جنگ عظیم اول آرک اور جھیل مارن کی لڑائیاں

اسپیشل فیچر
جنگ عظیم اوّل 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، اس دوران جنگ میں شریک ممالک کے درمیان مختلف محاذوں پر مختلف لڑائیاں ہوئیں۔ جن میں سے کچھ کی شہرت اور اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔ ان ہی لڑائیوں میں سے ایک آرک کے محاذ پر لڑی گئی جبکہ دوسری جھیل مارن کے محاذپر لڑی گئی، جن کا ذکر نیچے کیا جا رہا ہے۔
آرک کی لڑائی
چھٹی آرمی5ستمبر کو دریائے آرک کو پار کرنے کے لئے بڑھ رہی تھی۔ اسی دوران جنرل ہینز کی قیادت میں جرمن پہلی آرمی کا چوتھا محفوظ کور جنوب کی جانب بڑھتے ہوئے دریا کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مارچ کر رہا تھا۔ اس وقت جنرل ہینز نے فرانسیسی افواج کی بھاری نقل و حرکت کی اطلاعات ملنے پر اپنی کمزور صورتحال کے باوجود فرانس کی فوج کے عزائم جاننے کیلئے ایک ہی طریقہ اختیار کیا کہ ان پر حملہ کردیا جائے۔
اس اچانک حملے کیلئے چھٹی آرمی بالکل ہی تیار نہ تھی۔ جرمن افواج کامیابی سے فرانس کی چھٹی آرمی کو دھکیلتی رہیں۔ تاہم شام ہونے تک جنرل ہینز کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ اپنے سے کئی گنا بھاری دشمن سے نمبرد آزما ہے لہٰذا اس نے اپنی افواج کو خاموشی سے پیچھے ہٹ کر ایک محفوظ دفاعی مقام پر صف آرا کر لیا۔
کلاک نے مطلع ہونے پر ایک کور مزید بھیج دی۔ 6ستمبر کا پورا دن چھٹی آرمی جرمنی کے دو کورز کے ساتھ دریائے آرک کے کنارے برسر پیکار رہی۔ جرمن کور کمانڈر بار بار جنرل کلارک کو مدد کیلئے اپیل کرتے رہے لیکن جنرل کلاک اس جنگ کی اہمیت سے آگاہ نہ ہو سکا۔ اگلے دن جب فرانس کے مفتوحہ کیمپس میں سے جنرل جوفر کے ہدایت نامے کی نقل ملی تو اس نے اپنے دو محفوظ کور مارن کے شمال سے آرک کی جانب روانہ کئے جن کی آمد سے جرمن پہلی اور دوسری آرمی کے درمیان پہلے سے پیدا شدہ فاصلہ کم ہو گیا۔
جنرل کلاک یہ سمجھ رہا تھا کہ برطانوی افواج اب مزاحمت کے قابل نہ ہیں۔ اس لئے وہ ان سے کچھ زیادہ خطرہ محسوس نہیں کر رہا تھا۔ دوسری طرف جنرل مائونیوری کو جنرل گیلینی کی طرف سے مسلسل کمک اور حوصلہ مل رہا تھا۔ اس نے 7اور 8ستمبر کو بھرپور حملے کئے۔ جنرل کیلینی نے کمک کیلئے ٹیکسیوں کو استعمال میں لاتے ہوئے دو رجمنٹس کمک کیلئے بھیجیں۔ جنرل کلاک نے 9ستمبر کو ایک فیصلہ کن حملہ کرنے کا حکم دیا۔دوسری طرف جنرل مائونیوری نے اپنے اعلیٰ حکام سے قدم بقدم پیرس کی طرف پسپائی کا منصوبہ بنانے کی اپیل کی۔ اس طرح فرانس کی افواج کے پیچھے مزید آگے بڑھنے پر جرمنی پہلی اور دوسری آرمی کے درمیان50کلو میٹر کا فاصلہ پیدا ہو جاتا۔ اگر اس لمحے جنرل بُولو کی آرمی مغربی سمت میں پیش قدمی کرتی تو یہ فاصلہ پیدا نہ ہوتا۔ جرمن افواج میں باہمی ربط کا فقدان مشاہدہ میں آتا ہے۔ ہیڈ کوارٹر سے رابطہ میں تاخیر، نامکمل معلومات و ہدایات اور انفرادی کوششیں کسی بہتر نتیجے کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہیں۔
مارن کی دوسری لڑائی
جنرل فرینچٹ ڈی ایسپیرے کی پانچویں آرمی 6ستمبر کو اپنے منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہی تھی۔ اسے کلاک کی پہلی آرمی کے دو کوروں سے مارن کے جنوب میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور رات تک لڑائی جاری رہی۔ جب جنرل کلاک نے دریائے آرک کی لڑائی کیلئے اپنے دو کوروں کو طلب کر لیا تو پانچویں آرمی کے دائیں کور نے پیش قدمی کرتے ہوئے بلا مزاحمت آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن اپنے متعین مقام پر پہنچنے سے پہلے اس کا جنرل بوُلو کے ایک کور سے تصادم ہو گیا۔
جنرل فرینچٹ نے7ستمبر کو ایک عام حملے کا حکم دیا۔ جنرل بوُلو اپنے دائیں بازو کے غیر محفوظ ہونے پر پیچھے ہٹ گیا اور حکم دیا کہ دریائے پٹیٹ مارن کے دوسرے کنارے صف بندی کی جائے۔ 8ستمبر کو فرانس کی افواج نے دوسری آرمی کا پیچھا کرتے ہوئے اس پر دریا کے دوسری جانب حملے جاری رکھے مگر کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ سہ پہر کو جنرل بوُلو نے ایک ناکام حملہ کیا جس میں اس کی قوت میں کمی کا احساس ہونے پر جنرل فرینچٹ نے رات کے عمل میں ایک فیصلہ کن حملہ کیا جس میں فرانس کی افواج کو کامیابی ہوئی اور جنرل بوُلو کی آرمی 6 میل تک پسپا ہو گئی۔
اس حملے کے نتیجے میں پہلی اور دوسری آرمی کے درمیان ایک بہت بڑا فاصلہ پیدا ہو گیا۔ صرف توپ خانے کے دو کور جو بمشکل تمام 10ہزار فوجیوں پر مشتمل تھے اس فاصلے کی حفاظت کیلئے مامور تھے۔ برطانوی فوج جو اب تک کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکی تھی اب جوابی حملے کیلئے تیار ہو رہی تھی۔ اس فاصلے میں گھس کر ہر دو آرمیوں کو ایک دوسرے سے کاٹنے کیلئے آگے بڑھنے لگی۔
ان کی رفتار انتہائی سست تھی جبکہ دوسری طرف جرمن محفوظ دستوں نے بھرپور مزاحمت کی اور تین دن تک برطانوی فوج صرف 25میل تک ہی پیش قدمی کر سکی۔ اس پیش قدمی کی وجہ بھی یہ تھی کہ محاذ جنگ سے جرمن پہلی آرمی کے دو کور دریائے آرک کی طرف بڑھ گئے تھے اور پیچھے برطانوی فوج کی مزاحمت کیلئے کوئی خاص فوج نہیں رہ گئی تھی۔
اب جرمن افواج کیلئے صورتحال انتہائی نازک ہو چکی تھی۔ برطانوی فوج درمیانی فاصلے میں سے ہوتے ہوئے جرمن پہلی آرمی کے عقب میں پہنچ سکتی تھی۔ جبکہ فرانس کی پانچویں آرمی جرمنی کی دوسری آرمی کے دائیں بازو پر بھرپور حملہ کر سکتی تھی۔ مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ ایک طرف تو جنرل مائونیوری پہلی آرمی کے سامنے ڈٹا رہے۔ دوسری طرف جنرل فوش اپنی نویں آرمی کو جرمن دوسری آرمی کے بائیں بازو اور جنرل ہوسین کی تیسری آرمی کے مخالف الجھائے رکھے۔