پہاڑوں کو خراج تحسین

پہاڑوں کو خراج تحسین

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد علی


ہمارے سیارے کے ماحولیاتی نظام اور انسانی معاشرت میں پہاڑوں کے اہمیت بارے آگاہی بڑھانے کے لیے ہر سال 11 دسمبر کو پہاڑوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2003ء میں اس دن کو پہاڑوں کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے، پہاڑوں کی بہتری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اجاگر کرنے اوردنیا بھر میں پہاڑی ماحولیات میں مثبت تبدیلی کی کوششوں سے منسوب کیا تھا۔ یہ دن ہر سال ایک نئے تھیم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس سال کا تھیم ہے:Mountain solutions for a sustainable future یعنی پہاڑ پائیدار مستقبل کا حل ہیں۔ پہاڑ براہ راست یا بالواسطہ طور پر ہماری زندگیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑ زمین کی سطح کے ایک چوتھائی سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور دنیا کی آبادی کے 12 فیصد کا مسکن ہیں جبکہ بنی نوح انسان کے لیے تازہ پانی کا نصف سے زائد پہاڑوں ہی سے ملتا ہے، اور دنیا کی خوراک کا 80 فیصد فراہم کرنے والے پودوں کی 20 انواع میں سے چھ پہاڑوں سے آتی ہیں۔پہاڑ حیاتیاتی تنوع کا بیش قیمت خزانہ ہیں۔
اگرچہ دنیا کے صرف 27 فیصد حصے پر پہاڑ ہیں لیکن اپنے حجم کے مقابلے میں یہ حیاتیاتی تنوع میں کہیں زیادہ کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم بین الحکومتی ماحولیاتی تبدیلی کے پینل (IPCC) کے مطابق پہاڑوں میں پائی جانے والے منفرد پودوں اور جانوروں کی اقسام میں سے 84 فیصد معدوم ہونے کے خطرے سے دوچارہیں۔پہاڑ دنیا کی قدرتی خوبصورتی کا اہم حصہ ہیں اور ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ہوا کے بہاؤ کو متاثر کرتے ہیں، بارش کے پیٹرن کو منظم کرتے ہیں اور جانوروں اور پودوں کی انواع کا مسکن فراہم کرتے ہیں۔ پہاڑ مختلف اقتصادی سرگرمیوں جیسا کہ سیاحت، کان کنی، زراعت اور پانی کی فراہمی میں بھی خصوصی طور پر مددگار ہیں ۔
آج کے دور میں بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیاتی آلودگی اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پہاڑوں کے ایکو سسٹم خطرے میں ہیں۔ ان کی حفاظت اور تحفظ ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان کی خوبصورتی اور فوائد سے مستفید ہو سکیں۔پاکستان کیلئے یہ امر قابلِ فخر ہے کہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور 9ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت سمیت 8 ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیوں میں سے پانچ پاکستان میں ہیں۔ عالمی سطح پر ہر سال پانچ کروڑ سیاح پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں جس سے 90 ارب ڈالر تک کا ریونیو حاصل ہوتا ہے تاہم اس کی قیمت پہاڑی علاقوں میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیا اینڈ پیسفک (UNESCP) کی رپورٹ ''پاکستان میں پہاڑی سیاحت کے ماحولیاتی اثرات‘‘ کے مطابق کوہ ہندو کش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں آلودگی کی سطح درمیانی جبکہ ہمالیہ میں بلند ہے۔
دنیا کی 9 ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کو جانے و الے تین راستو ں میں سے کنشوفر رُوٹ پرکوہ پیماؤں کے استعمال میں رہنے والی اشیا، پلاسٹک بیگز، پیک فوڈ کی باقیات اور شیٹس وغیرہ کی سطح بہت بلند جبکہ روپال روٹ پر یہ آلودگی مزید زیاد ہ ہے۔ گلوبل وارمنگ بھی پہاڑی سیاحت کی صنعت کو متاثر کررہی ہے۔ جنگلات کا کٹاؤ بھی پہاڑوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو جنگلات کی کٹائی میں آنے والی تیزی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض پہاڑی علاقوں میں جنگلات کا اوسط فاصلہ دو کلومیٹر تک بڑھ چکا ہے جو 10سال پہلے ڈیڑھ کلومیٹر تھا۔ انٹرنیشنل جرنل آف ایگریکلچر اینڈ بائیولوجی کی ایک تحقیق کے مطابق خیبر پختونخوا کے سب سے زیادہ پہاڑی جنگلات والے دو اضلاع (نوشہرہ اور سوات) کے دیہاتوں میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اوسطاً آٹھ میں سے چھ دیہات میں بجلی اور ایل پی جی ہونے کے باوجود ان کے مہنگا ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی گھروں کو گرم رکھنے اور کھانا پکانے کیلئے ان کا کم استعمال کرتی ہے اور 73 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ علاقے میں گھروں کی تعمیر اور مرمت میں جنگلات کی لکڑی کا استعمال بہت زیادہ ہے۔40فیصد افراد کا خیال ہے کہ مقامی آبادی کی جانب سے لکڑی کے غیر قانو نی کٹاؤ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ 79 فیصد افراد جنگلات کے غیر قانونی کٹاؤکا ذمہ دار محکمہ جنگلات کو تصور کرتے ہیں۔
جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے گلیشیئر پگھلنے کی شرح میں اضافہ ہورہاہے جو نیچے کی جانب پانی کے بہاؤ اور مقدار کو متاثر کر رہا ہے۔پاکستان میں مجموعی طور پر سات ہزار کے قریب گلشیئرز ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں برف کے ان تودوں کے پگھلنے کا عمل تیز تر ہو رہا ہے۔ پگھلتے گلیشئرز اچانک ٹوٹ جائیں تو پہاڑوں سے نیچے آتے پانی کا بہاؤ اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ جو کچھ راستے میں آتا ہے بہہ جاتا ہے۔گلگت بلتستان کے علاقے میں درجنوں گلیشئرز پگھلنے کی وجہ سے ہزاروں جھیلیں وجود میں آ چکی ہیں اور ان میں سے بہت سی جھیلیں ایسی ہیں جو سیلاب کا باعث بنتی رہتی ہیں۔
اہم معلومات
٭اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2003ء میں پہاڑوں کی اہمیت پر اس دن کو منسوب کیا تھا۔
٭پہاڑ زمین کی ایک چوتھائی سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔
٭بنی نوح انسان کیلئے تازہ پانی کا نصف سے زائد پہاڑوں سے ملتا ہے۔
٭پہاڑ دنیا کے 27 فیصد حصہ پر ہیں۔
٭دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K-2 اور نانگا پربت سمیت 8 ہزار میٹر سے زائد بلند5 چوٹیاں پاکستان میں ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ملتان کے تاریخی مقامات

ملتان کے تاریخی مقامات

فن تعمیر ثقافتی و تہذیبی روایت کے علاوہ معاشرتی ترقی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ خطے میں موجود تاریخی عمارات تاریخی کلچر کی مظہر ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ زندہ قومیں اپنی تہذیب و ثقافت سے پہچانی جاتی ہیں اور جو قومیں اس کی حفاظت نہیں کرتیں، انہیں زوال پذیر ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ ملتان ضلع لودھراں سے 75 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود پاکستان کے صوبہ پنجاب کا قدیم شہر ہے، اپنی تہذیبی، تاریخی اور مذہبی اہمیت کی بنا پر ہمیشہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس شہر کو "اولیاء￿ کا شہر" کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کئی معروف صوفیائے کرام کے مزارات موجود ہیں۔ ملتان کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے اور یہاں کے تاریخی مقامات میں فن تعمیر، ثقافت اور روحانی ورثے کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ملتان کی وجہ شہرت تو کئی ہیں لیکن مزارات کی وجہ سے اسے زیادہ شہرت حاصل ہے جہاں پاکستان بھر سے زائرین حاضر ہوتے ہیں۔ ملتان کی تاریخ کا آغاز کم از کم پانچ ہزار سال پہلے ہوا۔ قدیم تہذیبوں میں اسے "مالیستان" کے نام سے جانا جاتا تھا اور اسے بدھ مت اور ہندو مت کے مذہبی مراکز میں شمار کیا جاتا تھا۔ بعد میں یہ اسلامی تہذیب کا اہم مرکز بن گیا، جب صوفیائے کرام نے یہاں قدم رکھا اور اسلام کی تبلیغ کی۔پاکستان کے شہروں میں ملتان کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ اولین دور میں اور سب سے زیادہ عرصے تک برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت کا مرکز رہا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں محمد بن قاسم نے سندھ کے جو علاقے فتح کیے ان میں ملتان بھی شامل تھا لیکن ملتان اس سے بھی پہلے ہندوستان کا رخ کرنے والے بزرگان دین اور صوفیائے کرام کا ایک اہم پڑاؤ بن چکا تھا۔ فتح ملتان کے بعد اس طرف آنے والے صوفیاء کی تعداد میں اور بھی اضافہ ہوا۔ ان میں سے کچھ نے مستقل قیام کے لیے ملتان کو منتخب کیا اور کچھ عارضی قیام کے بعد ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ملتان کو مذہبی اور سیاسی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ کسی زمانے میں ملتان کے بارے میں شاید یہ درست ہو کہ چہار چیز است تحفہ ملتان۔ گرد، گرما، گدا، گورستان لیکن آج یہ پاکستان کے زرخیز ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے اور ایک بارونق صنعتی شہر کی حیثیت سے تیزی کے ساتھ اپنے مراحل طے کر رہا ہے۔ملتان کے مشہور تاریخی مقامات درج ذیل ہیں۔ شاہ رکن عالم کا مزارشاہ رکن عالم کا مزار ملتان کا سب سے معروف تاریخی مقام ہے۔ یہ عظیم صوفی بزرگ حضرت شاہ رکن الدین عالم کا مدفن ہے جو سلسلہ سہروردیہ کے مشہور ولی تھے۔ مزار کا فن تعمیر اسلامی طرز کا شاہکار ہے۔ اس کے گنبد کو دنیا کے سب سے بڑے گنبدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مزار پر سنگ مرمر اور سرخ اینٹوں کا استعمال کیا گیا ہے جو اسے منفرد بناتا ہے۔ حضرت بہاء الدین زکریا کا مزارحضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کا مزار بھی ملتان کے تاریخی ورثے کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ صوفی بزرگ اسلامی تعلیمات اور تصوف کے فروغ کے لیے مشہور ہیں۔ مزار کا طرز تعمیر قدیم اسلامی طرز کو ظاہر کرتا ہے اور یہاں روحانی سکون کے متلاشی لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں۔قلعہ ملتانقلعہ ملتان، جسے "قلعہ قاسم" بھی کہا جاتا ہے، تاریخی قلعہ ہے جو کبھی ملتان کی دفاعی ضرورتوں کو پورا کرتا تھا۔ یہ قلعہ دریائے چناب کے قریب ایک بلند مقام پر واقع ہے اور اس کا شمار قدیم ترین قلعوں میں ہوتا ہے۔ قلعہ کا اندرونی حصہ وقت کے ساتھ ختم ہو گیا، لیکن اس کے آثار اب بھی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ یہاں سے شہر کا خوبصورت منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ملتان کے بازارملتان کے بازار حسین آگاہی کو بھی تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ یہ بازار نہ صرف خریداری کے لیے مشہور ہے بلکہ یہاں کی روایتی اشیاء اور دستکاری سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ ثقافتی ورثہملتان جتنا قدیم شہر ہے، اتنی ہی پرانی اس کی ثقافت ہے۔ ملتانی کھسہ، ملتانی چادر، ملتانی چپل، سوہن حلوہ، ہاتھ سے بنے ہوئے برتن اور خوب صورت اجرکیں، ٹوپیاں غرض ہر طرح کی اشیا اس بازار میں مل جاتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بازار قریبی علاقوں لودھراں، بہاولپور ، مظفرگڑھ کوٹ ادو کے علاقوں کے لیے معاشی ہب کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہاں سے دور دراز علاقوں کے دکاندار یہاں پر اشیاء خریدنے آتے ہیں اور اپنے علاقوں میں جا کر مناسب دام میں فروخت کرنے کے بعد اپنے روزگار کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ ملتان اپنے تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافتی ورثے کی بنا پر بھی مشہور ہے۔ یہاں کے روایتی کھانے ملتانی سوہن حلوہ، ملک بھر میں مشہور ہے۔ یہاں کے کاریگر ہاتھ سے بنی ہوئی اشیاء￿ ، جیسے شیشے کا کام اور کشیدہ کاری، اپنی مثال آپ ہیں۔ ادیبوں کا شہرملتان شہر کو ادیبوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے مشہور ادبا اور شاعروں کا تعلق اس شہر سے ہے۔ ادیبوں اور شعرا کی محفلیں ہر شام شہر میں چند سال پہلے قائم کیے گئے ملتان ٹی ہاؤس میں منعقد ہوتی ہیں۔ ملتان ٹی ہاؤس میں ملتان کے تمام ادیبوں اور شعراء￿ کی تصاویر آویزاں اور تصانیف رکھی گئی ہیں۔ وہیں، علم و ادب سے چاہ رکھنے والے اور عام لوگ بھی یہاں بیٹھ کر چائے کی پیالیوں کے دور چلا رہے ہوتے ہیں۔ملتان کے تاریخی مقامات پاکستان بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ یہ مقامات تاریخ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کے ثقافتی اور روحانی تشخص کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مقامات کی دیکھ بھال اور ترقی کے لیے مزید اقدامات کرے تاکہ سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔ ملتان کے تاریخی مقامات ماضی کی عظمت اور تہذیب کی نشانی ہیں۔ یہ مقامات سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں بلکہ اپنے شاندار ماضی کی یاد بھی دلاتے ہیں۔ ملتان کی سیر ہر شخص کو زندگی میں ایک بار ضرور کرنی چاہیے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

یونیسف کا قیام 11دسمبر1946ء کویونیسف کا قیام عمل میں آیا۔یہ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں بچوں کو انسانی حقوق اور ترقی کیلئے فنڈز فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔ یہ ''بین الاقوامی چلڈرن ایمرجنسی فنڈ‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ یہ اداراہ دنیا کے 192ممالک میں کام کر رہا ہے جو اسے سماجی بہبود کیلئے کام کرنے والے اداروں میں سب سے زیادہ مقبول بناتا ہے۔ یونیسف کی سرگرمیوں میں حفاظتی ٹیکوں کی فراہمی، بیماریوں سے بچاؤ، ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں اور ماؤں کے علاج کا انتظام، بچوں میں غذائیت کی کمی کو دور کرنا، صفائی ستھرائی کو بہتر بنانا، تعلیم کو فروغ دینا اور آفات کے دوران ہنگامی امداد فراہم کرنا شامل ہے۔ایڈورڈ ہشتم کی دستبرداری 1936ء میں آج کے روز برطانوی سلطنت میں اس وقت ایک آئینی بحران پیدا ہوا، جب بادشاہ ایڈورڈ ہشتم نے ایک امریکی سوشلسٹ والیس سمپسن سے شادی کرنے کا اعلان کیا۔ والیس سمپسن اپنے پہلے شوہر سے طلاق لے چکی تھیں اور دوسرے شوہر سے طلاق لینا چاہتی تھیں۔ برطانوی حکومتوں اور برطانوی دولت مشترکہ کی حکومتوں نے بادشاہ کے اس فیصلے کی شدید مخالف کی۔ تمام مخالفتوں کے باوجود بادشاہ نے سمپسن سے شادی کی اور اسے اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا۔ایڈورڈ اور سمپسن35برس تک (ایڈورڈ کی وفات تک) ایک ساتھ رہے۔اپالو 17کا آخری مشن 11دسمبر 1972ء کو اپالو پروگرام کا آخری مشن ''اپالو 17‘‘ اپنے سفر پر روانہ ہوا۔اس مشن کا مقصد چاند کی سطح اور ماحول کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول ممکن بنانا تھا۔ ''اپالو17‘‘ کے کمانڈر کو ایک حیاتیاتی تجربے کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں، جس میں چاند پر پانچ چوہوں کو لے جایا گیا۔ ماہرین کی جانب سے آتش فشاں پہاڑوں کی موجودگی کے امکانات ظاہر کئے جارہے تھے۔ایل موزوٹ قتل عام ایل موزوٹ کا قتل عام 11دسمبر 1981ء کو ایل سلواڈور کے ایل موزوٹ گاؤں کے اندر اور اس کے گرد و نواح میں کیا گیا۔اس قتل عام میں سلواڈور کی فوج نے خانہ جنگی کے دوران 800سے زائد شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس قتل عام کا فیصلہ فوج اور گوریلا جنگجوئوں کے درمیاں جھڑپوں کے بعد کیا گیا۔سلوا ڈور آرمی کی ایک مخصوص بٹالین کواس تباہی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔دسمبر 2011ء میں ایل سلواڈور کی حکومت نے اس قتل عام کیلئے معافی بھی مانگی۔انڈیا ناریا ستہائے متحدہ امریکہ میں شامل ہوا انڈیانا ریاستہائے متحدہ امریکہ کا رقبے کے لحاظ سے 38 واں سب سے بڑا اور 50 ریاستوں میں سے 17 واں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اس کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر انڈیاناپولس ہے۔ انڈیانا کو 11 دسمبر 1816 کو ریاستہائے متحدہ میں 19ویں ریاست کے طور پر داخل کیا گیا تھا۔ 

ایجادات اور اتفاقات

ایجادات اور اتفاقات

انسانی زندگی کو آسان بنانے کے لیے سائنسی علم کو بروئے کار لاتے ہوئے ایجادات ایک منظم کاوش کا نتیجہ سمجھی جاتی ہیں ‘ مگر یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بہت سی ایجادات جنہوں نے نوع انسانی کو بہت فائدہ پہنچایا اور ان کی افادیت بدستور موجود ہے دراصل ایک اتفاق کے نتیجے میں وجود میں آئیں۔ آئیے ان ایجادات کے بارے جانتے ہیں جن کی دریافت اتفاقیہ ہوئی۔ مائیکروویو اونمائیکر و ویوز گرمی اور روشنی کی لہروں کی طرح شارٹ ریڈیو ویوز ہیں جو موشن کے ذریعہ کام کرتی ہیں اور خوراک کے مالیکیول میں موشن پید اکرتی ہیں جن کی وجہ سے فرکشن پیدا ہوتی ہے۔ فرکشن کی وجہ سے کھانے کے اندر گرمی پید ا ہوتی ہے جس سے کھانا گرم ہو جاتا ہے۔ 1946ء میں امریکہ میں Raytheon کمپنی کا ایک ملازمPercy Spencer لیبارٹری کے معا ئنہ کے دوران میگنا ٹرون کے سامنے آکر رکا جو مائیکرو ویوز پیدا کرتی ہیں۔میگنا ٹرون وہ پاور ٹیوب ہے جس سے ریڈار سیٹ چلتا ہے۔Percyکی جیب میں چا کلیٹ تھی جب اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہ پگھل چکی تھی۔اس کو احساس ہو گیا کہ چاکلیٹ مائیکرو ویوز کی وجہ سے پگھلی ہے۔ چنانچہ Raytheonکمپنی نے اس کی سفارش پر 1947ء میں سب سے پہلا اوون 'ریڈار رینج‘ کے نام سے تیار کیا۔ 1953ء تک اوون کی قیمت تین ہزار ڈالر تھی اور یہ بڑے ریستورانوں اور بحری جہازوں میں استعمال ہوتا تھا۔ٹائپ رائٹر ٹائپ رائٹرمیں 1869ء میں امریکہ میں ایجادہوا۔ ٹائپ رائٹر کی ایجاد کا سہرا امریکہ کے دو افراد کے سر ہے۔ ایک Christopher Latham Sholes اور دوسرا Samuel W. Souléتھا جس نے پریکٹیکل ٹائپ رائٹر مشین شاپ میں بنا ئی تھی۔ Christopher Latham Sholes کے بنائے بورڈ پر انگلش کے حروف تہجی A-Z ترتیب دیے گئے تھے۔مگر اس ترتیب میں مسئلہ یہ تھاکہ ABCکی ترتیب سے اس کی کیز آپس میں اٹک جاتی تھیں۔اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ٹائپسٹ آہستہ آہستہ ٹائپ کرتا تھا۔مسٹر شولز نے اپنے ایک عزیز کو کی بورڈ دوبارہ ترتیب دینے کے لیے کہا۔یوں کہ حروف تہجی ایک دوسرے سے زیادہ قریب نہ ہوں۔نئی ترتیب میں حروف تہجی یوں بنتے ہیں QWERTYیہی ترتیب اب کمپیوٹرز میں بھی استعمال ہوتی ہے۔رفتہ رفتہ لوگوں نے ٹا ئپ رائٹر کی مقبولیت کے پیش نظر ان حروف کی ترتیب ذہن نشین کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ مشہور امریکی مصنف اور ادیب مارک ٹوئین نے 1874ء میں ٹائپ رائٹر خریدا تھا۔ آرک ویلڈنگ امریکی پر وفیسر تھامپسن فلاڈلفیا شہر کے شہرہ آفاق فرینکلن انسٹی ٹیوٹ میں بجلی پر لیکچر دے رہا تھا۔لیکچر کے دوران ڈیمانسٹریشن کے دوران اس نے غلطی سے دوتاروں کو آپس میں ملایا تو وہ آپس میں جڑ گئیں۔ تھامپسن کے خیال میں ان تاروں کو جڑنا نہیں چاہیے تھا۔ اس نے ان کو الگ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ہوا یہ کہ بجلی کی وجہ سے حرارت پیدا ہوئی تھی اور یہ تاریں ویلڈ ہو گئی تھیں۔ تھامپسن نے یوں اتفاقی طور پر آرک ویلڈنگ کا نیا طریقہ دریافت کر لیا تھا۔انسولین 1923ء میں Frederick Banting اورJohn Macleod کو ذیا بیطس کے علاج کیلئے انسولین کی دریافت پر نوبیل انعام دیا گیا۔ لبلبے اور انسولین میں تعلق انہوں نے یورپ کے سائنسدانوں کے تعاون سے معلوم کیا تھا۔جرمن فزیشن Joseph von Mering اورOskar Minkowskiنے ایک صحت مند کتے کے جسم سے لبلبے کو الگ کیا تا کہ نظام ہضم میں اس کے کردار کا پتہ لگا یا جاسکے۔ لبلبہ الگ کرنے کے کئی روز بعد سائنسدانوںنے دیکھا کہ کتے کے پیشاب کے اوپر مکھیاں اڑ رہی تھیں۔ پیشاب کا ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس میں شو گر تھی جو ذیابیطس کی نشانی ہے۔ انہوں نے مزید ٹیسٹ کیے تو پتہ چلا کہ لبلبہ ایک چیز پیدا کرتا ہے جو انسانی جسم کے اندر شوگر کو کنٹرول کرتی ہے۔اس کے بعدکئی سائنسدانوں نے انسولین جو لبلبے سے پیدا ہوتی ہے الگ کرنے کی کوشش کی۔ آخر کار کینیڈین پروفیسر Banting اور Macleod نے پتہ لگا لیا کہ لبلبے سے پیدا ہونے والا مادہ انسولین ہے۔ ہیضہ ویکسین فرانس کا مشہور سا ئنسدان لوئی پا سچر انیسویں صدی کا معروف ترین انسان تسلیم کیا جاتا ہے۔1880ء میں اس نے فرانس کی چکن انڈسٹری کومرغیوں کے ہیضہ سے محفوظ کر لیا۔ پا سچر نے اس جراثیم کو لیبارٹری میں خود پیدا کیا جس سے ہیضہ کی بیماری ہوتی تھی۔اس نے یہ جراثیم ایک بوتل میں محفوظ کر لیے۔ ایک روز اس نے یہ جراثیم چند مرغیوں کو کھلا دیے۔ اس کا خیال تھا کہ بیمار ہو کرمر جائیں گی مگر ہوا یہ کہ مرغیاں کچھ عرصے بعد صحت یاب ہو گئیں۔اس طرح پاسچر نے محض اتفاقی طور پر یہ حقیقت دریافت کر لی کہ پرانے جراثیم دراصل اپنی ہیئت بدل چکے تھے اوران سے بیماری پید ا نہ ہوتی تھی۔پا سچر نے جلد ہی اس بات کا اندازہ لگا لیا کہ وہ بیکٹیریا جو انسانوں کو متاثر کرتا ہے اس کا اثر بھی ویسا ہی ہوگا؛ چنانچہ1881ء میں اس نے ہیضہ کی ویکسین تیار کر لی جس سے لاکھوں انسانوں کو فائدہ پہنچا۔کو نین بیماریوں کے علاج میں کونین یعنی سنکونا درخت کی چھال کے جوہر نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔اس دوا سے ملیریا بخار کا علاج کیا جاتا ہے جو مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔کہتے ہیں کونین کی دریافت1600ء کے لگ بھگ محض اتفاقی طور پر ہوئی تھی۔ جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں ایک ہسپانوی سپاہی کو ملیریا کا سخت بخار ہوگیا اور اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔اس نے قریبی تالاب کا پانی پی لیا جس سے بخاراتر گیا۔ تالاب کے پانی کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہواکہ اس میں کڑواہٹ کی وجہ ایک درخت کی چھال تھی جو تالاب کے کنارے پر تھا۔اس سپا ہی نے محض حادثاتی طور پر یہ بات دریافت کر لی کہ سنکونادرخت کی چھال سے ملیریا کا علاج کیا جاسکتا ہے۔اس درخت کی چھال سے پاؤڈر بنا کر اس کی گولیاں تیار کی جانے لگیںجو ملیریا کا مؤثر علاج ہے۔ 

ذیابیطس ایشیائی باشندوں کیلئے زیادہ خطرہ کیوں ہے؟

ذیابیطس ایشیائی باشندوں کیلئے زیادہ خطرہ کیوں ہے؟

''دی لانسیٹ‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک تازہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 82 کروڑ بالغ افراد ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہیں۔ 1990 ء سے 2022ء کے دوران دنیا بھر 63 کروڑ افراد اس مرض کا شکار ہوئے۔جنوبی ایشیاکے لوگوں میں ذیابیطس کا امکان یورپی باشندوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے اور ان میں یہ بیماری یورپی باشندوں کی نسبت 10 سال پہلے ظاہر ہو سکتی ہے۔ ''نیچر میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں اس کا ایک سبب موروثیت کو قرار دیا گیا ہے۔علاوہ ازیںپراسیس شدہ گوشت کا زیادہ استعمال ‘ فضائی آلودگی میں موجود PM2.5 ذرات بھی ذیابیطس کے خطرے میں اضافے کی بڑی وجہ ہیں۔دنیا میں ذیابیطس کے شکار ملکوں میں سے چار ایشیا میںہیں۔ بھارت میں ذیابیطس کے21 کروڑ 20 لاکھ مریض ہیں‘ چین میں 14کروڑ، پاکستان میں تین کروڑ 30 لاکھ اور جاپان میں ایک کروڑ 10 مریض موجود ہیں۔ جزیرہ نارو میں دنیا میں سب سے زیادہ ذیابیطس کے مریض ہیں۔ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیائی باشندوں کے خون میں شوگر کی سطح نسبتاً بلند رہتی ہے جس کے نتیجے میں دل، گردے اور جگر کے امراض پیدا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ٹائپ ون ذیابیطس انسانی جسم میں موجود بیٹا سیلز پر حملہ کرتی ہے جس سے جسم میں انسولین کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس کے سبب شوگر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ذیابیطس کے کل کیسز میں سے تقریباً 96 فیصد ٹائپ ٹو ذیابیطس کے کیسز ہوتے ہیں۔ غیر صحت مندانہ خوراک، موٹاپا اور بڑھتی عمر کے ساتھ اس مرض کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ تاہم جینیات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جرمن ویب سائٹ ڈی ڈبلیو نے اپنی ایک رپورٹ میںامریکی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کی کلینیکل سائنسدان الکا کنایا کے حوالے سے بتایا تھا کہ جینیاتی عوامل کے باعث جنوبی ایشیائی افراد میں ذیابیطس کی بیماری کا آغاز تیزی سے ہوتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص پری ڈائبیٹک (جب بلڈ شوگر بہت زیادہ ہو لیکن ذیابیطس کے رینج میں نہیں) ہو تو وہ جلدی ذیابیطس کا شکار ہو سکتا ہے۔ نتیجتاً ایسے افراد کے پاس اس مرض کے شروع ہونے سے پہلے اسے روکنے کے لیے وقت کم ہوتا ہے۔سائنسی جریدے ''نیچر میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جینیاتی عوامل کی وجہ سے جنوبی ایشیائی افراد یورپی ممالک کے افراد کے مقابلے میں جلد ذیابیطس کا شکار ہو جاتے ہیں۔جنوبی ایشیائی افراد میں کچھ خاص جینیاتی خصوصیات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے چربی جسم کے ان حصوں میں جمع ہو جاتی ہے جو ان کی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر رانوں یا بازوؤں کے گرد، جگر اور اندرونی اعضا کے قریب ۔ ان عوامل کے باعث ان افراد کے لیے ٹائپ ٹو ذیابیطس کی دوا بھی بہت زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔طبی ماہرین کے مطابق اگرچہ جینیاتی خصوصیات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن طرز زندگی میں معمولی تبدیلیوں کے ذریعے ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے فضا میں موجود پی ایم 2.5 کے آلودہ ذرات ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے نصف کیسز میں موٹاپا ایک اہم وجہ ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ مقدار میں پراسیسڈ گوشت ( جس میں نمک، چکنائی اور دیگر مضر اجزاشامل ہوں) کا استعمال بھی ذیابیطس کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے 2006ء میں خبر دار کیا تھا کہ آئندہ بیس سالوں میں ایشیا میں ذیابیطس کے کیس 90 فیصد تک بڑھ جائیں گے اور یہ بیماری اور اس سے ہونے والے مسائل اکیسویں صدی میں صحت کے حوالے سے سب سے بڑا بحران کھڑا کریں گے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

پہلا نوبیل انعام10دسمبر 1901ء کو سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں پہلی دفعہ 5کیٹیگریز میں نوبیل ایوارڈ دیا گیا۔سائنس دانوں ولہیلم رونٹگین، جیکبس وان ٹی ہوف اور جرمن مائیکرو بیالوجسٹ ایمیل وان بیہرنگ، ادبیات میں فرانسیسی شاعر سلی پرڈ ہوم، ریڈ کراس کے بانی سویڈش ہنری ڈونانٹ اور امن لیگ کے بانی فرانسز فریڈرک پیسی نے ایوارڈ حاصل کیا۔ نوبیل انعامات کی مالی اعانت اس فنڈ سے کی جاتی ہے جو بارود اور دیگر اعلیٰ دھماکہ خیز مواد کے سویڈش موجد الفریڈ نوبیل کی موت کے بعد بنایا گیا تھا۔ اپنی وصیت میں نوبیل نے ہدایت کی تھی کہ اس کی دولت کا بڑا حصہ ایک فنڈ میں رکھا جائے اور اس رقم پر حاصل ہونے والے انٹرسٹ سے سالانہ انعامات کی شکل میں ان لوگوں میں تقسیم کیا جائے جنہوں نے پچھلے سال کے دوران بنی نوع انسان کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا ہو۔ پیرس معاہدہریاستہائے متحدہ امریکہ اور سلطنت سپین کے درمیان10دسمبر1898ء کو ایک امن معاہدہ طے پایا، جسے1898ء کا پیرس معاہدہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس معاہدے کے مطابق امریکہ اور ہسپانیہ کی جنگ کا اختتام ہوا۔معاہدے کے مطابق سپین نے خودمختاری کے تمام دعوے ترک کر دئیے اور ان علاقوں سے دستبردار ہو گیا جن پر قبضے کا دعویٰ کر رہا تھا۔دستبردار ہونے والے جزائر میں پورٹوریکو اور دیر علاقے شامل تھے جو اب ویسٹ انڈیز میں سپین کے زیر انتظام موجو د ہیں۔ ماریاناس یا لاڈرونس میں گوام کے جزیرے، جزیرہ نما کے طور پر جانا جاتا ہے۔ معاہدے کی توثیق کے دستاویزات کا 11 اپریل 1899ء کو تبادلہ ہوا۔جنوبی افریقی آئین1996ء میں آج کے روز جنوبی افریقہ کے صدر نے ملک کے نئے آئین کی منظوری دی۔ جس کے تحت وہاں سفید فام لوگوں کی اجاراداری ختم ہوئی۔ یہ آئین جنوبی افریقہ کا سپریم قانون ہے جو جمہوریت کے وجود کیلئے قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔اسے صدر نیلسن منڈیلا نے 18 دسمبر 1996 کو نافذ کیا۔ یہ اپنے شہریوں کے حقوق اور فرائض کا تعین کرتا ہے، اور حکومت کے ڈھانچے کی وضاحت کرتا ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی قانون 10 دسمبر 1949ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے عالمی منشورکی توثیق کی۔ اسے عالمی سطح پر انسانی حقوق کا پہلا اعلان تعبیر کیا جاتا اور اقوامِ متحدہ کی ابتدائی بڑی کامیابیوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔عموماً اس دن اعلیٰ سطحی سیاسی کانفرنسوں اور جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے اور تقریبات کے ذریعے انسانی حقوق سے متعلقہ مسائل اجاگر کیے جاتے ہیں۔ روایتی طور پر 10 دسمبر ہی کو انسانی حقوق کے میدان میں اقوامِ متحدہ کا انعام اور نوبل امن انعام بھی دیا جاتا ہے۔ 

بائیو فیول، کیا فوسل فیول کا متبادل بن سکتا ہے ؟

بائیو فیول، کیا فوسل فیول کا متبادل بن سکتا ہے ؟

کسی بھی حیاتیاتی مادے سے بنائے گئے ایندھن کو '' بائیو ڈیزل‘‘ بائیو فیول یا حیاتیاتی ایندھن کہا جاتا ہے۔آسان الفاظ میں حیاتیاتی ایندھن کی مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ لکڑی ،حیاتیاتی ایندھن کی ابتدائی شکل تھی۔ جبکہ معدنی طور پر حاصل کئے گئے ایندھن ، جیسے تیل ، گیس اور کوئلے کو معدنی ایندھن یا " فوسل فیول " کہا جاتا ہے۔ بائیو فیول کیا ہے ؟ بائیو فیول ، فوسل فیول یعنی پٹرول اور اس سے متعلق توانائی کے دیگر ذرائع کا سب سے اہم متبادل ہے۔چقندر ، گندم ، مکئی ، جوار ، گنا اور جانوروں کی چربی وغیرہ بائیو فیول کے بڑے خام مال کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ توانائی کا یہ ذریعہ عام طور پر ڈیزل کے متبادل یا ڈیزل کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ عمومی طور پر نقل و حمل کے شعبوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی یہ مختلف گھریلو آلات میں استعمال ہوتا ہے۔ ایندھن کا یہ ذریعہ ماحول دوست اسلئے کہلاتا ہے کہ یہ گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔اسکے علاوہ زمین سے نکلنے والا ایندھن اب بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بائیو ایندھن کا استعمال اب رفتہ رفتہ دنیا بھر میں بڑھ رہا ہے۔بلکہ اب تو ہوائی جہازوں میں بھی بائیو فیول کے استعمال کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ فوسل فیول کی حوصلہ شکنی بلکہ ممکنہ حد تک اس سے جان چھڑانے کی عالمی تحریک زور پکڑتی جارہی ہے۔ فوسل فیول سے جان چھڑانا کیوں ضروری ؟ آخر اسکی وجہ کیا وجہ ہے ؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے گھر کی بنیادی استعمال کی مشینری جو بجلی سے چلتی ہے اور وہ سواری جو ہمیں گھر سے کوسوں دور تک لے کر جاتی ہے اور وہ مکان اور بلند و بالا عمارتیں جہاں ہمارے دن کا بیشتر وقت گزرتا ہے وہ سب اسٹیل اور سیمنٹ بنانے کے اس صنعتی عمل ہی سے تو ہو گزرے ہیں ، جن میں تیل ، کوئلے اور گیس کے استعمال کا بنیادی کردار رہا ہوتا ہے۔ جبکہ یہی تین بنیادی عناصر جو فوسل فیول کہلاتے ہیں ہماری 80 فیصد توانائی کا بنیادی ماحصل ہیں۔ لیکن ان کے بڑھتے استعمال نے دنیا کے ماحولیاتی نظام کو یوں غیر مستحکم کر ڈالا ہے کہ فوسل فیول کے جلنے سے خارج ہونے والی گرین ہاوس گیسیں کرہ ارض کے درجہء￿ حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ انفرادی کاوشوں سے قطع نظر گزشتہ کئی سالوں سے اب عالمی برادری ہر سال نومبر میں باقاعدگی سے کسی ایک ملک میں اس عزم کی تجدید کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوتی ہے کہ ، جس قدر جلد ممکن ہو فوسل فیول سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ رواں سال بھی نومبر میں یہ اجلاس ، جسے ''کوپ 29‘‘ کہا گیا تھا آذر بائیجان کے شہر باکو میں منعقد ہوا تھا۔ جس میں مشترکہ طور پر ایک مرتبہ پھر اس امر کا اعادہ کیا گیا ہے کہ ، 2035 تک ترقی پذیر ممالک کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کیلئے 300ارب ڈالرز جمع کر کے موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والے چیلنجز سے نمٹنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں ۔ دوسری جانب دنیا بھر کے سائنس دان ''معاہدہ پیرس‘‘ پر عمل کی سست روی پر فکر مند ہیں ،جس کے مطابق عالمی برادری کو 2030ء تک فوسل فیول کے استعمال میں 43 فیصد تک کمی لانا ہے۔ جس سے کرہ ارض کے درجہ حرارت کے اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کے ہدف کے عمل کو یقینی بنانا ہے۔ فوسل فیول سے چھٹکارا کس حد تک ممکن ؟ایک کینیڈین سائنس دان ، واسلو سمیل کے بقول ''ہمارا معاشرہ فوسل فیول سے بنا ایک معاشرہ ہے‘‘۔فوسل فیول کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی میں اس حد تک رچ بس گیا ہے کہ میرے خیال کے مطابق اس سے جلدی چھٹکارا ممکن نظر نہیں آتا ‘‘۔ اپنے اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے سمیل کہتے ہیں کہ جس ایندھن سے آپ چھٹکارا حاصل کرنے کا سوچ رہے ہیں اسی ایندھن سے سالانہ ایک ارب ٹن سٹیل ، چار ارب ٹن سیمنٹ اور چار ارب ٹن مائع ایندھن بنتا ہے۔ذرہ ایک لمحہ کے لئے چشم تصور سے سوچئے کہ یہ سب کچھ کس حد تک اور کیسے ممکن ہے ؟۔آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔ ساتھ ہی یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ فوسل فیول ہماری زندگیوں میں داخل کیسے ہوا ؟ 19ویں صدی میں کوئلے ،تیل اور گیس کے استعمال سے صنعتی انقلاب آیا تو معاشی پیداوار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔تبدیلی کا عمل یہیں سے شروع ہوا جب گھوڑوں کی جگہ سٹیم انجن اور پھر اس کی جگہ فیول انجن نے لے لی۔وقت کے ساتھ ساتھ توانائی کا استعمال بڑھتا چلا گیا۔سائنس دان توانائی کی بڑھتی ضروریات کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شکار کرنے والے ہمارے آباو اجداد سالانہ 10 گیگا جولز توانائی استعمال کرتے تھے جبکہ اب ایک اکیلا امریکی اس سے 50 گنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔ ان اعداد و شمار کو اور آبادی کے پہاڑ کو ذہن میں لائیے اور انصاف سے بتائیے کہ انرجی کے اس سمندر کو سمیٹنا کس حد تک ممکن ہے ؟۔ ہمیں حقیقت پسندی سے سوچتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چائیے کہ اس وقت بھی عالمی طور پر 50 فیصد بجلی تیل ، گیس اور کوئلے سے بنائی جا رہی ہے جبکہ بجلی، توانائی کے عالمی استعمال کا صرف پانچ فیصد ہے۔ سولر اور ونڈ کا عالمی سپلائی میں محض دو فیصد حصہ ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فوسل فیول کے بڑھتے استعمال کی قابل تجدید ذرائع کی طرف منتقلی نہ ہونے کی بڑی وجہ دنیا کے پاور سٹیشن ،سٹیل ورکس، سیمنٹ پلانٹ ، فرٹیلائزر پلانٹ ، گلاس فیکٹریوں کے علاوہ گاڑیوں اور جہازوں پر انحصار میں اضافہ ہے۔فوسل فیول کے استعمال کے خلاف بلاشبہ ہمارے پاس بہت مضبوط اور مدلل جواز تو موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ ان عملی اقدامات کو بروئے کار لانے کا ہے، جن کیلئے جدید ٹیکنالوجی، مالی وسائل کا دستیاب ہونا اور توانائی منتقلی کے مربوط نظام کا فعال ہونا ہے۔اس سے بڑھ کر تیل پیدا کرنے والے ممالک کی آمادگی کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا جن کی معیشت کا دارومدار ہی تیل پر ہے۔اگرچہ اس وقت بھی عالمی طور پر توانائی کی 80 فیصد ضروریات فوسل فیول ہی کے ذریعے پوری کی جارہی ہیں لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی دوڑ میں قابل تجدید توانائی ذرائع کا استعمال بھی متواتر بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی شمسی توانائی کی قیمتیں عالمی منڈی میں تیزی سے نیچے آ رہی ہیں۔ ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ عشرے کے مقابلے میں اس عشرے کے دوران شمسی توانائی کی قیمتیں 90 فیصد جبکہ ونڈ پاور ٹربائن سے حاصل کردہ توانائی کی قیمتوں میں 70 فیصد کے قریب کمی نوٹ کی گئی ہے۔ سروے رپورٹس''انٹرنیشنل انرجی ایجنسی‘‘ ( IEA ) کی رپورٹ کے مطابق 2030ء تک توانائی کی عالمی سپلائی میں فوسل فیول کا حصہ 80 فیصد سے کم ہو کر 73 فیصد تک آجائے گا۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے ایک سروے کے مطابق دنیا کی 63 بڑی معاشی طاقتیں ، عالمی سطح پر ہونے والی مضر صحت گیسوں کے 90 فیصد اخراج کے ذمہ دار ہیں جبکہ ان میں سے کوئی بھی ملک موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کیلئے اپنا کردار اد نہیں کررہا۔ اسی رپورٹ میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی تھی کہ ، فوسل فیول سے مرحلہ وار چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے بڑی معیشتوں کے حامل ممالک کو کلیدی کردار ادا کر کے اس کارخیر میں حصہ ڈالنا ہو گا ورنہ فوسل فیول سے چھٹکارا ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا۔