دنیا آج جس شدید ماحولیاتی بحران کا شکار ہے، اس کی ایک بڑی وجہ انسان کا قدرتی وسائل کے ساتھ بے رحمانہ سلوک ہے۔ درختوں کی بے دریغ کٹائی، صنعتی آلودگی، گاڑیوں کا دھواں اور پلاسٹک کے بڑھتے استعمال نے فضا کو اس قدر زہریلا کر دیا ہے کہ انسانی زندگی پر براہِ راست اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک، جہاں شہروں کی بے ہنگم توسیع جاری ہے، وہاں ماحولیات کا تحفظ ایک چیلنج بن چکا ہے۔ گرمی کی شدت، پانی کی قلت، خشک سالی، غیر متوقع بارشیں اور ہیٹ ویوز اس بحران کی نمایاں علامات ہیں۔ ان حالات میں درخت لگانا نہ صرف ایک اختیاری اقدام ہیں بلکہ ہماری بقا کا بنیادی تقاضا بھی بن چکا ہے۔درخت قدرت خداوندی کا ایک ایسا عطیہ ہیں جو نہ صرف زمینی درجہ حرارت کو کنٹرول کرتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہو رہے ہیں۔ خاص طور پر کراچی، لاہور، ملتان، نواب شاہ، سکھر، فیصل آباد بلوچستان کے کئی اضلاع اور دیگر بڑے شہروں میں درجہ حرارت معمول سے بڑھ چکا ہے۔ کہیں 47 ڈگری سے تجاوز کر جاتا ہے تو کہیں ہیٹ ویو کی وجہ سے نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند تڑپ جاتے ہیں۔ سڑکوں، گلیوں اور محلّوں سے درختوں کا صفایا ہو چکا ہے اور ان کی جگہ سیمنٹ اور کنکریٹ کی عمارات بن چکی ہیں۔اسلامی تعلیمات بھی شجرکاری کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ''جو مسلمان دَرخت لگائے یا فَصل بوئے، پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صَدقہ شُمار ہو گا‘‘ (صحیح بخاری)۔ آپﷺ نے شجر کاری کو اتنی اہمیت دی کہ اس عمل کو قیامت تک جاری رکھنے کا حکم فرمایا۔ ارشادِ نبویﷺ ہے، ''اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اسے لگا سکتاہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔ (مسند احمد)۔ ایک درخت جہاں ہمیں سایہ فراہم کرتا ہے وہیں آکسیجن مہیا کر کے ہمیں زندگی بخشتا ہے۔ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے جو قیامت تک انسان کے نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ کرتا رہتا ہے۔ درخت انسانی صحت کے محافظ ہیں۔ وہ فضا سے زہریلی گیسیں جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں جو انسانی جسم کے ہر خلیے کو زندہ رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ وہ نہ صرف گرمی اور آلودگی کے خلاف قدرتی ڈھال کا کام کرتے ہیں بلکہ بیماریوں، شور اور ذہنی تناؤ کو بھی کم کرتے ہیں۔ یہی درخت ندی نالوں کے کنارے لگائے جائیں تو وہ وہاں کی گندگی جذب کرکے پانی کو صاف کرنے میں مدد دیتے ہیں، زیر زمین پانی کو محفوظ رکھتے ہیں اور مٹی کے کٹاؤ کو روکتے ہیں۔ماحولیاتی تحفظ صرف حکومتوں یا ماہرین کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر شہری کا انفرادی و اجتماعی فرض ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایسی تبدیلیاں لائیں جو ماحول کیلئے فائدہ مند ہوں۔ بجلی، گیس، پانی اور پٹرول کا بے جا استعمال ترک کریں، پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال بڑھائیں، سائیکل کا استعمال کریں، اور خاص طور پر شاپر بیگز سے نجات حاصل کریں۔ پلاسٹک ماحول کیلئے زہر ہے، جو زمین کو بانجھ، آبی حیات کو مہلک اور فضا کو آلودہ بناتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سمندر میں سالانہ چالیس لاکھ ٹن پلاسٹک شامل ہو رہا ہے جو مچھلیوں، پرندوں اور جانوروں کیلئے جان لیوا ہے۔ درخت لگانے سے پہلے ایک باشعور شہری کے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں جیسے کون سا درخت لگایا جائے؟ کہاں لگایا جائے؟ کیسے اس کی نگہداشت کی جائے؟ درخت کا انتخاب کرتے وقت مقامی آب و ہوا، زمین کی نوعیت اور علاقے کے انفراسٹرکچر کو مدِ نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ مثلاً کراچی، لاہور، سکھر اور حیدرآباد جیسے شہروں میں لگنم، چمپا، املتاس، کچنار، جکاراندا وغیرہ موزوں درخت ہیں، جو کم پانی میں بھی نشوونما پاتے ہیں اور جڑیں زیادہ نہیں پھیلاتے۔ نیم اور برگد جیسے درخت اگرچہ مفید ہیں مگر شہری علاقوں میں بجلی کی تاروں اور سڑکوں کیلئے مسئلہ بن سکتے ہیں، اس لیے انہیں پارکس یا کھلی جگہوں میں لگانا زیادہ بہتر ہے۔اگر زمین دستیاب نہ ہو تو بیل دار پودے بہترین متبادل ہو سکتے ہیں۔ اپارٹمنٹس یا گنجان آبادی والے علاقوں میں بوگن ویلا، چمیلی، ہنی سکل اور المنڈا جیسی بیلیں کم جگہ میں اُگتی ہیں، گھروں کو دھوپ کی تپش سے بچاتی ہیں، اور آلودگی کم کرنے میں مددگار ہوتی ہیں۔ ان کی جڑیں بھی کمزور ہوتی ہیں، اس لیے سیوریج یا گیس لائنوں کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ درخت لگانے کیلئے موزوں ترین وقت فروری تا مارچ اور جولائی تا اگست سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر مون سون کا موسم شجرکاری کیلئے نہایت موزوں ہوتا ہے۔ گرمیوں میں لگایا گیا پودا پانی کی کمی یا شدید درجہ حرارت کی وجہ سے اکثر زندہ نہیں رہ پاتا۔ پودا لگانے کے بعد ابتدائی پندرہ دن روزانہ پانی دینا چاہیے، پھر ہفتے میں دو بار دینا کافی ہوتا ہے۔ ایک پودے کو مکمل درخت بننے میں تین سے پانچ سال لگ سکتے ہیں، اس لیے اس کی مستقل نگہداشت ضروری ہے۔درخت قدرت کے بہترین کولر ہیں۔ ان کی چھاؤں، شاخیں اور پتے سورج کی تپش کو روکتے ہیں اور ہوا کو ٹھنڈا کر کے اردگرد کے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں۔ درختوں میں ایک خاص عمل Transpiration ہوتا ہے جس میں وہ پانی کو بخارات کی صورت میں خارج کرتے ہیں، جس سے فضا میں نمی پیدا ہوتی ہے، بارش کے امکانات بڑھتے ہیں اور زمینی درجہ حرارت میں کمی آتی ہے۔ ماحولیاتی بحران کے اس دور میں ہمیں درختوں کی اہمیت کو سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا۔ دنیا بھر میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، سطح سمندر بلند ہو رہی ہے، غیر متوقع بارشیں، سیلاب، خشک سالی، اور ہیٹ ویوز معمول بنتی جا رہی ہیں۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ساحلی شہر جیسے کراچی اور گوادر مستقبل میں زیر آب آنے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف خود درخت لگائیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ والدین اپنے بچوں کو شجرکاری کی تربیت دیں، اسکولز اور کالجز اسے نصاب میں شامل کریں، مساجد اور علما اس پیغام کو خطبات میں عام کریں، میڈیا آگاہی مہمات چلائے اور سرکاری ادارے اس ضمن میں مؤثر قانون سازی کریں۔ ہر شہری سال میں کم از کم ایک درخت لگانے کا عزم کرے اور اس کی کم از کم تین سال نگہداشت بھی کرے تو پاکستان کو سرسبز اور محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ آج اگر ہم نے درخت لگانا شروع نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ درخت صرف سایہ دینے والی شے نہیں بلکہ اُمید کی کرن ہیں، جو ہماری آنے والی نسلوں کیلئے زندگی، سانس، چھاؤں اور سکون کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔یاد رکھیں، درخت لگانا محض ایک عمل نہیں بلکہ ایک انقلابی سوچ ہے۔ یہ سوچ ہمیں قدرت کے قریب کرتی ہے، انسانیت سے جوڑتی ہے، اور ہمیں زمین کی اصل قیمت کا احساس دلاتی ہے۔ آئیں، آج سے عہد کریں کہ ہم گرمی کا رونا رونے کے بجائے اس کا حل تلاش کریں گے۔ اور شجرکاری وہ حل ہے جسے ہم سب باآسانی اپنا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جو زمینی فلاح، اخروی نجات اور اجتماعی بہتری کی ضامن ہے۔