لالہ سدھیر:پاکستان کی فلمی تاریخ کے پہلے سپرسٹار
اسپیشل فیچر
پاکستان فلم انڈسٹری میں کئی دہائیوں تک اداکاری کے جوہر دکھانے والے ''جنگجو ہیرو‘‘ کے نام سے مشہور لیجنڈ اداکار لالہ سدھیر کو ہم سے بچھڑے 28 برس بیت گئے۔
سدھیر ، پاکستان کی فلمی تاریخ کے پہلے سپر سٹار اور ابتدائی دور کے سب سے کامیاب اور مقبول ترین فلمی ہیرو تھے۔ان کی پہلی فلم ''فرض‘‘ تقسیم سے قبل لاہور میں بنی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد تیسری ریلیز شدہ فلم ''ہچکولے‘‘ (1949ء) کے ہیرو بھی وہ تھے۔ انھیں بریک تھرو 1952 ء میں ریلیز ہونے والی ملکہ ترنم نورجہاں کی مشہور زمانہ نغماتی فلم ''دوپٹہ‘‘ سے ملا تھا ۔جس میں وہ اجے کمار نامی ایک گمنام اداکار کے مقابل سیکنڈ ہیرو تھے لیکن پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔سدھیر کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ اپنے تقریباَ چالیس سالہ فلمی کریئر میں ہمیشہ مرکزی کرداروں میں کاسٹ ہوتے تھے اور بڑے بڑے سپر سٹارز، ان کے مقابل ثانوی کرداروں میں نظر آتے تھے۔
لالی وڈ انڈسٹری کے پہلے ایکشن ہیرو کا خطاب پانے والے شاہ زمان المعروف لالہ سدھیر 25جنوری 1922ء کولاہور میں پیدا ہوئے۔ان کے والد اور ان کے دادا لاہور میں شیر انوالہ گیٹ کے رہائشی تھے۔ سکھوں کے دور حکومت میں اْن کے دادا اکبر خان اپنے آبائی علاقہ دررہ خیل سے قبائلی لڑائی کی وجہ سے لاہور ہجرت کر کے آئے اور پھر ہمیشہ کے لیے لاہور کے ہو کر رہ گئے لیکن اپنی زبان اور ثقافت کی مکمل پاسداری کرتے رہے۔ پھر یہی پشتون روایت اور ثقافت اْن کے بیٹے اور پوتے شاہ زمان خان میں بھی منتقل ہوئی۔ یہ ایک مذہبی گھرانہ تھا لیکن لاہور کی فلمی فضا نے شاہ زمان خان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یوں شاہ زمان خان 1946ء میں لاہور کی فلمی دنیا سے ہوتے ہوئے بمبئی تک جا پہنچے۔ 1947ء میں ہدایت کار نذیر بیدی نے ان کا فلمی نام سدھیر رکھا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد جواں سال سدھیر نے اپنے شہر لاہور کا رخ کیا۔
سدھیر، اپنے ابتدائی دور میں ایک آل راؤنڈ اداکار تھے۔ انھیں 50ء کی دہائی میں بننے والی سماجی اور نغماتی فلموں کے ساتھ رومانوی اور لوک داستانوں پر مبنی فلموں میں کاسٹ کیا گیا تو انہیں ایکشن اور تاریخی فلموں کا ہیرو ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
پاکستان کی فلمی تاریخ میں پچاس کا پہلا عشرہ سدھیر کے نام تھا جس میں کل پانچ گولڈن جوبلی منانے والی اردو فلموں میں سے چار کے ہیرو تھے۔ سب سے زیادہ گیارہ سلورجوبلی فلمیں بھی انھی کے کریڈٹ پر تھیں۔ ایسی فلموں میں پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی اردو فلم ''سسی‘‘ اور پہلی ایکشن فلم ''باغی‘‘ جیسی یادگار فلمیں بھی تھیں۔
بتایا جاتا ہے کہ ان کی بلاک بسٹر فلموں ''دلا بھٹی‘‘ (1956ء) اور ''یکے والی‘‘ (1957ء) نے بزنس کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے اور ان فلموں کی کمائی سے دو بڑے نگار خانے ایورنیو سٹوڈیواور باری سٹوڈیو وجود میں آئے تھے۔ ان کے علاوہ کرتار سنگھ (1959) جیسی تاریخی فلم بھی سدھیر کے کریڈٹ پر ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ فلم بھارتی صوبہ پنجاب میں بھی مسلسل تین سال تک زیر نمائش رہی تھی۔
ساٹھ اور ستر کے عشروں کا دور انتہائی مقابلے کا دور تھا جس میں بہت بڑے بڑے فلمی ہیروز موجود تھے۔ اس دور میں سدھیر کی پہچان ایک بھاری بھر کم ایکشن فلمی ہیرو کی تھی جو ایک غیور ، بہادر اور جوانمردی کے پیکر کے طور پر فلموں میں نظر آتے تھے اور عوام الناس میں اس قدر مقبول تھے کہ ان کی مقبولیت کا ریکارڈ اگر کسی نے توڑا تھا تو وہ صرف سلطان راہی تھے۔
سدھیر نے 200 سے زائد فلموں میں اپنے وقت کی معروف اداکاراؤں کے مقابل مرکزی کردار نبھایا ۔وہ نور جہاں، مسرت نذیر، صبیحہ خانم، آشا بھوسلے، لیلیٰ، زیبا، دیبا، شمیم آرا، بہار بیگم اور رانی کے ساتھ کئی فلموں میں ہیرو کے روپ میں نظر آئے اور شائقین نے انھیں بہت پسند کیا۔
جنگجو ہیرو کی شادیاں
سدھیر اپنی مردانہ وجاہت کی وجہ سے صنف نازک کیلئے ایک خاص کشش رکھتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ گھریلو بیوی ہونے کے باوجود اداکارہ شمی اور زیبا سے بھی شادی کی تھی۔ اْنہوں نے پہلی شادی اپنے خاندان میں کی اور پھر دوسر ی شادی لاہور کی قزلباش فیملی میں کی تیسری شادی اداکارہ شمی کے ساتھ کی اور اْن کے ساتھ اپنی ذاتی فلم ''بغاوت‘‘ میں کام کرنے کے بعد اْن پر فلموں پر آنے کی پابندی عائد کر دی جو مرتے دم تک رہی۔ اِسی شادی کے دوران حادثاتی طور پر ادکارہ زیبا سے شادی کی۔ زیبا جو 1961ء کے دوران ابھی فلمی دنیا میں اپنے قدم جما رہی تھی اور اْسے فلمی دنیا میں ایک مضبوط سہارے کی ضرورت تھی اور اْس وقت فلم انڈسٹری میں لالہ سدھیر سے زیادہ مضبو ط اور بہادر اداکار اور کوئی نہیں تھا جس پر زیبا نے لالہ سدھیر سے شادی کر لی۔ شاد ی کے بعد لالہ سدھیر نے اپنی غیرت مند پشتون روایت کے مطابق زیبا کے فلمی دنیا میں داخلے پر پابندی لگا دی جو زیبا کو ہرگز قبول نہیں تھیں جس پر چھ ماہ کے مختصر عرصہ کے بعد زیبا بیگم نے سدھیر سے طلاق لے کر اداکار محمد علی سے شادی کر لی جو بعد میں کامیاب فلمی جوڑی ثابت ہوئے۔
1980ء میں اپنی ذاتی فلم ''دشمن کی تلاش‘‘ کے بعد فلمی دنیا سے ریٹائرمنٹ لے کر گمنامی اختیار کر لی۔ زندگی کے آخری پندرہ سالوں میں لالہ سدھیر نے مکمل طور پر اپنے رب سے تعلق بنا لیا اور پھر 27رمضان المبارک 20جنوری 1997ء کو وہ ظہر کی نماز پڑھنے اپنی آبائی مسجد شیرانوالہ گیٹ چلے گئے اور نہ جانے بے انتہا غفور رحیم رب کو اْن کی کون سی ادا پسند آئی اور وہ روزہ کی حالت میں جونہی سجدہ میں گئے تو ملک الموت نے اِن کی روح قبض کر لی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
سدھیر ، ایک بھاری بھر کم ہیرو
ساٹھ کی دھائی میں ان کی فلم فرنگی (1964) ایک معرکتہ الآرا فلم کے طور پر یاد رکھی جائے گی وہاں جی دار (1965) پاکستان کی پہلی فلم تھی جس نے ہفتوں کے لحاظ سے پلاٹینم جوبلی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
دلچسپ بات ہے کہ ستر کے عشرہ میں بھی سدھیر کی ایک پنجابی فلم ماں پتر (1970) نے کراچی میں پلاٹینم جوبلی کی تھی جبکہ اس عشرہ کی ایک بڑی اردو فلم ان داتا (1976) تھی جس میں وہ سلطان راہی اور محمدعلی کے باپ بنے تھے اور پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔ اس فلم کے ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھی جائے گی کہ اس فلم کا جو اگلا ورڑن فلم سن آف ان داتا (1987) کے طور پر بنایا گیا تھا ، اس میں بھی سدھیر پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے اور یہ ان کی آخری فلم بھی تھی۔
سدھیر سبھی ہیروز پر بھاری تھے
یہاں یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ بڑے بڑے سپر سٹارز جن میں درپن ، اسلم پرویز ، محمدعلی ، وحیدمراد ، اعجاز ، حبیب ، یوسف خان ، اکمل ، سلطان راہی ، بدرمنیر ، شاہد اور عنایت حسین بھٹی وغیرہ نے سدھیر کے مقابل ثانوی کردار ادا کیے تھے جبکہ سنتوش ، کمال اور ندیم کے ساتھ وہ کسی فلم میں نہیں دیکھے گئے تھے۔
سدھیر ، وحیدمراد کی ضد تھے!
سدھیر خود پر گیت فلمبند کروانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ ان کا ایکشن فلمی ہیرو کا وہ امیج تھا جو جنگ و جدل کے لیے تو ایک آئیڈیل ہیرو تھا لیکن رومانٹک کرداروں اور گانا گانے والے ہیرو کے لیے موزوں نہیں تھا۔
سدھیر ، وحیدمراد کی ضد تھے اور یہی وجہ تھی جتنی تعداد میں انھوں نے فلموں میں کام کیا تھا ، اس تناسب سے ان پر فلمائے ہوئے گیتوں کی تعداد بہت کم ہے۔
سدھیر پر سب سے زیادہ سلیم رضا کے گائے ہوئے گیت فلمائے گئے تھے جبکہ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اب تک کے اعددوشمار کے مطابق عنایت حسین بھٹی ، منیر حسین اور مسعودرانا کے یکساں تعداد میں گیت سدھیر پر فلمائے گئے تھے جن میں سب سے سپر ہٹ گیت تو فلم ڈاچی (1964) کا تھا "ٹانگے ولا خیر منگدا۔۔" جبکہ مسعودرانا اور منیر حسین کا ایک اور شاہکار گیت "اے ماں ، پیاری ماں۔۔" (فلم وریام ، 1969) بھی سدھیر پر فلمایا گیاتھا۔
سدھیر ، صنف نازک کے ہیرو
ان کا تعلق ایک پٹھان آفریدی قبیلے سے تھا ، لاہور میں پیدا ہوئے تھے اور وہیں 1997ء میں انتقال ہوا تھا۔
جب ہمارے ملک میں فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کی ہر طرف شہرت ہواکرتی تھی تو اداکاروں کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ٹریفک جام ہو جایا کرتی تھی۔ لاہور، فلم انڈسٹری کا ہر دور میں مرکز رہا ہے۔ 1950ء سے فلم انڈسٹری کا عروج شروع ہوتا ہے اور 1996ء میں اداکار سلطان راہی کی اچانک موت واقع ہونے پر زوال میں بدل جاتا ہے۔
سلطان راہی لالہ سدھیر کی طرح ایکشن فلموں کے بادشاہ تھے۔ وہ انتہائی مخیر اداکاروں میں شمار ہوتے تھے فلمی دنیا کا ایک الگ تھلگ ماحول ہے جس کو عام زبان میں'' اْس بازار ‘‘کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن اِس کے باوجود اِس دنیا میں اچھے انسان کی بھی کمی نہیں رہی۔ یہ لوگ جو بظاہر ہمیں گناہوں کی بستی کے مکین نظرا?تے ہیں لیکن اِن میں کچھ چھپے رستم ایسے بھی رہ چکے ہیں جو بڑی خاموشی کے ساتھ دکھی انسانیت کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہے سلطان راہی اور محمد علی اِن کاموں میں ہمیشہ ا?گے رہتے لیکن کچھ اداکار ایسے بھی تھے جو بڑی خاموشی اور شہر سے ہٹ کر فلمی دنیا سے وابستہ غریب لوگوں کی ترجیحی بنیادوں پر مدد کیا کرتے تھے انہی اداکاروں میں ایک بڑا فلمی نام لالہ سدھیر کا تھا۔لالہ سدھیر کا اصل نام شاہ زمان خان ا?فریدی تھا والد محمد اسلم خان کا تعلق علاقہ غیر کے درہ ا?دم خیل سے تھا۔
لالہ سدھیر کے والد محمد اسلم خان آفریدی کو حکومت برطانیہ کے دور میں پھانسی دی گئی تھی۔
اور یہاں پر اپنے خاندان سے چھپ کر لاہور کے فلمی اسٹوڈیو کے چکر لگاتے رہے اور آخر کار 1954ء میں ہدایت کار داوٗد چاند کی فلم ''سسی‘‘ میں ہیرو کا کردار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جبکہ اِس سے پہلے 1952ء میں ہدایت کار اجے کمار کی مشہور زمانہ فلم ڈوپٹہ میں میڈیم نور جہان کے ساتھ سائیڈ ہیرو کا کردار کر چکے تھے۔ سسی کے بعد گمنام اور پھر فلم ساز ہدایت کار اشفاق ملک کی باغی اور ا?خری نشان سے پاکستان فلم انڈسٹری کے پہلے جنگجو ہیرو کا خطاب لے کر انڈسٹری پر چھا گئے۔ لالہ سدھیر ایک بہادر اور غیرت مند انسان تھے اْنہوں نے دو سو سے زائد اْردو اور پنجابی فلموں میں ہمیشہ ٹرائیلرول کی صورت میں کام کیا
اِس کے بعد لالہ سدھیرفلمی دنیا میں اپنی کامیابی کی منزلیں طے کرنے لگے اداکار اکمل کو بھی سب سے پہلے لالہ سدھیر ہی نے اپنی فلم بغاوت میں متعارف کرایا۔ اکمل فلمی اداکار اجمل خان کے چھوٹے بھائی تھے بعد میں اکمل خان نے پنجابی فلموں میں زبردست کامیابیاں حاصل کیں اور یوں اکمل خان 1967ء میں فوت ہو گئے اکمل کے بعد لالہ سدھیر پنجابی فلموں میں دھڑا دھڑ کاسٹ ہونے لگے پگڑی سنبھال جٹا ،ماں پتر ، یار بادشاہ ، جانی دشمن ، نظام لوہار ، چڑھدا سورج ، رنگوں جٹ ، وریام ، سلطانہ ڈاکو ، خبردار اِس طرح اْن کی ا?خری یادگار اْردو فلم اِن داتا تھی جو 1976ء میں ریلیز ہوئی اور کامیاب بزنس کیا جبکہ 1957ء میں یکے والی اور ماہی منڈا کی گولڈن جوبلی کامیابی کے بعد باری اسٹوڈیو اور دلاور بھٹی کے ریکارڈ بزنس کے بعد فلم ساز ا?غا جی گل نے ایور نیو سٹوڈیوتعمیر کر لیا تھا۔
سماجی اور نغماتی فلمیں
گمنام (1954ء) ، طوفان (1955ء) ، چھوٹی بیگم ، ماہی منڈا (1956ء) ، داتا ، آنکھ کا نشہ ، یکے والی (1957ء) ، جان بہار ، جٹی (1958ء) اور جھومر (1959ء)
رومانوی اور لوک داستانوں پر مبنی فلمیں
سسی (1954ء)، سوہنی (1955ء)، دلابھٹی، مرزا صاحباں ، گڈی گڈا (1956ء)، نوراں (1957ء)، انارکلی (1958ء) اور گل بکاؤلی (1961ء)
تاریخی و ایکشن فلمیں
حاتم (1957ء)، کرتار سنگھ (1959ء)، غالب (1961ء)، باغی (1956ء)، آخری نشان (1958ء) ، عجب خان (1961ء) اور فرنگی (1964ء)