پومپئی:عبرت،حیرت اور سیاحت کا مقام

اسپیشل فیچر
اطالوی تاریخ کا ایسا باب جسے راکھ میں دفن ہو جانے کے باوجود دنیا نے فراموش نہ کیا
پومپئی ایک قدیم رومن شہر، جسے اچانک آتش فشانی راکھ نے نگل لیا، آج بھی سیاحوں، ماہرین آثارِ قدیمہ اور تاریخ کے متوالوں کیلئے حیرت کا استعارہ بنا ہوا ہے۔ تقریباً دو ہزار سال گزر جانے کے باوجود یہ شہر آج بھی زندہ لگتا ہے۔ دیواروں پر لکھی تحریریں، برتن، فرنیچر اور یہاں تک کہ انسانوں کے ڈھانچے تک یہاں موجود ہیں۔
79بعد از مسیح پومپئی میں زندگی اچانک موت میں تبدیل ہوگئی۔ آتش فشاں پہاڑ آگ اگلنے لگا،سیاہ دھواں چاروں جانب پھیل گیا۔ آبادی کی اکثریت خوف و ہراس کاشکار ہوگئی۔ کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو اپنے گھروں میں بند کرلیا۔ وہ یہ امید رکھتے تھے کہ مصیبت کی یہ گڑھی بالآخر ٹل جائے گی لیکن وہ بھی بچ نہ سکے اور زہریلے دھوئیں کے اثرات کی بدولت موت سے ہمکنار ہوگئے۔ ان کی لاشیں زیر زمین دب کر رہ گئیں اور1600برس تک زیر زمین دبی رہیں۔
تاریخی پس منظر
پومپئی موجودہ اٹلی کے شہر نیپلز کے قریب ایک خوشحال رومن بستی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ چھٹی صدی قبل مسیح میں قائم ہوئی۔ بازار، تھیٹر، حمام، عبادت گاہیں، فوارے اور شاہانہ مکانات سمیت یہاں رومن تہذیب کی تمام سہولتیں میسر تھیں۔ شہر کی آبادی اندازاً 10ہزار سے 20ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ زرخیز زمین، خوشگوار موسم اور بندرگاہ کی موجودگی نے اسے تجارتی مرکز بنا دیا تھا۔ یہاں کی سڑکیں پتھروں سے بنی تھیں اور گلیوں میں پانی کی نکاسی کا مربوط نظام بھی موجود تھا،جو اس وقت کے شہری منصوبہ بندی کی ترقی یافتہ حالت کو ظاہر کرتا ہے۔
تباہی کا دن
پومپئی کی تقدیر کا وہ لمحہ 79 بعد از مسیح کو آیا، جب قریب واقع آتش فشاں پہاڑ اچانک پھٹ پڑا۔ اس زوردار دھماکے کے نتیجے میں لاوے، آتش فشانی راکھ اور زہریلی گیسوں کے طوفان نے صرف چند گھنٹوں میں شہر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ پہلے پہل راکھ کی ہلکی بارش ہوئی، جسے لوگ معمول کا مظاہرہ سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے مگر چند ہی گھنٹوں بعد آسمان سیاہ ہو گیا اور زہریلا ملبہ اتنی شدت سے برسنے لگا کہ پوری بستیاں دب گئیں۔ تقریباً 16 سے 20 فٹ اونچی راکھ اور پتھروں نے ہر چیز کو ڈھانپ لیا۔ انسان، جانور، عمارتیں سب کچھ اسی ملبے میں قید ہو کر رہ گیا۔
وقت کی قید میں زندگی
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ پومپئی کی تباہی ایک بدترین سانحہ ہونے کے باوجود انسانوں کو قدیم رومن زندگی کی جھلک دکھانے والا سب سے محفوظ مقام بھی ہے۔ جب صدیوں بعد اس شہر کی کھدائی شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ راکھ نے ہر چیز کو اس حال میں ''منجمد‘‘ کر دیا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ مٹی میں دبی لاشیں خالی خول بن چکی تھیں۔ ماہرین آثار قدیمہ نے ان خالی جگہوں میں پلاسٹر بھر کر انسانی شکلیں محفوظ کر لیں۔ کوئی نماز جیسی حالت میں، کوئی دوڑنے کی کوشش میں، کوئی بچہ ماں سے لپٹا ہوا، یہ سب مناظر آج بھی دل دہلا دیتے ہیں۔
دریافت اور کھدائی
پہلی بار پومپئی کو 1599ء میں پانی کی نہر کھودتے وقت دریافت کیا گیا۔ اصل کھدائی 1748ء میں شروع ہوئی۔ تب سے لے کر آج تک یہ جگہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے دلچسپی کا محور بنی ہوئی ہے۔ جوں ہی آتش فشاں پہاڑ کی راکھ کو کھود کر عمارات کوباہر نکالا گیا ماہر آثار قدیمہ کو وہ دکانیں دیکھنے کو ملیں جن میں ڈبل روٹی، مچھلی، گوشت، دالیں اور دیگر اشیائے خورونوش کی باقیات موجود تھیں۔ اس کے علاوہ عوامی غسل خانے، کھیلوں کے مقامات اور تھیٹر وغیرہ بھی منظر عام پرآئے۔ کھدائی کی بدولت برآمد ہونے والی عمارات سے اس قصبے کے مکینوں کی شاندار طرز زندگی کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔ اس میں عوامی عمارات، عبادت گاہیں تھیں اور بادشاہوں کے مجسمے بھی نصب تھے۔ قصبے کی سیاسی زندگی کے آثار بھی ملے تھے۔ دیواروں پرسیاسی نعرے درج تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کی دیواروں پر آج بھی ''گرافٹی‘‘ (Graffiti) یعنی ہاتھ سے لکھی گئی تحریریں موجود ہیں، جو اس وقت کے سماجی و معاشی حالات کا پتہ دیتی ہیں۔
ثقافتی ورثہ
پومپئی کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ثقافتی ورثہ (UNESCO) نے 1997ء میں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا۔ ہر سال تقریباً 25 لاکھ سیاح اس مقام پر آتے ہیں تاکہ قدیم رومن تہذیب کو قریب سے دیکھ سکیں۔ یہ مقام نہ صرف تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کیلئے قیمتی ہے بلکہ عام انسانوں کیلئے بھی وقت کی بے ثباتی کا درس دیتا ہے۔
پومپئی کی کھدائی اب بھی جاری ہے اور ہر سال نئے مکانات، اشیاء اور انسانی ڈھانچے دریافت ہو رہے ہیں۔ اب تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے شہر کی ''ورچوئل بحالی‘‘ کا منصوبہ بھی زیر غور ہے، تاکہ لوگ پومپئی کی زندگی کو 3ڈی انداز میں دیکھ سکیں۔