پستہ قد افراد
اوسط قد سے چھوٹا قد رکھنے والے افراد کو پستہ قد یا '' بونا‘‘ کہتے ہیں۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق چھوٹے قد کا تعلق کسی علاقے یا خطے کی آب و ہوا یا ماحول، خوراک اور موروثیت (جینز ) سے ہوتا ہے۔ لیکن ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ کچھ علاقوں میں '' کونڈرو پلاسیہ ‘‘ نامی ایک مخصوص بیماری کے باعث بھی لوگوں کے اعضاء اور قد چھوٹے رہ جاتے ہیں۔میڈیکل سائنس کے مطابق ''بونا پن‘‘ کی ایک سو سے زائد وجوہات سامنے آئی ہیں۔
پاکستان کے آئین کے مطابق 4 فٹ 10 انچ سے چھوٹے قد کے تمام بالغ افراد کو معذور تصور کیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں انہیں باقاعدہ ایک سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جاتا ہے۔پوری دنیا میں سب سے زیادہ پستہ قد افراد جنوب مشرقی ایشیاء کے جزیرہ نما ملک مشرقی تیمور میں بستے ہیں۔ یہ جزیرہ نما ملک جو 11883 مربع میل رقبے پر مشتمل ہے دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔تیموری مردوں کا اوسط قد 5 فٹ 2.9انچ جبکہ وہاں کی خواتین کا اوسط قد 4 فٹ 11.5انچ ہوتا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیاء کے کئی اور ممالک بھی پستہ قد رکھنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہیں، جن میں فلپائن اور لاوس شامل ہیں۔2010ء کی ایک تحقیق کے مطابق مشرقی تیمور میں بسنے والے افراد دنیا میں سب سے زیادہ پستہ قد افراد ہیں۔
1886ء میں یہاں کے باشندوں کا قد 5 فٹ سے زیادہ کبھی نہیں بڑھا تھا۔پھر 20 ویں صدی کے دوران پرتگال اور انڈونیشیاء کے آباد کار اس علاقے میں آئے تو رفتہ رفتہ اس علاقے کے افراد کی شکل و صورت اور قد و قامت میں تبدیلی کے واضح آثار نمودار ہونے لگے۔ یہاں تک کہ 1970ء کی دہائی میں تیموری باشندوں کے اوسط قد 5 فٹ 3 انچ تک دیکھے جانے لگے۔لیکن یہ عرصہ بہت دیر تک قائم نہ رہا۔یہاں خانہ جنگی کی وجہ سے ان کے ارتقا پر ان کے اثرات نمودار ہونا شروع ہوئے تو ان کے اوسط قد 5 فٹ سے بھی کم ہونا شروع ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جزیرے کے اندر ان کی نقل و حرکت محدود ہو کر رہ گئی تھی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے تعلقات مختلف نسل کے لوگوں کے ساتھ قائم ہو گئے تھے۔
پستہ قد اور بونے کتنے قدیم
قدیم مصری ثقافت میں مزاروں اور درو دیوار پر بونوں اور پستہ قد افراد کی کنندہ تصاویر سے ان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں اہل مصر ''بونے خداوں‘‘ کی پوجا بھی کیا کرتے تھے۔ قدیم مصر میں 4500 قبل مسیح میں ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ ادب اور فلسفہ اخلاق میں بونوں اور دیگر معذور افراد کا احترام موجود تھا۔ آج سے کچھ سال پہلے معروف میگزین جنرل نیچر نے انکشاف کیا تھا کہ ، 2004ء میں آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ولونگو نگز کے پروفیسر ون ڈین برگ جو کہ شعبہ آثار قدیمہ سے وابستہ ہیں نے انڈونیشیا کے ایک جزیرے میں فلوریس نامی ایک غار سے کچھ بونوں کی باقیات دریافت کی تھیں جن کے بارے خیال کیا جا رہا ہے کہ بونوں کی یہ باقیات جو ایک بالغ اور دو بچوں کے جبڑوں پر مشتمل تھیں لگ بھگ سات لاکھ سال قدیم ہیں۔ان شواہد سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ بونے یا پستہ قد افراد انسانی ارتقائی عمل کے ساتھ ساتھ موجود رہے ہیں۔
پستہ قد افراد کو درپیش سماجی مسائل
ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ معاشرتی المیہ ہے کہ پورے معاشرے میں اخلاقیات اور عزت و تکریم کے معیارات بدل چکے ہیں۔ ہماری ذہنی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ کسی فرد میں نشوؤنما کی معمولی سی کمی کی وجہ سے معاشرے میں ان کا جینا دوبھر کردیا جاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ قد چھوٹا رہ جانے والے بچے یا اس کے والدین کا اس عمل میں کوئی قصور نہیں ہوتا بلکہ یہ سب مشیت ایزدی ہے۔نتیجتاً معمولی سے جسمانی نقص کی وجہ سے ایسے لوگوں کو تحقیر آمیز القابات سے مخاطب کیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ایسے متاثرہ شخص یا اشخاص کا معاشرے میں رہنا محال کر دیا جاتا ہے۔ جس کے سبب بیشتر افراد کو نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتے دیکھا گیا ہے۔ حالانکہ ایسے افراد تو معاشرے میں زیادہ توجہ اور ہمدردی کے مستحق ہوتے ہیں۔
'' ہائیٹ ازم‘‘ کا بڑھتا رجحان
چھوٹے قد کے باعث معاشرتی طعنہ زنی ، ناروا سلوک اور پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں مشکلات نے ''ہائیٹ ازم‘‘(یعنی قد بڑھانے کے جدید طریقے ) کی اصطلاح کو جنم دیا جس میں آپریشن کے ذریعے قد لمبا کرانے والوں کی دلچسپی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اب دنیا کے ایک درجن سے زیادہ ممالک میں ٹانگوں کو لمبا کرنے کی سرجری دستیاب ہے۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ، مہنگا اور لمبا طریقہ علاج ہے جس پر امریکہ میں 75 ہزار سے لے کر 2 لاکھ 80 ہزار ڈالر تک خرچ آتا ہے۔ اس کے باوجود بھی ہر سال دنیا بھر میں سینکڑوں افراد چند انچ قد لمبا بنانے کیلئے اس تکلیف دہ اور لمبے طریقہ علاج کے عمل سے گزرتے ہیں۔اس طریقہ علاج کی شروعات سب سے پہلے ایک سوویت ڈاکٹر گیورل الیزا روف نے کی تھی۔اس آپریشن کے ذریعے پانچ انچ تک قد میں اضافہ ممکن ہے۔امریکہ ،جرمنی، جنوبی کوریا، برطانیہ، ترکی، سپین ، انڈیا، اٹلی اس علاج کیلئیئقابل ذکر ہیں۔
دنیا کی پستہ ترین خاتون
بھارت کے شہر ناگپور میں پیدا ہونے والی تیس سالہ جیوتی امیگی کو 2 فٹ 0.7انچ قد کے ساتھ دنیا کی پستہ ترین قد والی خاتون تصور کیا گیا ہے۔ جیوتی امیگی کو ہڈیوں کی نشوونما کا عارضہ لاحق ہے جو بازوں اور ٹانگوں کو متاثر کرتا ہے۔یاد رہے 16 دسمبر2011ء سے جیوتی امیگی نے دنیا کی سب سے پست قد خاتون کا ''گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈ ‘‘ میں درج کروا رکھاہے۔اپنے چھوٹے قد کے باوجود جیوتی سوشل میڈیا کی مقبول ترین شخصیت ہیں۔ وہ امریکی ٹیلی وژن سیریز ''امریکن ہارر سٹوری : فریک شو‘‘ اور اطالوی ٹی وی شو '' لو شو ڈی ریکارڈ‘‘ میں بھی پرفارم کر چکی ہیں۔
دنیا کا پستہ ترین مرد
ایران سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ افشین اسماعیل اس وقت تک 2 فٹ 1.6انچ قد کے ساتھ دنیا کے سب سے چھوٹے قد کے حامل شخص ہیں جو اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔اس ے پہلے یہ اعزاز کولمبیا کے ایڈورڈ نینو کے پاس تھاجن کا قد 2 فٹ 7 انچ تھا۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ پیدائش کے وقت افشین کا وزن صرف 700 گرام تھا جبکہ اب ان کا وزن 6کلو گرام کے لگ بھگ ہے۔