جنگ عظیم اول آرک اور جھیل مارن کی لڑائیاں

جنگ عظیم اول آرک اور جھیل مارن کی لڑائیاں

اسپیشل فیچر

تحریر : سید فضل اللہ بخاری


جنگ عظیم اوّل 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، اس دوران جنگ میں شریک ممالک کے درمیان مختلف محاذوں پر مختلف لڑائیاں ہوئیں۔ جن میں سے کچھ کی شہرت اور اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔ ان ہی لڑائیوں میں سے ایک آرک کے محاذ پر لڑی گئی جبکہ دوسری جھیل مارن کے محاذپر لڑی گئی، جن کا ذکر نیچے کیا جا رہا ہے۔
آرک کی لڑائی
چھٹی آرمی5ستمبر کو دریائے آرک کو پار کرنے کے لئے بڑھ رہی تھی۔ اسی دوران جنرل ہینز کی قیادت میں جرمن پہلی آرمی کا چوتھا محفوظ کور جنوب کی جانب بڑھتے ہوئے دریا کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مارچ کر رہا تھا۔ اس وقت جنرل ہینز نے فرانسیسی افواج کی بھاری نقل و حرکت کی اطلاعات ملنے پر اپنی کمزور صورتحال کے باوجود فرانس کی فوج کے عزائم جاننے کیلئے ایک ہی طریقہ اختیار کیا کہ ان پر حملہ کردیا جائے۔
اس اچانک حملے کیلئے چھٹی آرمی بالکل ہی تیار نہ تھی۔ جرمن افواج کامیابی سے فرانس کی چھٹی آرمی کو دھکیلتی رہیں۔ تاہم شام ہونے تک جنرل ہینز کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ اپنے سے کئی گنا بھاری دشمن سے نمبرد آزما ہے لہٰذا اس نے اپنی افواج کو خاموشی سے پیچھے ہٹ کر ایک محفوظ دفاعی مقام پر صف آرا کر لیا۔
کلاک نے مطلع ہونے پر ایک کور مزید بھیج دی۔ 6ستمبر کا پورا دن چھٹی آرمی جرمنی کے دو کورز کے ساتھ دریائے آرک کے کنارے برسر پیکار رہی۔ جرمن کور کمانڈر بار بار جنرل کلارک کو مدد کیلئے اپیل کرتے رہے لیکن جنرل کلاک اس جنگ کی اہمیت سے آگاہ نہ ہو سکا۔ اگلے دن جب فرانس کے مفتوحہ کیمپس میں سے جنرل جوفر کے ہدایت نامے کی نقل ملی تو اس نے اپنے دو محفوظ کور مارن کے شمال سے آرک کی جانب روانہ کئے جن کی آمد سے جرمن پہلی اور دوسری آرمی کے درمیان پہلے سے پیدا شدہ فاصلہ کم ہو گیا۔
جنرل کلاک یہ سمجھ رہا تھا کہ برطانوی افواج اب مزاحمت کے قابل نہ ہیں۔ اس لئے وہ ان سے کچھ زیادہ خطرہ محسوس نہیں کر رہا تھا۔ دوسری طرف جنرل مائونیوری کو جنرل گیلینی کی طرف سے مسلسل کمک اور حوصلہ مل رہا تھا۔ اس نے 7اور 8ستمبر کو بھرپور حملے کئے۔ جنرل کیلینی نے کمک کیلئے ٹیکسیوں کو استعمال میں لاتے ہوئے دو رجمنٹس کمک کیلئے بھیجیں۔ جنرل کلاک نے 9ستمبر کو ایک فیصلہ کن حملہ کرنے کا حکم دیا۔دوسری طرف جنرل مائونیوری نے اپنے اعلیٰ حکام سے قدم بقدم پیرس کی طرف پسپائی کا منصوبہ بنانے کی اپیل کی۔ اس طرح فرانس کی افواج کے پیچھے مزید آگے بڑھنے پر جرمنی پہلی اور دوسری آرمی کے درمیان50کلو میٹر کا فاصلہ پیدا ہو جاتا۔ اگر اس لمحے جنرل بُولو کی آرمی مغربی سمت میں پیش قدمی کرتی تو یہ فاصلہ پیدا نہ ہوتا۔ جرمن افواج میں باہمی ربط کا فقدان مشاہدہ میں آتا ہے۔ ہیڈ کوارٹر سے رابطہ میں تاخیر، نامکمل معلومات و ہدایات اور انفرادی کوششیں کسی بہتر نتیجے کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہیں۔
مارن کی دوسری لڑائی
جنرل فرینچٹ ڈی ایسپیرے کی پانچویں آرمی 6ستمبر کو اپنے منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہی تھی۔ اسے کلاک کی پہلی آرمی کے دو کوروں سے مارن کے جنوب میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور رات تک لڑائی جاری رہی۔ جب جنرل کلاک نے دریائے آرک کی لڑائی کیلئے اپنے دو کوروں کو طلب کر لیا تو پانچویں آرمی کے دائیں کور نے پیش قدمی کرتے ہوئے بلا مزاحمت آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن اپنے متعین مقام پر پہنچنے سے پہلے اس کا جنرل بوُلو کے ایک کور سے تصادم ہو گیا۔
جنرل فرینچٹ نے7ستمبر کو ایک عام حملے کا حکم دیا۔ جنرل بوُلو اپنے دائیں بازو کے غیر محفوظ ہونے پر پیچھے ہٹ گیا اور حکم دیا کہ دریائے پٹیٹ مارن کے دوسرے کنارے صف بندی کی جائے۔ 8ستمبر کو فرانس کی افواج نے دوسری آرمی کا پیچھا کرتے ہوئے اس پر دریا کے دوسری جانب حملے جاری رکھے مگر کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ سہ پہر کو جنرل بوُلو نے ایک ناکام حملہ کیا جس میں اس کی قوت میں کمی کا احساس ہونے پر جنرل فرینچٹ نے رات کے عمل میں ایک فیصلہ کن حملہ کیا جس میں فرانس کی افواج کو کامیابی ہوئی اور جنرل بوُلو کی آرمی 6 میل تک پسپا ہو گئی۔
اس حملے کے نتیجے میں پہلی اور دوسری آرمی کے درمیان ایک بہت بڑا فاصلہ پیدا ہو گیا۔ صرف توپ خانے کے دو کور جو بمشکل تمام 10ہزار فوجیوں پر مشتمل تھے اس فاصلے کی حفاظت کیلئے مامور تھے۔ برطانوی فوج جو اب تک کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکی تھی اب جوابی حملے کیلئے تیار ہو رہی تھی۔ اس فاصلے میں گھس کر ہر دو آرمیوں کو ایک دوسرے سے کاٹنے کیلئے آگے بڑھنے لگی۔
ان کی رفتار انتہائی سست تھی جبکہ دوسری طرف جرمن محفوظ دستوں نے بھرپور مزاحمت کی اور تین دن تک برطانوی فوج صرف 25میل تک ہی پیش قدمی کر سکی۔ اس پیش قدمی کی وجہ بھی یہ تھی کہ محاذ جنگ سے جرمن پہلی آرمی کے دو کور دریائے آرک کی طرف بڑھ گئے تھے اور پیچھے برطانوی فوج کی مزاحمت کیلئے کوئی خاص فوج نہیں رہ گئی تھی۔
اب جرمن افواج کیلئے صورتحال انتہائی نازک ہو چکی تھی۔ برطانوی فوج درمیانی فاصلے میں سے ہوتے ہوئے جرمن پہلی آرمی کے عقب میں پہنچ سکتی تھی۔ جبکہ فرانس کی پانچویں آرمی جرمنی کی دوسری آرمی کے دائیں بازو پر بھرپور حملہ کر سکتی تھی۔ مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ ایک طرف تو جنرل مائونیوری پہلی آرمی کے سامنے ڈٹا رہے۔ دوسری طرف جنرل فوش اپنی نویں آرمی کو جرمن دوسری آرمی کے بائیں بازو اور جنرل ہوسین کی تیسری آرمی کے مخالف الجھائے رکھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں: ناظم پانی پتی

یادرفتگاں: ناظم پانی پتی

نغمہ نگاری کے میدان میں جن کا طوطی بولتا تھاناظم پانی پتی برصغیر کی فلمی صنعت کی ایک معروف شخصیت تھے ، جنہوں نے پہلے ہندوستان اور بعدازاں پاکستان کی فلمی صنعت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 1948ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''مجبور‘‘میں شامل گیت ''دل میرا توڑا مجھے کہیں کا نہ چھوڑا،تیرے پیار نے‘‘ شاید کبھی آپ کی سماعتوں سے ٹکرایا ہو ، یہ گیت نغمہ نگار اور کہانی نویس ناظم پانی پتی نے لکھا تھا۔اس گیت کی موسیقی موسیقار اعظم ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی تھی جو اس وقت بمبئی کی فلم انڈسٹری پر چھائے ہوئے تھے۔ وہ موسیقی میں تجربے کرنے کے بہت شائق تھے اور نئی آوازوں کے متلاشی رہتے تھے۔ فلمی ادارے کے میوزک روم میں ماسٹر صاحب کے ساتھ نذیر اجمری اور یونٹ سے تعلق رکھنے والے دیگر لوگ بھی بیٹھے تھے۔ ماسٹر صاحب کے سامنے ہارمونیم پڑا تھا۔ سامنے کرسی پر ایک دھان پان سی لڑکی بیٹھی تھی۔بائیں طرف نغمہ نگار ناظم پانی پتی براجمان تھا۔ ماسٹر غلام حیدر نے مسکرا کر ناظم سے کہا کہ یہ لڑکی آپ کے گیت سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کرے گی اور اس کا نام لتا ہے،لتا منگیشکر۔ نذیر اجمری نے ''مجبور‘‘کی ایک سچویشن ناظم پانی پتی کو سمجھائی۔ انہوں نے اس سچویشن پر ایک دو مکھڑے کہے جن میں سے یہ مکھڑا پسند کر لیا گیا ''دل میرا توڑا مجھے کہیں کا نہ چھوڑا، تیرے پیار نے‘‘۔ جب گیت کی ریکارڈنگ شروع ہوئی تو سب لوگ جھوم رہے تھے۔ اس گیت نے جہاں لتا کو شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا وہاں ناظم پانی پتی کو بھی صف اوّل کے گیت نگاروں میں شامل کر دیا ۔ اس دور کے نامور اداکار اور فلمساز سہراب مودی نے اپنی اگلی فلم ''شیش محل‘‘کیلئے ناظم صاحب کو تمام گیت لکھنے کیلئے بک کر لیا۔جس گیت نے ناظم صاحب کو فلم بینوں سے بھرپور انداز میں متعارف کرایا وہ محمد رفیع کا گایا ہوا تھا، اس کے بول تھے:جگ والا میلہ یار تھوڑی دیر داہنسدیا ں رات لنگے پتا نیئں سویر دا یہ گیت پنجابی فلم ''لچھی‘‘کیلئے لکھا گیا تھا۔ جس سے ناظم صاحب کو اتنی مقبولیت ملی کہ فلمی دنیا میں ان کا طوطی بولنے لگا۔ناظم پانی پتی نے اپنے بڑے بھائی ولی جوگرامو فون کمپنیوں کیلئے گیت لکھا کرتے تھے کی دیکھا دیکھی گراموفون کمپنیوں کیلئے گیت لکھنے شروع کر دئیے۔ ان کمپنیوں کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر ، ماسٹر جھنڈے خاں ، بھائی لال محمد ، ماسٹر عنایت حسین اور جی اے چشتی تھے۔ لاہور میں بننے والی پنجابی فلم ''یملا جٹ‘‘ جو بے حد مقبول ہوئی۔ اس کے بعد لاہور ہی میں خزانچی ، منگتی، خاندان، دلا بھٹی، زمیدار، پونجی، چوہدری اور داسی جیسی فلمیں بنیں۔ ان فلموں نے ہندوستان میں مسلمان فنکاروں کی دھوم مچا دی ۔ ناظم پانی پتی بطور گیت نگار ، سکرین پلے رائٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ان تمام فلموں سے منسلک رہے۔نامور صحا فی سعید ملک نے ناظم پانی پتی کا ان کی زندگی میں ایک طویل انٹرویو لیا جو انگریزی روزنامے میں پانچ قسطوں میں چھپا تھا۔ اس میں ناظم صاحب نے انکشاف کیا تھا کہ میں بمبئی کے علاقے باندرہ میں رہتا تھا۔ گھر کے قریب ایک پارک تھا۔ وہاں میں کبھی کبھار اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرنے چلا جاتا تھا۔ وہاں بدر الدین نام کا ایک نوجوان مجھ سے بڑی عقیدت اور ادب کے ساتھ پیش آتا ، مجھے سگریٹ لا کر دیتا ، کبھی کبھی سر کی مالش بھی کیا کرتا تھا۔ بدر الدین اس زمانے کے مشہور اداکاروں کی کامیاب نقل اتارا کرتا تھا ۔ ایک روز اس نے مجھ سے فلم میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، میں اسے مقامی سٹوڈیو میں لے گیا جہاں فلم ''بازی‘‘کیلئے جیل سے قیدیوں کا جیل سے فرار کا منظر فلمایا جا رہا تھا ۔ڈائریکٹر نے میری سفارش پر بدر الدین کو ایک شرابی کا رول دے دیا ۔ اس نے یہ رول اس خوبی سے ادا کیا کہ سب حیران رہ گئے ۔ اس دن سے وہ فلمی دنیا میں جانی واکر کے نام سے مشہور ہو گیا ۔نامور ڈانسر ہیلن کو بھی ناظم صاحب نے اپنے بھائی کی فلموں سے متعارف کرایا۔ بمبئی میں نام کمانے کے بعد 1952ء میں وہ اپنے بڑے بھائی ولی صاحب کے ساتھ لاہور آگئے اور ان کی تیار کردہ فلموں ''گڈی گڈا‘‘،''سوہنی کمیارن‘‘ اور ''مٹی دیاں مورتاں‘‘ کے ساتھ ساتھ دیگر فلموں کیلئے بھی گیت لکھے ۔ بالخصوص ان کی لکھی فلم ''لخت جگر‘‘کی لوری''چندا کی نگری سے آجا ری نندیا‘‘ پاکستان کی مقبول ترین لوریوں میں شمار ہوتی ہے۔ انہوں نے شباب کیرا نوی کی فلم ''آئینہ‘‘ اور ''انسانیت‘‘کیلئے بھی گیت لکھے ۔ ایس ایم یوسف کی فلم''سہیلی‘‘اور رضا میر کی فلم ''بیٹی‘‘ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور کہانی نویس تھے۔پاکستان میں ٹیلی ویژن کے آنے پر موسیقی کے پروگرام ''جھنکار‘‘کیلئے انہوں نے متعدد گیت لکھے۔ 1966ء میں ریڈیو پاکستان سے جب کمرشل پروگرام اور اشتہارات شروع ہوئے تو وہ اشتہاری کمپنیوں سے بطور کاپی رائٹر منسلک ہو گئے اورکئی یادگار سلوگن لکھے جن میں ''ہم تو جانے سیدھی بات، صابن ہو تو سات سو سات‘‘ اور''اٹھ میرے بیلیا پاڈان تیرے کول اے‘‘ شامل ہیں ۔ناظم پانی پتی کے قریبی دوستوں میں موسیقار خیام، نصیر انور، گلوکار سلیم رضا، اداکار ساقی، بھارتی فلمساز و ہدایتکار راجند بھاٹیہ، گلوکار جی ایم درانی ، سید شوکت حسین رضوی ، آغا جی اے گل ، رضا میر اور سعاد ت حسن منٹو شامل تھے ۔ یاد رہے کہ منٹو کو ان کی وفات پر ناظم صاحب نے ہی غسل دیا اور کفنانے کا فریضہ ادا کیا۔ناظم پانی پتی نے زندگی کے آخری سال خاموشی اور گمنامی میں گزارے۔ عمرہ ادا کیا اور واپسی پر یہ شعر موزوں کیا:پڑا رہ مدینے کی گلیوں میں ناظم تو جنت میں جا کر بھلا کیا کرے گا وفات (18 جون 1998ء) سے چند روز قبل ناظم انہوں نے میری ڈائری پر اپنے ہاتھ سے یہ بند لکھا جو ان کی زندگی کی آخری تحریر اور تخلیق ثابت ہوئی :چراغ کا تیل ختم ہو چکا ہے زندگی کا کھیل ختم ہو چکا ہے سانس ہو رہے ہیں آزاد عرصہ جیل ختم ہو چکا ہے   

طلبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں کیا سیکھیں؟

طلبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں کیا سیکھیں؟

آئی ٹی کی وہ مہارتیں جو وقت کی ضرورت ہیں گرمیوں کی چھٹیاں طالب علموں کے لیے ایک نہایت خوشگوار وقت ہوتی ہیں۔ سکول، کالج یا یونیورسٹی کے معمولات سے وقتی آزادی ملتی ہے اور زندگی میں ایک غیر رسمی، آزاد اور ہلکا پھلکا وقفہ آ جاتا ہے۔ لیکن یہ تعطیلات صرف آرام، تفریح یا سیر و تفریح تک محدود نہ رہیں تو بہتر ہے۔ضروری ہے کہ انہیں اپنی شخصیت، مہارت اور مستقبل کو سنوارنے کے لیے استعمال کیا جا ئے۔ موجودہ دور میں جہاں ٹیکنالوجی ہر شعبہ زندگی میں داخل ہو چکی ہے، وہاں آئی ٹی کے میدان میں مہارت حاصل کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے۔آئی ٹی نہ صرف تعلیمی ترقی میں مددگار ہے بلکہ یہ روزگار، فری لانسنگ، آن لائن کاروبار اورذاتی صلاحیت بڑھانے کے لیے بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں طلبہ اگر آئی ٹی کی مختلف مہارتیں سیکھنے کا ارادہ کر لیں تو چند ماہ میں وہ اپنے لیے نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ کن اہم شعبوں میں طلبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں آئی ٹی کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں:بنیادی کمپیوٹر کورسیہ سب سے پہلا اور ضروری قدم ہے، خاص طور پر ان طلبہ کے لیے جنہیں کمپیوٹر استعمال کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے یا جنہیں سکول میں یہ سہولت میسر نہیں۔بیسک کورس میں جو مہارتیں شامل ہیں ان میںMS Word، Excel اور PowerPoint کی سمجھ بوجھ اردو اور انگلش ٹائپنگ‘انٹرنیٹ براؤزنگ، ای میل استعمال، فائل مینجمنٹ‘گوگل ڈرائیو، گوگل ڈاکس، گوگل شیٹس وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔یہ کورس چھٹی جماعت سے اوپر کے طلبہ کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے اور زیادہ تر ادارے یا یوٹیوب چینلز مفت یا معمولی فیس پر یہ سکھا رہے ہیں۔ گرافک ڈیزائننگ :گرافک ڈیزائننگ آج کل کی سب سے مقبول اور کم وقت میں سیکھی جاسکنے والی مہارت ہے۔ اگر کوئی طالب علم تخلیقی ذہن رکھتا ہے تو یہ اس کے لیے بہترین ہے۔اس میں طلبہ کو Photoshop اور Illustrator کی بنیادی تربیت اور Canva کے ذریعے سادہ پوسٹرز، لوگو اور سوشل میڈیا ڈیزائن بروشر، فلائر، بزنس کارڈز بناناتھمب نیل ڈیزائننگ اور یوٹیوب بینر تیار کرنا سیکھنے کی ضرورت ہے۔یہ مہارتیں کم وقت میں سیکھی جا سکتی ہیں اور فری لانسنگ کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔ ویب ڈویلپمنٹ :انٹرنیٹ کے اس دور میں ہر فرد، کمپنی یا ادارے کو ویب سائٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ویب سائٹ بنانا فائدہ من مہارت ہے جسے چھٹیوں میں سیکھ کر طلبہ مستقبل میں اپنی ویب سائٹ بنا سکتے ہیں یا دوسروں کے لیے پروجیکٹس تیار کر سکتے ہیں۔یہ سیکھنے کے لیےHTML، CSS، JavaScript کی بنیادی مہارت کی ضرورت ہے یا WordPress سے بغیر کوڈنگ کے ویب سائٹ بناناسیکھا جاسکتا ہے۔یہ کورس 14 سال یا اس سے بڑے طلبہ کے لیے موزوں ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ :یہ شعبہ ان طلبہ کے لیے بہترین ہے جو سوشل میڈیا، آن لائن بزنس یا کاروباری سوچ رکھتے ہیں۔ڈیجیٹل مارکیٹنگ سیکھنے کے لیے سوشل میڈیا مارکیٹنگ‘SEO (سرچ انجن آپٹیمائزیشن)‘ای میل مارکیٹنگ‘ Google Ads اور Analytics کا تعارف ضروری ہے۔ڈیجیٹل مارکیٹنگ سیکھنے والے طلبہ اپنی فیس بک پیج یا یوٹیوب چینل کو کامیابی سے چلا سکتے ہیں۔ ویڈیو ایڈیٹنگ اور یوٹیوبنگاگر کسی طالب علم کو ویڈیو بنانا یا بولنا پسند ہے تو وہ یوٹیوب چینل بنا کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ اس کے لیے ویڈیو ایڈیٹنگ سیکھنا لازمی ہے۔اس کے لیے CapCut، VN، Filmora یا Adobe Premiereجیسے سافٹ ویئر سیکھنے کی ضرورت ہے۔یہ مہارت چھوٹے اور بڑے دونوں طلبہ کے لیے کارآمد ہے۔ پروگرامنگ یا کوڈنگ سیکھنا ماہرین کہتے ہیں کہ مستقبل کی زبان ''کوڈنگ‘‘ ہے؛چنانچہ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو چھوٹی عمر سے کوڈنگ سکھائی جا رہی ہے۔اس کے لیے ابتدائی سطح کے لیےScratch ،اس کے بعدPython اورسادہ موبائل ایپس بنانے کے لیے MIT App Inventor سیکھنی چاہیے۔یہ وہ مہارت ہے جو آگے چل کر سوفٹ ویئر انجینئرنگ، ایپ ڈیویلپمنٹ یا گیم ڈیویلپمنٹ میں مددگار ہوگی۔اگر کوئی طالب علم اپنی سیکھی ہوئی مہارت کو آمدنی کے لیے استعمال کرنا چاہے تو فری لانسنگ ایک بہترین راستہ ہے۔اس کے لیے Fiverr، Upwork اور Freelancer پر پروفائل بنانا سیکھنا چاہیے۔یہ ان طلبہ کے لیے مفید ہے جو 16 سال یا اس سے بڑے ہوں۔ موبائل ایپ ڈیولپمنٹ :یہ موبائل ایپس کا دور ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی ایپ پر انحصار کرتا ہے۔ اگر کوئی طالب علم موبائل ایپس بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ چھٹیوں میں یہ مہارت حاصل کر سکتا ہے۔اس کیلئےMIT App Inventor، Thunkable اور Flutter (تھوڑا ایڈوانس لیول کا پروگرام) سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سائبر سیکیورٹی کی بنیادی تربیت جو طلبہ کو آن لائن خود بھی محفوظ رہنے میں مدد دیتی ہے اور دوسروں کی رہنمائی کے لیے بھی، کارآمد ہے۔اس کیلئے آن لائن سیفٹی، پاس ورڈ مینجمنٹ فشنگ، وائرس اور سپائی ویئر سے بچاؤ اور Ethical hacking سیکھنا چاہیے۔ان مہارتوں کو سیکھنے کے لیے آن لائن بہت سے پلیٹ فارم دستیاب ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ٹی کا شعبہ صرف تعلیم یا نوکری تک محدود نہیں رہا بلکہ اب ہر شخص کی روزمرہ زندگی، کاروبار اور اظہار کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ طالب علموں کے لیے گرمیوں کی چھٹیاں ایک شاندار موقع ہیں کہ وہ اس انقلابی دنیا میں قدم رکھیں۔ ایک سادہ سا کورس، چند گھنٹے کی محنت سے شروع کیا گیا یہ سفر ایک دن انہیں خود کفیل، قابلِ فخر اور کامیاب انسان بنا سکتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

امریکہ اور برطانیہ کے اتحادیوں کی جنگ18جون1812ء میں ریاستہائے متحدہ امریکہ اور اس کے مقامی اتحادیوں، برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان ایک لڑائی ہوئی جسے ''1812ء کی جنگ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں اس وقت کی دو بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی تھیں۔اس لڑائی میں سپین نے بھی محدود پیمانے پر شرکت کی۔ ا س جنگ کا آغازاس وقت ہوا جب 18 جون 1812ء کوامریکہ نے برطانیہ کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ اس لڑائی کے بعد ایک معاہدہ بھی کیا گیا جس میں امن کی شرائط کو تسلیم کر لیا گیا۔آرگیو تنازع18جون1984ء برٹش سٹیل کارپوریشن کے کوکنگ پلانٹ میں ساؤتھ یارکشائرپولیس اور میٹروپولیٹن پو لیس سمیت دیگر پولیس فورسز کے اہلکاروں اور ملازمین کے درمیان ایک بہت بڑا تصادم ہوا۔یہ واقعہ برطانیہ کے کان کنوں کی ہڑتال کے دوران پیش آیا۔اس واقعہ کو برطانیہ کی سب سے زیادہ پر تشدد جھڑپوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس تصادم کو پولیس کی جانب سے اپنے دفاع کی کوشش دکھایا گیا جو انہوں نے اپنی جان بچانے کیلئے ملازمین کے خلاف ایکشن لیا۔ اوساکا میں شدید زلزلہ18 جون 2018ء کو جاپان کے معیاری وقت کے مطابق صبح 7 بجکر58منٹ پر، جاپان کے شمالی شہر اوساکا میں 5.5 شدت کا زلزلہ آیا۔ زلزلے کا مرکز تاکاٹسوکی کے قریب تھا اور اس کی گہرائی تقریباً 13 کلومیٹر تھی۔زلزلے کے جھٹکے اوساکا اور کیوٹو کے قریبی میٹروپولیٹن علاقوں میں شدت سے محسوس کیے گئے، جس سے ایک لاکھ 70 ہزار گھروں اور عمارتوں میں بجلی اور گیس کی سروس عارضی طور پر متاثر ہوئی۔ اس زلزلے میںچار افراد ہلاک، 15 شدید زخمی اور 419 افراد کو معمولی چوٹیں آئیں۔پہلی امریکی عورت خلا میں1983ء میں آج کے روز سیلی رائیڈ (Sally Ride)ناسا کی خلائی شٹل ''چیلنجر‘‘ کے ذریعے خلا میں جانے والی پہلی امریکی خاتون بنیں۔ ان کا یہ کارنامہ خواتین کیلئے خلائی تحقیق کے دروازے کھولنے والا ثابت ہوا۔سیلی رائیڈ کا خلا میں جانا نہ صرف امریکی خلائی تاریخ کا اہم لمحہ تھا بلکہ یہ دنیا بھر کی خواتین کیلئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک علامتی کامیابی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ 1978ء کے پہلے گروپ کی 6 خواتین میں شامل تھیں جنہیں خلا بازوں کی تربیت دی گئی۔  

یادرفتگاں طارق عزیز:ایک عہد ساز شخصیت

یادرفتگاں طارق عزیز:ایک عہد ساز شخصیت

کمپیئر،شاعر، سیاست دان، کالم نگار اور اداکارکی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاپاکستانی ٹیلی وژن کی تاریخ چند ایسی شخصیات سے مزین ہے جنہوں نے نہ صرف اپنے فن سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی بلکہ قوم کے شعور کو بیدار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہی درخشاں ستاروں میں ایک نام طارق عزیز کا ہے۔ وہ نابغہ روزگار شخصیت، جنہوں نے اداکاری، کمپیئرنگ، شاعری اور سیاست میں اپنی منفرد پہچان بنائی۔1960 ء کی دہائی میں اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے طارق عزیز، وہ پہلے کمپیئر تھے جن کی آواز نے پاکستان ٹیلی وژن کی افتتاحی نشریات کو نئی زندگی بخشی۔ ''یہ ہے پی ٹی وی لاہور‘‘ کی صدا آج بھی ان کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ ان کے مقبول عام پروگرام ''نیلام گھر‘‘ نے نہ صرف تفریح بلکہ تعلیم و تہذیب کا ذریعہ بن کر گھر گھر مقبولیت حاصل کی۔طارق عزیز محض ایک تفریحی میزبان نہ تھے بلکہ وہ ایک باوقار، علم دوست اور شائستہ شخصیت تھے، جنہوں نے ہر پلیٹ فارم پر قومی تشخص کو نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ طارق عزیز کی شخصیت کا کینوس بہت وسیع تھا، کمپیئر،شاعر، سیاست دان، کالم نگار اور اداکارکی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اب بھلا کون ایسا شخص ہوگا جس میں یہ سارے اوصاف ہوں۔وہ ایک عہد سا ز شخصیت تھے۔فلم ہو یا ڈرامہ، اسٹیج شوہو یاادب، ہر میدان میں طارق عزیزنے اپنے نقش چھوڑے،مگر ان کی سب سے بڑی پہچان ان کی دبنگ آواز ، خوبصورت تلفظ اور ادب پر عبور تھا۔ جیسی بھرپور زندگی انہوں نے گزاری بہت کم لوگ ایسی زندگی گزارتے ہیں ۔ اس لحاظ سے وہ خوش قسمت بھی تھے۔ان کا سب سے بڑا اعزاز یہ تھا کہ جب 26 نومبر 1964ء کوسرکاری ٹی وی کا آغاز ہوا تھا تو منی سکرین پر نظر آنے والی پہلی صورت طارق عزیز مرحوم ہی کی تھی۔اس سے قبل ان کی بطور اداکار پہلی فلم ''خاموش رہو‘‘ (1964ء) ریلیز ہو چکی تھی ،جس میں وہ فلم کے آخر میں ایک وکیل کے کردار میں نظر آئے تھے۔طارق عزیز کی ایک پہچان اسٹیج شو ''نیلام گھر‘‘بنا،جو پاکستان کا پہلا گیم شو تھااور چار دہائیوں تک پی ٹی وی پر آن ایئر رہا، گویاطارق عزیز اور نیلام گھر لازم و ملزوم تھے۔طارق عزیز 1936ء میں بھارتی شہر جالندھر میں میاں عبدالعزیز کے ہاں پیدا ہوئے۔ طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم جالندھر میں حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ صوبہ پنجاب آ گئے، بچپن ساہیوال میں گزارا۔وہ پانچ بہن بھائی (دو بھائی تین بہنیں)تھے۔ 1960ء یا61 میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور انائونسر اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ 1962ء میں بی اے کرنے کے بعد نیوز ایجنسی پی پی آئی میں ملازم ہوگئے ، ایم اے جرنلزم کی ڈگری بھی حاصل کی۔1964 ء میں ٹیلی ویژن کا قیام عمل میں آیا تو وہ ٹی وی کے سب سے پہلے مرد اناؤنسر بنے، 1975ء میں سرکاری ٹی وی سے پروگرام ''نیلام گھر‘‘ شروع کیا اور کم و بیش 40 سال تک پروگرام کی میزبانی کرتے رہے، جسے بعد میں ''طارق عزیز شو‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ 17جون 2020ء کو 84 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا ۔انہیں 1992ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیاگیا۔طارق عزیز نے ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، ان کے کریڈت پر 36فلمیں ہیں، جن میں 32 اردو اور چار پنجابی فلمیں شامل ہیں۔اس شعبہ میں خوبصورت آواز اور منفرد لہجے کے مالک طارق عزیز اپنی آواز کا بہت فائدہ اٹھاتے تھے۔ ایک تو آواز خوبصورت اور گھمبیر اور دوسرے مکالمے بولنے کا انداز بھی دلکش تو ایسا اداکار لوگوں کے ذہنوں پر نقوش کیوں نہیں چھوڑ ے گا۔ان کی پہلی فلم ''خاموش رہو‘‘ اور آخری فلم ''ماں بنی دلہن‘‘ تھی جو 1987ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد وہ فلموں سے مکمل طور پر کنارہ کش ہوگئے ۔ طارق عزیز کو سیاست میں بھی دلچسپی تھی اور وہ 70ء کے عشرہ میں ذوالفقار علی بھٹو جیسی طلسماتی شخصیت کے سحر میں مبتلا تھے۔ 1970ء میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔وہ پرجوش مقرر تھے اور اپنی شعلہ بیانی سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ 1972ء میں جب بھٹو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شملہ گئے تو طارق عزیز اس وفد میں شامل تھے۔ 1988 ء میں جب پیپلز پارٹی دوبارہ برسر اقتدار آئی تو نیلام گھر اس وقت بھی سرکاری ٹی وی سے دکھایا جارہا تھا۔ اگست 1990ء میں اسحاق خان نے پی پی پی کی حکومت ختم کر دی۔ 1997ء میں وہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر ممبر قومی اسمبلی بنے ۔طارق عزیز ، شوبز کی دنیا کی واحد ہستی تھے جنھوں نے 1997ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں لاہور کے ایک حلقہ سے سابق وزیر اعظم عمران خان کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ ان پر سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کا الزام بھی تھا۔جنرل مشرف کے دور میں انہوں نے مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کرلی لیکن ان کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی۔جس کے بعد وہ سیاست سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ طارق عزیز کی علم و ادب سے محبت طارق عزیز علم و ادب اور کتاب سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع رہا۔وہ اردو اور پنجابی کے ایک بہترین شاعر بھی تھے اور انھیں بے شمار شعراء کرام کے اشعار زبانی یاد ہوتے تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ان کے چاہنے والوں نے دیکھا کہ اپنے 40 سالہ طویل ٹی وی شو میں کسی قابل ذکر شاعر کا کوئی ایسا شعر نہ تھا جو انہیں ازبر نہ ہوتا۔وہ ایک کالم نگار بھی تھے ، ان کا ایک اخبار میں کالم باقاعدگی سے چھپتا تھا۔ ان کے کالموں کا ایک مجموعہ ''داستان‘‘ کے نام سے اورپنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ''ہمزاد دا دکھ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں!یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملاکسی کو ہم نہ ملے اور ہمیں تو نہ ملاہم وہ سیاہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں کھولے دکان کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیںجزا سزا دے وہم نےکجھ وی کرن نہ دِتازندہ رہن دے سہم نےچج نال مرن نہ دِتاکون سی اوہ تے کون ساں میںسارے رنگ خیالاں دےاِک دوجے نوں دس نئیں سکدےقِصے عجب ملالاں دے    

 خطرناک گزرگاہیں

خطرناک گزرگاہیں

دنیا بھر کی خطرناک ترین گزرگاہیں اپنی تعمیر، محل وقوع، اونچائی، طوالت اور موسم کی وجہ سے عام سڑکوں کی نسبت مختلف ہیں۔ ان کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔گاؤلنگ ٹنل روڈیہ سرنگ محض 16 فٹ لمبی اور 13 فٹ چوڑی ہے جب کہ اِس میں کھلنے والی 30 کھڑکیاں سفر کرنے والے کی توجہ کھینچ لیتی ہیں۔اسے 13 دیہاتیوں نے مل کر 5 برس میں ہتھوڑیوں اور چھینیوں کی مدد سے تعمیر کیا تھا۔ طویل راہداریوں اور پہاڑوں والی اِس سرنگ کا شمار دنیا کے خطرناک راستوں میں ہوتا ہے۔ لاس چاکا کولاسیہ ارجنٹینا اور چلی کے مشترکہ بارڈر پر تعمیر شدہ 5 ہزار میل طویل خطرناک موڑ والی سڑک ہے جسے مقامی افراد '' گھونگے کا خول‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ انڈس ارجنٹینا سے شروع ہو کر چلی تک جانے پر یہ سڑک تقریباً سال بھر برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ یہ سڑک 20 مقامات پر ہئیر پن کی مانند بل کھاتی ہے۔سیاچن تبت ہائی وے13 سو میل طویل سیاچن بائی پاس آپ کو چین کے صوبے سیاچن سے تبت پہنچا دے گا۔ دنیا کا اونچا ترین اور خطرناک ہائی وے ہے، اونچائی کی وجہ سے آکسیجن کی کمی اسے جان لیوا بناسکتی ہے۔ اطراف میں برفیلے اور پتھریلے پہاڑ ہیں، برفانی طوفان اور لینڈ سلائیڈنگ معمول کی بات ہے۔ یہاں سال میں 10 مہینے تک بارش اور برفباری ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ آپ یہاں پھنس بھی سکتے ہیں، بعض اوقات سیاچن ہائی وے پر سفر کرنے والے ڈرائیورز کئی ہفتوں تک پھنسے رہتے ہیں۔اسکیپرز کینئیون روڈاب دنیا کے جس خطرناک راستے کے بارے میں ہم آپ کو اب بتا رہے ہیں وہ نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرہ پر واقع ہے جسے اسکیپرز کینئیون روڈ کہا جاتا ہے۔ اِس سڑک کی تعمیر 140 برس قبل بجری کی گئی، یہ 16 میل طویل انتہائی تنگ سڑک ہے، ایک وقت میں ایک گاڑی ہی گزر سکتی ہے۔شمالی ینگاس روڈ12 فٹ چوڑی شمالی ینگاس روڈ کے ایک جانب پہاڑی کارڈیلرا نامی پہاڑ ی سلسلہ ہے جو سالانہ 300 حادثات کا سبب بنتا ہے۔ بولیویا میں واقع اس سڑک کی خاص بات ڈرائیور کا بائیں طرف ہونا ہے، جس کی وجہ سے آپ اونچائی سے نیچے کی جانب آتے ہوئے ارد گرد کے دلکش نظاروں سے لطف اندوزہوسکتے ہیں۔جیمز ڈیلٹن ہائی وےیہ ہائی وے 414میل لمبی ہے ۔ 1974ء میں الاسکا پائپ لائن نظام کیلئے اسے سپلائی روٹ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس طویل ترین سڑک کی سب سے خطرناک بات الاسکا کے جنگلات کی وجہ سے سفری سہولت کا فقدان ہے۔ یہاں کسی قسم کا کوئی بھی ایندھن ، ریستوران یا ہوٹل میسر نہیں۔ یہاں درجہ حرارت بھی عموماً صفر رہتا ہے۔قراقرم ہائی وےقراقرم ہائی وے کو دنیا میں سب سے اونچائی پر تعمیر شدہ پختہ سڑک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ چین اور پاکستان کو خنجراب بائی پاس کے ذریعے دنیا سے جوڑتا ہے۔ قراقرم روڈ 8 سو کلومیٹر طویل ہے۔ اس وے پر سفر کرتے وقت اونچائی اور سرد موسم کے ساتھ لینڈ سلائیڈنگ کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ ہائی وے کے ایک جانب دیوار ہے جب کہ دوسری جانب کسی قسم کا کوئی حفاظتی بیرئیر نہیں اور ہزاروں فٹ گہری کھائیاں ہیں۔اٹلانٹک روڈیہ سڑک 5 میل طویل ہے، یہ ایک ایسی راہ گزر ہے جہاں لگتا ہے کہ زمین، سمندر سے ملتی ہے۔ یہاں سے متاثر کن مگر خوفناک منظر دکھائی دیتا ہے۔ یہ سڑک ایک رولر کوسٹر کی مانند نظر آتی ہے جس سے 8 مختلف پل نکلتے ہیں جو نارویجن جزیروں کو جوڑتے ہیں۔ سمندر کی لہریں مسلسل پل سے سے ٹکراتی ہوئی دوسری جانب نکل جاتی ہیںیہ منظر بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

مجسمۂ آزادی امریکہ پہنچا17 جون 1885ء کو دنیا کے مشہور ترین یادگاروں میں سے ایک ''مجسمۂ آزادی‘‘ (Statue of Liberty) فرانس سے بحری جہاز''ایسر‘‘ (Isère) کے ذریعے امریکہ پہنچا۔ یہ دن نہ صرف امریکہ کی تاریخ میں بلکہ عالمی ثقافتی ورثے میں بھی ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔یہ مجسمہ فرانس کی حکومت اور عوام کی جانب سے امریکہ کو تحفے کے طور پر دیا گیا تھا۔اس مجسمے کو فرانسیسی مجسمہ ساز فریڈرک اگست بارتھولدی(Frederic Auguste Bartholdi) نے ڈیزائن کیا۔اس کا ڈھانچہ مشہور انجینئر گستاو ایفل (ایفل ٹاور کے خالق) نے تیار کیا۔مکمل مجسمہ تانبے (copper) سے بنایا گیا ہے اور اس کی اونچائی بنیاد سے لے کر مشعل تک 151 فٹ ہے، جبکہ بیسمنٹ سمیت یہ تقریباً 305 فٹ بلند ہے۔ترکیہ میں 18سال بعد عربی میں اذان17جون ترکیہ کی اسلامی تاریخ میں ایک یادگار دن کے طورپر منایا جاتا ہے جب 18سال بعد وزیر اعظم عدنان میندریس کے دور حکومت میں 17 جون 1950ء میں ملک کے طول و عرض میں پہلی مرتبہ عربی میں اذان دی گئی۔دوسری عالمی جنگ کے بعد ترکیہ کو بہت سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ،جنگ کے بعد ترکیہ میں قائم ہونے والی نئی حکومت نے جدید ترکیہ کی بنیاد رکھی جس میں بہت سے پالیسیاں ترتیب دی گئیں جن میں اذان کا مقامی زبان میں دیا جانا اور سکارف لینے پر پابندی بھی شامل تھی۔ چین نے پہلے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا17جون1967ء کو چین نے اپنے پہلے تھرمونیوکلیئر ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا۔ یہ تجربہ چین کے تین مرحلوں والے تھرمونیوکلیئر ڈیوائس پروگرام کے تحت کیا گیا۔ یہ چین کا سب سے بڑا نیوکلیئر پروگرام تھا اور تھرمو نیوکلیئر دھماکے کا کوڈ نام ''ٹیسٹ6‘‘ رکھا گیا۔بعد ازاں تھرمو نیوکلیئر اور اس جیسے تمام تجربات کو ایک ہی پروگرام میں شامل کر دیا گیا جسے '' دوبم، ایک سیٹلائیٹ‘‘(Two Bomb one Setallite)کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔