راکٹ اور میزائل کی کہانی
موجودہ خلائی دور کی بنیاد ڈالنے میں تین موجدوں کا حصہ ہے۔
ایک روسی کونسٹنٹین زالکووسکی،دوسرا امریکی روبرٹ گوڈرڈ اور تیسر ارومانیہ کا ہرمن اوبرتھ۔ یہ تینوں جانتے تھے کہ ہوائی جہاز تو صرف ہوا میں اڑ سکتا ہے اور خلائی سفر صرف راکٹ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے۔اسی کے ذریعہ سے ہم کسی دوسری دنیا پر پہنچ سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ایندھن کے جلنے اور رفتار حاصل کرنے کیلئے آکسیجن ضروری ہے لہٰذا راکٹ کو اپنی ضرورت کا ایندھن اپنے ساتھ لے جانا ہوگا۔ راکٹ کی پرواز کا اصول یہ ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتاہے اور یہ دونوں آپس میں برابر ہوتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال معمولی غبارہ ہے۔ غبار میں خوب ہوا بھرلیں اور پھر یکایک اس کا منہ کھول کر اسے چھوڑ دیں۔ اس میں سے ہوا تیزی سے جس سمت میں نکلے گی وہ اس کی مخالف سمت میں اتنے ہی زور سے حرکت کرے گا اور اڑ جائے گا۔
1950ء میں روس اور امریکہ میں نہایت طاقتور راکٹ بنائے گئے۔ یہ راکٹ ہزاروں میل کی بلندی تک اٹھتے تھے اور خلا سے زمین پر واپس آ جاتے تھے اور یوں رفتہ رفتہ راکٹ کو بہت قوی بنایا گیا۔ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ چین میں اب سے 5ہزار سال پہلے راکٹ کا تصور موجود تھا۔ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ 1230ء میں راکٹ کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اس کے تقریباً پونے تین سو سال بعد وان ہو نامی چینی رہنما نے راکٹ کے اصول پر چلنے والے ایک طیارے میں سفر کیا۔1807ء میں انگریزوں نے کوپن ہیگن پر حملے کے دوران راکٹ استعمال کئے اس کے علاوہ دوسری جنگوں میں بھی انہیں استعمال کیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم میں راکٹ دوبارہ استعمال ہوئے۔ شروع میں راکٹ میں بارود کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس راکٹ کی بناوٹ بہت سادہ ہوتی تھی۔ پہلے دھات کا ایک سلنڈر بنایا جاتا تھا اس کے زیادہ حصے میں بارود بھر دی جاتی تھی۔ اس کے پچھلے حصے میں قیف جیسا ایک شگاف ہوتا تھا اور اس کے بالکل آگے یعنی اس کی ناک میں دھمکا پیدا کرنے والی کوئی چیز بھر دی جاتی تھی۔ ایسے راکٹ ہوا کے بالائی طبقات کی تحقیقات کے لئے بھی استعمال کئے گئے۔ اس صورت میں ان کے اگلے حصے میں دھماکے والی شے کے بجائے سائنسی آلات بھر دیئے جاتے تھے۔ پچھلے حصے سے فتیلہ باہر نکلا ہوتا تھا۔ فضا میں راکٹ کا توازن برقرار رکھنے کیلئے اس کے اوپر ایک ڈنڈا لگا دیا جاتا تھا جیسے ہی فیتے کو شعلہ دکھایا جاتا تھا، بارود جلنے لگتی تھی۔ اس کی گیس پیچھے سے زور سے باہر نکلتی تھی اور راکٹ آگے کی طرف پرواز کرتا تھا۔
1920ء میں راکٹ میں خشک ایندھن کے بجائے مائع ایندھن کا استعمال ہوا جو زیادہ طاقتور ثابت ہوا۔1926ء میں امریکہ میں ایک مرتبہ ایسا راکٹ فضا میں چھوڑا گیا اس میں بنزین اور مائع آکسیجن استعمال کئے گئے۔ یہ ایک چھوٹا سا راکٹ تھاجس کا ایندھن صرف اڑھائی سیکنڈ میں ختم ہو گیا اور وہ 198فٹ کی بلندی تک پہنچا۔ جرمنی کا وی ٹو راکٹ بھی اسی اصول پر بنایا گیا تھا۔ امریکہ نے ویک کارپورل اور وائکنگ وغیرہ میں بھی اسی بناوٹ کو ملحوظ خاطر رکھا۔ یہ تھی ابتدا مائع ایندھن سے چلنے رالے راکٹوں کی۔
1950ء کے بعد روس اور امریکہ دونوں ملکوں میں کہیں زیادہ طاقتور راکٹ تیار کئے گئے جو خلا میں ہزاروں میل کی بلندی تک جا کر حفاظت سے زمین پر واپس آ سکتے تھے۔ پھر سائنسدانوں نے حساب لگایا کہ اگر کوئی راکٹ سات میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین سے روانہ ہو تو چاہے اس کی رفتار بلندی کے ساتھ تھوڑی کم ہوتی رہے، پھر بھی وہ زمین کی کشش کو توڑ دے گا اور زمین پر واپس نہیں گرے گا۔ گویا وہ زمین سے فرار ہو جائے گا۔اسی لئے سائنسدانوں نے اس رفتار کو ''رفتارِ فرار‘‘ کہا اور تجربے نے بتا دیا کہ یہ نظریہ صحیح تھا۔ اسی رفتار سے روانہ ہونے والے راکٹ زمین کے مصنوعی چاند یا مصنوعی سیارے بنے۔
ایسا پہلا مصنوعی سیارہ روسی سائنسدانوں نے چھوڑا وہ صرف ایک گولہ تھا جس میں سائنسی آلات رکھے گئے تھے۔ اس کا وزن75کلو گرام تھا۔یہ 1957ء کی بات ہے یہ تجربہ کامیاب رہا۔ اگلے چند سال کے دوران بعض جاندار بھی خلا میں بھیجے گئے۔ کتا اور بندر تھے خلا کے اوّلین مسافر۔یوں انسانوں کا خود خلا میں جانے کا حوصلہ بڑھا۔آزمائش کے طور پرروسی خلا باز یوری گیگرین نے 12اپریل 1961ء کو زمین کے چاروں طرف گردش کی۔ اس نے جس راکٹ سے سفر کیا اس کا نام '' دو سٹوک‘‘ تھا۔ جس کیپ سول میں خلا باز کو بٹھایا گیا تھا اس کا قطر دو میٹر کے قریب تھا۔ اس پر ایسا مادہ چڑھا ہوا تھا جو آہستہ آہستہ جل کر الگ ہو جاتا تھا۔ یہ مادہ اس لئے چڑھایا گیا تھا کہ واپسی پر تیز رفتاری کے سبب ہوا کے ساتھ رگڑ کھا کر اس کرے کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہو جاتا تھا۔ خلاء باز کی بحفاظت واپسی کیلئے یہ ضروری تھا کہ وہ اس زبردست حرارت سے محفوظ رہے۔
پہلا امریکی خلا نورد5مئی 1961ء کو خلا میں پہنچا۔ایک سال بعد جون گلین کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس نے زمین کے چاروں طرف گردش کی۔ وہ پہلا امریکی تھا جس نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ اس کے لانچر راکٹ کا نام اٹیلسن تھا۔1965ء میں پہلی مرتبہ دو روسی خلا باز ایک ساتھی دو سٹوک راکٹ کے ذریعہ سے خلا میں پہنچے۔ ان میں سے ایک نے خلا میں چہل قدمی بھی کی۔چند دن بعد امریکہ نے ایک نیا خلائی پروگرام شروع کیا جو '' جمنئی‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ خاص طرز کا ایک کیپسول تھا جس میں دو خلا باز بیٹھ سکتے تھے۔ یہ دو سٹوک اور مرکری کے مقابلے میں بہتر اور جدیدتھا۔اس کی سمت بھی بدلی جا سکتی تھی اور دو سرے خلائی جہاز کے ساتھ جوڑا بھی جا سکتا تھا۔ اصل میں یہ سب تجربات انسان کو چاند پر پہنچانے کیلئے کئے جا رہے تھے، بالآخر یہ آرزو بیسویں صدی میں پوری ہوئی۔ ''اپالو‘‘ پروگرام کے تحت انسان چاند پر پہنچا۔