنالوجی کی بدولت باہمی رابطوں کے ذرائع تبدیل ہو چکے ہیں۔ موبائل ، ویڈیوکالز اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے پیغام رسانی کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے، ایک انگلش کی جنبش سے آپ کا پیغام دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچ جاتا ہے۔ آج ہم اپنے اس مضمون میں ماضی کے قدیم پیغام رسانی کے ذرائع کون کون سے تھے ان پر ایک طائرانہ سی نظر ڈالیں گے۔ بیسویں صدی کو سائنس کی تاریخ میں اس لحاظ سے ہمیشہ ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل رہے گی کہ اس دور میں انسان نے صحیح معنوں میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ اس صدی کی ایجادات صرف امیروں کے گھروں تک محدود نہیں ہیں بلکہ عوام بھی ان سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ٹیلیگرافی یا تار برقی:پرانے زمانے میں پیغام رسانی کیلئے تیز رفتار ، ہرکارے، گھڑ گاڑیاں اور گھڑ سوار استعمال کئے جاتے تھے۔ تار برقی اس وقت ممکن ہو سکی جب بجلی ایجاد ہوئی اور سائنسدانوں نے یہ معلوم کیا کہ بجلی سے مقناطیسیت اور مقناطیسیت سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔انگلستان میں ٹیلیگراف کو تجارتی پیمانے پر رائج کرنے کا سہرا دو موجدوں کے سر ہے جن کے نام چارلس وہیٹ سٹون اور کک تھے۔ حکومت نے ان دونوں کو ان کی محنت اور دانائی کے صلے میں ''نائٹ‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا۔اسی زمانے یعنی 1837ء میں امریکہ میں سیموئل مورس نامی ایک موجد نے اپنے ٹیلیگراف کی نمائش کی۔ اسی کا بنایا ہوا ایک ضابطہ جسے ''مورس کوڈ‘‘ کہتے ہیں، ابھی تک رائج ہے۔ جب کوئی تار بابو کو اپنا تار دیتے تھے تو وہ الفاظ کے مطابق چند آوازیں پیدا کرتا تھا۔یہ ارتعاشات تاروں کی مدد سے اپنی منزل پر پہنچ جاتے تھے۔ وہاں ایک اور آلہ ان ارتعاشات سے وہی آوازیں پیدا کردیتا تھا جو شروع میں پیدا کی گئی تھیں۔ دوسرا تار بابو ان آوازوں کو سن کر وہی الفاظ لکھ لیتا ہے جو آپ نے لکھ کر دیئے تھے۔ اور یوں آپ کا پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتا تھا۔کیبل یا بحری تار برقی: جب خشکی پر پیغام رسانی کا سلسلہ قائم ہو گیا تو لوگوں کو سمندر پار ملکوں کا خیال آیا لیکن سمندروں پر تاروں کے کھمبے کس طرح گاڑے جاتے؟ آخر کار یہ طے پایا کہ سمندروں کی تہہ میں برقی تار ڈال دیئے جائیں، یہی تارکیبل کہلاتے ہیں۔ ان کے ذریعے سمندرپار ملکوں کو بھی تار بھیجے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے 1850ء میں انگلستان اور فرانس کے درمیان کیبل ڈالا گیا اور اب دنیا بھر کے سمندروں میں لاکھوں میل لمبے تار پڑے ہوئے ہیں۔ درجنوں جہاز ان کی نگرانی اور مرمت کا کام کرتے ہیں۔ یہ تار تانبے کے ہوتے ہیں جن پر حفا ظتی خول چڑھا دیا جاتا ہے تاکہ بحری جانور انہیں کاٹ نہ دیں۔ کیبل ڈالنے کیلئے خاص قسم کے بحری جہاز استعمال کئے جاتے ہیں۔ جب کوئی کیبل ٹوٹ جاتا ہے تو اسے جوڑنا خاصا مشکل کام ہے لیکن جدید سائنس کے ذریعے یہ سب کچھ ممکن ہو گیا ہے۔ٹیلیفون:ٹیلیگراف یا تاربرقی کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس سے دو انسان براہ راست ایک دوسرے سے گفتگو نہیں کر سکتے۔ یہی نقص ٹیلی فون کی ایجاد کا باعث بنا۔ اس ایجاد میں کئی سائنسدانوں کا حصہ ہے لیکن اسے مکمل کرنے کا سہرا سکاٹ لینڈ کے ایک باشندے الیگزینڈر گراہم بیل کے سر ہے جو امریکہ آ گیا تھا۔ اس نے 1876ء میں ٹیلی فون ایجاد کیا۔ ٹیلیفون کا اصول یہ ہے کہ جب آپ بولتے ہیں تو آپ کی آواز برقی ارتعاشات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ ارتعاشات تاروں کے ذریعے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پھر آواز میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ایک دور میں ایسے بھی ٹیلیفون ایجاد ہوئے جو آنے والے پیغام کو خود بخود ریکارڈ کر لیا کرتے تھے۔ اس ایجاد کا نام ٹیلی گراموفون رکھا گیا تھا۔ وہ آپ کی غیر موجودگی میں آنے والے فون ریکارڈ کر لیا کرتا تھا۔وائرلیس کے معجزے:ٹیلیگراف اور ٹیلیفون بڑی کارآمد ایجادات تھیں۔ 1880ء کی بات ہے کہ ٹیلیفون کے موجد الیگزینڈر گراہم بیل اور چند دوسرے سائنس دانوں نے آواز کو تاروں کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ کوشش اس وقت تک کامیاب نہ ہو سکی جب تک وائرلیس لہریں دریافت نہ ہو گئیں۔1864ء میں برطانوی سائنس دان میکسویل نے ان لہروں کا پتہ لگایا، اور 1887ء میں ہارٹز نامی ایک جرمن سائنسدان نے ان لہروں کو حرکت میں لانے کا عملی طریقہ معلوم کیا۔1895ء میں مارکونی نے وائرلیس ٹیلیفون پر تجربے شروع کئے اس وقت مارکونی کی عمر صرف اکیس سال تھی۔1901ء میں پہلی مرتبہ مارکونی نے بحر اٹلانٹک کے اس پر وائرلیس کے ذریعے تین مختصر سگنل نشر کئے۔ اس کامیابی نے دنیا میں وائرلیس کی دھوم مچا دی لیکن 1918ء تک ریڈیو کو صرف بحری جہازوں اور بحر اٹلانٹک کی خیر خبر رکھنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا تاکہ اگر کوئی جہاز طوفان میں گھر جائے تو اس کے مسافروں کو بچا لیا جائے۔ریڈیو: اس کے بعد اس ایجاد کو تفریح کیلئے استعمال کرنے کا سوال پیدا ہوا۔ سب سے پہلے 1920ء میں امریکہ میں پٹسبرگ ریڈیو سٹیشن نے گانے کے پروگرام شروع کئے۔1927ء تک صرف امریکہ میں 733 براڈ کاسٹنگ سٹیشن قائم ہو چکے تھے۔ برطانیہ کا مشہور نشری ادارہ بی بی سی 1922ء میں قائم ہوا۔ ریڈیو کا اصول یہ تھا کہ نشر سٹیشن پر آواز کی لہریں برقی ارتعاشات میں تبدیل کر دی جاتی ہیں۔ ٹرانسمیٹران ارتعاشات کو وائرلیس لہروں کے ذریعے چاروں طرف روانہ کردیتا ہے۔ ان کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ جب یہ لہریں آپ کے ریڈیو سیٹ کے ایریل سے ٹکراتی ہیں، تو سیٹ کے اندر چند پرزے ان کی قوت بڑھا دیتے ہیں اور بعض دوسرے پرزے ان ارتعاشات کو پھر آواز کی لہروں میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اس طرح آپ اپنی پسند کا پروگرام سن لیتے ہیں۔ٹیلی ویژن:رریڈیو کی ایجاد نے دنیا کو متحیر کر دیا تھا کہ سوئی کی ایک جنبش سے کسی بھی ریڈیو سٹیشن کا پروگرام سن لیتے ہیں۔ اس کے بعد سائنسدانوں نے یہ سوچا کہ آواز کے ساتھ ساتھ اداکاروں کی صورت شکل دیکھنے کی کوئی ترکیب نکالی جائے۔ آواز اور تصویر کی ملی جلی شکل ''ٹیلیویژن‘‘ کہلائی۔ ٹیلیویژن کی ایجاد میں بہت سے سائنس دانوں کا حصہ ہے۔ جیسے جیسے نئے آلات ایجاد ہوتے رہے یہ ایجاد بھی مکمل ہوتی رہی۔ مثلاً 1926ء میں جے ایل بیئرڈ نامی ایک انجینئر نے بہت سی مشکلات کا حل تلاش کیا۔ پھر ڈاکٹر زوریکن نے اس ایجاد میں دلچسپی لی اور بڑی محنت سے ایک نیا آلہ '' آئی کونسکوپ‘‘ ایجاد کیا۔ پھر '' الیکٹرون گن‘‘ایجاد ہوئی جس سے برقی ذرات نکلتے ہیں۔ الغرض بہت سے ایجادات نے مل کر ٹیلیویژن کی شکل اختیار کی۔ ٹیلیویژن پر ہر طرح کے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

سپین کا تباہ کن سیلاب1957ء میں آج کے روز سپین کے شہر ویلنسیا میں تاریخ کا سب سے تباہ کن سیلاب آیا، جس کے باعث املاک کو شدید نقصان پہنچا اور 81 افراد ہلاک ہوئے۔ اس سے قبل بھی یہ شہر 75 بار سیلاب کی زد میں آ چکا ہے مگر 1957ء کے سیلاب کو تاریخ کا بدترین سیلاب قرار دیا گیا۔ اس قدرتی آفت کے بعد ہسپانوی حکومت نے ایک منصوبہ بندی کے تحت شہر کے مرکزی دریا ''توریہ‘‘ کا رخ تبدیل کر دیا۔امریکی اتھلیٹ کا اعزاز100 میٹر کا فاصلہ 10 سیکنڈ سے بھی کم وقت میں طے کرنے والے پہلے اتھلیٹ کا اعزاز امریکی اتھلیٹ جم ہائنس نے 14 اکتوبر 1968ء کو اپنے نام کیا۔ امریکی سپرنٹر نے یہ کارنامہ میکسیکو اولمپکس میں 9.95 سیکنڈ میں طے کر کے گولڈ میڈل جیتا۔ بعدازاں ان کا یہ ریکارڈ 1983ء تک قائم رہا۔ اس ریکارڈ کو کیلون اسمتھ (9.93 سیکنڈ) نے توڑا۔ جم ہائنس نے اسی اولمپکس میں 4x100 میٹر ریلے میں بھی سونے کا تمغہ جیتا تھا۔ ڈبل اولمپکس چیمپئن جون 2023ء میں اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔خلاء سے پہلی بار براہ راست نشریات14اکتوبر 1968ء کو خلاء سے پہلی بار براہ راست نشریات پیش کی گئی۔ امریکی خلائی ادارے ''ناسا‘‘ کے پہلے انسان بردار مشن کے تحت خلاء میں جانے والے7 خلا بازوں نے یہ نشریات پیش کی۔ ا س نشریات کو شائقین کی طرف سے بھرپور پذیرائی ملی اور یہ نشریات گلوبل ایوراڈز کی حقدار ٹھہری۔امریکہ میں ہڑتال2021ء جان ڈیئر کی ہڑتال ریاستہائے متحدہ میں مزدوروں کی ہڑتال تھی جو 14 اکتوبر کو شروع ہوئی اور 17 نومبر کو ختم ہوئی۔ اس میں زرعی اور بھاری مشینری بنانے والے جان ڈیری کے تقریباً 10ہزار ملازمین شامل تھے۔ یہ ملازمین کئی مہینوں سے جان ڈیری کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر بات چیت کر رہے تھے۔ 17 نومبر کو مزدوروں نے سرکاری طور پر ہڑتال ختم کرتے ہوئے 6 سالہ نئے معاہدے کی منظوری دی۔ تین دہائیوں میں جان ڈیئر کی پہلی ہڑتال تھی۔

حکایت سعدیؒ:کنجوس کا مال

حکایت سعدیؒ:کنجوس کا مال

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مال دار سوداگر اس قدر کنجوس تھا کہ مہمانوں کیلئے اس کا دروازہ ہمیشہ بند اور دستر خوان لپٹا ہوا رہتا تھا۔ایک بار اس نے سامانِ تجارت جہاز پر لادا اور ملک مصر کی طرف روانہ ہوا۔ غرور سے اس کی گردن یوں اکڑی ہوئی تھی کہ گویا اس زمانے کا فرعون ہو۔ اسے یقین تھا یہ تجارتی سفر اس کیلئے بہت زیادہ نفع رساں ثابت ہو گا لیکن ہوا یہ کہ جب وہ آدھا راستہ طے کر چکا تو سمندر میں طوفان آگیا اور اس بخیل کا جہاز غرق ہو گیا۔ طوفان کے آثار دیکھ کر اس بخیل نے بہت دعائیں مانگیں لیکن دعاؤں سے اسے کچھ فائدہ نہ پہنچا۔ ایسے شخص کی دعا شاید مشکل سے قبول ہوتی ہے جس کے ہاتھ مانگنے کیلئے تو خدا کے سامنے پھیل جائیں لیکن کسی کو کچھ دینا پڑے تو بغلوں میں چھپا لے۔ اس بخیل کا چھوڑا ہوا مال اور جائیداد اس کے ان غریب رشتے داروں کے ہاتھ آئی جنہیں اس نے زندگی میں کبھی نہ پوچھا تھا اور وہ خوب شان و شوکت سے زندگی گزارنے لگے۔گر خدا نے مال بخشا ہے تو اس کو خرچ کرخود بھی راحت اس کی پا اوروں کو بھی آرام دےیاد رکھ اک روز یہ گھر چھوڑنا ہو گا تجھےجمع جس میں کر رہا ہے سونے چاندی کے ڈلےحضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں بخیلوں کے حسرت ناک انجام سے آگاہ کیا ہے اور وہ بلا شبہ یہ ہے کہ ایک دن موت اچانک انہیں آلیتی ہے اور وہ مال جسے انہوں نے بصد دشواری حاصل کیا تھا، دوسروں کو مل جا تا ہے جو خوب عیش کرتے ہیں۔