قوی خان ٹی وی کے پہلے ہیرو
اسپیشل فیچر
باوقار شخصیت اور دلکش آواز کے مالک قوی خان ایک ورسٹائل اداکار تھے۔ ان کے بارے میں بلا شبہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک پیدائشی آرٹسٹ اور ہمارے ملک کا اثاثہ تھے۔ آپ وہ خوش قسمت اداکار تھے جنہوں نے سات دہائیوں تک نان سٹاپ کام کیا ۔وہ 13 نومبر 1942ء کو شاہجہاں پور (غیرمنقسم ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد نقی خان محکمہ پولیس سے وابستہ تھے۔ قیام پاکستان کے وقت انہوں نے ہجرت کی تو پشاور کو اپنا مسکن بنایا اور وہیں قوی خان نے گورنمنٹ ہائی اسکول سے اور پھر ایڈورڈ کالج سے تعلیم حاصل کی ۔
پاکستان میں 26 نومبر 1964ء وہ یادگار تاریخ ہے جب ٹیلی وژن کا قیام عمل میں آیا۔ اس تاریخ کے ٹھیک 2 دن بعد پاکستان ٹیلی وژن سے پہلا ڈرامہ ''نذرانہ‘‘نشر ہونا تھا جس کے ہیرو محمد قوی خان تھے۔ پروڈیوسر فضل کمال تھے جبکہ نجمہ فاروقی نے اسے لکھا تھا۔ قوی خان اس وقت سے لے کر تادمِ مرگ ٹیلی وژن سے وابستہ رہے، یہ عرصہ لگ بھگ 7 دہائیوں پر مشتمل ہے۔ اس میڈیم میں ان کو سب سے زیادہ شہرت 1980ء کی دہائی میں سرکاری ٹی وی سے نشر ہونے والے ڈرامے ''اندھیرا اجالا‘‘ سے ملی۔اس ڈرامہ میں ان کا پولیس افسر کا کردار بے پناہ مقبول ہوا۔یہ ڈرامہ جس وقت نشر ہوتا تھا سڑکیں ویران ہو جایا کرتی تھیں۔ اس ڈرامہ نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ہمسایہ ملک میں بھی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے۔
قوی خان نے '' اندھیر اجالا‘‘ میں اپنے لازوال کردار کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن اداکار کمال اور گلوکار عنایت حسین بھٹی کی طرح کامیاب نہ ہوسکے ۔
اشفاق احمد کے ڈرامہ ''کوئی نہ آدھا سچ ملا‘‘میں قوی خان کو شاعر مرزا غالب کا کردار نبھانے کو دیا گیا جسے وہ اپنے کریئر کا یادگار کردار قرار دیا کرتے تھے۔ ان کی شادی 1968 میں ہوئی، ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان کے دونوں بیٹوں عدنان قوی اور مہران قوی نے بھی شوبز میں قسمت آزمائی کی لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکے۔
پاکستانی فلمی صنعت کے حوالے سے ڈائریکٹری کی حیثیت رکھنے والی ویب سائٹ کے مطابق ہدایتکار دلجیت مرزا کی فلم ''رواج‘‘ جو 1965ء میں سینما گھروں کی زینت بنی، قوی صاحب کی پہلی فلم تھی۔ طویل فلمی کریئر میں ڈھائی سو کے قریب فلموں میں کام کرنے کے باوجود انہیں وہ جائز مقام کبھی نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے۔ زیادہ تر معاون کرداروں میں نظر آئے ، مثبت اور منفی کرداروں میں جلوہ گر ہوئے، اولڈ ، ولن اور کامیڈین کے طور پر بھی کردار نبھائے لیکن کبھی سولو ہیرو نہیں آئے۔ چند فلموں میں سیکنڈ ہیرو کے طور پر موقع ملاجن میں فلم ''مسٹربدھو‘‘ میں دیبا، فلم ''اجنبی‘‘میں بابرہ شریف اور فلم ''چوری چوری‘‘ میں زیبا کے ساتھ ان کی جوڑیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
قوی نے بطور فلمساز ، درجن بھر فلمیں بنائیں جن میں سے پہلی فلم ان کی مادری زبان پشتو میں ''مہ جبینے‘‘ تھی ،1972ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں وہ آصف خان کے مقابل سیکنڈہیرو تھے۔ بطور فلمساز ان کی دیگر فلموں میں ''مسٹر بدھو‘‘، ''بے ایمان‘‘ ، ''منجی کتھے ڈاہواں‘‘، ''نیلام‘‘، ''روشنی‘‘ ، ''جوانی دیوانی‘‘، ''چوری چوری‘‘ ، ''پاسبان‘‘ ، ''گرفتاری‘‘ اور ''ماں بنی دلہن‘‘ شامل ہیں۔ یہ ان کی بدقسمتی کہیے کہ ٹی وی پر کامیابیاں سمیٹنے والے قوی خان فلم پروڈکشن کے میدان میں بری طرح ناکام رہے اور ان کی بنائی ہوئی ایک بھی فلم کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ انہوں نے ایک فلم ''روشنی‘‘ڈائریکٹ بھی کی۔ 1975ء میں ریلیزہونے والی اس فلم نے کراچی میں اوسط درجے کا بزنس کیا جبکہ باقی ملک میں ناکام رہی۔
قوی پر فلمائے ہوئے متعدد گیتوں کی تفصیل یہاں بیان کرنا ممکن نہیں صرف چند گیتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ فلم ''چراغ کہاں روشنی کہاں‘‘ میں قوی اپنی زندگی کی بازی ہار کر کسی کیلئے قربانی دیتے ہیں اور ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے دوران پس منظر سے مسعود رانا کی آواز گونجتی ہے:
چراغوں کی بجائے ہم نے داغ دل جلائے ہیں
ہمارے خون کے چھینٹوں سے ہوگی روشنی برسوں
لگا کے جان کی بازی بچا لی آبرو اس کی
ہماری قبر پہ رویا کرے گی دنیا برسوں
فلم ''پازیب‘‘ میں اخلاق احمد کا گایا ہوا گیت ''او ماما میرے ، او چاچا میرے‘‘ بھی قوی پر فلمایا گیا تھا جو اس فلم میں ایک کامیڈی رول کررہے تھے۔فلم ''مسٹربدھو‘‘ میں مالا کا یہ گیت اپنے وقت کا سپرہٹ گیت تھا، جس کے بول تھے ''ڈھولک بجا کے ، سہیلیاں بلا کے ، بنڑے کے گیت میں گاؤں گی ، اپنے بھیا کو دولہا بناؤں گی‘‘۔ فلم ''بے ایمان‘‘ کا ایک کورس گیت ''اللہ کے نام پہ جھولی بھردے ، اللہ ہی دے گا‘‘احمدرشدی ، مسعودرانا اور روشن کی آوازوں میں تھا جو رنگیلا ، نرالا اور قوی پر فلمایا گیا تھا۔قوی کی بطور فلمساز پہلی پنجابی فلم ''منجی کتھے ڈاہواں ‘‘ تھی جس میں ان پر مسعود رانا کا سولو گیت فلمایا گیا تھا، جس کے بول تھے ''حْسن دا غرور میری توبہ ، آیا سرور میری توبہ‘‘۔فلم پہچان میں مہدی حسن کا گیت ''تیرا پیار میرے جیون کے سنگ رہے گا‘‘ ان پر عکسبند کیا گیا۔ فلم ''بیگم جان‘‘ میں غلام عباس کا رنجیدہ گیت ''اے دوست ، تیری آنکھ اگر نم ہے تو مجھے کیا‘‘بھی قوی پر فلمایا گیا۔
مقبول ڈرامے
٭اندھیرا اجالا، دن ٭من چلے کا سودا ٭دو قدم دور تھے٭ لاہوری گیٹ،٭مٹھی بھر مٹی٭، الف نون٭آشیانہ٭ میرے قاتل میرے دلدار٭در شاہوار٭ پھر چاند پہ دستک٭ سہلیاں٭ انگار وادی٭ زندگی دھوپ تم گھنا سایہ٭ نظر بد٭ اڑان ٭ صدقے تمہارے٭ تم کون پیا٭ الف اللہ ٭انسان ٭ دہلیز فشار٭ مرزا اینڈ سنز ٭ریزہ ریزہ٭لاکھوں میں تین ٭داستان٭ دل موم کا دیا٭ پہچان ٭خانی٭ صدقے تمہارے،٭میرا قاتل میرا دلدار٭ ،میری شہزادی
قوی کی چند فلمیں
محبت زندگی ہے ، ٹائیگر گینگ ، سوسائٹی گرل، سرفروش ، کالے چور، آج اور کل ، صائمہ، بیگم جان ، ناگ منی، رانگ نمبر ، انٹرنیشنل لٹیرے، سر کٹا انسان ، پری، قائداعظم زندہ باد ، ''چراغ کہاں روشنی کہاں‘‘ ، ''پازیب‘‘ ، ''مسٹربدھو‘‘ ، ''بے ایمان‘‘ ، ''منجی کتھے ڈاہواں ‘‘ ، ''نیلام‘‘ ، روشنی ، پہچان ، وطن ،جوانی دیوانی ، ''چوری چوری‘‘ ، '' محبت مرنہیں سکتی ‘‘