مولوی ڈپٹی نذیر احمد اُردُو کے پہلے ناول نگار کی زندگی کے چند دلچسپ واقعات
اسپیشل فیچر
اُردُو ادب میں سب سے پہلے باقاعدہ جدید ناول نگاری کا شرف مولوی نذیر احمد دہلوی کو حاصل ہے۔وہ ضلع بجنور (بھارت) میں 6 دسمبر 1836ء میں پیدا ہوئے۔والد مولوی سعادت علی ایک مسجد کے امام تھے۔ بچپن میں غربت کا سامنا تھا۔
دہلی کی ایک اورنگ آباد مسجد میں مولوی عبدالخالق سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے گھر کے کام بھی کیا کرتے تھے۔ ان کی بیٹی صفیۃ النساء بیگم ان سے مصالحے پسواتی اور جہاں کہیں ہاتھ رکتا ،وہیں بٹہ انگلیوں پر مارتی تھی۔ بعدازاں اتفاق سے اسی لڑکی صفیۃ النساء بیگم سے ان کی شادی ہوئی۔
ایک روز نذیر احمد کچھ لوگوں کے ساتھ دہلی کالج گئے ۔ کالج کے انگریز پرنسپل کے آنے پر لوگ اِدھر اُدھر ہونے لگے ۔ دھکم پیل ہونے پر نذیر احمد گِر گئے، انگریز پرنسپل نے انھیں اٹھایا، اور پیار کیا۔ ان سے پوچھا کہ کیا کرتے ہو؟ ، تو نذیر احمد نے بتایا کہ مولوی عبدالخالق کے مدرسے میں پڑھتا ہوں،؟ انگریز پرنسپل نے پوچھا کیاپڑھ رہے ہو؟ تو انھوں نے کہا! دیوانِ قیس۔پرنسپل کو ان کی بات پہ حیرت ہوئی تو انھیں عربی کے استادمفتی صدر الدین کے پاس لے گئے اور ا ن سے کہا کہ ان سے دیوانِ قیس کے بارے میں پوچھو۔ نذیر احمد سے پوچھا گیا تو انھوں نے سارے سوالات کے صحیح صحیح جواب دئیے۔ اس پر کالج پرنسپل نے انھیں کالج میں داخلہ لینے کا کہا اور یوں چھٹیوں میں ان کو داخلہ مل گیا۔ پہلے پہل ان کا وظیفہ دو روپے مقرر ہوا۔دہلی کالج میں ان کے استادمولوی امام بخش صہبانی اوررام چند تھے۔جن سے انھوںنے عربی، ادب، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ نذیر احمد کا کالج میں کام سب سے اچھا ہوتا۔ ان کا وظیفہ دو روپے سے بڑھا کر آٹھ روپے کردیا گیا۔یہاں ان کے ہم جماعت مولانا محمد حسین آزاد اور مولوی ذکاء اللہ تھے۔ انہوں نے 1853ء تک تعلیم حاصل کی۔
1857ء کے ہنگاموں میں مولوی نذیرا حمد نے ایک انگریز عورت کی جان بچائی اور اسے کیمپ تک با حفاظت پہنچایا۔اس خیر خواہی کے صلے میں جنگِ آزادی کے بعد انگریزوں نے انھیں تحصیلدار بنادیا۔ یہاں سے ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر بن گئے ۔ یوں ڈپٹی نذیر احمد کے نام سے مشہور ہو گئے۔ کچھ عرصہ حیدرآباد دکن بلائے گئے اور اس کے بعد ریٹائرڈ ہوکر دہلی واپس آگئے،اوربقیہ عمرعلمی ادبی مشاغل میں گزاری۔
مولوی نذیر احمدایک زبردست عالمِ دین تھے،مولوی نذیر احمد وعظ و نصیحت،تبلیغ و تلقین کو اپنا فرضِ منصبی سمجھتے تھے۔تحر یکِ علی گڑھ کے خاص سرگرم کا رکن اورسرسید احمد خان کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور ایک زبردست مقرر بھی تھے۔نہ صرف ناول نگار بلکہ ایک استاد بھی تھے، اور قدیم اور جدید علوم سے باخبر بھی تھے۔
مولوی نذیر احمدلڑکیوں کی تعلیم کے حامی تھے، ان کا خیال تھا کہ جب تک لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے ہمکنار نہ کروایا جائے، تب تک لڑکوں کاتعلیم حاصل کرنا عبث ہے، اسی لیے انھوں نے کہانیوں کے ذریعے اصلاحِ قوم کا بیڑا اُٹھایا اوران سے معاشرتی اصلاح کاکام بھی لیا تھا،جو بعد میں جدید ناول نگاری کے زمرے میں آیا اورڈپٹی نذیر احمدہی اُردُو کے وہ پہلے باقا عدہ ناول نگار ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے عورتوں کیلئے ادب کی تشکیل کی۔ خواتین کی زبان اور لہجے پر ان کی خاصی دسترس حاصل تھی،اسی لیے ان کے ناولوں میںخواتین کی تعلیم و تربیت، ان کی گھریلو زندگی اوران کی روزمرہ کی زبان کی بھرپور عکاسی کی ہے۔بہترین مکالمہ نگاری اور کردارنگاری ان کا خاصہ رہی ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں واقعہ نگاری اور کردار نگاری ہر عام و خاص ، عالم و جاہل ، نواب و نوکر غرض ہر کردارکی زبان اس کے طبقے کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے۔، شائستگی ، برجستگی، ماحول کی عکاسی ، طنزو مزا ح شوخی و ظرافت بھرپور پائی جاتی ہے۔