مسجد بھونگ منفرد طرز تعمیر اور جاذب نظر خطاطی
بھونگ مسجد ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں واقع ایک گاؤں بھونگ میں موجود ہے۔ یہ مسجد بہاولپور سے دو سو کلومیٹر اور رحیم یارخان سے تقریبا پچاس کلومیٹر دور واقع ہے۔ اپنے عمدہ ڈیزائن، منفرد طرز تعمیر اور جاذب نظر خطاطی کی وجہ سے اس مسجد کو خاص شہرت حاصل ہے۔
سردار رئیس غازی محمد کے جد امجد حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے خلفاء میں سے تھے۔ رئیس محمد غازی اعزازی مجسٹریٹ اور بہاولپور اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ جاہ و حشمت اور کثیر مال و دولت ہونے کے باوجود انھوں نے درویشانہ زندگی گزاری۔ دینی تعلیم کا حصول، عبادت و ریاضت، سماجی کاموں اور مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر ان کی زندگی کا مشن رہا۔ رئیس غازی محمد نے اپنے خاندانی محل نما گھر کے قریب 1932ء میں بھونگ مسجد کی تعمیر کیلئے ہدایات دیں اور کثیر سرمایہ فراہم کیا۔ تعمیر کے ایک ایک مرحلے پر انھوں نے ذاتی دلچسپی لی۔ مسجد کی تعمیر کی نگرانی کے لیے کیلئے انہوں نے ماسٹر عبدالحمید کو مقرر کیا جنھوں نے نہایت محنت اور توجہ سے مسجد کی تعمیر کی نگرانی کی۔
مسجد کی تعمیر کیلئے ہنگری، اٹلی اور دیگر ممالک سے سنگ سرخ، سنگ مرمر، سنگ خارا، سنگ سرمئی اور سنگ سیاہ منگوائے گئے۔ ان پتھروں کو کاٹنے اور تراشنے والے، ٹائلوں پر پھول بنانے والے، مینا کاری و خطاطی کرنے والے ، صندل کی لکڑی پر باریک اور نفیس کام کرنے والے گل کاری کرنے والے، سونے کے پھول بنانے والے سیکڑوں کاریگروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ یہ مسجد 1932ء سے 1982ء تک تقریباً پچاس سال میں مکمل ہوئی۔ ان پچاس سالوں میں ہزاروں کاریگروں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا جن کا تعلق پاکستان اور بھارت سے تھا۔ مسجد کی تعمیر کے دوران کئی کاریگر عمر رسیدہ ہو گئے، کئی انتقال کر گئے۔ ان کے بیٹوں اور بعض کے پوتوں نے یہ ذمے داری ادا کی اور اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔
تمام کاریگروں کو ان کی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر اجرت دی جاتی تھی۔ ماہر کاریگروں کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا، بلکہ ان کے بچوں کی شادیوں کے اخراجات رئیس غازی محمد ادا کرتے تھے۔ مسجد کی تعمیر میں مصروف کاریگروں کے قیام و طعام کا انتظام بھونگ میں ہی کیا گیا تھا۔ بہت سی مراعات بھی ان کاریگروں کو حاصل تھیں۔ تب صادق آباد سے بھونگ تک آنے جانے کے مناسب راستے موجود نہ تھے۔ نہ پختہ سڑک تھی۔ لہٰذا بھاری مشینری اور تعمیراتی سامان صادق آباد ریلوے اسٹیشن سے بھونگ تک تقریباً بیس کوس بیل گاڑیوں اور اونٹوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔
مسجد کی تعمیر کے لیے کوئی باقاعدہ نقشہ نہیں بنایا گیا تھا۔ ایک خاکہ رئیس غازی محمد کے ذہن میں تھا، جس کے مطابق تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ رئیس غازی محمد مختلف ممالک میں جاتے ، وہاں کی مساجد دیکھتے اور جو چیز پسند آجاتی اس کے مطابق مسجد کی تعمیر میں تبدیلی کرواتے رہتے۔ اس طرح مسجد کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلی کی گئی۔ کئی حصوں کو دوبارہ، بلکہ سہ بارہ بھی نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ 1950ء میں ایک نئے مسئلے کی نشاندہی ہوئی کہ سیم کی وجہ سے مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اس خطرے کے پیش نظر تب تک بننے والی تمام عمارت کو گرا دیا گیا اور بیس فٹ بلند ایک چبوترا بنا کر اْس پر نئے سرے سے مسجد کی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس سے مسجد کی پائیداری کے ساتھ خوبصورتی اور جلال و عظمت میں بھی اضافہ ہوگیا۔ مسجد کی تعمیر کے دوران ہی 1957 میں رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا۔ اْن کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے رئیس شبیر محمد نے مسجد کے کام کو آگے بڑھایا جو خود بھی درویش صفت انسان تھے۔
1982ء میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ دنیا بھر سے سیاح اس مسجد کو دیکھنے آنے لگے۔ اس کی خوبصورتی اور انفرادیت کی وجہ سے 1984ء میں اسے تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔12مئی 2004ء کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ بھونگ مسجد میں ایک وسیع دار المطالعہ، مدرسہ اور وہ حجرہ بھی موجود ہے، جہاں رئیس غازی محمد عبادت کیا کرتے تھے۔ مسجد میں داخل ہونے والا مرکزی دروازہ مشہد میں حضرت امام رضاؒ کے مزار کے صدر دروازے جیسا ہے۔
اندر کئی ایکٹر پر مشتمل فواروں سے مزین وسیع لان ہے۔ راہداری سے گزر کر سیڑھیاں چڑھنے کے بعد مسجد کا صحن ہے، جو سنگ مرمر اور سنگ سیاہ سے آراستہ ہے۔ یہاں بیک وقت دو ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ایک بڑے گنبد کے نیچے خواتین کے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مخصوص ہے، جو خواتین کی جمعہ مسجد کہلاتی ہے۔
مسجد کے تمام دروازے ہاتھی دانت کے نفیس اور باریک کام سے مزین ہیں۔ مسجد کے برآمدے میں تقریباً پانچ سو نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ برآمدہ اٹھارہ ستونوں پر مشتمل ہے۔ ہر ستون ایک ہی جیسے قدرتی رنگ پر مشتمل آٹھ فٹ بلند ہے۔ مرکزی محراب کی تزئین و آرائش میں خالص سونا چاندی اور قیمتی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ صندل کی لکڑی کا نہایت نفیس اور دیدہ زیب کام کیا گیا ہے۔ دل کش نقش و نگار ، خوب صورت گل کاری اور منفرد ڈیزائن والی یہ مسجد سیاحوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔
مسجد کی خصوصیات
٭...مسجد کی تعمیر تقریباً50 سال میں مکمل ہوئی۔دیگر کاریگروں کے بیٹوں اوراس کے بعد اس کے پوتوں نے حصہ لیا۔مسجد کی تعمیر کیلئے باقاعدہ نقشہ نہیں بنایا گیاتھا۔
٭... سنگ سرخ، سنگ مرمر، سنگ خارا، سنگ سرمئی اور سنگ سیاہ ہنگری، اٹلی اور دیگر ممالک سے منگوائے گئے۔
٭...مرکزی محراب کی تزئین و آرائش میں خالص سونا چاندی اور قیمتی پتھر استعمال کیا گیا ہے
٭...مرکزی دروازہ مشہد میں حضرت امام رضاؒ کے مزار کے صدر دروازے جیسا ہے
٭...مسجد کے تمام دروازے ہاتھی دانت کے نفیس اور باریک کام سے مزین ہیں۔
٭...984ء میں اسے تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ دیا گیا۔
٭...2004ء کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔