پیغام رسانی کے پرانے ذرائع
اکیسویں صدی کو جدید ٹیکنالوجی کا دور کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جدید سے جدید تر ٹیکنالوجی کی بدولت باہمی رابطوں کے ذرائع تبدیل ہو چکے ہیں۔ موبائل ، ویڈیوکالز اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے پیغام رسانی کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے، ایک انگلش کی جنبش سے آپ کا پیغام دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچ جاتا ہے۔ آج ہم اپنے اس مضمون میں ماضی کے قدیم پیغام رسانی کے ذرائع کون کون سے تھے ان پر ایک طائرانہ سی نظر ڈالیں گے۔
بیسویں صدی کو سائنس کی تاریخ میں اس لحاظ سے ہمیشہ ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل رہے گی کہ اس دور میں انسان نے صحیح معنوں میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ اس صدی کی ایجادات صرف امیروں کے گھروں تک محدود نہیں ہیں بلکہ عوام بھی ان سے فائدہ اٹھاتے رہے۔
ٹیلیگرافی یا تار برقی:پرانے زمانے میں پیغام رسانی کیلئے تیز رفتار ، ہرکارے، گھڑ گاڑیاں اور گھڑ سوار استعمال کئے جاتے تھے۔ تار برقی اس وقت ممکن ہو سکی جب بجلی ایجاد ہوئی اور سائنسدانوں نے یہ معلوم کیا کہ بجلی سے مقناطیسیت اور مقناطیسیت سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔انگلستان میں ٹیلیگراف کو تجارتی پیمانے پر رائج کرنے کا سہرا دو موجدوں کے سر ہے جن کے نام چارلس وہیٹ سٹون اور کک تھے۔ حکومت نے ان دونوں کو ان کی محنت اور دانائی کے صلے میں ''نائٹ‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا۔
اسی زمانے یعنی 1837ء میں امریکہ میں سیموئل مورس نامی ایک موجد نے اپنے ٹیلیگراف کی نمائش کی۔ اسی کا بنایا ہوا ایک ضابطہ جسے ''مورس کوڈ‘‘ کہتے ہیں، ابھی تک رائج ہے۔ جب کوئی تار بابو کو اپنا تار دیتے تھے تو وہ الفاظ کے مطابق چند آوازیں پیدا کرتا تھا۔یہ ارتعاشات تاروں کی مدد سے اپنی منزل پر پہنچ جاتے تھے۔ وہاں ایک اور آلہ ان ارتعاشات سے وہی آوازیں پیدا کردیتا تھا جو شروع میں پیدا کی گئی تھیں۔ دوسرا تار بابو ان آوازوں کو سن کر وہی الفاظ لکھ لیتا ہے جو آپ نے لکھ کر دیئے تھے۔ اور یوں آپ کا پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتا تھا۔
کیبل یا بحری تار برقی: جب خشکی پر پیغام رسانی کا سلسلہ قائم ہو گیا تو لوگوں کو سمندر پار ملکوں کا خیال آیا لیکن سمندروں پر تاروں کے کھمبے کس طرح گاڑے جاتے؟ آخر کار یہ طے پایا کہ سمندروں کی تہہ میں برقی تار ڈال دیئے جائیں، یہی تارکیبل کہلاتے ہیں۔ ان کے ذریعے سمندرپار ملکوں کو بھی تار بھیجے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے 1850ء میں انگلستان اور فرانس کے درمیان کیبل ڈالا گیا اور اب دنیا بھر کے سمندروں میں لاکھوں میل لمبے تار پڑے ہوئے ہیں۔ درجنوں جہاز ان کی نگرانی اور مرمت کا کام کرتے ہیں۔ یہ تار تانبے کے ہوتے ہیں جن پر حفا ظتی خول چڑھا دیا جاتا ہے تاکہ بحری جانور انہیں کاٹ نہ دیں۔ کیبل ڈالنے کیلئے خاص قسم کے بحری جہاز استعمال کئے جاتے ہیں۔ جب کوئی کیبل ٹوٹ جاتا ہے تو اسے جوڑنا خاصا مشکل کام ہے لیکن جدید سائنس کے ذریعے یہ سب کچھ ممکن ہو گیا ہے۔
ٹیلیفون:ٹیلیگراف یا تاربرقی کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس سے دو انسان براہ راست ایک دوسرے سے گفتگو نہیں کر سکتے۔ یہی نقص ٹیلی فون کی ایجاد کا باعث بنا۔ اس ایجاد میں کئی سائنسدانوں کا حصہ ہے لیکن اسے مکمل کرنے کا سہرا سکاٹ لینڈ کے ایک باشندے الیگزینڈر گراہم بیل کے سر ہے جو امریکہ آ گیا تھا۔ اس نے 1876ء میں ٹیلی فون ایجاد کیا۔ ٹیلیفون کا اصول یہ ہے کہ جب آپ بولتے ہیں تو آپ کی آواز برقی ارتعاشات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ ارتعاشات تاروں کے ذریعے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پھر آواز میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ایک دور میں ایسے بھی ٹیلیفون ایجاد ہوئے جو آنے والے پیغام کو خود بخود ریکارڈ کر لیا کرتے تھے۔ اس ایجاد کا نام ٹیلی گراموفون رکھا گیا تھا۔ وہ آپ کی غیر موجودگی میں آنے والے فون ریکارڈ کر لیا کرتا تھا۔
وائرلیس کے معجزے:ٹیلیگراف اور ٹیلیفون بڑی کارآمد ایجادات تھیں۔ 1880ء کی بات ہے کہ ٹیلیفون کے موجد الیگزینڈر گراہم بیل اور چند دوسرے سائنس دانوں نے آواز کو تاروں کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ کوشش اس وقت تک کامیاب نہ ہو سکی جب تک وائرلیس لہریں دریافت نہ ہو گئیں۔
1864ء میں برطانوی سائنس دان میکسویل نے ان لہروں کا پتہ لگایا، اور 1887ء میں ہارٹز نامی ایک جرمن سائنسدان نے ان لہروں کو حرکت میں لانے کا عملی طریقہ معلوم کیا۔1895ء میں مارکونی نے وائرلیس ٹیلیفون پر تجربے شروع کئے اس وقت مارکونی کی عمر صرف اکیس سال تھی۔1901ء میں پہلی مرتبہ مارکونی نے بحر اٹلانٹک کے اس پر وائرلیس کے ذریعے تین مختصر سگنل نشر کئے۔ اس کامیابی نے دنیا میں وائرلیس کی دھوم مچا دی لیکن 1918ء تک ریڈیو کو صرف بحری جہازوں اور بحر اٹلانٹک کی خیر خبر رکھنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا تاکہ اگر کوئی جہاز طوفان میں گھر جائے تو اس کے مسافروں کو بچا لیا جائے۔
ریڈیو: اس کے بعد اس ایجاد کو تفریح کیلئے استعمال کرنے کا سوال پیدا ہوا۔ سب سے پہلے 1920ء میں امریکہ میں پٹسبرگ ریڈیو سٹیشن نے گانے کے پروگرام شروع کئے۔1927ء تک صرف امریکہ میں 733 براڈ کاسٹنگ سٹیشن قائم ہو چکے تھے۔ برطانیہ کا مشہور نشری ادارہ بی بی سی 1922ء میں قائم ہوا۔ ریڈیو کا اصول یہ تھا کہ نشر سٹیشن پر آواز کی لہریں برقی ارتعاشات میں تبدیل کر دی جاتی ہیں۔ ٹرانسمیٹران ارتعاشات کو وائرلیس لہروں کے ذریعے چاروں طرف روانہ کردیتا ہے۔ ان کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ جب یہ لہریں آپ کے ریڈیو سیٹ کے ایریل سے ٹکراتی ہیں، تو سیٹ کے اندر چند پرزے ان کی قوت بڑھا دیتے ہیں اور بعض دوسرے پرزے ان ارتعاشات کو پھر آواز کی لہروں میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اس طرح آپ اپنی پسند کا پروگرام سن لیتے ہیں۔
ٹیلی ویژن:رریڈیو کی ایجاد نے دنیا کو متحیر کر دیا تھا کہ سوئی کی ایک جنبش سے کسی بھی ریڈیو سٹیشن کا پروگرام سن لیتے ہیں۔ اس کے بعد سائنسدانوں نے یہ سوچا کہ آواز کے ساتھ ساتھ اداکاروں کی صورت شکل دیکھنے کی کوئی ترکیب نکالی جائے۔ آواز اور تصویر کی ملی جلی شکل ''ٹیلیویژن‘‘ کہلائی۔ ٹیلیویژن کی ایجاد میں بہت سے سائنس دانوں کا حصہ ہے۔ جیسے جیسے نئے آلات ایجاد ہوتے رہے یہ ایجاد بھی مکمل ہوتی رہی۔ مثلاً 1926ء میں جے ایل بیئرڈ نامی ایک انجینئر نے بہت سی مشکلات کا حل تلاش کیا۔ پھر ڈاکٹر زوریکن نے اس ایجاد میں دلچسپی لی اور بڑی محنت سے ایک نیا آلہ '' آئی کونسکوپ‘‘ ایجاد کیا۔ پھر '' الیکٹرون گن‘‘ایجاد ہوئی جس سے برقی ذرات نکلتے ہیں۔ الغرض بہت سے ایجادات نے مل کر ٹیلیویژن کی شکل اختیار کی۔ ٹیلیویژن پر ہر طرح کے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔