حکومتوں سے لے کر افراد تک سونے میں سرمایہ کاری کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟

اسپیشل فیچر
پچھلے چند ماہ سے سونے کی قیمتیں ہر روز نئی بلندیوں کو چھُو رہی ہیں۔ زرگر حیران اور خریدار پریشان،جبکہ معیشت دان اس فکر میںہیں کہ آخر یہ چمکتی دھات کیوں ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے۔
ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں کہ یہاں گزشتہ ایک سال کے دوران سونے کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2024ء کے آغاز میں 24 قیراط سونے کی قیمت تقریباً 220,000 روپے فی تولہ تھی جو سال کے اختتام پر بڑھ کر 272,600 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی۔ یہ اضافہ 52,600 روپے فی تولہ کے برابر ہے جو تقریباً 23.9 فیصد بنتا ہے۔ سونے کی قیمت میں اتار چڑھاؤ بھی دیکھنے میں آیا۔ 2024ء میں سونے کی کم ترین قیمت 210,800 روپے فی تولہ ریکارڈ کی گئی جبکہ اکتوبر میں یہ قیمت بلند ترین سطح 287,900 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی۔ 2024 ء میں بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں 552 ڈالر فی اونس کا اضافہ ہوا، جو سال کے اختتام پر 2614 ڈالر فی اونس پر بند ہوئی۔ یہ اضافہ 26.7 فیصد کے برابر ہے۔ 2025ء میں بھی پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ یکم جنوری کو 24 قیراط سونے کی قیمت تقریباً 273,600 روپے فی تولہ تھی جو 19 مارچ تک 319,000 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی ۔ یہ اضافہ 45400 روپے فی تولہ کے برابر ہے جو تقریباً 16.6 فیصد بنتا ہے۔اس دوران سونے کی قیمت میں کئی اتار چڑھاؤ بھی دیکھنے میں آئے۔ مثلاً 5 فروری کو سونے کی قیمت میں ایک دن میں 5300 روپے کا اضافہ ہوا، جس سے قیمت 299,600 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی۔ اسی طرح 19 فروری کو سونے کی قیمت 308,000 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی ۔رواں سال عالمی سطح پر بھی سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جو پاکستانی مارکیٹ پر اثر انداز ہوا۔ 19 مارچ کو بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت 3038 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئی ۔سونے کی قیمتوں میں اس اضافے کی وجوہات میں عالمی اقتصادی غیر یقینی صورتحال، امریکی تجارتی پالیسیوں میں تبدیلی اور چین کی جانب سے سونے کی خریداری میں اضافہ شامل ہیں جنہوں نے سونے کو ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر مزید پرکشش بنا دیا ہے۔ پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں عالمی سطح پر سونے کی قیمتوں میں اضافہ، افراط زر، کرنسی کی قدر میں کمی اور معاشی غیر یقینی صورتحال شامل ہیں۔ یہ عوامل سونے کو ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر مزید پرکشش بناتے ہیں۔
سونے کی مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں عام شہری کے لیے تو اب سونے کے زیورات خریدنا خواب بنتا جا رہا ہے۔ مگر یہ صرف ہمارے ملک کا معاملہ نہیں دنیا بھر میں سونے کی قدر بڑھ رہی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے سونے کے ذخائر میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہیں۔تو سوال یہ ہے کہ سونے کی قیمت کیسے طے ہوتی ہے؟ دنیا کے ممالک اس کے ذخائر میں اضافہ کیوں کر رہے ہیں اور اس کا ہمیں کیا فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے؟
سونے کی قیمت کیسے طے ہوتی ہے؟
سونے کی قیمت کوئی حکومت یا ادارہ طے نہیں کرتا بلکہ یہ بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں میں طلب و رسد، معاشی حالات اور عالمی سیاسی تناؤ جیسے عوامل کی بنیاد پر روزانہ کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔لندن بلین مارکیٹ ایسوسی ایشن (LBMA) دنیا کی سب سے بڑی گولڈ مارکیٹ ہے، جو روزانہ دو مرتبہ سونے کی قیمت فکس کرتی ہے۔ اس قیمت کو دنیا بھر میں سونے کی قیمت کا معیار مانا جاتا ہے۔عالمی سطح پر اگر معاشی بے یقینی ہو، کرنسی کی قدر گر رہی ہو، یا سود کی شرحیں کم ہوں تو لوگ سونا خریدنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی دنیا میں بحران آتا ہے سونے کی قیمت اوپر چلی جاتی ہے کیونکہ لوگ اسے محفوظ سرمایہ کاری مانتے ہیں۔
کیا صرف لوگ ہی سونا خرید رہے ہیں؟
نہیں! اس دوڑ میں صرف عام لوگ ہی شامل نہیں بلکہ بڑے بڑے ممالک اور ان کے مرکزی بینک بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر چین، روس، بھارت، ترکی اور قازقستان جیسے ممالک نے گزشتہ برسوں میں اپنے سونے کے ذخائر میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔یہ ممالک سونا کیوں جمع کر رہے ہیں؟ اس کے پیچھے کئی حکمتیں ہیں مثال کے طور پر:
ڈالر سے آزادی کی راہ: امریکی ڈالر کو عالمی معیشت میں اجارہ داری حاصل ہے مگر اب بہت سے ممالک اس غلبے سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سونا ایک ایسا اثاثہ ہے جو کسی ایک ملک کے کنٹرول میں نہیں۔ جب ممالک ڈالر کے بجائے سونا رکھتے ہیں تو وہ اپنی معیشت کو امریکی اثر سے آزاد کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔روس اور چین اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ روس نے مغربی پابندیوں کے خوف سے سونے پر انحصار بڑھایا، جبکہ چین اپنی کرنسی (یوان) کو مستقبل میں عالمی سطح پر قابلِ اعتبار بنانے کے لیے سونے کے ذخائر کو تقویت دے رہا ہے۔
بحرانوں کا ساتھی : وباؤں، جنگوں یا معاشی بحران میں سونا ہمیشہ کام آتا ہے۔ جب کرنسی کی قدر گرنے لگے، بینکوں پر اعتماد کم ہو یا افراطِ زر بڑھ جائے تو سونا ایک محفوظ پناہ گاہ بن جاتا ہے۔ترکی اور بھارت جیسے ممالک نے بھی سونے کو اسی نظریے سے جمع کیا ہے کہ کل کا کچھ پتا نہیں، مگر سونا ساتھ دے گا۔
پاکستان کہاں کھڑا ہے؟پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں سونا زیادہ تر زیورات اور سرمایہ کاری کیلئے خریدا جاتا ہے۔ یہاں مرکزی بینک کے سونے کے ذخائر بہت محدود ہیں اور ہم سونا درآمد کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ جب سونا مہنگا ہوتا ہے تو ہمارے لیے مہنگائی بھی بڑھتی ہے۔ سونے کی بڑھتی قیمت عام شہری کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ شادی بیاہ کے لیے زیورات خریدنا مشکل ہو گیا ہے اور سونے میں سرمایہ کاری اب صرف امیر طبقے تک محدود ہو گئی ہے۔
کیا سونا صرف زیور ہے؟
نہیں‘ سونا آج کے دور میں صرف زیورات یا سرمایہ کاری کا ذریعہ نہیں بلکہ عالمی سیاست اور معیشت میں ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ کسی ملک کے مالی استحکام کا پیمانہ بنتا جا رہا ہے۔ جس ملک کے پاس جتنا سونا اتنی ہی اس کی معاشی خودمختاری۔
آنے والا وقت کیسا ہو گا؟
سونے کی قیمت میں اضافے کا یہ سلسلہ وقتی نہیں لگتا۔ جب تک دنیا غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے سونا مہنگا ہوتا رہے گا۔ ممالک اس کے ذخائر بڑھاتے رہیں گے اور ممکن ہے کچھ ممالک اپنی کرنسی کو دوبارہ سونے سے منسلک کرنے کی بھی کوشش کریں۔پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمیں سونے کو صرف زیور کی حد تک دیکھنے کے بجائے اسے قومی خزانے کا حصہ سمجھنا چاہیے۔
چمک صرف ظاہری نہیں
سونے کی چمک صرف اس کی خوبصورتی میں نہیںبلکہ اس کی معیشت پر گہری چھاپ میں بھی ہے۔ آج دنیا سونے کی طرف دوڑ رہی ہے، کچھ تحفظ کے لیے، کچھ آزادی کے لیے اور کچھ حکمت عملی کے تحت۔ سونا ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اصل طاقت ہمیشہ خاموش، مگر پائیدار ہوتی ہے۔